معیشت اور افراط زر کے معاملے پر صدر ٹرمپ کی حمایت میں کمی
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
امریکا میں ٹیرف پالیسی کے امور اور اسٹاک مارکیٹ میں ہنگامہ آرائی کے ہفتوں کے بعد معیشت اور افراط زر کے معاملے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی درجہ بندی میں کمی آئی ہے۔
اتوار کو جاری ہونے والے سی بی ایس نیوز کے 2,410 امریکیوں کے ایک نئے سروے کے مطابق، 44 فیصد رائے دہندگان نے معیشت کو سنبھالنے سے متعلق صدر ٹرمپ کے اقدامات کو سراہا جبکہ 40 فیصد نے ان کی افراط زر سے نمٹنے کے اقدامات کی منظوری دی۔
سروے کے مطابق دونوں حوالوں سے صدر ٹرمپ کی عوامی حمایت میں 30 مارچ کے مقابلے میں 4 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، امریکی صدر کی مجموعی حمایت کی درجہ بندی اس ماہ کم ہوکر 47 فیصد تک گر گئی، جو مارچ میں 50 اور فروری میں 53 فیصد تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اقتصادی جنگ میں امریکا اور چین آمنے سامنے، ٹرمپ نے بیجنگ کو دھمکی دے دی
جواب دہندگان کی سیاسی وابستگیوں کے لحاظ سے صدر ٹرمپ کے ٹیرف کے منصوبوں کے بارے میں خیالات مختلف ہوتے ہیں، 91 فیصد تک، تقریباً تمام ریپبلکنز نے کہا کہ ٹرمپ کا ٹیرف اور تجارت پر واضح منصوبہ ہے۔
صرف 43 فیصد آزاد اور 16 فیصد ڈیموکریٹس نے بھی ایسا ہی کہا، مجموعی طور پر، 58 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ درآمدی اشیا پر نئے امریکی محصولات کی مخالفت کرتے ہیں۔
8 سے 11 اپریل تک شرکا کا سروے کیا گیا، 9 اپریل کو، ٹرمپ نے ’باہمی ٹیرف‘ پر 90 دن کے وقفے کا اعلان کیا، ایک قابل ذکر استثنیٰ کے ساتھ، زیادہ تر ممالک سے آنے والی اشیا کے لیے لیوی کو کم کر کے 10 فیصد کر دیا۔
مزید پڑھیں: امریکا سمیت یورپی ممالک میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کے خلاف مظاہرے، لاکھوں افراد سڑکوں پر
دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ بڑھنے کے باعث چین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر امریکی محصولات فی الحال 145 فیصد ہیں، لیکن جمعہ کے روز صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ درآمد شدہ اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز اور الیکٹرانکس کم از کم ابھی کے لیے مستثنیٰ ہوں گے۔
صدر ٹرمپ نے ٹرتھ سوشل فرائیڈے پر لکھا کہ ہم اپنی ٹیرف پالیسی پر واقعی اچھا کام کر رہے ہیں، امریکا اور دنیا کے لیے بہت پرجوش!!! یہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
سروے کے مطابق، 51 فیصد امریکی ٹیرف اور تجارت کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے اہداف کو پسند کرتے ہیں، لیکن صرف 37 فیصد ان کے نقطہ نظر کو منظور کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف سے بچنے کے لیے ایپل نے 15 لاکھ آئی فون بھارت سے امریکا کیسے منگوائے؟
ٹرمپ کے ’باہمی ٹیرف‘ کے اعلان کے پس منظر میں کھربوں ڈالرز کے نقصان کے بعد، گزشتہ ہفتے صارفین کی دلچسپی میں کمی اور 90 دن کے وقفے کے ردعمل میں اسٹاک مارکیٹ پہلے گری اور بھی اوپر گئی، بڑے امریکی انڈیکس جمعہ کو اونچے درجے پر ختم ہوئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹاک مارکیٹ افراط زر باہمی ٹیرف ٹرتھ سوشل فرائیڈے ٹیرف چین حمایت ڈالرز ڈونلڈ ٹرمپ ڈیموکریٹس ریپبلکنز صدر ٹرمپ معیشت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹاک مارکیٹ افراط زر باہمی ٹیرف ٹیرف چین حمایت ڈالرز ڈونلڈ ٹرمپ ڈیموکریٹس ریپبلکنز افراط زر ٹرمپ کے کے لیے
