ٹرمپ غزہ امن منصوبے کی ناکامی کے لیے اسرائیل کی نہ مانوں کی پالیسی جاری
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیل کی نہ مانوں کی پالیسی جاری ہے اور اطلاعات یہ ہیں امریکا کے صدر فوری طور پر غزہ کا دورہ کرنا چاہتے اے ایف نیوز کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو 24 اکتوبر 2025 کو جنوبی اسرائیل میں سول و فوجی رابطہ مرکز کے دورے کے بعد میڈیا سے بات چیت کر رہے ہیں امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعے کو امید ظاہر کی کہ جلد ہی ایک بین الاقوامی فورس قائم کی جا سکے گی جو غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کرے گی۔دوسری جانب فلسطینی دھڑے متفق ہو گئے ہیں کہ جنگ کے بعد غزہ کو آزاد ماہرین (ٹیکنوکریٹس) کی ایک کمیٹی چلائے گی۔
جے ڈی وینس کی موجودگی میں جنوبی غزہ کو اسرائیل میں شامل کر نے کی پالیس نے امریکی صدر اور نائب صدر دونوں کوحیران کر دیا ہے ۔امریکہ وزیر خارجہ، نائب صدر جے ڈی وینس کے بعد اسرائیل پہنچے تاکہ امریکہ کی اس بھرپور کوشش کا حصہ بن سکیں جس کا مقصد حماس اور اسرائیل دونوں کو جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے آمادہ کرنا ہے۔اسرائیل اور حماس نے مصر میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں نو اکتوبر کو غزہ میں فائر بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا تھا، جس میں قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ میں امداد کی فراہمی بھی شامل ہے۔ یہ 20 نکاتی منصوبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا۔بعد ازاں 14 اکتوبر کو امریکہ، مصر، قطر اور ترکی نے پیر کو مصر کے مشہور سیاحتی مقام پر ایک خصوصی تقریب میں غزہ امن معاہدے پر دستخط کیے۔ اس موقع پر امریکہ کے صدر کا کہنا تھا کہ برسوں کی خونریزی کے بعد جنگ ختم ہوئی اور اب غزہ میں امدادی سامان پہنچ رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے کہا ہے کہ امن معاہدے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ایسی صورت حال پیدا کی جائے جس سے ’استحکام کی فورس‘ کو جتنی جلد ممکن ہو، تعینات کیا جا سکے۔انہوں نے اسرائیلی، امریکی اور دیگر مغربی افواج سے ملاقات کے دوران دو سالہ غزہ جنگ کے پائیدار خاتمے کی امید ظاہر کی۔ ان افواج نے جنوبی اسرائیل میں ایک بڑے گودام میں قائم نگرانی کے مرکز سے جنگ بندی پر نظر رکھی ہوئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت بین الاقوامی فورس کو یہ ذمے داری دی گئی ہے کہ وہ اس وقت سکیورٹی کی نگرانی کرے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی نافذ ہو جائے۔ حماس کے سات اکتوبر 2023 کے غیر معمولی حملے نے اس جنگ کو جنم دیا جس نے غزہ کو کھنڈر بنا دیا ہے۔
اہم فلسطینی دھڑوں، جن میں حماس بھی شامل ہے، نے جمعے کو کہا کہ انہوں نے قاہرہ میں ہونے والی ایک ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ آزاد ماہرین کی ایک عبوری فلسطینی کمیٹی غزہ کا انتظام سنبھالے گی۔حماس کی ویب سائٹ پر جاری مشترکہ بیان کے مطابق یہ کمیٹی ’عرب بھائیوں اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے زندگی کے معاملات اور بنیادی خدمات کا انتظام کرے گی۔‘
امریکا تمام قوتوں اور دھڑوں کے اجلاس پر بھی زور دیا گیا تاکہ ’ایک قومی حکمت عملی پر اتفاق کیا جا سکے اور تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کو فلسطینی عوام کی واحد جائز نمائندہ تنظیم کے طور پر دوبارہ فعال کیا جا سکے۔‘
اس حایات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ غزہ میں حماس، پی ایل او کا حصہ نہیں ہے، جس پر اس کی دیرینہ حریف فتح کا غلبہ ہے۔حماس، جس نے 2007 میں غزہ پر قبضہ کر لیا تھا، پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ وہ جنگ کے بعد کے علاقے پر حکومت نہیں کرنا چاہتی، تاہم اس نے اپنے عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے کی مخالفت کی۔
حماس کے ترجمان حازم قاسم نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ ’ہم نے غزہ کے انتظام کے دوسرے مرحلے کی تیاریوں پر اتفاق کر لیا ہے اور اس بات کی توثیق کی ہے کہ یہ فلسطینی انتظامیہ کے تحت ہوگا، غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے درمیان کوئی علیحدگی نہیں ہوگی۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’آئندہ ملاقاتوں میں قبضے کے ساتھ تعلق، مزاحمتی ہتھیاروں کے مستقبل اور بین الاقوامی فورسز کی موجودگی سے متعلق امور پر بات چیت ہوگی۔‘
غزہ میں بین الاقوامی فورسنے کیا کام کر نا ہے جمعے کو غزہ میں خاندان اب بھی اپنے تباہ شدہ گھروں کو لوٹنے کی کوشش کر رہے تھے مگر اکثر انہیں معلوم ہوا کہ ان کے گھر اسرائیلی افواج کے زیر قبضہ ان علاقوں میں ہیں جو نام نہاد ’زرد لکیر‘ سے آگے واقع ہیں۔
42 سالہ ہانی ابو عمر نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہمارے خاندان کے کچھ نوجوانوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر علاقے میں تباہی کا جائزہ لینے گئے اور بتایا کہ میرا گھر تباہ ہو گیا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ساری زندگی محنت کی، کمائی کی اور گھر بنانے کے لیے اپنی پوری کوشش کی۔‘
تقریباً دو سو امریکی فوجی سول و فوجی رابطہ مرکز میں تعینات کیے گئے ہیں، جہاں درجن بھر ممالک کے وردی پوش فوجی ایک عارضی طور پر تیار کردہ کرائے کے ہال میں آپس میں گھلتے ملتے نظر آئے۔ان کے سروں کے اوپر نصب سکرینوں پر عملے کی تازہ ترین معلومات دکھائی جا رہی تھیں، جن میں یہ بھی شامل تھا کہ اب غزہ میں پھل، سبزیاں، پنیر اور کافی کی نئی فراہمی پہنچنے لگی ہے۔ایک اور پروجیکشن پر ٹرمپ کے الفاظ دکھائے جا رہے تھے کہ ’ایک نیا اور خوبصورت دن طلوع ہو رہا ہے۔ اور اب تعمیر نو کا آغاز ہوتا ہے۔‘
اسرائیل اب بھی ان 13 قیدیوں کی لاشوں کا منتظر ہے جنہیں جنگ بندی کے تحت حماس کی طرف سے واپس کیے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔حماس نے جمعے کو کہا کہ اسے ثالث ممالک مصر، قطر اور ترکی کی طرف سے یہ ’واضح ضمانتیں‘ موصول ہوئی ہیں کہ ’جنگ عملی طور پر ختم ہو چکی ہے۔‘
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی پر اتفاق جمعے کو کے بعد کے لیے کیا جا کہا کہ جا سکے
پڑھیں:
ٹرمپ کی نئی سیکیورٹی پالیسی نے یورپ میں ہلچل مچا دی
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی نئی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی میں یورپ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ براعظم یورپ سخت قوانین، سنسرشپ، کمزور خود اعتمادی اور بڑھتی ہوئی مہاجر آبادی کے باعث ’’تہذیبی مٹاؤ‘‘ کے خطرے سے دوچار ہے۔
یہ نئی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹیجی اچانک جاری کی گئی، جس میں یورپی ممالک پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ امریکی سخاوت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی سیکیورٹی کی ذمہ داری لینے میں ناکام رہے ہیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ’’یورپ اگلے 20 برس میں شناخت سے محروم ہو سکتا ہے‘‘۔ رپورٹ میں یورپی اداروں پر بھی تنقید کی گئی ہے، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ قومی خودمختاری اور سیاسی آزادی کو کمزور کر رہے ہیں۔
اسٹریٹیجی میں یورپ کی امیگریشن پالیسیوں، آزادیٔ اظہار پر پابندیوں اور کم ہوتی پیدائش کی شرح کو بھی براعظم کے بڑے مسائل قرار دیا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق یورپی عوام امن چاہتے ہیں، مگر حکومتیں ’’جمہوری عمل کو سبوتاژ‘‘ کر رہی ہیں۔
یورپی ممالک نے امریکی پالیسی کو فوری طور پر مسترد کر دیا۔ جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ یورپ کو ’’باہری مشوروں کی ضرورت نہیں‘‘، جبکہ فرانس نے اسے ’’ناقابلِ قبول اور خطرناک‘‘ قرار دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نئی امریکی حکمتِ عملی سابقہ پالیسیوں سے بالکل مختلف ہے اور واضح طور پر یورپ کے پورے نظام اور سمت کو چیلنج کرتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا پہلی بار کھل کر ’’یورپی سیاسی ڈھانچے اور ادارہ جاتی سمت‘‘ کے خلاف مؤقف اپنا رہا ہے۔