Express News:
2025-11-03@19:20:45 GMT

ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی

اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT

ستر سالہ حمید اعظم ساری عمر مختلف نجی کمپنیوں میں ملازمت کرتے رہے۔ بڑھاپا آیا تو وہ بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ علاج کراتے ہوئے ان کی بیشتر آمدن خرچ ہونے لگی۔ عوارض رفتہ رفتہ اتنے بڑھے کہ وہ ملازمت کرنے سے معذور ہو گئے۔

اب وہ اولاد کے رحم وکرم پر آ گئے ۔ ان سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی تھی کہ نوجوانی میں انھوں نے بالکل نہیں سوچا، بڑھاپے کے لیے مناسب رقم پس انداز کر لی جائے۔ اگر وہ اس وقت ریٹائرمنٹ کا کوئی عمدہ منصوبہ بنا لیتے تو انھیں بڑھاپے میں دوسروں کا محتاج نہیں ہونا پڑتا۔ اسی محتاجی کے باعث بھی اولاد اپنے والدین کو ایدھی سینٹر یا دیگر رفاہی اداروں میں چھوڑ جاتی ہے کہ وہ ان کا خرچ نہیں اٹھا پاتی۔

یہ افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان میں اکثر مردوزن نوجوانی یا جوانی میں ایسا کوئی مناسب منصوبہ نہیں بناتے جس کی مدد سے وہ اپنی ریٹائرمنٹ یا بڑھاپے کا عموماً تکلیف دہ اور کٹھن عرصہ کم از کم مالی دشواریوں کے بغیر گزار سکیں۔ جو عاقل اور پیش بیں حضرات ایسا منصوبہ بنا لیں تو ان کا بڑھاپا خوشگواری سے بسر ہوتا ہے کہ وہ کسی پر بوجھ نہیں بنتے۔ اولاد اگر فرماں بردار نہ بھی ہو تو وہ انھیں اپنے ساتھ رکھ لیتی ہے کہ اسے بوڑھے والدین پر کوئی خرچہ نہیں کرنا پڑتا۔ بلکہ اسے توقع ہوتی ہے کہ والدین کی وراثت سے انھیں کچھ دولت مل سکے گی۔

سرکاری ملازمین کو تو پھر پنشن مل جاتی ہے، نجی ملازمت کرنے والوں کو خاص طور پہ بروقت ریٹائرمنٹ کا کوئی نہ کوئی منصوبہ ضرور اپنانا چاہیے۔ اب تو حکومت پاکستان پنشن کے بڑھتے خرچ کی وجہ سے اس نظام میں بھی تبدیلیاں لا رہی ہے۔ لہذا اس وقت جتنے بھی نوجوان اور جوان پاکستانی کام کر رہے ہیں، انھیں اپنے بڑھاپے کے حالات مدنظر رکھ کر لازماً ریٹائرمنٹ کا عمدہ پلان تشکیل دینا چاہیے تاکہ بعد ازاں انھیں پچھتانا نہ پڑے۔ یہ پلان بچت کے ساتھ ساتھ کسی اچھی انشورنس کمپنی اور اسٹاک مارکیٹ کے ذریعے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔

ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی شعوری اور زندگی بھر کا عمل ہے جس کے لیے عزم کی ضرورت ہے۔ آرام دہ اور آزاد ریٹائرمنٹ زندگی کے لیے کافی فنڈز بنانے کی خاطر وقت درکار ہے۔ ہم سب خوشگوار اور پُر سکون ریٹائرڈ زندگی کی خواہش رکھتے ہیں لہٰذا اس کی تیاری کرنا ضروری ہے۔

 زیادہ تر کام کرنے والے پیشہ ور افراد کے پاس ریٹائرمنٹ پلان کی کوئی شکل ہوتی ہے۔ تاہم یہ بات ذہن میں رکھیے ، حقیقی زندگی میں ریٹائرمنٹ اس سے مختلف ہو سکتی ہے جس کا ہم میں سے اکثر نے تصور کیا تھا۔ زیادہ تر ریٹائر ہونے والوں کو تلخ حقیقت کا سامنا ناقص مالیاتی انتظام اور سرمایہ کاری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں ریٹائرمنٹ کے بہت سارے منصوبے دستیاب ہیں، لیکن کسی ایک پر انحصار کرنا اچھی حکمت عملی نہیں ۔

 تین اہم عناصر

 پُرسکون ریٹائرڈ زندگی تین اہم عناصر پر منحصر ہے: ریٹائر ہونے والے کی سماجی زندگی، مالی حالت اور عمر۔ مضبوط مالی پوزیشن اور اچھے سماجی حلقے کے ساتھ جلد ریٹائر ہونا ایک مثالی امر ہے۔ہم اس کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

 مالی استحکام

مستحکم پوزیشن میں ریٹائرمنٹ کا منصوبہ بنانے کے لیے مضبوط مالیاتی ریٹائرمنٹ پلان کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بہت سے مناسب ریٹائرمنٹ انشورنس پلان دستیاب ہیں جو آسانی سے ریٹائر ہونے میں مدد کرنے کے لیے بنے ہیں۔ تاہم اپنے منصوبے کو سمجھداری سے منتخب کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں،پاکستان میں بہترین ریٹائرمنٹ انشورنس پلان بھی اس وقت آپ کی تمام مالی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا جب آپ ریٹائر ہوں گے۔

دراصل افراط زر یا مہنگائی کا عنصر ایک ایسی چیز ہے جسے جامع ترین ریٹائرمنٹ یا سرمایہ کاری کے منصوبوں میں بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی مالیاتی مشیر کی مدد سے مرضی کے مطابق بنائے منصوبے کے ذریعے کیجیے۔ بنیادی اصول کے طور پر جامع منصوبے میں حصص اور دیگر اثاثوں میں کچھ سرمایہ کاری شامل ہونی چاہیے۔ اسٹاک کے تناسب میں کچھ ڈیویڈنڈ اسٹاک اور دوسرے گروتھ اسٹاک ہونے چاہئیں۔

سماجی زندگی

سماجی زندگی پہ مکمل قابو پانا مشکل ہے لیکن اسے کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد کو 9 سے 5 کے معمول سے آزاد ہونے اور مصروف وقت گزارنے کے بعد سماجی زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں صدقہ یا سماجی کام کرنا ان کی مدد کرتا ہے۔ سماجی اور خیراتی کوششیں مصروفیت بڑھانے میں مدد دیتی ہیں۔ یتیم خانوں میں رضاکارانہ کام کرنا یا غریب بچوں کو مفت جز وقتی ٹیوشن پڑھانا ایک اچھا خیال ہے۔ اس طرح کی کوششوں میں وقت لگانے سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے متبادل عمدہ سماجی زندگی میّسر آتی ہے۔

 ریٹائرمنٹ کی عمر

 یہ اوسط عمر 60 سال ہے لیکن یہ ہر شخص میں مختلف ہو سکتی ہے۔ بعض مردو زن تو چالیس پچاس برس کی عمر میں ریٹائرہو جاتے ہیں۔ مگر انھیں کافی سرمایہ بچانا ہوتا ہے تاکہ آباد و خوش ریٹائرڈ زندگی گزار سکیں۔اگر آپ مصروف رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، تو آپ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا سکتے ہیں تاکہ زیادہ دیر تک کام کا لطف اٹھائیں۔ اپنے کو مصروف رکھنے کے لیے متبادل طرز زندگی کا ہونا ایک اچھا اختیار ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے ضروری ہے۔

ذہن میں رکھیے کہ مالی طور پر مستحکم ریٹائر ہونے والوں کی اکثریت ضروری نہیں کہ امیر ہو اور ان میں سے سبھی زیادہ تنخواہ والی ملازمتوں میں بھی نہیں ہوتے۔ تاہم یہ وہ لوگ ہیں جو مالیات کا اچھا انتظام کرنا جانتے ہیں اور خوشی سے ریٹائر ہونے کے لیے جامع منصوبہ بناتے ہیں۔

