قاہرہ مذاکرات ناکام: حماس نے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
قاہرہ: غزہ میں جاری اسرائیل-حماس جنگ کو ختم کرنے کے لیے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق، ان مذاکرات کا مقصد جنگ بندی کی بحالی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی تھا، تاہم کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو سکی۔
ذرائع کے مطابق، حماس نے اپنا مؤقف برقرار رکھتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی معاہدے کی بنیاد جنگ کا مکمل خاتمہ اور غزہ سے اسرائیلی انخلا ہونا چاہیے۔ ادھر اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جب تک حماس کو مکمل شکست نہ دی جائے، فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔
مصری حکومت نے نئی جنگ بندی تجویز پیش کی جس میں حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم حماس نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ ایک حماس رہنما کے مطابق، "ہم صرف اس صورت میں جنگ بندی پر تیار ہیں جب اسرائیل مکمل طور پر جنگ بند کرے اور فوجی انخلا کرے۔ ہتھیار ڈالنے پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔"
ذرائع نے مزید بتایا کہ مصر کی تجویز میں 45 دن کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کے بدلے غزہ میں خوراک اور پناہ گاہوں کا سامان پہنچانے کی اجازت دی جائے گی۔
حماس کا کہنا ہے کہ 50 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور جنگ بندی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسرائیل کی جارحیت کا مکمل خاتمہ ہو۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
غزہ یا لبنان میں اہداف پر حملے کے لیے کسی سے اجازت نہیں لیں گے، اسرائیلی وزیراعظم
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل غزہ یا لبنان میں اہداف پر حملے کے لیے کسی سے اجازت نہیں لے گا، چاہے جنگ بندی کے معاہدے ہی کیوں نہ طے پا جائیں۔
عرب میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اسرائیل ایک خودمختار ریاست ہے، ہم اپنی حفاظت اپنے وسائل سے کریں گے اور اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے یرغمالیوں کی واپسی کی شرط رکھ لی
انہوں نے مزید کہاکہ ہم اس سلسلے میں کسی کی منظوری کے محتاج نہیں، ہماری سلامتی ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔
ان کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب گزشتہ ہفتے امریکی اعلیٰ حکام کی متعدد ملاقاتیں غزہ میں جنگ بندی کے استحکام کے لیے کی گئیں۔
اسرائیلی فوج نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ اس نے غزہ کے وسطی علاقے میں ایک شخص پر ہدفی کارروائی کی جو مبینہ طور پر اسرائیلی فوجیوں پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
امریکا کی حمایت یافتہ جنگ بندی کو غزہ میں اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان 2 سال سے زیادہ عرصہ بعد نافذ کیا گیا ہے، تاہم دونوں فریق ایک دوسرے پر خلاف ورزیوں کا الزام لگا رہے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حملے کا ہدف اسلامی جہاد کا ایک رکن تھا، لیکن اتوار کو اس تنظیم نے ایک بیان میں اسرائیلی فوج کے اس دعوے کو بے بنیاد الزام قرار دیا۔
تنظیم نے یہ واضح نہیں کیاکہ آیا اس کے کسی رکن کی اس حملے میں ہلاکت ہوئی یا نہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق ایک ڈرون نے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے بعد وہ شعلوں میں لپٹ گئی۔ مقامی طبی عملے نے بتایا کہ واقعے میں 4 افراد زخمی ہوئے، تاہم کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ملی۔
شہریوں نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ شہر کے مشرقی علاقوں پر گولہ باری کی، جو غزہ کی سب سے بڑی شہری آبادی ہے۔ اسرائیلی فوج نے اس پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے اپنی سابقہ پالیسی کے برعکس غیر ملکی اہلکاروں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی ہے تاکہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے زیر قیادت کیے گئے حملے میں اغوا ہونے والے اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشوں کی تلاش میں مدد کر سکیں۔ اسی حملے کے نتیجے میں موجودہ جنگ شروع ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ امن معاہدہ نئے دور کا آغاز، ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا، ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب
جنگ بندی کے معاہدے کے تحت حماس نے تمام مغویوں کی واپسی کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم اب بھی 13 افراد کی لاشیں غزہ میں موجود ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے اس حوالے سے کسی تبصرے سے گریز کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیلی وزیراعظم حملہ خبردار غزہ لبنان نیتن یاہو وی نیوز