امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کے لیے مختص 2.2 ارب ڈالر (قریباً 616 ارب روپے)کی مالی امداد کو منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب یونیورسٹی نے حکومتی درخواست پر پالیسی میں مجوزہ تبدیلیوں کو مسترد کردیا تھا۔

امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ سمیت دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی داخلہ پالیسیوں، فیکلٹی بھرتیوں اور تحقیقی منصوبوں میں حکومت کی وضع کردہ نئی اصلاحات نافذ کریں۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ان پالیسیوں کا مقصد تعلیم کے شعبے میں مواقع کی مساوی فراہمی اور مالی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔

مزید پڑھیں: الیکٹرانکس پر امریکی ٹیرف سے بچنا ممکن نہیں، ٹرمپ کی چین کو تنبیہ

ہارورڈ یونیورسٹی نے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں کی خودمختاری، تحقیقی آزادی اور میرٹ پر مبنی داخلے کے اصولوں پر کسی بھی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔ یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق، ’ہارورڈ کا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ علم، تحقیق اور تدریس کسی سیاسی دباؤ یا حکومتی شرائط کے تابع نہیں ہو سکتے۔‘

ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے نے امریکی تعلیمی اور سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے اعلیٰ تعلیم کی آزادی اور خودمختاری کو سخت خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ سرکاری فنڈز صرف انہی اداروں کو دیے جائیں گے جو قومی پالیسیوں اور شفاف ضابطوں پر عمل درآمد کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: معیشت اور افراط زر کے معاملے پر صدر ٹرمپ کی حمایت میں کمی

یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکا میں تعلیمی اداروں اور حکومتی اداروں کے درمیان پالیسیوں پر اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ وہ قانونی راستے سے اپنے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے گی، جبکہ وائٹ ہاؤس حکام کے مطابق امداد کی معطلی عارضی نہیں بلکہ پالیسی عمل درآمد سے مشروط ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہارورڈ یونیورسٹی\.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہارورڈ یونیورسٹی ہارورڈ یونیورسٹی

پڑھیں:

ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن چھاپوں کے بعد لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امیگریشن چھاپوں کے بعد پیدا ہونے والے عوامی احتجاج کے پیشِ نظر لاس اینجلس میں 2,000 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب فیڈرل ایجنٹس اور مظاہرین کے درمیان دوسرے روز بھی جنوب مشرقی لاس اینجلس کے علاقے پیرا ماونٹ میں کشیدگی برقرار رہی۔

ہفتے کی رات مظاہرین نے میکسیکو کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور بعض نے چہروں پر ماسک پہن رکھے تھے، اس دوران سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ کے بارڈر چیف ٹام ہومین نے تصدیق کی کہ نیشنل گارڈز اتوار کو لاس اینجلس میں تعینات کیے جائیں گے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر نے ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت “قانون شکنی کے خاتمے” کے لیے 2,000 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔

‘ٹرمپ انتظامیہ مجرموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی رکھتی ہے۔ ان افراد کو فوری طور پر گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔’

تاہم، کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے اس اقدام کو ’سوچا سمجھا اشتعال انگیز‘ قرار دیا۔

امیگریشن پالیسی پر شدید ردعمل

مظاہروں کا آغاز ان امیگریشن چھاپوں کے بعد ہوا، جن میں امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ یعنی آئی سی ای کے ایجنٹس نے کم از کم 44 افراد کو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا۔ مظاہرے پیرا ماونٹ کے ایک ہوم ڈیپو کے نزدیک بھی ہوئے، جہاں اہلکاروں کے مبینہ طور پر بیس قائم کرنے کی اطلاعات تھیں۔

محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 1,000 مظاہرین نے ایک وفاقی عمارت کو گھیر لیا، اہلکاروں پر حملہ کیا، گاڑیوں کے ٹائروں کو کاٹا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، اگرچہ یہ دعویٰ آزاد ذرائع سے تصدیق شدہ نہیں، لیکن حالات کشیدہ ضرور تھے۔

امیگرنٹس رائٹس گروپ کرلا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینجلیکا سالاس کے مطابق، وکلا کو حراست میں لیے گئے افراد تک رسائی نہیں دی گئی، جسے انہوں نے ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا۔

صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت میں ریکارڈ تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے اور امریکا-میکسیکو سرحد کو مکمل بند کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ہدایت پرآئی سی ای کو روزانہ کم از کم 3,000 افراد کو گرفتار کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔

سیاسی ردعمل اور قانونی سوالات

ٹرمپ کے مشیر اور سخت گیر امیگریشن پالیسی کے حامی اسٹیفن ملر نے ان مظاہروں کو ’ریاستی خودمختاری پر بغاوت‘ قرار دیا، جبکہ ہفتے کو مظاہروں کو ’پر تشدد بغاوت‘ سے تعبیر کیا۔

کولمبیا کے صدر پیٹرو کی طرح، ٹرمپ کے حامیوں نے اس پورے معاملے کو قانون کی بالادستی سے جوڑا، جبکہ مخالفین نے اسے انسانی حقوق اور بنیادی شہری آزادیوں کے لیے خطرہ قرار دیا۔

ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ بغیر نشانات والی فوجی گاڑیاں اور وردی میں ملبوس اہلکار شہر میں گشت کر رہے تھے۔ چھاپے زیادہ تر ہوم ڈیپو، گارمنٹ فیکٹریوں، اور گوداموں کے علاقوں میں کیے گئے، جہاں اسٹریٹ وینڈرز اور یومیہ مزدوروں کو گرفتار کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹیفن ملر امریکی صدر امیگریشن امیگریشن پالیسی انسانی حقوق ٹرمپ انتظامیہ ڈونلڈ ٹرمپ شہری آزادیوں لاس اینجیلس

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کیخلاف جاری مظاہرے پرتشدد ہوگئے، لاس اینجلس میں گاڑیوں کو آگ لگادی گئی
  • ایلون مسک کو صرف ایک دن میں 27 ارب ڈالر کا جھٹکا
  • ٹرمپ سے جھگڑا: ایلون مسک کو صرف ایک دن میں 27 ارب ڈالر کا جھٹکا
  • ٹرمپ کی متنازع امیگریشن پالیسیوں کیخلاف پرتشدد مظاہرے؛ گاڑیاں نذر آتش
  • کیلیفورنیا، ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کیخلاف احتجاج
  • بلوچستان میں کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور انہیں تعلیمی اداروں میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟ (Eid Story)
  • ٹرمپ اور ایلون مسک آمنے سامنے: سیاست، معیشت اور خلائی پروگرام پر لرزہ طاری
  • ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن چھاپوں کے بعد لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان
  • چین امریکا تجارتی مذاکرات پیر کو لندن میں ہوں گے
  • تعلیمی اداروں میں امتحانات ختم کر دینا چاہییں؟