ریٹائرڈ زندگی کی تیاری کیسے کریں

ہیلتھ انشورنس ریٹائر ہونے والوں کے لیے لازمی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ چھوٹی عمر میں یہ غیر ضروری ہے۔ لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے اور صحت کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے، مناسب ہیلتھ انشورنس کی اہمیت اجاگرہوتی ہے۔ لہذا مناسب ہیلتھ انشورنس کرانا ضروری ہے۔یوں ریٹائر ہونے والے ہر وقت صحت سے متعلق ہنگامی اخراجات کے لیے تیار رہتے ہیں۔

دوم یقینی بنائیے کہ قرضوں وغیرہ کی ادائیگی کر دی گئی ہے۔یہ عمل آسان لگتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا مشکل ہے۔ سود دینے کی ذمے داریوں کے ساتھ زندگی گزارنا خاص طور پر باقاعدہ آمدنی کے بغیر بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کو اپنی ریٹائرمنٹ کی آمدنی کا بڑا حصہ قرض ادا کرنے پر خرچ کرنا پڑے تو ریٹائرمنٹ میں کم لطف آئے گا۔ اس لیے مشورہ ہے کہ قرض پر مبنی ذمے داریوں کو ختم کریں اور پھر ریٹائر ہو جائیں۔

 وقت کیسے گزارنا ہے ؟

ریٹائرمنٹ کے دوران ایک شخص جتنا زیادہ مصروف رہتا ہے،اسے اتنی ہی کم چیزوں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کیا کریں گے، اس بارے میں منصوبہ بنائیں اور ہفتہ وار یا ماہانہ سرگرمیوں کا شیڈول بنائیں۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کا وقت تعمیری طور پر گزارنے کے لیے کاموں کی فہرست بنائیں۔

آپ کی ریٹائرمنٹ کی جتنی اچھی منصوبہ بندی ہو گی، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ پاکستان میں ریٹائرمنٹ کے لیے بہترین سرمایہ کاری کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کیا کریں گے ،اس بارے میں منصوبہ بندی کریں اور ایک مضبوط سماجی حلقہ تیار کریں تاکہ آپ کو بھرپور و خوشگوار ریٹائرمنٹ زندگی کے لیے احباب کا ساتھ مل سکے۔

ریٹائرمنٹ پلان کیسے بنایا جائے؟

ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی میں ریٹائرمنٹ کے لیے اہداف طے کرنا اور مقاصد حاصل کرنے کے لیے درکار اقدامات اور فیصلوں کا اندازہ لگانا شامل ہے۔ اقدامات میں آمدنی کے ذرائع دریافت کرنا، اخراجات کی پیشن گوئی ، بچت اور اثاثہ جات کا انتظام شامل ہیں۔

پاکستان میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کے لیے جو اپنی ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی نہیں کرتے، ریٹائرمنٹ زندگی کا ایک ناخوشگوار مرحلہ بن جاتا ہے۔محدود آمدنی، زندگی کے بنیادی اخراجات کا انتظام کرنے میں دشواری، بچوں پر انحصار، متعلقہ اخراجات کے ساتھ صحت کی دیکھ بھال کے مسائل، مشکلات کے ساتھ جینا اور بے لطف و بے رس زندگی اس مرحلے کے نمایاں اثرات ہیں۔

ریٹائر ہونے والے ایسے افراد جن کے پاس مناسب آمدنی کا انتظام نہ ہو، خاندان کے افراد کے تعاون سے زندگی گزارنا مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ ذلت آمیز بھی ہو سکتا ہے۔جیسا کہ بتایا، پاکستان میں زیادہ تر پرائیویٹ ملازمین کسی ریٹائرمنٹ پلان کا حصہ نہیں ہوتے۔ انھیں اپنے بڑھاپے کی کفالت کے لیے اگلی نسل پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔گو وہ جائیداد سے کرائے کی آمدن اور بینک ڈپازٹس کے منافع پر انحصار کر سکتے ہیں۔

