اوورسیز پاکستانی، معیشت کا اہم ستون
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے محنت، لگن اور قربانیوں سے اپنا مقام بنایا ہے،آپ ہمارے سروں کے تاج اور ہمارے ایمبیسڈر ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے اوورسیز پاکستانیزکے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
دوسری جانب عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی مالی کارکردگی میں بہتری، افراط زر میں کمی اور معاشی استحکام کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان کے معاشی آؤٹ لک کو مستحکم قرار دے کر اس کی کریڈٹ ریٹنگ ٹرپل سی پلس سے بڑھا کر بی مائنس کردی ہے۔
بلاشبہ سمندر پار پاکستانی قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کے حامل ہیں، وہ نہ صرف زرمبادلہ بھیج کر ملک کی مالی حالت کو مضبوط کرتے ہیں، بلکہ اپنے اپنے میزبان ممالک میں پاکستان کے سفیروں کی حیثیت سے بھی کام کرتے ہیں۔
اوورسیزکنونشن کے انعقاد سے سمندر پار مقیم پاکستانیوں کو وزیر اعظم اور حکومتی حکام سے روابط کے فروغ کا ایک منفرد موقع فراہم کیا ہے، وزیراعظم نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے مراعاتی پیکیج کا اعلان بھی کیا، جس کے تحت میڈیکل کالجز میں پندرہ فی صد کوٹہ رکھا جائے گا۔
اسلام آباد میں اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کردی گئی ہیں، پنجاب اور بلوچستان میں بھی ایسی عدالتیں قائم کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں جب کہ حکومت نئے قانون کے تحت بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق مسائل سننے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی گئی ہیں جن میں آن لائن وڈیو سے منسلک سہولیات موجود ہیں جو سمندر پار پاکستانیوں کے لیے جائیداد کے تنازعات کو حل کرنے کا زیادہ قابل رسائی اور موثر ذریعہ فراہم کرتی ہیں۔
عدالت کے تیز رفتار طریقہ کار سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں اعتماد بحال ہوگا، جس سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوگا اور وہ باضابطہ ذرایع سے سرمایہ کاری اور اپنی ترسیلات زر کے معاملے میں زیادہ پر اعتماد ہوں گے۔
درحقیقت پاکستان کے معاشی استحکام اور ترقی میں اوورسیز پاکستانیوں کا کردارکلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ خلیجی ممالک میں اس وقت 55 لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں، جو نہ صرف وہاں کی معیشت کا حصہ ہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی معاشی لحاظ سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب کے بڑے تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں میں زیادہ تر پاکستانی کارکنان شامل ہیں، جو اپنی محنت اور صلاحیتوں سے وہاں کے انفرا اسٹرکچر میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں حالیہ برسوں میں کئی مثبت تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جن سے پاکستانیوں کے لیے مزید مواقعے پیدا ہو رہے ہیں۔
ان تبدیلیوں میں مزدوروں کے حقوق کا تحفظ، ویزا پالیسی میں نرمی اور ہنرمند افراد کے لیے نئے روزگار کے مواقعے شامل ہیں۔ اس وقت عالمی منڈی میں مقابلہ بڑھ رہا ہے اور اگر پاکستانی نوجوان جدید تقاضوں کے مطابق ہنرمند بنیں تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ ملک کے لیے بھی قیمتی سرمایہ ثابت ہوں گے۔ رواں سال ترسیلات زر میں تقریباً 30 فیصد اضافہ ہوا ہے اور حکومت کا مقصد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے تعاون سے آیندہ سالوں میں ترسیلات زر کو 60 ارب ڈالر تک بڑھانا ہے۔
اس سال پہلی بار پاکستان کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے 36ارب ڈالرکی براہ راست ترسیلات موصول ہوئی ہیں۔ پاکستان کے لیے اوورسیز پاکستانیوں کی اہمیت کبھی کم نہیں ہو سکتی،کیونکہ یہ افراد نہ صرف اپنے وطن کے لیے ایک اقتصادی ستون ہیں، بلکہ یہ ملک کے لیے سفارتی تعلقات، ثقافت، اور عالمی سطح پر پاکستان کی مثبت تصویر کے سفیر بھی ہیں۔ ان کا کردار کسی بھی معاشرتی اور اقتصادی ترقی کی بنیاد ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان کا حصہ سمجھنا اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی طرف سنجیدگی سے قدم اٹھانا، پاکستان کے لیے ایک اہم ضرورت ہے، جو حکومتِ پاکستان نے اس کنونشن کے ذریعے ثابت کیا ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے بڑی مالی معاونت ان کی ترسیلات زر ہیں۔ یہ ترسیلات زر پاکستان کی معیشت کا ایک مضبوط ستون سمجھی جاتی ہیں۔ اعداد و شمارکے مطابق، اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر نے سالانہ بنیادوں پر اربوں ڈالر پاکستان کو فراہم کیے ہیں، جو کہ ملکی معاشی ترقی میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔
یہ رقم نہ صرف پاکستان کے مالیاتی ذخائر کو مستحکم کرنے میں مدد دیتی ہے بلکہ ملک میں ترقیاتی منصوبوں اور فلاحی اسکیموں کی تکمیل میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی بدولت پاکستان میں بیروزگاری کے مسئلے کو جزوی طور پر کم کیا جا رہا ہے۔ جب پاکستانی شہری بیرون ملک کام کر کے پیسے بھیجتے ہیں، تو اس سے ان کے خاندان کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اور انھیں مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے علاوہ، اس رقم کا استعمال مختلف مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے جیسے کہ تعلیم، صحت، کاروباری سرگرمیاں اور مکان خریدنا، جو پاکستان کے داخلی مارکیٹ کو مزید مضبوط کرتا ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زرکا بڑا حصہ حکومت کے خزانے میں جمع ہوتا ہے۔ یہ رقم نہ صرف ملکی معیشت کی بہتری میں مدد کرتی ہے بلکہ حکومتی منصوبوں اور ترقیاتی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ ان ترسیلات زرکی بدولت پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے قومی معیشت کی استحکام میں اضافہ ہوتا ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر پاکستانی معیشت میں استحکام لاتی ہیں، خاص طور پر اقتصادی بحرانوں کے دوران جب ملک کو عالمی سطح پر مالی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، تو اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر ایک بڑی امداد کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ ان ترسیلات کے ذریعے پاکستان اپنے بیرونی قرضوں کو کم کرنے اور مالی خسارے کو پورا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر نہ صرف رسمی اداروں بلکہ غیر رسمی شعبوں میں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ رقم چھوٹے کاروباروں، زراعت اور دیگر مقامی صنعتوں کے لیے بھی ایک اہم معاونت فراہم کرتی ہے۔ اس سے مقامی معیشت میں سرمایہ کاری کا عمل تیز ہوتا ہے اور کاروباری سرگرمیاں بڑھتی ہیں۔موجودہ حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں تاکہ ان کے مسائل حل ہوں اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔ حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے فوری حل کے لیے خصوصی عدالتیں اور ایئرپورٹس پر خصوصی ڈیسک قائم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، نیب اور ایف آئی اے کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت بھی طے کی گئی ہے تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔
حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضے کی شکایات کے ازالے کے لیے پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن قائم کیا ہے۔ اس کمیشن نے ایک سال کے دوران 13 ارب سے زائد مالیت کی جائیدادیں واگزارکرائی ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے فچ کی جانب سے پاکستان کی معاشی ریٹنگ میں بہتری کا خیر مقدم کیا ہے، اپنے ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ عالمی کریڈٹ ریٹنگ کمپنی فچ نے پاکستانی معیشت کو مستحکم قرار دیا ہے۔ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کا ٹرپل سی پلس سے بی مائنس پر آنا خوش آیند ہے، پاکستانی معیشت کی ریٹنگ میں بہتری اقوام عالم کا پاکستانی معیشت میں اعتماد کا مظہر ہے۔
یہاں پر بہت اہم سوال یہ ہے کہ ملکی معاشی ترقی میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے وطنِ عزیز کے اداروں کو کیا تدابیر اختیارکرنا چاہئیں تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی معاشی ترقی کے لیے اداروں کا فعال، شفاف اور دور اندیش ہونا لازمی ہے۔ اداروں کی اصلاح اور ان کی کارکردگی میں بہتری کے بغیر پائیدار اقتصادی ترقی ممکن نہیں، اگر اداروں کو بدعنوانی سے پاک رکھنے کے لیے سخت احتسابی نظام وضع کیا جائے، مالی شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کا اگرگہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ مضبوط ادارے ہی مضبوط معیشت کی بنیاد ہوتے ہیں۔
