بھارت کے معروف گلوکار ابھیجیت بھٹاچاریا کا کہنا ہے کہ انہیں شاہ رخ خان کی فلموں کے گانوں کا جائز کریڈٹ نہیں دیا گیا

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق گلوکار ابھیجیت نے ایک حالیہ انٹرویو میں ایک مرتبہ پھر یہ شکایت کی ہے کہ انہیں شاہ رخ خان کی فلموں کے گانوں کا جائز کریڈٹ نہیں دیا گیا۔ بھارتی میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ان کا شاہ رخ خان سے کوئی ذاتی تعلق نہیں، صرف رسمی سلام دعا ہوئی ہے۔

گلوکار نے واضح کیا کہ ان کی اور شاہ رخ کی جوڑی کو کشور کمار اور امیتابھ بچن کی جوڑی سے جوڑنا درست نہیں۔ ابھیجیت نے طنزیہ انداز میں کہا کہ، ’لوگ مجھے کہتے ہیں کہ وہ شاہ رخ کا گانا ہے، تب مجھے احساس ہوا کہ یہ گانے میرے نہیں، سب کچھ شاہ رخ کا ہے۔ آواز، دھن، فلم، یہاں تک کہ سینماٹوگرافی بھی۔‘

یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ ابھیجیت نے جائز کریڈٹ نہ ملنے کا شکوہ کیا ہو۔ 2004 میں فلم ’میں ہوں نا‘ کی ریلیز پر انہوں نے اعتراض کیا تھا کہ فلم کے کریڈٹس میں ہر کسی کا نام تھا، مگر گلوکاروں کا ذکر نہیں تھا۔

ان کا ماننا ہے کہ شاہ رخ کی شہرت میں ان کے گانوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے اور اس کا کریڈٹ انہیں ملنا چاہیے تھا۔ شاید یہی ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے کہ 2007 میں ’اوم شانتی اوم‘ کے بعد دونوں کے درمیان کوئی گانا ریلیز نہیں ہوا، اور تب سے ان کے تعلقات میں دوری دیکھی گئی ہے۔

واضح رہے کہ ابھیجیت اس سے قبل بھی کئی مرتبہ شاہ رُخ سے اپنے تعلقات کے متعلق بیانات کی وجہ سے خبروں کا حصہ بن چکے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جائز کریڈٹ کے گانوں شاہ رخ

پڑھیں:

مصنوعی ذہانت

مصنوعی ذہانت کے استعمال سے جہاں عالمی معاشروں میں حیران کن تبدیلیاں آرہی ہیں وہاں ذرایع ابلاغ اور خبریں بھی ایک نئے اور پیچیدہ عہد میں داخل ہو رہی ہیں۔ ایک ایسا عہد جس میں ’’خبر‘‘ محض اطلاع نہیں بلکہ ایک ڈیجیٹل تشکیل بن چکی ہے۔ آج کسی خبر کی سچائی پر یقین کرنے سے پہلے قاری کو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کیا یہ خبر انسان نے بنائی ہے یا مشین نے؟

مصنوعی ذہانت یعنی اے ائی (Artificial Intelligence) لمحوں میں تصویر، آواز یا وڈیو کو اس طرح بدل دیتی ہے کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق مٹ جاتا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے جو دنیا بھر کے میڈیا کو درپیش ہے اور جس سے پاکستان بھی اب لاتعلق نہیں رہ سکتا۔

ڈیجیٹل فریب کی اس نئی دنیا نے کچھ ہی عرصے میں ’’جنریٹو اے آئی‘‘ (Generative AI) نے خبر کے معیار، رفتار اور اعتبار کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ChatGPT، Midjourney، Runway، Sora جیسے ٹولز نہ صرف مواد تخلیق کرتے ہیں بلکہ مکمل حقیقت کو بھی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

اس ٹیکنالوجی کی ایک خطرناک صورت ڈیپ فیک (Deepfake) ہے۔ ڈیپ فیک کے استعمال سے ایسی جعلی وڈیوز بنائی جاتی ہیں جو دیکھنے میں بالکل اصلی لگتی ہیں۔

مثال کے طور پر 2024کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل ایک ڈیپ فیک آڈیو سامنے آئی جس میں صدر جوبائیڈن کی آواز میں ووٹروں کو پیغام دیا گیا۔ بعدازاں انکشاف ہوا کہ یہ مصنوعی آواز تھی۔

