امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل نمائندہ مسعود خان نے کہا ہے کہ چین امریکا کی جانب سے شروع کی گئی ٹیرف وار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور استعداد رکھتا ہے۔

وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ صدر ٹرمپ کے گزشتہ دورِ صدارت میں چینی حکام ٹیرف کے لیے تیار نہیں تھے لیکن اِس بار وہ تیار ہیں اور وہ جوابی قدم اُٹھائیں گے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ نے چین کی برآمدات و درآمدات پر بہت سخت پابندیاں عائد کی ہیں، لیکن مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ٹیرف وار نہ امریکا کے مفاد میں ہے نہ چین کے۔ اگر صدر ٹرمپ کی چین سے متعلق پالیسی جاری رہتی ہے تو دنیا میں ایک بھونچال ہوگا۔‘

اِس وقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، ہماری حکومت اور ہمارے دفتر خارجہ کو یہ تعلقات مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کثیرالجہتی تعلقات ہیں۔ ہمارے میزائل پروگرام پر پابندیاں بائیڈن انتظامیہ نے لگائیں جبکہ ہماری تعریف ٹرمپ انتظامیہ نے کی، تو ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ ہمارے اوپر مزید کوئی پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔

مسعود خان نے کہاکہ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط کرنے چاہییں، ہمیں جدید ٹیکنالوجی اور تعلیم کے ضِمن میں امریکا کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

کیا امریکا پاکستان ٹیرف مذاکرات سے پاک چین تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں؟

مسعود خان نے کہاکہ ٹیرف مذاکرات کا محور درآمدات و برآمدات سے متعلق ہوگا، اُس میں شاید ہی پاک چین تعلقات کا ذکر آئے، امریکا میں بائیڈن انتظامیہ ہو یا ٹرمپ انتظامیہ، بعض اوقات وہ کُھل کر نہیں بھی کہتے ہیں پر وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات بہت قریبی ہیں اور اتنے قریبی تعلقات کی وجہ سے پاک امریکا تعلقات کا اسکوپ بہت کم رہ جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان چین کے بہت زیادہ قریب نہ جائے، پاک امریکا اور پاک چین ان دو متنوع تعلقات کے ضِمن میں ایک تناؤ موجود ہے لیکن اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم نے ان دونوں کو کیسے لے کر چلنا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ چین پاکستان اور امریکا مِل کر اِس معمے کو حل کر سکتے ہیں۔

مسعود خان نے کہاکہ امریکا، پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کی سب سے بڑی منڈی ہے، جب میں امریکا میں سفیر تھا تو ہم نے دیگر 27 ممالک کے ساتھ مِل کر کوشش کی امریکا ہمارا جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس بحال کرے، لیکن جی ایس پی بحال ہونے کے بجائے ٹیرف عائد کردیا گیا جس پر پاکستان حکومت نے فوری طور امریکی محکمہ تجارت کے حکام سے رابطہ کیا اور اب ایک بڑا وفد اِس سلسلے میں مذاکرات کے لیے امریکہ جا رہا ہے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ ایسے حل کی طرف بڑھا جائے جس سے امریکا کو بھی فائدہ ہو لیکن پاکستان کو نقصان نہ ہو۔

’امریکا کو افغان مسئلے سے دامن چُھڑانا نہیں چاہیے‘

افغانستان میں امریکا کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ کیا پاکستان کے مفاد میں ہے یا پاکستان کے مفاد کے خلاف؟ اِس سوال کے جواب میں سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ امریکا کیا قدم اُٹھا رہا ہے، اور اِس سے متعلق خبروں میں کتنی سچائی اور کیا حقیقت ہے۔

