ایران کے ساتھ بات چیت کا انعقاد مفید، پر سکون اور مثبت فضا میں ہوا. صدرٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 اپریل ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہاہے کہ ایران کے ساتھ بات چیت کا انعقاد مفید، پر سکون اور مثبت فضا میں ہوا توقع رکھتے ہیں کہ ایران کے حوالے سے بہت جلد فیصلہ کیا جائے گا یہ موقف دونوں ملکوں کے درمیان عمان میں ہونے والے مذکرات کے بعد سامنے آیا ہے مسقط میں ہونے والے اعلی سطحی مذکرات کو فریقین نے مثبت اور تعمیری قرار دیتے ہوئے اس ہفتے دوبارہ ملاقات پر اتفاق کیا تھا.
(جاری ہے)
صدرٹرمپ یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے معاہدے تک نہیں پہنچا جا سکتا تو فوجی کارروائی کی جائے گی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ میں نے ایران کے حوالے سے اپنے مشیروں سے ملاقات کی ہے اور میں جلد فیصلہ کرنے کی توقع رکھتا ہوں انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات کا ذکر نہیں کیا امریکی نشریاتی ادارے نے اپنے خبر ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری بات چیت کا دوسرا دور ہفتے کے روز اٹلی کے دار الحکومت روم میں متوقع ہے سلطنت عمان میں ہونے والے مذاکرات ایران اور ٹرمپ کے زیر قیادت انتظامیہ کے درمیان پہلی بات چیت تھی. صدرٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی ایرانی بات چیت اچھی رہی انہوں نے کہا کہ جب تک بات چیت اختتام پذیر نہیں ہو جاتی کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی اس لیے میں اس کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کر رہا تاہم یہ ٹھیک رہی میں سمجھتا ہوں کہ ایران سے متعلق صورت حال بہت اچھی ہے. دوسری جانب اپنے بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متنبہ کیا ہے کہ غیر منصفانہ تجارتی توازن کے خلاف کوئی نہیں بچے گا انہوں نے مزید ٹیرف کا عندیہ د یتے ہوئے کہا کہ جمعے کو اعلان کردہ ٹیرف پر کسی کو رعایت نہیں ملے گی امریکی صدر نے اصرار کیا کہ چین سے آنے والی الیکٹرانک اشیا اب بھی فینٹینائل سے متعلق 20 فیصد ٹیرف کے تابع ہیں لیکن یہ ٹیرف کی الگ فہرست میں شامل ہے امریکہ طویل عرصے سے چینی کارپوریشنوں پر مصنوعی اوپیوئڈ کی تخلیق میں ملوث گروہوں کو دانستہ طور پر سپلائی کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے جس نے ملک میں طبی بحران کو جنم دیا. ٹرمپ نے کہا کہ ٹیرف اور قومی سلامتی کے بارے میں آنے والی تحقیقات میں الیکٹرانک سامان جیسے سیمی کنڈکٹرز اور پوری الیکٹرانکس سپلائی چین پر غور کیا جائے گاانہوں نے مینوفیکچرنگ کو امریکہ میں واپس لانے کے اپنے عزائم کو دہراتے ہوئے کہاکہ جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں امریکہ میں مصنوعات بنانے کی ضرورت ہے صدرٹرمپ نے کہا کہ یہ چین سمیت ان ممالک کی طرف سے یرغمال بنائے جانے سے بچنے کے لیے ہے جسے انہوں نے دشمن تجارتی قوم قرار دیا. وائٹ ہاﺅس نے ہفتے کے اختتام پر سمارٹ فورنز اور کمپیوٹرز کو چین پر عائد کردہ درآمدی ٹیرف سے استثنیٰ دینے کا اعلان کیا تھا اس سے قبل چینی حکام نے ٹرمپ سے مکمل طور پر ٹیرف ختم کرنے کا مطالبہ کیا چینی صدر شی جن پنگ آج ویتنام کا دورہ کریں گے وہ جنوب مشرقی ایشیا میں مینوفیکچرنگ کے شعبے کے تین بڑے ممالک کا دورہ کر رہے ہیں صدر شی ہفتے کے آخر میں ملائیشیا اور کمبوڈیا کا سفر کرنے سے پہلے ہنوئی میں ویتنام کے راہنماﺅں سے ملاقات کریں گے وہ چین کے قریبی سٹریٹجک شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں. ویتنام کے نائب وزیراعظم بوئی تھانہ سون نے کہا ہے کہ ان کا ملک چین کے ساتھ تقریباً 40 معاہدوں پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جن میں زرعی تجارت اور سبز معیشت کے معاہدے شامل ہیں گذشتہ ہفتے پہلے ٹیرف کے نفاذ اور پھر 90 روزہ وقفے نے عالمی مالیاتی منڈیوں کو متاثر کیا اور عالمی تجارت کو ہونے والے ممکنہ نقصانات کی عکاسی کی ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی صدر ہونے والے نے کہا کہ ایران کے انہوں نے حوالے سے بات چیت کے ساتھ
پڑھیں:
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
اسلام ٹائمز: یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔ تحریر: روزمیری ای کلارک (کالم نگار فارن پالیسی)
گذشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دان امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری جنگ کی خطرناک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یا تو ایران اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پر تیار ہو جائے گا یا پھر امریکہ اس پر حملہ کر دے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دھمکی آمیز رویہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دو ٹوک انداز میں ایران کی جانب سے اس کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرنے کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے صرف دو ہی راستے ہیں: "یا مذاکرات کے ذریعے انہیں ختم کیا جائے یا فوجی طاقت کے بل بوتے پر"۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی دھمکیاں کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں؟
سرخ لکیر یا بڑھک؛ واشنگٹن ایران کی جوہری ترقی کے پھندے میں
یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔
دھمکی، ٹارگٹ کلنگ، پابندی؛ واشنگٹن کے مقابلے میں ایران کی جوہری ترقی کا راز
دراصل گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں، فوجی دھمکیوں اور خفیہ طور پر انجام پانے والی ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں نے ہی ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں وسعت اور ترقی لانے پر مجبور کیا ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں تہران کی حالیہ ترقی تین اہم مراحل میں انجام پائی ہے اور ان تینوں مراحل میں واشنگٹن یا تل ابیب کی جانب سے براہ راست دشمنی پر مبنی اقدامات انجام پائے ہیں۔ پہلا مرحلہ ایران سے جوہری معاہدے بورجام کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ اس معاہدے نے 2015ء میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ یہ دستبرداری ایسی صورت میں انجام پائی جب خود ٹرمپ حکومت نے بھی جولائی 2017ء تک اس معاہدے کی مکمل پابندی کی تھی۔ ایران نے بورجام معاہدہ ختم ہو جانے کے بعد بھی ایک سال تک اس کی پابندی جاری رکھی۔
فیصلہ کن موڑ اس وقت رونما ہوا جب امریکہ نے مئی 2019ء میں دھمکی آمیز اقدام کے طور پر یو ایس ایس ابراہم جنگی بحری بیڑہ ایران کے پانیوں کے قریب بھیج دیا تاکہ یوں اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے بقول ایران کو واضح پیغام دے سکے۔ اسی فوجی تناو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے بورجام معاہدے کی پابندی ختم کر دی اور چند ماہ بعد ایران کی یورینیم افزودگی 4.5 فیصد تک جا پہنچی۔ دوسرا قدم ایران نے دسمبر 2020ء میں اٹھایا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ یورینیم افزودگی کی سطح 20 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔ اس اعلان کے چند دن بعد ہی ایران کے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اپریل 2021ء میں یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ "یا معاہدہ یا جنگ" کا نعرہ نہ صرف انتہائی سادہ لوحی پر مبنی ہے بکہ انتہائی شدید حد تک خطرناک بھی ہے۔ ایران کے خلاف فوجی اقدام نہ صرف ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں جو واشنگٹن کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوں، جیسے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیابی۔ اگرا امریکہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار اپناتا ہے تو ایسی صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے زیادہ پر عزم نہ ہو جائے اور اپنی جوہری ترقی میں مزید تیزی نہ لے آئے؟
ممکن ہے اسرائیل کو امریکی سیاست میں یہ یوٹرن ناگوار گزرے لیکن ایسے فیصلے کے سفارتی نتائج ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ذات کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ ایسا صدر ہے جو بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اعلانیہ طور پر "پاگل شخص" والے ماڈل کا پیروکار ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جو غیر متوقع اقدامات پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے بارے میں پہلے سے اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ کے لیے ضروری نہیں کہ خود کو "معاہدہ یا جنگ" جیسے دو راہے کے پھندے میں پھنسائے۔ ایران کی موجودہ جوہری صورتحال گذشتہ کئی سالوں سے ایک ہی حالت میں برقرار ہے اور وہ کوئی بحرانی صورتحال نہیں ہے جس کا فوری راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