امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا کی واحد سپرپاور کے صدر کا حلف اٹھا کے ابھی تین ماہ بھی نہیں گزرے کہ ان کے بعض فیصلوں اور اقدامات سے دنیا بھر میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ لہولہان غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی اور دیگر ممالک میں ان کی آبادکاری کے اعلان سے لے کر محصولات میں اضافے کے تازہ اعلان تک ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے اور اقدامات عالمی سطح پر تنقید اور تنازعات کو ہوا دے رہے ہیں۔ نئی ٹیرف پالیسی کے بعد نہ صرف امریکا کی اپنی معیشت بلکہ عالمی معاشی نظام بھی بری طرح متاثرہوا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے چین، روس، یورپی و دیگر ممالک سے امریکا درآمد کی جانے والی اشیا پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد امریکی صنعت و تجارت کو بیرونی دنیا کے منفی اثرات سے بچانا ہے۔ اگرچہ کچھ امریکی کمپنیوں کو وقتی طور پر اس سے فائدہ ضرور ہوا لیکن دوسری جانب بعض اشیا کی قیمتیں عام صارف کی دسترس سے باہر ہوگئیں اور مہنگائی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
بعینہ امریکی اقدام کے جواب میں بعض ممالک نے امریکی مصنوعات پر جوابی محصولات عائد کر دیے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا بالخصوص امریکا اور چین اس تجارتی جنگ میں آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔ روس، چین اور یورپی یونین نے ٹرمپ ٹیرف پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے عالمی تجارتی نظام پر حملہ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کے اعلان کے فوری بعد دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں۔ تاجروں کے کھربوں روپے ڈوب گئے اور تیل کی قیمتیں بھی کم ہو گئیں۔ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں تاریخ ساز مندی دیکھی گئی اور 100 انڈیکس 3,882 پوائنٹس کم ہو گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے سے پاکستان کی معیشت پر بھی منفی اثرات پڑنے کے پیش نظر حکومتی سطح پر ایک اعلیٰ سطح کا وفد امریکا بھیجا جا رہا ہے جس میں معروف برآمد کنندگان اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔
پاک امریکا تجارتی سرگرمیوں کا دائرہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ ٹرمپ کے تازہ فیصلے سے تجارتی سرگرمیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا کی گزشتہ بیوقوف قیادت کو دنیا نے بری طرح استعمال کیا۔ ہم ٹیرف کے ذریعے اربوں ڈالر امریکا لا رہے ہیں۔ جب کہ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کا کہنا ہے کہ امریکی ٹیرف سے عالمی کساد بازاری کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ تجارت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹینا جارجیوا کا موقف ہے کہ امریکی ٹیرف عالمی معیشت کے لیے خطرہ ہے۔
محصولات میں یکدم اضافے کے ٹرمپ فیصلے پر عالمی سطح پر منفی ردعمل سامنے آنے کے بعد امریکی صدر نے ان ممالک پر جوابی ٹیرف 90 روز کے لیے معطل کر دیا جنھوں نے امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیکس عائد نہیں کیے تھے،ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ جب کہ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ چین سمیت دنیا بھر کے ممالک سے ٹیرف کے مسئلے پر بات چیت اور ڈیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ امریکا کا اصل نشانہ چین ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے اقدامات سے چین کی معاشی طاقت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
