چین امریکا کی ٹیرف وار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مسعود خان
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل نمائندہ مسعود خان نے کہا ہے کہ چین امریکا کی جانب سے شروع کی گئی ٹیرف وار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور استعداد رکھتا ہے۔
وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ صدر ٹرمپ کے گزشتہ دورِ صدارت میں چینی حکام ٹیرف کے لیے تیار نہیں تھے لیکن اِس بار وہ تیار ہیں اور وہ جوابی قدم اُٹھائیں گے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ نے چین کی برآمدات و درآمدات پر بہت سخت پابندیاں عائد کی ہیں، لیکن مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ٹیرف وار نہ امریکا کے مفاد میں ہے نہ چین کے۔ اگر صدر ٹرمپ کی چین سے متعلق پالیسی جاری رہتی ہے تو دنیا میں ایک بھونچال ہوگا۔‘
اِس وقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟اس سوال کے جواب میں سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، ہماری حکومت اور ہمارے دفتر خارجہ کو یہ تعلقات مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کثیرالجہتی تعلقات ہیں۔ ہمارے میزائل پروگرام پر پابندیاں بائیڈن انتظامیہ نے لگائیں جبکہ ہماری تعریف ٹرمپ انتظامیہ نے کی، تو ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ ہمارے اوپر مزید کوئی پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔
مسعود خان نے کہاکہ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط کرنے چاہییں، ہمیں جدید ٹیکنالوجی اور تعلیم کے ضِمن میں امریکا کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا امریکا پاکستان ٹیرف مذاکرات سے پاک چین تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں؟مسعود خان نے کہاکہ ٹیرف مذاکرات کا محور درآمدات و برآمدات سے متعلق ہوگا، اُس میں شاید ہی پاک چین تعلقات کا ذکر آئے، امریکا میں بائیڈن انتظامیہ ہو یا ٹرمپ انتظامیہ، بعض اوقات وہ کُھل کر نہیں بھی کہتے ہیں پر وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات بہت قریبی ہیں اور اتنے قریبی تعلقات کی وجہ سے پاک امریکا تعلقات کا اسکوپ بہت کم رہ جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان چین کے بہت زیادہ قریب نہ جائے، پاک امریکا اور پاک چین ان دو متنوع تعلقات کے ضِمن میں ایک تناؤ موجود ہے لیکن اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم نے ان دونوں کو کیسے لے کر چلنا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ چین پاکستان اور امریکا مِل کر اِس معمے کو حل کر سکتے ہیں۔
مسعود خان نے کہاکہ امریکا، پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کی سب سے بڑی منڈی ہے، جب میں امریکا میں سفیر تھا تو ہم نے دیگر 27 ممالک کے ساتھ مِل کر کوشش کی امریکا ہمارا جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس بحال کرے، لیکن جی ایس پی بحال ہونے کے بجائے ٹیرف عائد کردیا گیا جس پر پاکستان حکومت نے فوری طور امریکی محکمہ تجارت کے حکام سے رابطہ کیا اور اب ایک بڑا وفد اِس سلسلے میں مذاکرات کے لیے امریکہ جا رہا ہے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ ایسے حل کی طرف بڑھا جائے جس سے امریکا کو بھی فائدہ ہو لیکن پاکستان کو نقصان نہ ہو۔
’امریکا کو افغان مسئلے سے دامن چُھڑانا نہیں چاہیے‘افغانستان میں امریکا کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ کیا پاکستان کے مفاد میں ہے یا پاکستان کے مفاد کے خلاف؟ اِس سوال کے جواب میں سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ امریکا کیا قدم اُٹھا رہا ہے، اور اِس سے متعلق خبروں میں کتنی سچائی اور کیا حقیقت ہے۔
