data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسرائیل کی نہ مانوں کی پالیسی جاری ہے اور اطلاعات یہ ہیں امریکا کے صدر فوری طور پر غزہ کا دورہ کرنا چاہتے اے ایف نیوز کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو 24 اکتوبر 2025 کو جنوبی اسرائیل میں سول و فوجی رابطہ مرکز کے دورے کے بعد میڈیا سے بات چیت کر رہے ہیں امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعے کو امید ظاہر کی کہ جلد ہی ایک بین الاقوامی فورس قائم کی جا سکے گی جو غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کرے گی۔دوسری جانب فلسطینی دھڑے متفق ہو گئے ہیں کہ جنگ کے بعد غزہ کو آزاد ماہرین (ٹیکنوکریٹس) کی ایک کمیٹی چلائے گی۔
جے ڈی وینس کی موجودگی میں جنوبی غزہ کو اسرائیل میں شامل کر نے کی پالیس نے امریکی صدر اور نائب صدر دونوں کوحیران کر دیا ہے ۔امریکہ وزیر خارجہ، نائب صدر جے ڈی وینس کے بعد اسرائیل پہنچے تاکہ امریکہ کی اس بھرپور کوشش کا حصہ بن سکیں جس کا مقصد حماس اور اسرائیل دونوں کو جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے آمادہ کرنا ہے۔اسرائیل اور حماس نے مصر میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں نو اکتوبر کو غزہ میں فائر بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا تھا، جس میں قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ میں امداد کی فراہمی بھی شامل ہے۔ یہ 20 نکاتی منصوبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا۔بعد ازاں 14 اکتوبر کو امریکہ، مصر، قطر اور ترکی نے پیر کو مصر کے مشہور سیاحتی مقام پر ایک خصوصی تقریب میں غزہ امن معاہدے پر دستخط کیے۔ اس موقع پر امریکہ کے صدر کا کہنا تھا کہ برسوں کی خونریزی کے بعد جنگ ختم ہوئی اور اب غزہ میں امدادی سامان پہنچ رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے کہا ہے کہ امن معاہدے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ایسی صورت حال پیدا کی جائے جس سے ’استحکام کی فورس‘ کو جتنی جلد ممکن ہو، تعینات کیا جا سکے۔انہوں نے اسرائیلی، امریکی اور دیگر مغربی افواج سے ملاقات کے دوران دو سالہ غزہ جنگ کے پائیدار خاتمے کی امید ظاہر کی۔ ان افواج نے جنوبی اسرائیل میں ایک بڑے گودام میں قائم نگرانی کے مرکز سے جنگ بندی پر نظر رکھی ہوئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت بین الاقوامی فورس کو یہ ذمے داری دی گئی ہے کہ وہ اس وقت سکیورٹی کی نگرانی کرے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی نافذ ہو جائے۔ حماس کے سات اکتوبر 2023 کے غیر معمولی حملے نے اس جنگ کو جنم دیا جس نے غزہ کو کھنڈر بنا دیا ہے۔
اہم فلسطینی دھڑوں، جن میں حماس بھی شامل ہے، نے جمعے کو کہا کہ انہوں نے قاہرہ میں ہونے والی ایک ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ آزاد ماہرین کی ایک عبوری فلسطینی کمیٹی غزہ کا انتظام سنبھالے گی۔حماس کی ویب سائٹ پر جاری مشترکہ بیان کے مطابق یہ کمیٹی ’عرب بھائیوں اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے زندگی کے معاملات اور بنیادی خدمات کا انتظام کرے گی۔‘
امریکا تمام قوتوں اور دھڑوں کے اجلاس پر بھی زور دیا گیا تاکہ ’ایک قومی حکمت عملی پر اتفاق کیا جا سکے اور تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کو فلسطینی عوام کی واحد جائز نمائندہ تنظیم کے طور پر دوبارہ فعال کیا جا سکے۔‘

اس حایات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ غزہ میں حماس، پی ایل او کا حصہ نہیں ہے، جس پر اس کی دیرینہ حریف فتح کا غلبہ ہے۔حماس، جس نے 2007 میں غزہ پر قبضہ کر لیا تھا، پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ وہ جنگ کے بعد کے علاقے پر حکومت نہیں کرنا چاہتی، تاہم اس نے اپنے عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے کی مخالفت کی۔
حماس کے ترجمان حازم قاسم نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ ’ہم نے غزہ کے انتظام کے دوسرے مرحلے کی تیاریوں پر اتفاق کر لیا ہے اور اس بات کی توثیق کی ہے کہ یہ فلسطینی انتظامیہ کے تحت ہوگا، غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے درمیان کوئی علیحدگی نہیں ہوگی۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’آئندہ ملاقاتوں میں قبضے کے ساتھ تعلق، مزاحمتی ہتھیاروں کے مستقبل اور بین الاقوامی فورسز کی موجودگی سے متعلق امور پر بات چیت ہوگی۔‘
غزہ میں بین الاقوامی فورسنے کیا کام کر نا ہے جمعے کو غزہ میں خاندان اب بھی اپنے تباہ شدہ گھروں کو لوٹنے کی کوشش کر رہے تھے مگر اکثر انہیں معلوم ہوا کہ ان کے گھر اسرائیلی افواج کے زیر قبضہ ان علاقوں میں ہیں جو نام نہاد ’زرد لکیر‘ سے آگے واقع ہیں۔
42 سالہ ہانی ابو عمر نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہمارے خاندان کے کچھ نوجوانوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر علاقے میں تباہی کا جائزہ لینے گئے اور بتایا کہ میرا گھر تباہ ہو گیا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ساری زندگی محنت کی، کمائی کی اور گھر بنانے کے لیے اپنی پوری کوشش کی۔‘