انہوں نے کہاکہ داعش کے دہشتگرد شریف اللہ کو پکڑنے میں تعاون پر امریکا نے ہمارا شکریہ ادا کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے، امریکا کے ساتھ انسدادِ دہشتگردی کے معاملات پر ہمارے مذاکرات بھی ہوتے رہتے ہیں، میری خواہش ہے کہ یہ تعلقات بڑھیں لیکن اِس کی کوئی عملی صورت بھی سامنے آنی چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ امریکا تو 2021 میں افغانستان سے چلا گیا اب وہ دہشتگردوں کے نشانے پر نہیں ہے، لیکن ہم ہر روز، ہر مہینے اور ہر سال دہشتگردی کا مقابلہ کررہے ہیں۔ دہشتگردی میں دو چیزیں بہت واضح ہیں، ایک یہ کہ دہشتگرد افغانستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں اور دوسرا یہ کہ اُنہیں بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔

مسعود خان نے کہاکہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ دہشتگردی پاکستان اور افغانستان کا مسئلہ ہے جبکہ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ خطّے کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے، نہ صرف خطے بلکہ امریکا کے اتحادیوں اور حلیفوں کے لیے بھی یہ خطرہ ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کو اِس سے اپنا دامن چُھڑانا نہیں چاہیے، خاص طور پر جب امریکی افواج 07 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ افغانستان میں چھوڑ کر گئی ہیں، جس میں کافی سارا اسلحہ تقسیم ہو چُکا ہے اور خاص طور پر چھوٹے ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔

اںہوں نے کہاکہ امریکا کو چاہیے کہ پاکستان، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کو اعتماد میں لے کر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے اور ساتھ ہی ساتھ بھارت جو کہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر دہشتگردی میں ملوث ہے اُس کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تاکہ اِس خطّے میں امن قائم ہو سکے۔

اقوام متحدہ فلسطینیوں کا قتلِ عام روکنے میں کیوں ناکام ہے؟

اس سوال کے جواب میں مسعود خان نے کہاکہ اقوام متحدہ اِس لیے ناکام ہے کیونکہ اسرائیل اور نیتن یاہو کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ امریکا جو کہ دنیا کا طاقتور ترین مُلک ہے اور عرب ممالک سے متعلق پالیسی سازی میں اُس کا خصوصی کردار ہے، اس وجہ سے اقوام متحدہ بے بس ہے۔

انہوں نے کہاکہ امریکا کے ساتھ برطانیہ اور فرانس بھی امریکا کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں، اگر امریکا اسرائیل کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے، فلسطین کی وجہ سے امریکی قیادت پر حرف آ رہا ہے، اقوام متحدہ کا وجود ہی اِس لیے قائم ہوا کہ جنگی جرائم اور نسل کُشی نہ ہو سکے اور امریکا اس سارے نظام کا مؤجد اور ضامن تھا۔

مسعود خان نے کہاکہ امریکا کی زیرِپرستی اگر اِس طرح کے اقدامات ہوں گے تو امریکا کی قیادت کمزور ہوگی، واشنگٹن کو اِس بات کا احساس ہے لیکن اندرونی سیاسی مجبوریاں آڑے آتی ہیں۔ امریکا میں ڈیموکریٹ اور ریپبلکنز نے اسرائیل کی حمایت کو اپنی مجبوری بنا لیا ہے۔

’بھارت کی جانب سے بی ایل اے کی حمایت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے‘

انہوں نے کہاکہ بی ایل اے جو کہ بین الاقوامی طور پر ایک کالعدم عسکری جماعت ہے، بھارت کی جانب سے اُس کی حمایت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے زُمرے میں آتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ بھارت دوطرفہ تعلقات کی خلاف ورزی کررہا ہے جو کہ ناقابلِ معافی جُرم ہے۔

