سرد جنگ؛ ملتان سلطانز کے مالک نے پھر بورڈ پر سنگین الزامات لگادیے
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی معروف فرنچائز ملتان سلطانز نے مالک علی ترین نے ایک مرتبہ پھر بورڈ کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔
کراچی میں جاری ملتان سطانز کے پریکٹس سیشن کے دوران ایک صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایس ایل کی سابق چیمپئین ٹیم ملتان سلطانز کے مالک علی ترین نے کہا کہ میرا مقصد پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) پر تنقید کرنا نہیں بلکہ انہیں نیند سے جگانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے معاملات کو جس انداز سے چلایا جارہا ہے، اس سے ہم نیچے کی طرف جائیں گے، اگر ہم نہیں مانیں گے تو لیگ کو اُوپر کیسے لیکر جائیں گے؟۔
مزید پڑھیں: پی ایس ایل سے متعلق بیان؛ بورڈ بھی میدانِ جنگ میں کود پڑا
علی ترین کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل منتظمین کو لگتا ہے کہ کمنٹری بہتر کرنے، زیادہ سے نیوٹرل امپائرز کی موجودگی سے لیگ زیادہ مقبولیت حاصل کرے گی تو ایسا نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ایل لیگ کا جب آغاز ہوا اور پھر لیگ جب پاکستان واپس آئی تو کراچی میں میچز کے دوران سیٹیں فُل ہوتی تھیں لیکن اب تعداد میں نمایاں کمی آئی کیوں، اسکا جواب تلاش کرنے کیلئے بیٹھیں بات کریں، کراچی کی کمیونٹی کو کیسے بلائیں، جب بورڈ بات نہیں کرے گا اور کوئی میٹنگ نہیں کرے گا تو کیسے تحفظات دور ہوں گے۔
مزید پڑھیں: پی ایس ایل پر تنقید؛ کیا فرنچائز اونرز آپس میں الجھ پڑے؟
علی ترین نے دعویٰ کیا کہ پی ایس ایل9 کے اختتام کے بعد سے 10ویں ایڈیشن کے آغاز تک کوئی میٹنگ نہیں ہوئی جس میں یہ مدعا اٹھایا جائے کہ کراچی میں شائقین کو کیسے اپنی طرف راغب کیا جائے بلکہ اسکے برعکس بورڈ نے حل یہ نکالا ہے کہ کراچی میں پی ایس ایل میچز کی تعداد کم کردی۔
مزید پڑھیں: پی ایس ایل؛ "ہمیں فرنچائزز کے کوئی مالکانہ حقوق حاصل نہیں" انکشاف
قبل ازیں ملتان سلطانز کے اونر علی ترین نے بورڈ کے فرنچائز ریٹین کے رینٹل ماڈل پر شدید تنقید کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم سال فرنچائز اونرز ٹیموں کو اپنے پاس رکھنے کیلئے رینٹ (یعنی کرایا) ادا کرتے ہیں، اگر نہ دیں تو ہمیں کوئی مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہیں جبکہ انڈین پریمئیر لیگ (آئی پی ایل) کی طرح غیر ملکی سرمایہ کاری کے مواقع بھی موجود نہیں۔
مزید پڑھیں: "آپکی کپتانی میں کافی سیکھ لیا" کیا ملتان سلطانز ون کی طرف جائیگی؟
دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے اعلیٰ عہدیدار نے پی ایس ایل کی معروف فرنچائز ملتان سلطانز کے اونر علی ترین کے بیانات پر سخت موقف اپناتے ہوئے کہا کہ انکے بیانات سے ٹورنامنٹ کو متنازع بنانے کی کوشش ہے۔
مزید پڑھیں: 200 سے زائد رنز کا ہدف؛ بابر، رضوان خاموش! شاہین نے جواب دے ڈالا
اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل ضابطہ اخلاق کے مطابق ہمیں فرنچائز مالکان کے خلاف ڈسپلن کی کارروائی کا اختیار ہے لیکن اس موقع پر ہم نے ردعمل دکھایا تو اس سے لیگ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، کسی کو شکایت ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرے۔ بدقسمتی سے شکایت وہ شخص کر رہا ہے جو نہ میٹنگ میں شرکت کرتا ہے اگر میٹنگ میں آجائے تو وہاں اس قسم کی کوئی بات نہیں کی جاتی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ملتان سلطانز کے کہ پی ایس ایل علی ترین نے مزید پڑھیں کراچی میں
پڑھیں:
سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سول ہسپتال کوئٹہ کے آڈٹ کے دوران ادویات کے ریکارڈ میں انحراف اور 537 روپے کے آکیسجن سلینڈر کیلئے 40 ہزار ادا کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سنڈیمن پرووینشل (سول) ہسپتال کوئٹہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور سنگین انتظامی بدنظمی کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت اجلاس میں پیش کی گئی اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017 تا 2022 کے دوران اسپتال انتظامیہ نے 3 کروڑ روپے مالیت کی ادویات خریدیں، لیکن سپلائی آرڈرز اور بلز میں شدید تضاد پایا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق آرڈر ایک کمپنی کو جاری کیا گیا، جبکہ ادائیگی کسی دوسری کمپنی کو کی گئی۔ اس کے علاوہ اسٹاک رجسٹر اور معائنہ کی رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مالی سال 2019-20 کے دوران سول ہسپتال کے مرکزی اسٹور سے دو کروڑ 28 لاکھ روپے مالیت کی ادویات غائب ہو گئیں۔ اس سنگین غفلت پر مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابقہ فارماسسٹ نے بیماری کے باعث بروقت انٹریاں درج نہیں کیں۔ تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ فارماسسٹ کی جانب سے آج تک مکمل ریکارڈ جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری سے حکومتی خزانے کو ساڑھے 13 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاہدے کے تحت سلنڈرز کی قیمت 537 روپے مقرر تھی، لیکن وبائی دور میں مارکیٹ سے 40 ہزار روپے فی سلنڈر کے ناقابل یقین نرخ پر خریداری کی گئی۔ مزید یہ کہ تمام کوٹیشنز ایک ہی تحریر میں تیار کی گئی تھیں، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ کمیٹی نے ان تمام معاملات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور ذمہ دار افسران کی شناخت اور غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