مملکتِ عشق ایک وقت تھاجب دنیا کی چمک آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی۔ شہرت، دولت اور مقام کو میں اپنی کامیابی کی معراج سمجھتا تھا۔ میں انسانی حقوق کا وکیل تھا، کمزوروں کے لیے آواز بلند کرتا، بڑے بڑے مقدمات جیتتا، اور ظاہری طور پر ایک کامیاب انسان کہلاتا۔ مگر اس ظاہری چمک کے پیچھے ایک تاریک سچائی چھپی ہوئی تھی، میں خود غلام تھا۔
16 گھنٹے کی مشقت، بے رحم بلز، ٹیکسز اور معاشرتی توقعات کی زنجیریں میرے وجود کو جکڑے ہوئے تھیں۔دنیا کے سامنے میرے پاس گاڑیاں تھیں، ایک عالیشان بنگلہ تھا، میرا نام تھالیکن اندر ایک شور، ایک تھکن، ایک خلا تھا۔45 سال کی عمر میں میں خود کو 100 سالہ تھکا ہوا بوڑھا محسوس کرتا تھا۔یہی درد میری تحریر ’’جدید انسان، جدید غلام کی بنیاد بنا‘‘۔ زلزلہ، وہ لمحہ جو سب کچھ بدل گیاپھر زندگی میں ایک لمحہ آیا, ایسا روحانی زلزلہ جو سب کچھ ہلا کر رکھ گیا۔مادی خواہشات صبح کی دھندکی طرح تحلیل ہو گئیں۔میں نے غرور، دولت اور دکھاوے کی زندگی کو خیرباد کہہ دیا۔پہلی بار میں نے حقیقی آزادی کا ذائقہ چکھا۔غفلت کی نیند سے بیداری ہوئی، باطن کی آنکھ کھلی، اور معرفت کی روشنی دل میں اترنے لگی۔ میں نے اس دوڑ کو چھوڑ دیا جس نے انسان کو بےسکون کر دیا ہے۔زندگی کا مقصد مقابلہ بن چکا تھا، اور سکون دل سے رخصت ہو چکا تھا۔ روحانی بیداری نے اللہ کے کرم سے میری زنجیریں توڑ ڈالیں۔اب ایک نئی دنیا میرے سامنے تھی، جہاں کامیابی دل کے سکون میں تھی، نہ کہ بینک بیلنس میں۔جہاں اصل کمائی عاجزی، قناعت، خدمتِ خلق اور محبت میں تھی۔ میری دولت، بے نیازی، میری پنشن‘ قلبی سکون، اب میں اس خزانے کا مالک ہوں جس کے پیچھے لوگ پوری زندگی بھاگتے ہیں، مگر پھر بھی خالی رہتے ہیں۔آج میری دولت بے نیازی ہے،میری کامیابی اللہ کی رضا ہے،میری پنشن، قلبی اطمینان ہے۔
آزادی کا تضاد، کافی کی تلاش دنیا ہمیں سکھاتی ہے، مزید اور مزید حاصل کرو!مہنگے لباس، عیش و عشرت کی محفلیں، عالی شان گھر مگر دل پھر بھی ویران۔وہ مکان تو بناتے ہیں، مگر دل ویران رہتے ہیں۔وہ پیسہ کماتے ہیں، مگر سکون گنوا بیٹھتے ہیں۔
قرآن خبردار کرتا ہے:(التکاثر )
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:دینار کا غلام ہلاک ہو،درہم کاغلام ہلاک ہو اگر دیا جائے تو خوش، نہ دیا جائے تو ناراض!(صحیح بخاری، 2887) رومی اور شمس، ایک نئی دنیا کی روشنی مولانا رومی کہتے ہیں، تم پرواز کےلیے پیداہوئے ہو،زمین پررینگنےکو کیوں ترجیح دیتےہو؟ شمس تبریزی فرماتے ہیں:پانی مت تلاش کرو، پیاس تلاش کرو،پیاس ہی تمہیں سمندر تک لے جائے گی۔یہی پیغام میری زندگی کا انقلاب بنا۔میں نے پیاس کو محسوس کیا،سچائی کو تلاش کیا،اور رب کی طرف لوٹ آیا۔
قناعت: وہ دولت جو ختم نہیں ہوتی، نبی کریم ﷺ نےفرمایا:اصل دولت دل کی بےنیازی ہے۔(بخاری 6446؛ مسلم 1051)۔ قرآن کہتا ہے:اور اپنی نگاہیں ان چیزوں کی طرف نہ اٹھاجو ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو دنیاوی زینت کے طور پر دی ہیں اور آپ کے رب کا رزق بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ (طہ 20:131) میں نے سادگی میں سکون پایا،خاموشی میں حکمت،اور خدمت میں روحانی بلندی۔صحت اور وقت: انمول خزانے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:دو نعمتیں ہیں جن کی اکثر لوگ قدر نہیں کرتے:صحت اورفارغ وقت۔(بخاری 6412) لوگ عمر بھر دولت جمع کرتے ہیں اور پھر بڑھاپےمیں ڈاکٹرز پرخرچ کردیتے ہیں۔مگرسادہ، با مقصد، اور قناعت بھری زندگی وہ سکون دیتی ہے جس کی تلاش میں پوری دنیا بھٹکتی ہے۔ حقیقی آزادی: اللہ پر توکل، قرآن کا وعدہ ہے:اورجو اللہ سےڈرے گا، اللہ اس کے لیے نکلنے کاراستہ بنا دےگا، اور اسے وہاں سے رزق دے گاجہاں سے اسےگمان بھی نہ ہو۔ اورجو اللہ پر بھروسہ کرے، اللہ اس کے لیےکافی ہے۔ الطلاق 65:2-3)) آج میں اسی یقین، توکل، اور قلبی اطمینان کے ساتھ جی رہا ہوںجو نہ کسی بینک میں ہے،نہ کسی جائیدادمیں۔ خلاصہ: سادہ زندگی،بلند روحقیقی آزادی تب حاصل ہوتی ہےجب انسان خودی کو ترک کر کے عبدیت کواپنالیتا ہے۔جب میں نےنفس کی غلامی سےخود کو آزاد کیاتب اللہ کی محبت،اس کی مخلوق کی خدمت،اور قناعت سے بھرپور زندگی میں مجھے وہ سکون نصیب ہوا جس کی تلاش میں لوگ دنیا بھر کی خاک چھانتے ہیں۔ مولانارومی فرماتے ہیں:جب روح اس سبز میدان میں جا کر لیٹتی ہے، تو دنیا اتنی بھرپور ہو جاتی ہے کہ الفاظ باقی نہیں رہتے میں اور تم کا فرق مٹ جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں مادیت کے دھوکے سے نجات دے اور قناعت، روحانی سکون، خدمتِ خلق، اور اپنی یاد کے ذریعے ہمیں حقیقی کامیابی عطا فرمائے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
82 سالہ امیتابھ بچن 75 فیصد ناکارہ جگر کے باوجود موت کو کیسے شکست دے رہے ہیں؟
بالی ووڈ کے شہنشاہ اور مداحوں کے دلوں پر راج کرنے والے امیتابھ بچن کی زندگی خود ایک عزم و عمل کی شاندار کہانی ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق 82 سالہ اداکار اس وقت محض 25 فیصد فعال جگر کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ مسئلہ اُس وقت شروع ہوا جب 1982ء میں فلم قُلی کی شوٹنگ میں فائٹنگ سین کے دوران خطرناک چوٹ لگی تھی اور ادکار کئی ماہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے تھے۔
اس حادثے کے بعد امیتابھ کو خون کی منتقلی کی ضرورت پیش آئی تھی اور اسی دوران وہ ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہوگئے تھے۔
تاہم امیتابھ بچن کو اس کا علم 2005 بعد ہوا اور تب تک یہ بیماری ان کے جگر کو بری طرح متاثر کر چکی تھی۔
اس کے باوجود امیتابھ بچن نے اپنی صحت کو سنبھالا اور آج بھی سخت نظم وضبط، مثبت سوچ اور متوازن طرزِ زندگی کے ذریعے معمولاتِ زندگی انجام دے رہے ہیں۔
اداکار امیتابھ بچن نہ صرف فلموں اور ٹی وی پر فعال ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی مداحوں سے بھرپور رابطے میں رہتے ہیں۔
امیتابھ بچن اکثر کہتے ہیں کہ ’’جب تک زندگی ہے، جہدوجہد جاری رہے گی‘‘ اور ان کا یہ عزم لاکھوں لوگوں کے لیے حوصلے کا باعث ہے۔