مسعود خان نے کہاکہ بھارت بی ایل اے کی کھلم کھلا حمایت کر رہا ہے، عالمی سیاست کی پیچیدگیوں کی وجہ سے بھارت کی جوابدہی نہیں ہو پا رہی، پاکستان نے کئی بار اقوام متحدہ اور بین الاقوامی فورمز کو شواہد پیش کیے ہیں، صرف اِس واقعے کے نہیں بلکہ اِس سے قبل پیش آنے والے حادثات میں بھی بھارتی مداخلت کے ثبوت ہم جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل سمیت بین الاقوامی فورمز پر پیش کرتے رہے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ ایک مستحکم پاکستان بھارت کے مفاد میں ہے اور ایک مستحکم جنوبی ایشیا ساری دنیا کے مفاد میں ہے، ہندوستان یہ سمجھ رہا ہے کہ اِس طرح پاکستان کو نیچا دکھائے گا، گلگت بلتستان سے لے کر گوادر تک ہم ایک قوم ہیں اور اِس طرح دہشتگردی کے واقعات سے ہمیں زیادہ فرق نہیں پڑےگا۔

’امریکہ کی جانب سے پاکستانی معدنیات میں سرمایہ کاری خوش آئند ہے‘

مسعود خان نے کہا کہ امریکا کا پاکستان میں سرمایہ کاری کا تجربہ ہے، پاکستان کے پاس لیتھئم اور تانبے کے ذخائر نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے لیے خوش آئند ہیں، اگر امریکا یہاں سرمایہ کاری کرتا ہے تو دونوں مُلکوں کے تعلقات مزید مضبوط ہوسکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews امریکا پاک امریکا تعلقات پاک چین تعلقات پاکستان ٹیرف وار سابق سفیر سفارتکار سی پیک مسعود خان معدنیات وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا پاک امریکا تعلقات پاک چین تعلقات پاکستان ٹیرف وار سابق سفیر سفارتکار سی پیک معدنیات وی نیوز مسعود خان نے کہاکہ نے کہاکہ امریکا انہوں نے کہاکہ امریکا کے ساتھ کے مفاد میں ہے بین الاقوامی اقوام متحدہ پاکستان اور امریکا میں پاکستان کے کہ پاکستان کی جانب سے امریکا کو امریکا کی کہ امریکا کی حمایت ٹیرف وار امریکا م کرنے کی پاک چین ہیں اور لیکن ا رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان نے افغان طالبان کو تسلیم کرنے کی خبروں کو قیاس آرائی قرار دے کر مسترد کر دیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جولائی 2025ء) جمعرات کے روز ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جب سوالات کیے گئے تو انہوں نے کہا، ’’اس وقت یہ سب قیاس آرائی ہے۔ میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔‘‘

جب پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور وزیر داخلہ محسن نقوی کے افغانستان دورے سے متعلق سوال کیا گیا تو شفقت علی خان کا کہنا تھا کی سکیورٹی کے معاملات، خاص طور پر افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا معاملہ، ان مذاکرات میں سرفہرست تھے۔

انہوں نے کہا، ’’جب وزیر داخلہ کسی ملک کا دورہ کرتے ہیں تو سکیورٹی معاملات ان کے ایجنڈے میں سرفہرست ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان دوروں کے دوران نہ صرف وزیر داخلہ کی سطح پر بلکہ سیاسی سطح پر بھی افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا مسئلہ بنیادی موضوع رہا۔ اس پر بات چیت جاری ہے اور یہ دونوں ممالک کے درمیان جاری باقاعدہ مکالمے کا حصہ ہے۔

‘‘ قیاس آرائیاں کیوں؟

افغانستان کی عبوری حکومت کو اسلام آباد کی جانب سے تسلیم کرنے کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ پاکستانی وزیر داخلہ وزیر محسن نقوی کے اتوار کے روز کابل کا دورہ کے بعد شروع ہوا۔ جہاں انہوں نے اپنے افغان ہم منصب سراج الدین حقانی سے ملاقات کی۔

پاکستانی وزیر داخلہ کا کابل کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے، مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) کی بحالی اور سفارت کاروں کو چارج ڈی افیئرز کے عہدے سے سفیر تک اپ گریڈ کرنے جیسے اقدامات کے اعلان بعد ہوا۔

رواں ماہ کے اوائل میں دونوں ممالک نے ایڈیشنل سیکرٹری سطح کے میکنزم مذاکرات کا آغاز بھی کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے ہی پاکستان، ازبکستان اور افغانستان نے کابل میں ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے پروجیکٹ کے لیے مشترکہ فزیبلٹی اسٹڈی کے فریم ورک کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

’دہشت گردی کے خلاف طالبان حکومت کا ردعمل مثبت‘

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے دہشت گردی کے حوالے سے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ افغان طالبان افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پناہ گاہوں کے بارے میں پاکستان کے تحفظات پر مثبت ردعمل دکھا رہے ہیں، جو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات میں بہتری کی امید کی ایک محتاط جھلک ہے۔

بریفنگ کے دوران ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ’’دہشت گردوں کو حاصل پناہ گاہیں ایک بڑی رکاوٹ ہے، دونوں ممالک کے درمیان اس بارے میں فعال بات چیت جاری ہے اور افغان فریق ہمارے تحفظات کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔‘‘

خیال رہے کہ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی مبینہ موجودگی اسلام آباد اور طالبان حکومت کے درمیان طویل عرصے سے تنازع کا باعث بنی ہوئی ہے، 2021 میں طالبان کے کابل میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان ان پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ ہزاروں ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو پناہ دے رہے ہیں۔

تاہم طالبان رہنما اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ برسوں میں تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں، اور پاکستان خبردار کرتا رہا ہے کہ سرحد پار سے جاری عسکریت پسندی تعلقات کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے، تاہم نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کے اپریل میں کابل کے دورے کے بعد تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی۔

پاک، افغانستان تجارت

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے حوالے سے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی بڑی اہمیت ہے، تاہم لاجسٹکس اور کسٹمز سے متعلق مسائل نے تجارت کو متاثر کیا ہے۔

شفقت علی خان کا کہنا تھا، ’’متعدد مسائل جیسے لاجسٹکس، کسٹمز اور طریقہ کار وغیرہ نے تجارت پر اثر ڈالا ہے۔ ان سب پر کام ہو رہا ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس سے تجارت میں پیش رفت ہو رہی ہے۔‘‘

اس دوران پاکستان اور افغانستان نے ابتدائی ہارویسٹ پروگرام کے تحت آٹھ زرعی اشیاء پر 35 فیصد تک ٹیرف میں رعایت دینے پر اتفاق کیا ہے، اور جامع ترجیحی تجارتی معاہدہ (پی ٹی اے) کے لیے مذاکرات شروع کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔

ج ا ⁄ ص ز نیوز ایجنسیوں کے ساتھ

متعلقہ مضامین

  • امریکا کا دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی لازوال قربانیوں کا اعتراف  
  • اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان اہم ملاقات، دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • شرحِ سود کو آئندہ مالیاتی پالیسی میں 6 فیصد تک لایاجائے،احمد چنائے
  • پاکستان نے افغان طالبان کو تسلیم کرنے کی خبروں کو قیاس آرائی قرار دے کر مسترد کر دیا
  • روزانہ 7 ہزار قدم پیدل چلنا بیماریوں کو دور رکھتا ہے، تحقیق میں انکشاف
  • تیل کی قیمت نیچے لانا چاہتے ہیں، امریکا میں کاروبار نہ کھولنے والوں کو زیادہ ٹیرف دینا پڑے گا، ٹرمپ
  • پاک یو اے ای تجارتی تعاون معاشی تعلقات کی  بحالی کی علامت بن گیا
  • امریکی صدر کا مختلف ممالک پر 15 سے 50 فیصد تک ٹیرف عائد کرنے کا اعلان
  • ایرانی صدر مسعود پزشکیان متوقع طور پر آئندہ ماہ پاکستان کا دورہ کریں گے، سفارتی ذرائع
  • ایرانی صدرآئندہ ماہ پاکستان کا اہم دورہ کریں گے