پڑھیں:
چارلی کرک کا قتل
رواں ستمبر کی 10 تاریخ کو امریکا میں ایک سیاسی قتل ہوا، چارلی کرک کا قتل۔ اس کیس میں ٹائلر رابنسن نام کا ایک 22 سالہ نوجوان پولیس کی تحویل میں ہے۔ اور قتل بظاہر سیاسی انتہا پسندی کا نتیجہ دکھتا ہے۔ ہم منتظر ہی رہ گئے کہ امریکا کے تعلیمی نصاب پر کب یہ کہہ کر حملہ کیا جائے گا؟
’انتہا پسندی تعلیمی نصاب کی وجہ سے فروغ پاتی ہے‘
مگر آہ! وہ فارمولہ صرف ہم پر مسلط کرنے کے لیے ہی گھڑا گیا تھا۔ امریکا میں وہ اس کے باوجود نظر انداز کردیا گیا کہ چارلی کا قتل ایک یونیورسٹی کے ہی سبزہ زار پر ہوا۔
سی این این پر ایک خاتون صحافی نے انتہا پسندی کی ذمہ داری ویڈیو گیمز کے سر تھوپنے کی کوشش کی مگر اسے بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ ویڈیو گیمز تو سب سے زیادہ جاپانی کھیلتے ہیں اور وہ انتہا پسند نہیں ہیں۔
ہم یہ سطور اس یقین کے ساتھ لکھ رہے ہیں کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ ذکر اسی امریکا کا چل رہا ہے جو ساری دنیا کو یہ باور کراتا تھا کہ ’اصلی والی جمہوریت‘ صرف ہماری دکان پر دستیاب ہے، اور آپ سب نے بس ہم سے ہی امپورٹ کرنی ہے۔ نہیں کریں گے تو ہم آپ کا جینا حرام کردیں گے۔
خود ہمارے ہاں بھی ان کے فرنچائزر دن رات یہ سودا بیچا کرتے کہ ہمیں مہذب اقوام سے سیکھنا چاہیے۔ صدشکر کہ ان لبرل دانشوروں کے انتقال پر ملال سے قبل ہی وہ گھڑیاں آگئیں جن میں امریکی اداروں کی سروے رپورٹس بتا رہی ہیں کہ 2016 سے 2024 کے دوران امریکا میں انتہا پسندی 360 فیصد اضافہ پاچکی۔ اور یہ اضافہ اس کے باوجود ہوا کہ نائن الیون کے بعد والے 20 برسوں میں امریکا نے دنیا بھر میں جو ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ اس میں ایک اہم ہدف انتہا پسندی کا خاتمہ بھی تھا۔
سو سوال تو بنتا ہے کہ آخر اسی جنگ کے دوران خود امریکا کیسے اس کی لپیٹ میں آگیا؟ اگر آپ یاد کریں تو امریکا میں سیاہ فاموں کو حقوق بیسویں صدی کے آخری حصے میں آکر ہی حاصل ہوئے تھے۔
بظاہر یوں لگتا تھا کہ یہ مسئلہ حل ہوا، اور نسلی تعصب مٹ گیا۔ مگر ایسا تھا نہیں۔ ہوا فقط اتنا تھا کہ جب مارٹن لوتھر کنگ مالکم ایکس کے قتل بھی سیاہ فاموں کی حقوق کی جدوجہد نہ روک سکے تو سفید فاموں نے ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت جانی۔ مگر دلوں میں تعصب وسیع پیمانے پر موجود رہا۔ اور یہ وقتاً فوقتاً اپنا اظہار کرتا تھا۔ مثلا 90 کی دہائی والا اوکلوہاما سٹی کا ہولناک دھماکا۔
نسلی تعصب کو پوری طاقت کے ساتھ پھر سے سر اٹھانے کا موقع تب ملا جب 2008 کے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی نے سیاہ فام باراک اوباما کو امیدوار نامزد کردیا۔
اوباما کی جیت میں اس چیز نے اہم کردار ادا کیا تھا کہ سیاہ فام اور ایشین ووٹ قریباً سارے ہی وہ لے اڑے تھے۔ اس معاملے میں سیاہ فام اتنے جذباتی تھے کہ بش دور کے سیاہ فام وزیر خارجہ جنرل کولن پاؤل، اوباما کی جیت پر اس کے باوجود فرط جذبات سے رو پڑے تھے کہ کولن پاؤل خود ریپبلکن تھے۔ کولن پاؤل نے اوباما کی جیت کو ناقابل یقین تاریخی لمحہ قرار دیا تھا۔
باراک اوباما نے اقتدار سنبھالا تو امریکی سینیٹ میں مشہور زمانہ سینیٹر جان مکین نے فلور پر کہا ’اب میرا ہر لمحہ اس صدر کو ناکام کرنے میں گزرے گا‘۔