ایک بڑا مسئلہ

نجی ملازمتیں کرنے والوں کو ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ بیشتر زندگی بھر مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ اس لیے ایک کمپنی میں ملازمت کرنے سے انھیں ریٹائرمنٹ کے موقع پر جو مالی مدد ملتی ہے، وہ ان کو نہیں مل پاتی۔ جو مردوزن ایک کمپنی میں تاعمر یا طویل عرصہ ملازمت کرتے ہیں ، وہ گریجوٹی یا پراویڈنٹ فنڈ کے حقدار پاتے ہیں۔ گریجوٹی کی ساری رقم کمپنی ادا کرتی ہے۔ جبکہ پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم بھی اپنا مالی حصہ ڈالتا ہے۔ رضاکارانہ پنشن اسکیم بھی پراویڈنٹ فنڈ سے مماثلت رکھتی ہے۔ ان دونوں منصوبوں میں رقم عموماً سرمایہ کاری میں لگائی جاتی ہے تاکہ منافع حاصل ہو سکے۔

قانون کے مطابق جس کمپنی میں بیس ملازمین کام کرتے ہیں، اس میں ملازم چھ ماہ کام کرنے کے بعد گریجوٹی پانے کا حق دار بن جاتا ہے۔ اگر کوئی صنعتی ادارہ ہے تو اس میں کم ازکم پچاس ملازمین ہونے چاہئیں ۔ نیز گریجوٹی پانے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پچھلے ایک سال سے کام کر رہا ہو۔نیز عام طور پر مینجیریل اور ایڈمنسٹریٹیو شعبوں میں کام کرتے ملازمین کو گریجوٹی نہیں دی جاتی۔

پاکستان کے جن نجی اداروں میں کم از کم دس ملازمین کام کرتے ہیں، ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک سرکاری ادارے ،ای اوبی آئی (Employees' Old-Age Benefits Institution)سے رجسٹرڈ ہوں۔ یہ نجی ملازمین کو پنشن دینے والا سرکاری ادارہ ہے، گو اس کی پنشن کافی کم ہوتی ہے۔ تاہم بالکل نہ ہونے سے کچھ پنشن بھی بڑھاپے میں کام آ جاتی ہے۔ جو ملازمین پندرہ سال تک ادارے سے رجسٹر رہ کر کام کریں، وہ پنشن کے حقدار ہو جاتے ہیں۔

ریٹائرمنٹ کے لیے بچت کیسے کی جائے؟

نوٹ کرنے کے لئے کچھ اہم نکات یہ ہیں:

٭ آمدنی اور اخراجات کا تجزیہ کریں اور یقینی بنائیں کہ آپ اپنی کمائی سے زیادہ بچا سکتے ہیں۔

٭ ایک بجٹ بنائیں جس میں بچت کا مخصوص فیصد شامل ہو اور اس پر عمل کریں۔

٭ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ہنگامی حالات کے لیے اپنے ریٹائرمنٹ سیونگ اکاؤنٹ سے رقم نہ نکالیں۔

٭ اگر آپ کے آجر کے پاس رضاکارانہ پنشن سکیم ہے تو اس میں حصہ لیں۔

٭ سرمایہ کاری کے مشیروں سے مشورہ کریں تاکہ اپنی ضروریات کے لیے موزوں سرمایہ کاری کی مصنوعات منتخب کرسکیں۔ موجودہ عمر اور ریٹائرمنٹ کی متوقع عمر موثر حکمت عملی تیار کرنے کے لیے اہم ہے۔ ریٹائرمنٹ کی مدت جتنی لمبی ہوگی، آپ اپنے پورٹ فولیو میں خطرے کی سطح کو اتنا ہی زیادہ برداشت کر سکتے ہیں۔ اسٹاک میں سرمایہ کاری کرکے آپ کمپنی کے جزوی مالک بن جاتے اور کمائی کے ساتھ ساتھ نقصانات میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ طویل وقت آپ کو اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ برداشت کرنے اور اپنے پورٹ فولیو کو متوازن کرنے کی اجازت دے گا۔

 ریٹائرمنٹ فنڈ بنانا

آپ ریٹائرمنٹ کے بعد والے اخراجات کے بارے میں اپنی توقعات حقیقت پسندانہ رکھیں جب آمدنی میں کمی آئے گی اور طویل مدتی اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ زیادہ تر لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعدان کا سالانہ خرچ کم ہو جائے گا .

