الیکٹرانکس پر امریکی ٹیرف سے بچنا ممکن نہیں، ٹرمپ کی چین کو تنبیہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ تجارتی معاملات میں کسی کو بھی چھوٹ نہیں ملے گی۔ ان کا یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب ان کی انتظامیہ نے بظاہر چین پر دباؤ کم کرتے ہوئے کچھ ہائی ٹیک مصنوعات کو ریسیپروکل ٹیرف سے عارضی طور پر مستثنیٰ قرار دیا تھا۔
اتوار کے روز ٹرمپ نے اس معاملے پر تازہ بیان دیتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی پروڈکٹ کو مکمل طور پر ٹیرف سے استثنیٰ حاصل نہیں۔ موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور دیگر اشیا اب بھی 20 فیصد موجودہ ڈیوٹی کے تحت آتی ہیں، اور انہیں صرف ایک مختلف ٹیرف بکٹ میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ہم کسی بھی ملک، خصوصاً دشمن تجارتی ممالک جیسے چین کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنیں گے۔ بعدازاں، ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ آئندہ ہفتے سیمی کنڈکٹرز پر نئے ٹیرف کا اعلان کریں گے۔
مزید پڑھیں:چین امریکا کی ٹیرف وار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مسعود خان
ان کا کہنا تھا کہ ٹیرف جلد ہی نافذ العمل ہوں گے، ساتھ ہی یہ اشارہ بھی دیا کہ اس شعبے کی کچھ کمپنیوں کے لیے لچک رکھی جائے گی۔ امریکی وزیرِ تجارت ہاورڈ لٹنک نے اس سے پہلے وضاحت کی تھی کہ ہائی ٹیک مصنوعات کو جو چھوٹ دی گئی ہے وہ صرف عارضی ہے، اور سیمی کنڈکٹرز پر ٹیرف آئندہ چند ہفتوں میں لاگو کر دیے جائیں گے۔
امریکا اور چین کے درمیان اس تجارتی جنگ میں دونوں جانب سے جوابی اقدامات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ واشنگٹن نے چینی اشیا پر درآمدی ڈیوٹی 145 فیصد تک بڑھا دی ہے، جبکہ بیجنگ نے امریکی اشیا پر 125 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی ہے۔
چین نے ابتدائی طور پر واشنگٹن کی جانب سے دی گئی چھوٹ کو صحیح سمت کی ایک چھوٹی پیشرفت قرار دیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ امریکا تمام ٹیرف مکمل طور پر ختم کرے۔ جمعہ کے روز جاری کردہ ایک نوٹس میں، امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن نے 20 اقسام کی ہائی ٹیک مصنوعات کی ایک فہرست جاری کی، جنہیں ریسیپروکل ٹیرف سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ اس میں سیمی کنڈکٹرز، فلیٹ پینل ڈسپلے اور کمپیوٹرز شامل تھے۔
ٹرمپ کے تازہ بیانات سے دنیا کی 2 بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی کم ہونے کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ ان کے بیانات نے ایک بار پھر عالمی تجارتی پالیسیوں کے حوالے سے بے یقینی میں اضافہ کر دیا ہے، جس سے کاروباری طبقہ اور مالیاتی مارکیٹس دونوں پریشان ہیں۔
مزید پڑھیں:امریکی تجارتی ٹیرف سے بین الاقوامی تجارت 3 فیصد تک سکڑسکتی ہے: اقوام متحدہ
وائٹ ہاؤس سے آنے والی مسلسل خبریں صنعت اور سرمایہ کاروں کے لیے شدید الجھن پیدا کر رہی ہیں، اور کمپنیاں اپنی سپلائی چین، انوینٹری اور مانگ کی منصوبہ بندی میں بے یقینی اور افراتفری کا شکار ہو رہی ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں ٹرمپ کے ٹیرف سے متعلق بار بار بدلتے اعلانات نے عالمی اسٹاک مارکیٹس کو زبردست اتار چڑھاؤ کا شکار کر دیا ہے۔
2 اپریل کو انہوں نے درجنوں تجارتی شراکت داروں پر وسیع پیمانے پر ٹیرف نافذ کرنے کا اعلان کیا، جس سے عالمی اسٹاک مارکیٹس گر گئیں، لیکن گزشتہ ہفتے انہوں نے ان میں سے زیادہ تر اقدامات پر 90 دن کی مہلت کا اعلان کردیا، جس میں چین شامل نہیں تھا۔ چین پر اس کے برعکس مزید سخت ٹیرف لگا دیے گئے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ چین کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے کے لیے پر امید ہیں، تاہم حکام نے واضح کیا ہے کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ بیجنگ ہی پہلے رابطہ کرے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الیکٹرانکس امریکا ٹرمپ ٹیرف چائنا چین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الیکٹرانکس امریکا ٹیرف چائنا چین ٹیرف سے کے لیے
پڑھیں:
ایلون مسک کیساتھ تعلقات ختم ہوچکے، اب اس سے بات کرنیکا کوئی ارادہ نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
میڈیا کیساتھ انٹرویو میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انکا دنیا کے امیر ترین شخص کیساتھ رشتہ ختم ہوچکا ہے اور اب وہ اسکو ٹھیک کرنے کی خواہش نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ ایلون مسک سے بات کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کے ایلون مسک کے ساتھ تعلقات ختم ہوچکے ہیں، اگر مسک ڈیموکریٹس کو فنڈ دیتے ہیں تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ امریکی میڈیا کو انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ ان کے نتائج کیا ہوں گے۔ ایک سوال پر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کا دنیا کے امیر ترین شخص کے ساتھ رشتہ ختم ہوچکا ہے اور اب وہ اس کو ٹھیک کرنے کی خواہش نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ ایلون مسک سے بات کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ انہوں نے اسٹار لنک سیٹلائٹ انٹرنیٹ یا اسپیس ایکس راکٹ لانچ کمپنیوں کے ساتھ امریکی حکومت کے معاہدوں کو ختم کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