ریاست کی مضبوطی محض اس کے وسائل، جغرافیائی محلِ وقوع یا قدرتی ذخائر پر نہیں بلکہ اس کے اداروں کی شفافیت، فعالیت اور دور اندیشی پر ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ادارے اکثر کرپشن اور میرٹ سے انحراف کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری معیشت مسلسل دباؤکا شکار رہتی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اداروں کو ملکی ترقی کا حقیقی محور بنایا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اوورسیز پاکستانیوں کے نے اوورسیز پاکستانیوں پاکستانیوں کے لیے پاکستانی معیشت پاکستان کے پاکستان کی کے لیے بھی میں بہتری کی معاشی معیشت کی کے مسائل کی معیشت ہوتا ہے اور ان ہے اور کیا ہے
پڑھیں:
جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان
جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان taliban WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کی سویلین حکومت افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتی ہے لیکن پاکستانی فوج تعلقات کو بہتر بنانے کی ان کوششوں کو ناکام بنا رہی ہے۔پاکستانی فوج نے طالبان حکومت کے ترجمان کے اس الزام پر تاحال کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے۔
ایک نجی پاکستانی ٹیلی ویژن چینل خیبر نیوز کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں مجاہد نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے پاکستان میں دو طرح کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ذبیح اللہ مجاہد نے قطر اور ترکی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کے دوران پاکستانی وزیر دفاع کے سخت بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے دوران ایسا کرنے سے مذاکرات میں کسی اور کو فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن جب کوئی افغانوں سے بات کرنے بیٹھتا ہے اور پھر پیچھے سے دھمکی دیتا ہے تو اس سے مذاکرات کے ماحول پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان کے گذشتہ سال کے اواخر میں دورہ کابل کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے دعوی کیا کہ پاکستانی فوجیوں نے پکتیکا پر اس وقت فضائی حملہ کیا جب صادق خان کابل میں طالبان حکومت کے اعلی عہدیداروں سے ملاقات میں مصروف تھے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے دعوی کیا کہ: جس رات صادق خان کابل میں مہمان تھے پکتیکا پر حملہ ہوا، فضائی حملے کیے گئے۔ پاکستان کی طرف دو نظریات ہیں: سویلین حکومت کچھ کرتی ہے، تعلقات بنانا چاہتی ہے، فوج آ کر اسے دوبارہ خراب کرنا چاہتی ہے اور اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح ہمارے تعلقات مزید خراب ہو گئے۔
طالبان حکومت کے ترجمان نے مزید کہا کہ انھیں پاکستان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن انھوں نے الزام عائد کیا کہ انھیں شک ہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت اور خاص طور پر فوج پر ہمیں شک ہے کیونکہ وہ جنگ کسی اور کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔ذبیح اللہ مجاہد نے کسی مخصوص ملک کا نام لیے بغیر الزام عائد کیا کہ شاید یہ کسی اور کی طرف سے کہا جا رہا ہو، شاید وہ اس جنگ کے ذریعے کسی کے قریب جانا چاہتے ہیں۔ مجاہد نے الزام عائد کیا کہ ان کی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج میں ماحول کو خراب کرنے کا کام جاری ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرشاہ محمود سے سابق پی ٹی آئی رہنماں کی ملاقات، ریلیز عمران تحریک چلانے پر اتفاق،فواد چوہدری کی تصدیق شاہ محمود سے سابق پی ٹی آئی رہنماں کی ملاقات، ریلیز عمران تحریک چلانے پر اتفاق،فواد چوہدری کی تصدیق استنبول مذاکرات بارے حقائق کو ترجمان افغان طالبان نے توڑ مروڑ کر پیش کیا: پاکستان افغان مہاجرین کی وطن واپسی: صرف ایک دن میں 10 ہزار افراد افغانستان روانہ شہباز شریف کی جاتی امرا آمد، سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات،سیاسی صورتحال پر مشاورت تیسرا ٹی ٹوئنٹی: پاکستان کا جنوبی افریقا کیخلاف ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ اسلام آباد میں ریسٹورنٹس اور فوڈ پوائنٹس کیلیے نئے ایس او پیز جاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم