Express News:
2025-09-18@12:35:46 GMT

آنکھیں ہیں اور پھر بھی دکھائی نہیں دیتا۔۔۔۔ !

اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT

نیوزی لینڈ:

آج کا موضوع ایک سوال کی شکل میں ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم بہ حیثیت انسان حیرت انگیز طور پر جتنے سمجھ دار اور عقل مند ہیں اتنے ہی یا شاید اس بھی زیادہ احمق اور بے وقوف بھی ہیں، کیوں۔۔۔؟

اس بے وقوفی کی سب سے بڑی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ کس آسانی کے ساتھ ہم اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں یا کر لیتے ہیں، کیوں ایسا ہے کہ جو حقائق ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں ان کا ہمیں ادراک نہیں اور وہ جو بہ ظاہر نظر آرہی ہیں یا ہمارے ہوش و حواس پر چھائی ہوئی ہیں جن کا دراصل کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ ہمیں وہ باتیں یاد رہ جاتی ہیں، جنھیں فراموش کردینا چاہیے اس لیے کہ وہ لایعنی ہوتی ہیں اور جن باتوں، واقعات اور سانحات پر غور کرنا یا جنھیں یاد رکھنا چا ہیے.

 اس لیے کہ وہ سبق آموز ہوتے ہیں، ان کو بُھول جاتے ہیں۔ ہم وہ باتیں کہتے یا سوچتے ہیں جو بے مقصد، لغو اور فضول ہوتی ہیں اور کسی نے کچھ نہیں بھی کہا اور خاموش رہا تو اس میں سے بھی کوئی مطلب و معنی تلاش کرتے ہیں۔ سوچیے! حقیقت تلخ ہے لیکن اس سے منہ کیسے موڑ لیں، اس مسئلے کا سامنا تو کرنا ہوگا، اس پر کچھ سوچنا تو ہوگا اس لیے کہ اس تلخ حقیقت سے فرار ممکن نہیں ہے۔

ہم بہت ہی متضاد، خود مخالف اور غیر مطابق ہوجاتے ہیں، اپنے خیالات میں ہم بہت ہی کوتاہ قد ہو جاتے ہیں۔ ہماری سوچ بہت ہی مائیوپک یعنی دھندلی یا بے شناخت ہو جاتی ہے۔ ’’MYOPIA‘‘ آنکھوں کی اس حالت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے دُور کی نظر کم زور ہو جاتی ہے۔ یہاں پر مایوپک کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم آگے کا سوچ ہی نہیں سکتے، آگے ہمیں نظر ہی نہیں آتا یعنی یوم آخرت ہمیں دکھتا ہی نہیں ہے اور نہ ہی اپنا آخری دن نظر آتا ہے۔ یعنی ہم دن رات ایسے گزار رہے ہیں جیسے ہم اس دنیا میں ہمیشہ رہیں گے۔

اکثر ہماری بینائی متعصبانہ ہو جاتی ہے ہم جانب داری کرنے لگتے ہیں یا کرتے ہیں یعنی غیر منصفانہ رجحان رکھنے لگتے ہیں۔ ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ انسان عقلی اور منطقی بنیادوں پر بہترین فیصلے کرتا ہے اور حیرت انگیز طور پر انھی اصولوں کو پامال کر کے بڑی غلطیاں بھی کرتا ہے۔ ہم سب اپنے بارے میں بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ کہاں کہاں ہم یہ غلطیاں کر جاتے ہیں۔ کس طرح عقل مند ہوتے ہوئے بھی ہم سے یہ فاش غلطیاں ہو جاتی ہیں۔

ذرا غور کیجیے! سورۃ البلد کی آیت نمبر10 ’’وھدینہ النجدین‘‘ پر جس کا مفہوم ہے: ’’اور دونوں راستے اسے دکھائے۔‘‘ یعنی انسان کو یہ اختیار دیا کی وہ نیکی اور بدی میں جس کو چاہے اپنائے۔ یعنی ایک راستہ اچھائی کا راستہ اور دوسرا راستہ ہے برائیوں کا۔

ہم سب کا یہ مشاہدہ ہوگا، یا ہم نے یہ منظر کسی اسکرین پر دیکھا ہوگا، جب ایک بھیڑ، بکری یا کوئی اسی قبیل کا کوئی جانور کسی سمت میں چلنا شروع ہوتی ہے تو اس ریوڑ کے سارے جانور اس کے پیچھے چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لغت میں اس حالت کو ’’بھیڑ چال‘‘ کہتے ہیں۔ افسوس! ہماری حالت ان جانوروں سے بھی بدتر ہے.

 اس لیے بدتر ہے کہ ہم تو عقل و شعور رکھتے ہوئے یہ کام کر رہے ہیں، چل رہے ہیں پیچھے ہر اس چیز کہ جو ہمیں بس اچھی لگے، چاہے وہ کتنی ہی بے ہودہ، ناقص اور ہمارے دینی اصولوں کے برخلاف ہی کیوں نہ ہو۔ سورۃ البلد کی آیت10 ’’وھدینہ النجدین‘‘ پر کہ کیا ہم نے تمہیں دو راستے نہیں دکھا دیے۔ اﷲ تعالیٰ نے تو ہمیں صاف اور واضح دو راستے بتا دیے تو پھر ایسا کیا ہُوا کہ ہم نیکی کے راستے جسے صراط مستقیم کہا گیا ہے، سے بھٹک کر گناہ یعنی بربادی کے راستے پر چل پڑے۔

اگر ہم اپنے اندر مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو دیانت داری سے اپنا محاسبہ کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ کے سامنے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا مفہوم و خلاصہ پیش خدمت ہے۔ سورۃ الفلق میں ہم کن چیزوں سے پناہ مانگ رہے ہیں۔۔۔ ؟

ہم ان چیزوں سے، ان شر سے، جو ہماری دنیاوی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ تمام ظاہری اور خارجی مسئلے، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ان میں سے ایک ہے رات کا اندھیرا جب وہ داخل ہو جائے، پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے، اور حاسدین کے حسد سے۔ سورۃ الناس کے مفہوم پر جب ہم نظر ڈالیں تو آیت نمبر ایک سے تین تک اﷲ تعالی کی تعریف ہے اس کی صفات سے ہم پکار رہے ہیں یعنی وہ ہمارا رب ہے، ہمارا بادشاہ حقیقی ہے، ہمارا خالق و معبود ہے۔

آیت نمبر چار میں اس شر کا ذکر ہے جس سے پناہ مانگی جا رہی ہے اور وہ ہے وسواس، وسوسہ ڈالنے والے، بار بار پلٹ کر آنے والے کی۔ یہ وسوسے کیا کرتے ہیں یہ ہمارے دین ہمارے ایمان پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ ہمارے اندر سے آتا ہے۔ وسواس بار بار پلٹ کر آنے والا اور آگے والی آیت بتا رہی ہے یہ انسانوں میں سے بھی ہو سکتا ہے اور جنوں میں سے بھی۔ ہمیں بہت ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا سنتے ہیں۔

یہ کیا ہو سکتی ہیں سننے والی باتیں؟ یہ شریر لوگوں کی گم راہ باتیں بھی ہو سکتی ہیں جن کے اندر یہ تاثیر ہوتی ہے کہ وہ ہماری سماعت میں گھُل جاتی ہیں، ہمارے دلوں میں بیٹھ جاتی ہیں، ہماری سماعت سے بار بار ٹکراتی ہیں۔ یہ باتیں جھوٹی، لغو، لایعنی اور کوئی شرانگیز پروپیگینڈا بھی ہو سکتی ہیں، اور بے سروپا افواہیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اہل علم بتاتے ہیں کہ یہ وسواس اور اس طرح کی باتیں آپ کے صدر یعنی سینوں تک ہی رہتی ہیں، یہ آپ کے دل تک جانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ہیں، جب تک آپ خود ان کو اپنے دل میں جگہ دینے پر آمادہ نہ ہوں۔

یاد رکھیے! اگر ایک دفعہ ہم نے ان کو اپنے دل تک رسائی دے دی تو شیطان انہیں ایسا خوب صورت بنا کر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے کہ اپنے بُرے اعمال بھی ہمیں بھلے لگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سورۃ الانعام کی آیت نمبر 43 کا مفہوم آپ کے سامنے پیش خدمت ہے: ’’اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا۔‘‘ مفسرین کہتے ہیں جب کوئی فرد یا اقوام اخلاق و کردار کی انفرادی یا اجتماعی پستی میں مبتلا ہو کر اپنے دلوں کو زنگ آلود کر لیتی ہیں تو ان کو اپنے بُرے اعمال بھی اچھے لگتے ہیں کیوں کہ شیطان ان کے لیے ان کو خوب صورت بنا دیتا ہے۔

قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے بالکل واضح ہمیں بتا دیا کہ شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کر دیا۔ سورۃ الفلق میں خارجی بدی کی طاقتوں سے پناہ مانگی جا رہی ہے جو ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور یہ وہ خارجی طاقتیں ہیں، یہ بدی کی طاقتیں ہیں جو ہماری خارجی دنیا کو متاثر کرتی ہیں، اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ سورۃ الناس میں ہم پناہ مانگ رہے ہیں ان بدی کے خیالات سے جو اندرونی ہیں۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ بار بار ہمیں دعوت دے ہیں کہ سوچو، سمجھو، غور و فکر اور تدبر کرو۔ ہم عقل مند ہوتے ہوئے بھی اپنے دین اور ایمان کے خود دشمن بن جائیں۔۔۔ ؟ اﷲ تعالیٰ فرما رہے ہیں ہم نے تو دو راستے تمہیں دکھا دیے ہیں تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم وہ راستہ چنیں جو بدی کا راستہ ہے۔۔۔؟

اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم کلام اﷲ پر غور و تدبّر کر سکیں، ہمیں قرآن حکیم کے معانی و مفہوم کو سمجھنے کا فہم عطا ہو۔ ہمیں خاتم النبیین ﷺ کی احادیث مبارکہ سے مستفید ہونے اور آپ ﷺ کے اسوہ ٔ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی سعادت ملے اور ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔ آمین

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہو سکتی ہیں اﷲ تعالی جاتے ہیں کرتے ہیں ہوتی ہیں جاتی ہیں ہے کہ ہم ہیں اور ہی نہیں ہو جاتی رہے ہیں بھی ہو سے بھی ہیں کہ بہت ہی ہے اور اس لیے

پڑھیں:

زمین کے ستائے ہوئے لوگ

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

 

کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • لازوال عشق
  • ہماری پُرزور کوشش کے بعد بھی بانی پی ٹی آئی تک رسائی نہیں مل رہی: عمر ایوب
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • لوگ کہتے ہیں میں کرینہ کپور جیسی دکھائی دیتی ہوں، سارہ عمیر
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود
  • ایشیا کپ: یو اے ای نے عمان کو 42 رنز سے شکست دے دی