اگر آپ بغور جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ اگلے 3 برس میں وائٹ سپرمیسی کی تحریک امریکا میں از سرنو نمایاں ہونا شروع ہوچکی تھی۔ مگر اس کا کوئی باضابطہ قائد نہ تھا۔ اس خلا کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یوں پر کرنا شروع کیا کہ ان کی جانب سے وقتاً فوقتاً تعصب بھرے بیانات سامنے آنے لگے اور جب ماحول بنتا نظر آیا تو برتھ سرٹیفیکیٹ والا معاملہ اٹھا کر باراک اوباما کو باقاعدہ نشانے پر رکھ لیا۔
امریکی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ تحریکوں کی مضبوط اور مستحکم بنیادیں ڈلنے میں کئی سال لگتے ہیں۔ سو ٹرمپ اور وائٹ سپرمیسی کی تحریک نے کوئی جلد بازی نہیں دکھائی۔ انہوں نے 2012 کے صدارتی انتخابات میں اوباما کو چیلنج نہیں کیا۔ ان کی توجہ اب بھی اپنی تحریک کو مضبوط کرنے پر رہی۔
یہ 2016 کا انتخاب تھا جس میں وائٹ سپرمیسی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ سامنے آئی۔ اگر آپ پرانے اخبارات نکال کر دیکھیں تو ٹرمپ کی نامزدگی کے ساتھ ہی ہمارے ہاں انہیں ایک انتہا پسند لیڈر کے طور پر رپورٹ کیا گیا تھا۔ اور اس لیڈر نے اپنی انتخابی مہم میں 2 کارڈ کھل کر استعمال کیے تھے۔ ایک مذہب کا کارڈ جس کا استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہاں تک کہا کہ وہ منتخب ہوا تو نعوذباللہ حرمین پر بمباری کروائے گا اور دوسرا ایمیگرنٹس کارڈ۔
اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی طرح کی پولیٹیکل کریکٹنس پر یقین نہیں رکھتے لیکن یہ ایمیگرنٹس والی اصطلاح ہے ایک طرح کی پولیٹیکل کریکٹنس ہے۔ سیاہ فاموں کا تو وہ کچھ بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ انہیں امریکا میں صدیاں بیت گئیں۔ سو نسلی تعصب کے اظہار کے لیے ایمیگرنٹس کی اصطلاح ہی واحد آپشن بچتی ہے۔
ایمیگرنٹس کون ہیں؟ یہ امریکا آنے والے غیر سفید فام لوگ ہی تو ہیں۔ جن میں مسلمان، لاطینی اور چائنیز بطور خاص ٹرمپ کا ہدف رہے ہیں۔ یاد ہے ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں 7 مسلم ممالک کے شہریوں کے داخلے پر بھی پابندی لگائی تھی؟ ان کے 2 مشیر سٹیو بینن اور سٹیون ملر تب بھی اور آج بھی بطور خاص مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔
سٹیو بینن کے تعصب کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اس نے پچھلے ہفتے ہی ایک پوڈکاسٹ میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنا زہر یوں اگلا ’بینجمن نیتن یاہو اسرائیل کو نقصان پہنچا رہا ہے، وہ اسرائیل کو یہودیوں کا پاکستان بنا رہا ہے‘۔
اس انتہا پسند سیاست کا ایک اہم موڑ وہ تھا جب 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ نے شکست ماننے سے انکار کردیا۔ وہ ماحول کو اس اسٹیج تک لے گئے جہاں کیپٹل ہل پر ہی حملہ ہوگیا۔
سمجھنے والا نکتہ یہ ہے کہ جب ٹرمپ اپنے پہلے دور اقتدار کا حلف اٹھا رہے تھے تو عین اسی دن امریکا میں لبرلز نے بھی بہت پرتشدد ہنگامہ آرائی کی تھی۔ تب بھی صورتحال پر قابو پانے کے لیے نیشنل گارڈز کو طلب کرنا پڑ گیا تھا۔ یہ انتہا پسندی کا وہ جن تھا جو گویا ہر امریکی بوتل سے نکلا تھا۔
بات کیپٹل ہل والے حملے پر کہاں رکی۔ بائیڈن کی قیادت میں ڈیموکریٹک پارٹی نے امریکی سیاسی روایات روندتے ہوئے ٹرمپ کے خلاف اپنے سیاسی انتقام کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح عدالتوں کا استعمال شروع کردیا۔