بھارت میں بھی 2023 کے ریاستی انتخابات کے دوران مشہور شخصیات کی جعلی وڈیوز وائرل ہوئیں جنھوں نے انتخابی بیانیے کو متاثر کیا۔ اسی طرح پاکستان کے سوشل میڈیا پر مختلف سیاست دانوں اور بااثر افراد کی ایسی فیک وڈیوز گردش کر رہی ہیں جن کو دیکھ کر انسان صرف حیران اور پریشان ہی نہیں ہوتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ عمل جاری رہا تو آگے کیا ہوگا۔

حالیہ برسوں میں متعدد وڈیوز اور بیانات توڑمروڑ کر پھیلائے گئے۔ کئی مرتبہ تو پرانی وڈیوز کو نئے عنوانات کے ساتھ وائرل کیا گیا، جس سے غلط فہمیاں اور انتشار پیدا ہوا۔

 ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر نہ تو فیکٹ چیکنگ یونٹس ہیں اور نہ ہی ایتھکس کی تربیت ہے۔ نتیجتاً افواہیں خبروں سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں لیکن اگر دوسری طرف دیکھیں تو یہ چیلنج دراصل ایک موقع بھی ہے۔ اگر پاکستان کا میڈیا اس ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں اپنائے تو خبر کے حصول کی رفتار، تحقیق اور تجزیے کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

دنیا کے بڑے خبررساں ادارے اے آئی کو مددگار ٹول کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ نیوز ٹریسر ایک ایسا خودکار ٹول ہے جو سوشل میڈیا پر خبروں کی اصلیت اور جعلی پن کی جانچ کرتا ہے۔

ایک اور ٹریسر ایسا بھی ہے جو تصاویر وڈیو اور اعداد وشمار کی اے آئی الگورتھم استعمال کر کے تصدیق کرتا ہے۔ پاکستانی ابلاغ کے ادارے بھی اگر چاہیں تو انھی ماڈلز کو اپنا سکتے ہیں۔

اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کس طرح فیک اور اصلی خبر میں تمیز کر سکتا ہے یا اصلی خبر کی تیزرفتار جانچ پڑتال کیسے ممکن ہے؟ اس کے لیے درج ذیل اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

ہر نیوز روم میں فیکٹ چیکنگ یونٹ قائم کیا جائے۔صحافیوں کے لیے اے آئی اور ڈیجیٹل ایتھکس کی تربیت کو لازمی قرار دیا جائے۔اگر کوئی تصویر یا وڈیو اے آئی سے تیار کی گئی ہو تو اس کی وضاحت لازمی ہو۔

یونیورسٹیوں، میڈیا ریگولیٹرز اور نیوز اداروں کو مل کر ایک قومی پالیسی وضع کرنی چاہیے تاکہ ٹیکنالوجی کا استعمال ذمے داری سے ہو۔پاکستان کی بعض یونیورسٹیوں نے ’’ڈیجیٹل جرنلزم‘‘ میں مصنوعی ذہانت کے ماڈیول شامل کیے ہیں لیکن یہ ابھی ابتدائی کوششیں ہیں۔

اگر ہم نے ابھی سے تیاری نہ کی تو مستقبل میں ’’خبر‘‘ شاید انسان نہیں بلکہ الگورتھم لکھے گا۔ پھر سوال یہ نہیں رہے گا کہ خبر کیا ہے؟ بلکہ یہ ہوگا کہ کس نے بنائی؟

مصنوعی ذہانت کے اس دور میں اصل امتحان مشین کا نہیں، انسان کے شعور کا ہے۔ خبر کی سچائی، اعتماد اور اخلاقیات کو زندہ رکھنا اب ہماری ذمے داری ہے ۔ مصنوعی ذہانت نے پاکستان سمیت دنیا کو ایک نئے فکری چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی اگر درست سمت میں استعمال ہو تو میڈیا کو زیادہ بااعتماد، تیز اور معیاری بنا سکتی ہے لیکن اگر غفلت برتی تو سچ اور فریب کے درمیان فرق مٹ سکتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • شاہ رخ خان نے شوبز کیریئر کے آغاز میں فلموں میں کام کرنے سے انکار کیوں کیا؟
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • مصنوعی ذہانت
  • اسرائیلی حملے، 24 گھنٹے میں مزید 5 فلسطینی شہید
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد
  • سعودی حکومت کی جانب سے عمرہ زائرین پر نئی پابندی عائد کر دی گئی