ایسا مفروضہ اکثر غیر حقیقی ہوتا ہے، خاص طور پر اگر طبی اخراجات مفروضوں میں شامل نہ ہوں۔ہمیشہ ایک قابل اعتماد مالیاتی مشیر سے مالی مشورہ حاصل کریں۔ مالیاتی پیشہ ور مناسب بچت کا منصوبہ تیار کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔نیز باقاعدگی سے بچت کی عادت ڈالیں اور ہر سال جتنی رقم بچاتے ہیں ،اُسے بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہ اضافہ ترجیحاً مہنگائی کی شرح سے زیادہ ہونا چاہیے۔

نظریہ بامقابلہ حقیقت

یہ واضح رہے ، نظریاتی طور پر ہر کمپنی کے کارکنان گریجوٹی یا اس کے بدلے متبادل وصول کرنے کے حقدار ہیں، ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔بعض صورتوں میں کمپنی مالی سال کے اختتام پر کنٹریکٹ پر رکھے ملازمین کی ملازمت ختم کر دیتی ہے۔ وہ پھر اگلے مالی سال کے آغاز پر انھیں دوبارہ تعینات کرتی ہے۔ چونکہ گریجوٹی کمپنی میں کام کرنے والے برسوں کی تعداد کا تعین ہے، اس لیے سال کے آخر میں ملازمت ختم اور دوبارہ تعینات کرنے کا مطلب ہے کہ ملازمین کو گریجوٹی کے طور پر ملی کُل رقم اس سے کافی کم ہو گی جو انہیں مستقل ملازمت کی صورت موصول ہوتی۔

 بعض صورتوں میں آجر کوئی گریجوٹی ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ جب وہ قانونی طور پر ایسا کرنے کے پابند ہوں۔اس کے برعکس بڑی کمپنیوں میں صورت حال بہتر ہے۔ کچھ کمپنیاں اپنے ان ملازمین کو بھی گریجویٹی، پراویڈنٹ فنڈ اور بہت سے دوسرے الاؤنس پیش کرتی ہیں جو قانونی طور پر گریجویٹی وصول کرنے کے حقدار نہیں ہوتے۔

حرف آخر

مسلم معاشرے میں پائی جانے والی مختلف غیر ضروری روایات میںسے ایک روایت ’ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ نہ کرنا‘ بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس عمر میں لوگ ریٹائر ہو کر گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں ،وہی وقت معاشرے اور ملک کو کچھ واپس دینے کا ہوتا ہے کیوں کہ ریٹائر ہونے کے بعد انسان بہت ساری پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنی دلچسپی کے میدان میں باآسانی خدمات انجام دے سکتا ہے۔جب آدمی خود کو ریٹائر سمجھ کر گھر میں بیٹھ جائے تو وہ ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے کہ خود کو بے کار اور دوسروں کے لیے بوجھ سمجھتا ہے ۔قدرت کا اصول ہے کہ جب کوئی انسان اپنے کو بے کار اور دوسروں پر بوجھ سمجھ بیٹھے تو وہ ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر ختم ہونے لگے گا۔

ایک ایسا آدمی جو روزانہ باقاعدہ تیار ہو کر گھر سے دفتر کے لیے نکلتا ہو لیکن ایک دن اسے اچانک منع کر دیا جائے تو وہ خود کو بے کار، بوڑھا اور مرنے کے قریب سمجھنے لگتا ہے۔ اسی لیے ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ ڈپریشن، مایوسی، مختلف طرح کی کشمکش، نفسیاتی الجھن، چڑچڑے پن اورتنہائی وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً اس وقت جب بیٹے اور بیٹیاں ان کوپوچھتے نہیں اور ایک کونے میں فالتو سامان کی طرح ڈال دیتے ہیں۔ایسے میں وہ گھر کی محبت اور توجہ سے محروم ہو جاتے ہیںتو مزید دباؤ کا شکار ہو تے ہیں۔ یہی وجہ ہے ، ہمارے معاشرے کے بیشتر بزرگ غصہ ور اور تلخ طبیعت کے مالک ہو تے ہیں۔

قران حدیث میں اس سلسلے میں جگہ جگہ رہ نمائی کی گئی ہے کہ انسان دنیا میں مختلف طرح کے کام انجام دیتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:’’اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔(الروم:32)ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’اور دن کو معاش کا وقت بنایا۔‘‘(النبا:11)

ان آیات میں عمر کی کوئی قید نہیں لگائی گئی۔ نہ تو دین اور دنیا کوئی الگ الگ چیز ہے اور نہ ہی دنیا حاصل کرنے میں کوئی عمر متعین کی گئی ہے۔دنیا کو دین کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حاصل کرنا بھی نیکی ہے۔اگر ہم پیغمبرانہ زندگی کا جائزہ لیں تو پیغمبر کسی نہ کسی طرح کا معاشی شغل اپناتے تھے۔حضرت داؤدؑ زرہ بنانے کاکام کرتے تھے۔

نبی کریمﷺ پوری دنیا کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپﷺ نبی تھے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا عظیم فریضہ انجام دینا تھا، لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے دنیاوی کاموں میں بھی حصہ لیا۔گھر کے کام خود انجام دیتے تھے۔مسجد نبوی کی تعمیر میں بذاتِ خود 35 سال کی عمر میں حصہ لیا ۔خندق کی کھدائی میں بھی صحابہ کرام کے ساتھ حصہ لیا۔اسی طرح صحابہ کرام محنت و مشقت کر کے روزی کماتے تھے۔وہ جہاں ایک طرف نمازیں پڑھتے اور ذکر و اذکار کا اہتمام کرتے تھے وہیں دوسری طرف تجارت، کھیل، سیر و تفریح وغیرہ کرتے تھے اور یہ ان کے نزدیک کوئی معیوب بات بھی نہیں تھی۔

ان کے یہاں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصّور نہ تھااور نہ ہی عمر کبھی ان کی ترقی کی راہ اور کام کو انجام دینے میں رکاوٹ بنی۔حضرت ابوایوب انصاریؓ نے اسّی سال کی عمر میں جہاد کیا تھا۔بسااوقات ہمارے قائدین اور راہ نما جتنے زیادہ ’بڑے‘ ہوتے ہیں اتنا ہی وہ کام کرنے سے اجتناب کرتے اور کام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

یہ صرف ایک روایت سی بن گئی ہے کہ عمر دراز لوگوں کو کام نہیں کرنا چاہیے۔ہمارے بعض طبقوں میں بزرگوں اور بڑوں کا کام کرنا ان کے بیٹوں کے لیے باعثِ شرم ہوتا ہے ،حالاں کہ ان کی زندگی کا تجربہ دوسروں کے کام آسکتا ہے اور پھر اس سے ان کی صحت بھی برقرار رہتی ہے۔آیات و حدیث سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک ایسا نظام ہے جو دنیا و آخرت اور جسمانی و روحانی دونوں نظام کو ایک ساتھ لے کر چلتا ہے اور جس میں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہیں کیوں کہ اس کے بعد زندگی ختم نہیں ہو جاتی اور نہ ہی کام ختم ہوتے ہیں۔اس لیے جب تک انسان کی صحت ،طاقت اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت باقی ہو اس وقت تک اسے حسبِ استطاعت سرگرم رہنا چاہیے۔  

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی ریٹائرمنٹ کا کوئی ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائرڈ زندگی میں ریٹائرمنٹ سماجی زندگی پاکستان میں ریٹائر ہونے سرمایہ کاری ہو جاتے ہیں کرنے کے لیے کر سکتے ہیں ملازمین کو میں ملازمت ریٹائر ہو کام کرنے زیادہ تر ضروری ہے زندگی کی ضرورت ہے کام کرتے کام کرنا کی ضرورت کے حقدار کرتے ہیں زندگی کا کے بعد ا ہے کہ وہ نہیں ہو کے ساتھ ہوتا ہے ہوتی ہے کرنے کی جاتی ہے میں بھی سکتا ہے ا کوئی کی عمر کی مدد گئی ہے کام کر ہے اور اس لیے

پڑھیں:

دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ

بنگلہ دیش نے خطے میں دفاعی سازوسامان تیار کرنے والی نئی طاقت بننے کی سمت اہم پیش رفت شروع کر دی ہے۔

حکومت نے ایک خصوصی ڈیفنس اکنامک زون کے قیام کا منصوبہ بنایا ہے، جس میں ڈرونز، سائبر سسٹمز، ہتھیار اور گولہ بارود نہ صرف ملکی ضرورت کے لیے بلکہ برآمدات کے لیے بھی تیار کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش ایئر فورس کا چین کے اشتراک سے ڈرون پلانٹ قائم کرنے کا اعلان

حکام کے مطابق، یہ اقدام خود انحصار دفاعی صنعتی ڈھانچے کی تعمیر کے وسیع منصوبے کا حصہ ہے، حکومت کا تخمینہ ہے کہ تقریباً 1.36 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، غیر ملکی سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔

???? | Breaking Analysis | #BDMilitary
???????? Bangladesh moves from consumer to producer. Dhaka’s latest policy push—anchored in the establishment of a dedicated Defence Economic Zone (DEZ)—signals a decisive stride toward self-reliance in military manufacturing and export orientation.… pic.twitter.com/WdHgoUvJ33

— BDMilitary (@BDMILITARY) November 3, 2025

چیف ایڈوائزر محمد یونس نے پہلے ہی ایسی پالیسی اقدامات کی منظوری دے دی ہے جن کے ذریعے ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جائے گا، بنگلہ دیش آرمی کو قومی دفاعی صنعت پالیسی کے مسودے کی تیاری کا کام سونپا گیا ہے۔

غیر ملکی دلچسپی اور برآمدی عزائم

میڈیا رپورٹس کے مطابق، کئی غیر ملکی حکومتوں اور کمپنیوں نے بنگلہ دیش کے ابھرتے ہوئے دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، اگرچہ مخصوص ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، لیکن حکام نے تصدیق کی کہ بات چیت ’دوستانہ ممالک‘ کے ساتھ جاری ہے۔

بنگلہ دیش اکنامک زون اتھارٹی اور بنگلہ دیش انویسٹمنٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی  کے چیئرمین اشک محمود بن ہارون نے کہا کہ زون کی جگہ کا تعین ابھی باقی ہے۔ ’ہم پالیسی فریم ورک تیار کر رہے ہیں اور شراکت داروں سے رابطے میں ہیں۔ ہمارا مقصد دفاعی شعبے کو برآمدی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔‘

ملکی ضرورت اور عالمی منڈی

اس وقت بنگلہ دیش کی دفاعی ضروریات کا تخمینہ 8,000 کروڑ ٹکا لگایا گیا ہے، جس میں مسلح افواج، بارڈر گارڈ، کوسٹ گارڈ، پولیس اور دیگر نیم فوجی اداروں کی ضروریات شامل ہیں۔

حکام کا خیال ہے کہ مقامی صنعت اس طلب کو پورا کر سکتی ہے اور آگے چل کر عالمی منڈی میں بھی داخل ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کا بھارت کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی مضبوط بنانے کے لیے نئی بٹالینز تشکیل دینے کا فیصلہ

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ملکی طلب پر انحصار کافی نہیں ہوگا، صدر بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز اے این ایم منیر الزمان کے مطابق صنعت کو پائیدار بنانے کے لیے ہمیں برآمدی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا ہوگی۔

’عالمی دفاعی منڈی میں مقابلہ سخت ہے، اور کامیابی کے لیے ٹیکنالوجی شراکت داری اور غیر ملکی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔‘

نجی شعبے کی شمولیت ناگزیر

فائنانس سیکرٹری ایم ڈی خیرالزمان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح نجی شعبے کا کردار بنگلہ دیش کے لیے بھی اہم ہے۔

انہوں نے لاک ہیڈ مارٹن اور میک ڈونل ڈگلس جیسی کمپنیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاری کو کئی مالیاتی سالوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

جبکہ وزارتِ خزانہ زمین کے حصول کے لیے غیر استعمال شدہ سرکاری فیکٹریوں کو بروئے کار لانے پر غور کر رہی ہے۔

علاقائی موازنہ اور چیلنجز

حکام نے تسلیم کیا کہ بنگلہ دیش ابھی پاکستان اور بھارت جیسے ہمسایہ ممالک سے پیچھے ہے، پاکستان نے گزشتہ 4 سالوں میں ہر سال تقریباً 450 ملین ڈالر دفاعی پیداوار میں لگائے۔

جبکہ بھارت کی سالانہ سرمایہ کاری 2.7 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی دفاعی صنعت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔

پالیسی خامیاں اور قانونی رکاوٹیں

اگرچہ غیر ملکی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن حکام نے اعتراف کیا کہ قوانین اور خریداری پالیسیوں کی موجودہ صورت نجی شعبے کی شمولیت میں رکاوٹ ہے۔

وزارتِ صنعت کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق، غیر ملکی سرمایہ کار قانونی ضمانتیں چاہتے ہیں جو فی الحال دستیاب نہیں۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش ملبوسات کی نئی عالمی منزل، چینی سرمایہ کاری میں اضافہ

ستمبر کے اجلاس میں شرکا نے نئے قوانین، سرمایہ کاری کے تحفظ اور ایک مستقل رابطہ ادارہ قائم کرنے کی سفارش کی، اس کے علاوہ، ترکی اور پاکستان کے ماڈلز سے استفادہ کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔

کامرس سیکریٹری محبوب الرحمن نے کہا کہ اگر منصوبہ بروقت شروع کر دیا گیا تو بنگلہ دیش بھی پاکستان کی سرمایہ کاری کی سطح تک پہنچ سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ نیا زون گیزپور کے بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری کی طرز پر قائم کیا جا سکتا ہے۔

طویل المدتی وژن

اگرچہ ماہرین کے مطابق ایک مکمل دفاعی ایکو سسٹم قائم کرنے میں 25 سے 30 سال لگ سکتے ہیں، لیکن بنگلہ دیشی قیادت پُرعزم ہے۔

پالیسی اصلاحات، نجی شعبے کی شمولیت، اور بین الاقوامی تعاون کے امتزاج سے بنگلہ دیش مستقبل میں علاقائی اسلحہ برآمد کنندہ ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز ایکو سسٹم بنگلہ دیش بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری دفاعی پیداوار دفاعی سازوسامان سرمایہ کار کامرس سیکریٹری لاک ہیڈ مارٹن میک ڈونل ڈگلس

متعلقہ مضامین

  • دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ
  • جوہری دھماکوں کے تجربات کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے: امریکا
  • جوہری دھماکوں کے تجربات کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے، امریکی وزیر توانائی
  • نارروال: وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال آر ایل این جی کنکشز کا افتتاح کررہے ہیں
  • معاشی بہتری کیلئے کردار ادا نہ کیا تو یہ فورسز کی قربانیوں کیساتھ زیادتی ہوگی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال
  • نیوزی لینڈ کے سابق کپتان کین ولیمسن کا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان
  • کین ولیمسن کا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان
  • تلاش
  • کراچی: حملے کی منصوبہ بندی ناکام، ایس آر اے کے انتہائی مطلوب 2 دہشتگرد گرفتار
  • لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کا منصوبہ