ٹرمپ کے گھر پر چھاپا مار کر اس انداز سے تلاشی لی گئی کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق خاتون اول میلانیہ ٹرمپ کے زیر جامے بھی لہرا لہرا کر ان پر تبصرے کیے گئے۔ انتخابی جلسے میں قاتلانہ حملے کا تڑکا بھی لگ گیا۔
یوں گویا 2011 میں انتہا پسندی کا آغاز بیشک ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے حامیوں نے کیا تھا مگر اس تالی کے لیے اب انہیں ڈیموکریٹس کا ہاتھ بھی میسر تھا۔
اس پورے پس منظر کے ساتھ آج کی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری ٹرم کے پہلے سال میں ہیں۔ اپنے انتخابی وعدوں بلکہ دعوؤں پر انہیں بڑی سبکی کا سامنا ہے۔ جان ایف کینیڈی اور مارٹن لوتھر کنگ قتل کیسز کی رپورٹس وہ پبلک نہیں کرپائے۔ ایپسٹین فائلز کی وہ موجودگی سے ہی انکاری ہوچکے۔
جو 2 جنگیں انہوں نے 24 گھنٹوں میں بند کروانی تھیں وہ ان کے اقتدار کے 9ویں مہینے میں بھی گھن گرج کے ساتھ جاری ہیں۔ اور تو اور ان کا ٹیرف کارڈ کی بھی کسی راشن کارڈ جتنی وقعت باقی نہیں رہی لیکن وہ جنگ پورے زوروں پر ہے جسے لڑنے کے لیے انہوں نے ٰیوٹیوبرز کی پوری فوج تیار کر رکھی ہے۔ چارلی کرک ان کی اسی فوج کا ایک اہم ترین کمانڈر تھا۔
جواب میں لبرلز بھی اسی طرح کی فورس رکھتے ہیں۔ جانبین کی ان فورسز نے ہی تو انتہا پسندی کو پورے عروج تک پہنچایا ہے، اس کی شدت کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ چارلی کرک کے قتل کے لیے ’ڈسپلے اساسنیشن‘ کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔
گویا اسے محض قتل کرنا مقصود نہ تھا بلکہ اس کے کیمپ کے باقی یوٹیوبرز کے لیے ڈراؤنی مثال بنانا بھی پلان میں شامل تھا۔ ردعمل کیا آیا؟ امریکی سوشل میڈیا ان ویڈیوز سے بھر گیا جن میں لبرلز نوجوان اس قتل کی خوشی میں رقص کرتے نظر آئے۔
جواب میں سرکار نے دھمکی دی کہ ان لوگوں کے پاسپورٹ کینسل کیے جائیں گے۔ یہاں تک وارننگ جاری کی گئی کہ اگر کسی نے چارلی کرک کے طرز عمل پر تنقیدی گفتگو کی تو اس کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کردیا جائے گا۔ اور ہزاروں کے اکاؤنٹس حکومت کے کہنے پر بند ہو بھی چکے۔
ٹرمپ کا کیمپ اقتدار میں ہوکر بھی طبل جنگ بجا رہا ہے۔ ایک عجیب ٹرینڈ یہ نظر آیا کہ ٹرمپ کے اہم وزیر اور مشیر ایک تواتر کے ساتھ کچھ اس طرح کے دعوؤں کے ساتھ سامنے آگئے ’اس نے موت سے قبل مجھے جو آخری میسج کیا تھا اس میں فلاں خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ہم اس کی یہ خواہش پوری کریں گے‘۔
قابل غور پہلو یہ ہے کہ ایک مردے کی جانب منسوب ہر خواہش لبرلز پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی ہی کوئی نہ کوئی اسکیم ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ اب ٹرمپ کو اپنے کسی بھی انتہا پسند اقدام کے لیے بطور جواز بس اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ یہ چارلی کرک کی آخری خواہش تھی۔
اس پورے معاملے کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب اس امریکا میں ہو رہا ہے جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے۔ جو 36 کھرب ڈالرز کے قرضے تلے ڈوبتی سلطنت ہے، جس کا لگ بھگ ہر شہری مسلح ہے۔
سو اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا کہ جب یہ سلطنت خانہ جنگی کا شکار ہوگی تو اس کے مناظر و نتائج کتنے تباہ کن ہوں گے۔ کیا اقبال کا یہ مصرع منظر ہونے کو ہے ؟ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی!
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں