بیجنگ: چین کے معروف تھنک ٹینک "سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن" کے نائب صدر وکٹر گاؤ نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین امریکا سے تجارتی جنگ میں آخری دم تک لڑنے کے لیے تیار ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وکٹر گاؤ نے کہا کہ "دنیا اتنی بڑی ہے کہ وہ امریکا پر آکر ختم نہیں ہو جاتی"۔ انہوں نے واضح کیا کہ چین پچھلے 5 ہزار سال سے قائم ہے، اور اُس وقت بھی زندہ تھا جب امریکا کا وجود تک نہیں تھا۔

وکٹر گاؤ کا کہنا تھا کہ اگر امریکا چین کو دبانے یا دھمکانے کی کوشش کرتا ہے، تو چین اس کا جواب دینا جانتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہم امریکا پر انحصار کیے بغیر اگلے 5 ہزار سال بھی گزار سکتے ہیں"۔

یاد رہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے اور دونوں ممالک کی جانب سے ٹیرف اور پابندیوں کا تبادلہ جاری ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

دیہات کی عید۔سادگی اور اپنائیت کا تہوار

عید قربان کی آمد کے ساتھ ہی دل میں ایک عجیب سکون، کچھ پرانے مناظر اور چند دھندلے مگر بہت قیمتی نقوش جاگ اٹھتے ہیں۔ شہر کے جگمگاتے مگر مصنوعی ماحول میں عید بھی رسمی تہوار بن جاتا ہے لیکن دیہات کی فضاؤں میں عید کا استقبال ایک زندہ روایت، جذبے اور اپنائیت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

میری کوشش ہوتی ہے کہ عید قربان اپنے آبائی گاؤں میں گزاروںجو وادی سون کے خوبصورت پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہ وہی وادی ہے جہاں گرمیوں میں اگر کسی گھنے درخت کے سائے تلے بیٹھ جائیں تو پنکھے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ قدرتی ٹھنڈک ایسی کہ بدن میں تازگی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور جب یہی ماحول عید کے رنگوں میں ڈھل جائے تو پھر اس کا حسن دو چند ہو جاتا ہے۔شہر کی نسبت گاؤں میں ایک اور انمول نعمت ’رشتوں کا جُڑاؤ‘ہے۔

وہ رشتے جنھیں وقت، مصروفیت اور فاصلوں نے کمزور کر دیا ہے یہ رشتے عید پر پھر سے جڑنے لگتے ہیں۔ گھر کے صحن میں بیٹھے بزرگوں کی دانائی بھری گفتگو ، دعائیں اور ان کی آنکھوں میں جھلکتا سکون، یہ سب کچھ دل کو اس یقین میں بدل دیتا ہے کہ زندگی کا اصل حسن یہی ہے۔ میرے گاؤں میں عید کی تیاریاں چند دن پہلے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔شہروں میںروزگار کے سلسلے میں مقیم لوگ اپنے آبائی وطن کو لوٹتے ہیں۔

عید کے دن صبح سویرے جب عید گاہ سے اللہ اکبر کی صدائیں گونجتی ہیں تو دل کے اندر ایک روحانی تڑپ پیدا ہوتی ہے۔بچے ،نوجوان، بزرگ نئے کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کراور بغل میں جائے نماز رکھ کرعید گاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ دیہات میں عموماً عید کی نماز عید گاہ میں ادا کی جاتی ہے جہاں پر گاؤں کے سب لوگ اجتماعی طورپر نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ہر کوئی ایک دوسرے سے گلے ملتا اور عید کی مبارکباد دیتا ہے۔

نماز کے بعد دعاؤں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے جن میں زندگی کی آسانیوں سے لے کر آخرت کی بخشش تک سب کچھ مانگا جاتا ہے۔گاؤں کی عید میں قربانی صرف جانور کی نہیں ہوتی بلکہ انا کی، تکبر کی اور خود غرضی کی بھی ہوتی ہے۔ یہاں دل سے قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، دکھاوے سے نہیں۔

میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ قربانی کے لیے خوبصورت جانور خریدے جائیں اور جب قربانی کے جانور وں کی خریداری کا مرحلہ طے پا جاتا ہے تو سب سے اہم مرحلہ قصاب کے ساتھ وقت طے کرنا ہوتا ہے۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد جب گھر پہنچتا ہوں تو قصاب میرا منتظر ہوتا ہے ۔

گاؤں میں ماہر قصاب مختصر سے وقت میں قربانی کا عمل مکمل کر کے چلا جاتا ہے کہ دوسرے گھروں میں گاہگ اس کے منتظر ہوتے ہیں بلکہ کئی ایک تو میرے گھر پہنچ جاتے ہیں اور قصاب کو ساتھ لے جاتے ہیں کہ کہیں راستے میں وہ’ بھٹک یا اغوا‘نہ ہوجائے ،کوئی اور ملک صاحب اسے لے نہ اُڑے ۔قربانی کے گوشت کا سب سے اہم مرحلہ اس کی تقسیم کا ہے۔ میری یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ان گھروں میں قربانی کا گوشت پہنچایا جائے جن کے ہاں قربانی نہیں ہوتی۔ کسی کو احساس نہیں ہوتا کہ کس کے گھر میں کتنا گوشت ہے کیونکہ سب کا گوشت سب کا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو بانٹنے کا، خوشیاں پھیلانے کا اور ضرورت مندوں کو یاد رکھنے کا جو جذبہ دیہات میں ہوتا ہے، وہ شاید شہر کی گلیوں میں کہیں کھو گیا ہے۔

عید کی سب سے بڑی خوبصورتی میرے نزدیک وہ وقت ہوتا ہے جب بزرگوں کی قبروں پر حاضری ہوتی ہے ۔ قبرستان جو پہاڑ کے دامن میں واقع ہے وہاں خاموشی، سرسبز درختوں کی سرسراہٹ اور پرندوں کی چہچہاہٹ کے درمیان ہم اپنے گزرے ہوئے پیاروں کو یاد کرتے ہیں۔ ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلتی ہیں۔ یہ لمحے اتنے پرسکون ہوتے ہیں کہ دنیا کے ہر شور سے کٹ کر انسان صرف اپنے رب کے قریب محسوس کرتا ہے اور یہ خیال بھی آتا ہے کہ ایک دن میں نے بھی یہیں سپرد خاک ہونا ہے۔

دوپہر کے وقت جب دستر خوان بچھتا ہے تو اس پر صرف کھانے کی چیزیں نہیں ہوتیں بلکہ محبت، اپنائیت اور شکر گزاری بھی رکھی جاتی ہے۔ گوشت کے قورمے، چاول اور مٹی کے برتنوں میں ٹھنڈا لسی کا گلاس یہ سب چیزیں شہر کے کسی پانچ ستارہ ہوٹل کی چمک دمک پر بھاری ہوتی ہیں۔شام کو جب سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپنے لگتا ہے اور گاؤں کی فضا میں ہلکی ہلکی خنکی اترنے لگتی ہے تو میں اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ اپنی بیٹھک کے برآمدے میں بیٹھتا ہوںجہاں وہی پرانی باتیں، وہی یادیں اور وہی قہقہے ہوتے ہیں یعنی کہ کچھ بھی نہیں بدلا صرف ہم بڑے ہو گئے ہیں۔

اس لمحے دل میں ایک خواہش جاگتی ہے کاش زندگی کی یہ شامیں کبھی ختم نہ ہوں۔ شاید اسی لیے میں ہر سال اس تہوار کو اپنے گاؤں میں منانے کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ یہاں عید صرف رسم نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی خوشبو ہے ، تازہ ہوا کا جھونکاہے، اپنائیت کا وہ لمحہ جو ہمیشہ دل میں محفوظ رہتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی میں اہم پیش رفت‘دونوں ممالک برآمدی پابندیوں میں نرمی اور ٹیرف جنگ بندی پر متفق
  • امریکا اور چین میں تجارتی تنازع پر پیش رفت، عبوری معاہدہ طے پا گیا
  • تجارتی جنگ میں نرمی‘ چین میں بوئنگ طیاروں کی فراہمی بحال
  • افغانستان کے ساتھ بار بار بدلتا ہوا تعلق چیلنج بنا ہوا ہے،شیری رحمن
  • دیہات کی عید۔سادگی اور اپنائیت کا تہوار
  • بھارت سے پہلے بھی جھڑپ ہوتی رہی لیکن پہلی بار دنیا ہمارے ساتھ کھڑی ہوئی: مصدق ملک
  • والدین کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اُن کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، اریج محی الدین
  • چین اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کا نیا مرحلہ لندن میں شروع
  • کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
  • مشہور ٹاک ٹاکر کھابے لامے کو امریکا میں کیوں گرفتار کیا گیا؟