تقریباً دو سو امریکی فوجی سول و فوجی رابطہ مرکز میں تعینات کیے گئے ہیں، جہاں درجن بھر ممالک کے وردی پوش فوجی ایک عارضی طور پر تیار کردہ کرائے کے ہال میں آپس میں گھلتے ملتے نظر آئے۔ان کے سروں کے اوپر نصب سکرینوں پر عملے کی تازہ ترین معلومات دکھائی جا رہی تھیں، جن میں یہ بھی شامل تھا کہ اب غزہ میں پھل، سبزیاں، پنیر اور کافی کی نئی فراہمی پہنچنے لگی ہے۔ایک اور پروجیکشن پر ٹرمپ کے الفاظ دکھائے جا رہے تھے کہ ’ایک نیا اور خوبصورت دن طلوع ہو رہا ہے۔ اور اب تعمیر نو کا آغاز ہوتا ہے۔‘
اسرائیل اب بھی ان 13 قیدیوں کی لاشوں کا منتظر ہے جنہیں جنگ بندی کے تحت حماس کی طرف سے واپس کیے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔حماس نے جمعے کو کہا کہ اسے ثالث ممالک مصر، قطر اور ترکی کی طرف سے یہ ’واضح ضمانتیں‘ موصول ہوئی ہیں کہ ’جنگ عملی طور پر ختم ہو چکی ہے۔‘

قاضی جاوید گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی پر اتفاق جمعے کو کے بعد کے لیے کیا جا کہا کہ جا سکے

پڑھیں:

پاکستان کی سفارتی کامیابیاں: عالمی سطح پر اعتراف، امریکی جریدے نے ’’خطے کا فاتح‘‘ قرار دے دیا

امریکا کے معروف جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کی حکومتی سفارتکاری اور عسکری ڈپلومیسی کی بھرپور تحسین کی ہے اور اسلام آباد کو خطے کا ’’سفارتی فاتح‘‘ قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کی متوازن خارجہ پالیسی نے عالمی منظرنامے میں ایک نئی تبدیلی لائی ہے، جس سے سفارتکاری کے میدان میں نئے افق کھل گئے ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ چھ ماہ میں پاکستان کی سفارتکاری نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی، جس میں امریکا سے تعلقات کی بحالی، ترکی، ملائیشیا، ایران کے ساتھ معاہدے اور چین کے ساتھ تعلقات کا فروغ شامل ہے۔
رپورٹ میں سعودی عرب کے ساتھ اسٹرٹیجک دفاعی معاہدے کو بھی نمایاں کامیابی قرار دیا گیا، جس نے خطے میں ایک نئی سفارتی لہر پیدا کی ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا کھلا مظہر ہے۔
امریکی جریدے نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی بحالی کی ابتدا غیر متوقع واقعات سے ہوئی، جن میں پاکستان کا داعش خراسان کے ایک اہم دہشت گرد کو گرفتار کرنا شامل تھا، جو کابل ایئرپورٹ حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ امریکی سینٹ کام کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے پاکستان کے انسداد دہشت گردی تعاون کو ’’غیر معمولی اور مؤثر‘‘ قرار دیا ہے۔
فارن پالیسی میگزین نے مزید لکھا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی بحالی نے امریکا اور بھارت کے تعلقات میں دراڑ پیدا کر دی ہے، اور بھارت کے لیے یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اس کی 25 سالہ سفارتی محنت اور اعتماد ضائع ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ اور مودی کی تلخ فون کال کے بعد امریکا اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی آئی، جس سے پاکستان کو نئی راہیں کھل گئیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کے لیے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی کی تھی۔
جون میں فیلڈ مارشل عاصم منیر اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والی دو گھنٹے طویل ملاقات نے دونوں ممالک کے تعلقات میں نئی گرمجوشی پیدا کی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی ٹرمپ سے ملاقاتیں اور غزہ امن کانفرنس میں شرکت نے پاکستان کے بڑھتے عالمی اثر و رسوخ کو اجاگر کیا۔
پاکستان نے ٹرمپ کے دور میں شاندار تجارتی پیکیج حاصل کرتے ہوئے سفارتکاری کے میدان میں نیا سنگ میل عبور کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی موثر سفارتکاری کے نتیجے میں ایک امریکی کمپنی نے پاکستان میں 500 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان نے نہ صرف امریکا، چین اور سعودی عرب سے تعلقات مضبوط کیے ہیں بلکہ غیر نیٹو اتحادی ہونے کے باوجود ان ممالک کے ساتھ بیک وقت مضبوط تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس متوازن خارجہ پالیسی اور موثر سفارتکاری نے پاکستان کو عالمی منظرنامے پر ایک اہم کھلاڑی کے طور پر متعارف کرایا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کیلیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے: حماس کا مطالبہ
  • پاکستان کی سفارتی کامیابیاں: عالمی سطح پر اعتراف، امریکی جریدے نے ’’خطے کا فاتح‘‘ قرار دے دیا
  • اسرائیل فلسطینیوں کو ارضِ مقدس سے بے دخل کرنے کے منصوبے پر تلا ہوا ہے،تنظیم اسلامی
  • حماس سمیت فلسطینی گروپس کا غزہ کا انتظام ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے سپرد کرنے پر اتفاق
  • کئی ممالک غزہ فورس میں شامل ہونے کو تیار، مگر اسرائیل کی منظوری لازمی، مارکو روبیو
  • امریکا کا مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کا موقف مثبت قدم ہے، حازم قاسم
  • اسرائیل کامغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ امن کیلئے خطرناک ہے، امریکی وزیر خارجہ
  • اسرائیل کی من مانیاں
  • حماس کی جانب سے عالمی ادارہ انصاف کی مشاورتی رائے کا خیر مقدم