چین بڑی خاموشی اور حکمت کے ساتھ اپنی معاشی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھاتا جا رہا ہے۔ امریکا کو خطرہ ہے کہ آیندہ چند برسوں میں چین دنیا کی سپر معاشی قوت بن کر ابھر سکتا ہے جو امریکی کی ’’سپرمیسی‘‘ کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ اسی باعث وہ چین پر معاشی دباؤ بڑھانا چاہتا ہے لیکن بظاہر چین امریکا کے ساتھ ٹرمپ کی شرائط پر کوئی ڈیل کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ اس لیے چین نے بھی صدر ٹرمپ کے ٹیرف فیصلے کے بعد جوابی اقدام اٹھاتے ہوئے امریکا سے درآمد ہونے والی تمام امریکی مصنوعات پر 84 فی صد ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کے بات چیت کرنے اور چین کے اشاروں کے بعد70 سے زائد ممالک نے ان کے ساتھ مذاکرات کی درخواست کی ہے۔
صدر ٹرمپ کے ٹیرف اعلان سے عالمی سطح پر معاشی جنگ اور تجارتی تنازعات میں اضافہ ہو سکتا ہے بالخصوص چین اور امریکا کے درمیان معاشی کشمکش سے پوری دنیا کی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ زمین بوس ہو سکتا ہے صدر ٹرمپ کو ٹیرف فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر امریکی معاشی نظام بھی ڈگمگا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عالمی سطح پر ٹرمپ کے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
متنازع اینٹی ٹیرف اشتہار: کینیڈین وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک متنازع ’اینٹی ٹیرف اشتہار‘ کے معاملے پر معافی مانگی ہے۔
اس اشتہار میں سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کو دکھایا گیا تھا اور کارنی کے مطابق انہوں نے اونٹاریو کے وزیراعلیٰ ڈگ فورڈ کو یہ اشتہار نشر نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔
مزید پڑھیں: ریگن کی اینٹی ٹیرف تقریر والے اشتہار پر برہمی، ٹرمپ نے کینیڈا سے تجارتی مذاکرات منسوخ کر دیے
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اس اشتہار کو ’جعلی اینٹی ٹیرف مہم‘ قرار دیتے ہوئے کینیڈین مصنوعات پر مزید 10 فیصد اضافی ٹیرف لگانے اور تمام تجارتی مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جنوبی کوریا کے شہر گیونگجو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مارک کارنی نے کہاکہ میں نے امریکی صدر سے معافی مانگی کیونکہ وہ اس اشتہار پر ناراض تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ تجارتی مذاکرات اس وقت دوبارہ شروع ہوں گے جب امریکا اس کے لیے تیار ہوگا۔
کارنی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اشتہار نشر ہونے سے پہلے ڈگ فورڈ کے ساتھ اس کا جائزہ لیا تھا اور واضح طور پر اسے استعمال نہ کرنے کا کہا تھا۔
واضح رہے کہ یہ اشتہار اونٹاریو کے قدامت پسند وزیرِاعلیٰ ڈگ فورڈ کی جانب سے تیار کرایا گیا تھا جن کا تقابل عموماً ٹرمپ سے کیا جاتا ہے۔ اشتہار میں رونالڈ ریگن کا یہ بیان شامل تھا کہ ٹیرف تجارتی جنگوں اور معاشی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
مزید بات کرتے ہوئے وزیراعظم کارنی نے بتایا کہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ان کی نشست دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، جس میں غیر ملکی مداخلت سمیت دیگر حساس امور پر بھی بات ہوئی۔
کینیڈا کا چین کے ساتھ تعلق مغربی دنیا میں سب سے زیادہ تناؤ کا شکار رہا ہے، تاہم ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے لگائے گئے ٹیرف کے بعد دونوں ممالک یکساں دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، حالانکہ شی جن پنگ اور ٹرمپ نے حال ہی میں کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اسی تناظر میں 2017 کے بعد پہلی بار چین اور کینیڈا کے رہنماؤں نے جمعے کو باضابطہ مذاکرات کیے۔
مارک کارنی نے کہا کہ اب دونوں ممالک کے درمیان مسائل حل کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے، اور وہ نئے سال میں صدر شی جن پنگ کی دعوت پر چین کا دورہ کریں گے۔
مزید پڑھیں: امریکا اور کینیڈا کے درمیان تجارتی مذاکرات ’پیچیدہ‘ لیکن کینیڈا خوش ہوگا، صدر ٹرمپ
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی کابینہ اور متعلقہ حکام کو ہدایت دی ہے کہ دونوں ممالک مل کر موجودہ چیلنجز کے حل اور تعاون و ترقی کے نئے مواقع تلاش کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اینٹی ٹیرف اشتہار کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی متنازع معافی مانگ لی وی نیوز