انہوں نے کہاکہ داعش کے دہشتگرد شریف اللہ کو پکڑنے میں تعاون پر امریکا نے ہمارا شکریہ ادا کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے، امریکا کے ساتھ انسدادِ دہشتگردی کے معاملات پر ہمارے مذاکرات بھی ہوتے رہتے ہیں، میری خواہش ہے کہ یہ تعلقات بڑھیں لیکن اِس کی کوئی عملی صورت بھی سامنے آنی چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ امریکا تو 2021 میں افغانستان سے چلا گیا اب وہ دہشتگردوں کے نشانے پر نہیں ہے، لیکن ہم ہر روز، ہر مہینے اور ہر سال دہشتگردی کا مقابلہ کررہے ہیں۔ دہشتگردی میں دو چیزیں بہت واضح ہیں، ایک یہ کہ دہشتگرد افغانستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں اور دوسرا یہ کہ اُنہیں بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔
مسعود خان نے کہاکہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ دہشتگردی پاکستان اور افغانستان کا مسئلہ ہے جبکہ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ خطّے کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے، نہ صرف خطے بلکہ امریکا کے اتحادیوں اور حلیفوں کے لیے بھی یہ خطرہ ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کو اِس سے اپنا دامن چُھڑانا نہیں چاہیے، خاص طور پر جب امریکی افواج 07 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ افغانستان میں چھوڑ کر گئی ہیں، جس میں کافی سارا اسلحہ تقسیم ہو چُکا ہے اور خاص طور پر چھوٹے ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔
اںہوں نے کہاکہ امریکا کو چاہیے کہ پاکستان، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کو اعتماد میں لے کر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے اور ساتھ ہی ساتھ بھارت جو کہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر دہشتگردی میں ملوث ہے اُس کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تاکہ اِس خطّے میں امن قائم ہو سکے۔
اقوام متحدہ فلسطینیوں کا قتلِ عام روکنے میں کیوں ناکام ہے؟اس سوال کے جواب میں مسعود خان نے کہاکہ اقوام متحدہ اِس لیے ناکام ہے کیونکہ اسرائیل اور نیتن یاہو کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ امریکا جو کہ دنیا کا طاقتور ترین مُلک ہے اور عرب ممالک سے متعلق پالیسی سازی میں اُس کا خصوصی کردار ہے، اس وجہ سے اقوام متحدہ بے بس ہے۔
انہوں نے کہاکہ امریکا کے ساتھ برطانیہ اور فرانس بھی امریکا کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں، اگر امریکا اسرائیل کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے، فلسطین کی وجہ سے امریکی قیادت پر حرف آ رہا ہے، اقوام متحدہ کا وجود ہی اِس لیے قائم ہوا کہ جنگی جرائم اور نسل کُشی نہ ہو سکے اور امریکا اس سارے نظام کا مؤجد اور ضامن تھا۔
مسعود خان نے کہاکہ امریکا کی زیرِپرستی اگر اِس طرح کے اقدامات ہوں گے تو امریکا کی قیادت کمزور ہوگی، واشنگٹن کو اِس بات کا احساس ہے لیکن اندرونی سیاسی مجبوریاں آڑے آتی ہیں۔ امریکا میں ڈیموکریٹ اور ریپبلکنز نے اسرائیل کی حمایت کو اپنی مجبوری بنا لیا ہے۔
’بھارت کی جانب سے بی ایل اے کی حمایت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے‘انہوں نے کہاکہ بی ایل اے جو کہ بین الاقوامی طور پر ایک کالعدم عسکری جماعت ہے، بھارت کی جانب سے اُس کی حمایت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے زُمرے میں آتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ بھارت دوطرفہ تعلقات کی خلاف ورزی کررہا ہے جو کہ ناقابلِ معافی جُرم ہے۔
مسعود خان نے کہاکہ بھارت بی ایل اے کی کھلم کھلا حمایت کر رہا ہے، عالمی سیاست کی پیچیدگیوں کی وجہ سے بھارت کی جوابدہی نہیں ہو پا رہی، پاکستان نے کئی بار اقوام متحدہ اور بین الاقوامی فورمز کو شواہد پیش کیے ہیں، صرف اِس واقعے کے نہیں بلکہ اِس سے قبل پیش آنے والے حادثات میں بھی بھارتی مداخلت کے ثبوت ہم جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل سمیت بین الاقوامی فورمز پر پیش کرتے رہے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ ایک مستحکم پاکستان بھارت کے مفاد میں ہے اور ایک مستحکم جنوبی ایشیا ساری دنیا کے مفاد میں ہے، ہندوستان یہ سمجھ رہا ہے کہ اِس طرح پاکستان کو نیچا دکھائے گا، گلگت بلتستان سے لے کر گوادر تک ہم ایک قوم ہیں اور اِس طرح دہشتگردی کے واقعات سے ہمیں زیادہ فرق نہیں پڑےگا۔
’امریکہ کی جانب سے پاکستانی معدنیات میں سرمایہ کاری خوش آئند ہے‘مسعود خان نے کہا کہ امریکا کا پاکستان میں سرمایہ کاری کا تجربہ ہے، پاکستان کے پاس لیتھئم اور تانبے کے ذخائر نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے لیے خوش آئند ہیں، اگر امریکا یہاں سرمایہ کاری کرتا ہے تو دونوں مُلکوں کے تعلقات مزید مضبوط ہوسکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکا پاک امریکا تعلقات پاک چین تعلقات پاکستان ٹیرف وار سابق سفیر سفارتکار سی پیک مسعود خان معدنیات وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا پاک امریکا تعلقات پاک چین تعلقات پاکستان ٹیرف وار سابق سفیر سفارتکار سی پیک معدنیات وی نیوز مسعود خان نے کہاکہ نے کہاکہ امریکا انہوں نے کہاکہ امریکا کے ساتھ کے مفاد میں ہے بین الاقوامی اقوام متحدہ پاکستان اور امریکا میں پاکستان کے کہ پاکستان کی جانب سے امریکا کو امریکا کی کہ امریکا کی حمایت ٹیرف وار امریکا م کرنے کی پاک چین ہیں اور لیکن ا رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات میں بہتری: کیا طورخم بارڈر سے تجارت پر اثر پڑے گا؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے، اور دونوں ممالک نے چین کے تعاون سے باہمی تجارت کو فروغ دینے اور سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق کیا ہے۔ اس سفارتی پیشرفت کے بعد نہ صرف سیاسی تعلقات میں بہتری آئی ہے، بلکہ سرحدی تجارتی سرگرمیوں میں بھی واضح بہتری دیکھی جا رہی ہے۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دیگر مال بردار گاڑیاں بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے افغانستان میں داخل ہو رہی ہیں، جبکہ پاکستانی حکام نے طورخم اور دیگر سرحدی گزرگاہوں پر سہولیات کی فراہمی کے لیے نئے اقدامات کیے ہیں۔
سفارتی کوششوں کے مثبت اثراتپاک افغان امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق، پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق خان کی کوششوں اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ دورے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہوئی ہے۔ ان سفارتی کوششوں میں چین نے بھی اہم کردار ادا کیا، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط کو وسعت دینے میں معاونت کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: پاک افغان طورخم بارڈر سے تجارتی سرگرمیاں بحال
تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ تجارت کو وسعت دے کر وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کی جائے، اور سی پیک روٹ کو افغانستان تک بڑھایا جائے۔
طورخم میں تجارت کا نیا منظرنامہخیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں واقع اہم گزرگاہ طورخم بارڈر پر تجارتی سرگرمیوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اب مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت میں حائل رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں اور ڈرائیوروں کو خصوصی اجازت نامے جاری کیے جا رہے ہیں، جس سے تجارت میں روانی پیدا ہوئی ہے۔
طورخم پر تعینات ایک افسر نے بتایا کہ حکومت پاکستان افغان تجارت کو سہل بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل نمائندہ خصوصی محمد صادق نے طورخم کا دورہ کیا اور افغان تاجروں سے ملاقات کر کے ان کے مسائل سنے، جس کے بعد واضح بہتری دیکھنے میں آئی۔
روزانہ 300 سے زائد گاڑیاں افغانستان میں داخلسرکاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دنوں میں طورخم بارڈر سے روزانہ 300 سے زائد مال بردار گاڑیاں افغانستان میں داخل ہو رہی ہیں، جبکہ قریباً اتنی ہی تعداد میں گاڑیاں افغانستان سے واپس پاکستان آتی ہیں۔ ان میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز، درآمدی مال اور خالی گاڑیاں شامل ہیں۔
مزید پڑھیں:25 دنوں سے بند پاک افغان طورخم بارڈر کھول دیا گیا، تجارتی سرگرمیاں بحال
گزشتہ روز کے ریکارڈ کے مطابق 369 گاڑیاں افغانستان میں داخل ہوئیں، جن میں 34 افغان ٹرانزٹ ٹریڈ، 288 درآمدات اور 13 دیگر اشیا شامل تھیں، جبکہ 164 خالی گاڑیاں افغانستان سے واپس آئیں۔ یہ اعداد و شمار تعلقات کی بہتری کے بعد تجارت میں واضح اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
کرم میں خرلاچی بارڈر دوبارہ کھول دیا گیادونوں ممالک کے درمیان رابطوں کو مزید آسان بنانے کے لیے حکومت پاکستان نے قبائلی ضلع کرم میں واقع خرلاچی بارڈر کو بھی تجارت کے لیے کھول دیا ہے۔ اس موقع پر ’پاک افغان دوستی اسپتال‘ کا بھی افتتاح کیا گیا، جس میں جدید طبی سہولیات بشمول لیبارٹری، فارمیسی، بلڈ پریشر، شوگر اور امراضِ قلب کی ابتدائی تشخیص کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ یہ اسپتال سرحدی علاقوں کے مکینوں اور افغان شہریوں کے لیے اہم طبی مرکز ثابت ہوگا۔
تجارت کو 3 گنا بڑھانے پر اتفاقافغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے حالیہ دنوں کابل میں چین کے خصوصی نمائندے یو شیاؤیونگ اور پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کے ہمراہ وفود سے ملاقات کی، جس میں سی پیک کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک توسیع دینے پر اتفاق کیا گیا۔
چین میں ہونے والی سہ فریقی کانفرنس میں تینوں ممالک نے تجارت کو 3 گنا بڑھانے، روٹ کو خیبر پختونخوا کے 7 اضلاع سے گزارنے، اور افغانستان میں نئی راہداریوں کے قیام پر رضامندی ظاہر کی۔
مزید پڑھیں: طورخم بارڈر پر کسٹم عملے نے کام روک دیا، وجہ کیا ہے؟
ذرائع کے مطابق وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ دورے کے دوران اس حوالے سے تفصیلی گفت و شنید ہوئی، اور پاکستان سے تاجکستان و دیگر وسطی ایشیائی ممالک تک تجارتی راستے بڑھانے پر بھی بات ہوئی۔
پاک افغان تجارت کا نیا دورافغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شہاب یوسفزئی کے مطابق، پاکستان اور افغانستان ایک نئے تجارتی دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اب تجارت کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور پاکستان بھی ویزا پالیسی اور بارڈر مینجمنٹ میں نرمی لا کر افغان شہریوں کو سہولیات دے رہا ہے۔
شہاب یوسفزئی نے کہا کہ افغانستان کو اب یہ سمجھ آ گیا ہے کہ ان کے لیے پاکستان کے ساتھ تجارت زیادہ مفید ہے، اور بھارت کے ساتھ براہ راست تجارت فی الحال ان کے لیے ممکن یا سودمند نہیں۔
پاکستان افغانستان سے کیا درآمد و برآمد کرتا ہے؟پاکستان، افغانستان کے لیے ایک اہم تجارتی روٹ ہے۔ پاکستان سے افغانستان سیمنٹ، سریا، ادویات، سبزیاں، چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ برآمد کی جاتی ہیں، جبکہ افغانستان سے پاکستان کو پھل، سبزیاں اور خشک میوہ جات درآمد کیے جاتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان پاک افغان تجارت پاک افغان تعلقات پاکستان چائنا سی پیک طورخم بارڈر