آنکھیں ہیں اور پھر بھی دکھائی نہیں دیتا۔۔۔۔ !
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
نیوزی لینڈ:
آج کا موضوع ایک سوال کی شکل میں ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم بہ حیثیت انسان حیرت انگیز طور پر جتنے سمجھ دار اور عقل مند ہیں اتنے ہی یا شاید اس بھی زیادہ احمق اور بے وقوف بھی ہیں، کیوں۔۔۔؟
اس بے وقوفی کی سب سے بڑی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ کس آسانی کے ساتھ ہم اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں یا کر لیتے ہیں، کیوں ایسا ہے کہ جو حقائق ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں ان کا ہمیں ادراک نہیں اور وہ جو بہ ظاہر نظر آرہی ہیں یا ہمارے ہوش و حواس پر چھائی ہوئی ہیں جن کا دراصل کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ ہمیں وہ باتیں یاد رہ جاتی ہیں، جنھیں فراموش کردینا چاہیے اس لیے کہ وہ لایعنی ہوتی ہیں اور جن باتوں، واقعات اور سانحات پر غور کرنا یا جنھیں یاد رکھنا چا ہیے.
اس لیے کہ وہ سبق آموز ہوتے ہیں، ان کو بُھول جاتے ہیں۔ ہم وہ باتیں کہتے یا سوچتے ہیں جو بے مقصد، لغو اور فضول ہوتی ہیں اور کسی نے کچھ نہیں بھی کہا اور خاموش رہا تو اس میں سے بھی کوئی مطلب و معنی تلاش کرتے ہیں۔ سوچیے! حقیقت تلخ ہے لیکن اس سے منہ کیسے موڑ لیں، اس مسئلے کا سامنا تو کرنا ہوگا، اس پر کچھ سوچنا تو ہوگا اس لیے کہ اس تلخ حقیقت سے فرار ممکن نہیں ہے۔
ہم بہت ہی متضاد، خود مخالف اور غیر مطابق ہوجاتے ہیں، اپنے خیالات میں ہم بہت ہی کوتاہ قد ہو جاتے ہیں۔ ہماری سوچ بہت ہی مائیوپک یعنی دھندلی یا بے شناخت ہو جاتی ہے۔ ’’MYOPIA‘‘ آنکھوں کی اس حالت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے دُور کی نظر کم زور ہو جاتی ہے۔ یہاں پر مایوپک کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم آگے کا سوچ ہی نہیں سکتے، آگے ہمیں نظر ہی نہیں آتا یعنی یوم آخرت ہمیں دکھتا ہی نہیں ہے اور نہ ہی اپنا آخری دن نظر آتا ہے۔ یعنی ہم دن رات ایسے گزار رہے ہیں جیسے ہم اس دنیا میں ہمیشہ رہیں گے۔
اکثر ہماری بینائی متعصبانہ ہو جاتی ہے ہم جانب داری کرنے لگتے ہیں یا کرتے ہیں یعنی غیر منصفانہ رجحان رکھنے لگتے ہیں۔ ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ انسان عقلی اور منطقی بنیادوں پر بہترین فیصلے کرتا ہے اور حیرت انگیز طور پر انھی اصولوں کو پامال کر کے بڑی غلطیاں بھی کرتا ہے۔ ہم سب اپنے بارے میں بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ کہاں کہاں ہم یہ غلطیاں کر جاتے ہیں۔ کس طرح عقل مند ہوتے ہوئے بھی ہم سے یہ فاش غلطیاں ہو جاتی ہیں۔
ذرا غور کیجیے! سورۃ البلد کی آیت نمبر10 ’’وھدینہ النجدین‘‘ پر جس کا مفہوم ہے: ’’اور دونوں راستے اسے دکھائے۔‘‘ یعنی انسان کو یہ اختیار دیا کی وہ نیکی اور بدی میں جس کو چاہے اپنائے۔ یعنی ایک راستہ اچھائی کا راستہ اور دوسرا راستہ ہے برائیوں کا۔
ہم سب کا یہ مشاہدہ ہوگا، یا ہم نے یہ منظر کسی اسکرین پر دیکھا ہوگا، جب ایک بھیڑ، بکری یا کوئی اسی قبیل کا کوئی جانور کسی سمت میں چلنا شروع ہوتی ہے تو اس ریوڑ کے سارے جانور اس کے پیچھے چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لغت میں اس حالت کو ’’بھیڑ چال‘‘ کہتے ہیں۔ افسوس! ہماری حالت ان جانوروں سے بھی بدتر ہے.
اس لیے بدتر ہے کہ ہم تو عقل و شعور رکھتے ہوئے یہ کام کر رہے ہیں، چل رہے ہیں پیچھے ہر اس چیز کہ جو ہمیں بس اچھی لگے، چاہے وہ کتنی ہی بے ہودہ، ناقص اور ہمارے دینی اصولوں کے برخلاف ہی کیوں نہ ہو۔ سورۃ البلد کی آیت10 ’’وھدینہ النجدین‘‘ پر کہ کیا ہم نے تمہیں دو راستے نہیں دکھا دیے۔ اﷲ تعالیٰ نے تو ہمیں صاف اور واضح دو راستے بتا دیے تو پھر ایسا کیا ہُوا کہ ہم نیکی کے راستے جسے صراط مستقیم کہا گیا ہے، سے بھٹک کر گناہ یعنی بربادی کے راستے پر چل پڑے۔
اگر ہم اپنے اندر مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو دیانت داری سے اپنا محاسبہ کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ کے سامنے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا مفہوم و خلاصہ پیش خدمت ہے۔ سورۃ الفلق میں ہم کن چیزوں سے پناہ مانگ رہے ہیں۔۔۔ ؟
ہم ان چیزوں سے، ان شر سے، جو ہماری دنیاوی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ تمام ظاہری اور خارجی مسئلے، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ان میں سے ایک ہے رات کا اندھیرا جب وہ داخل ہو جائے، پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے، اور حاسدین کے حسد سے۔ سورۃ الناس کے مفہوم پر جب ہم نظر ڈالیں تو آیت نمبر ایک سے تین تک اﷲ تعالی کی تعریف ہے اس کی صفات سے ہم پکار رہے ہیں یعنی وہ ہمارا رب ہے، ہمارا بادشاہ حقیقی ہے، ہمارا خالق و معبود ہے۔
آیت نمبر چار میں اس شر کا ذکر ہے جس سے پناہ مانگی جا رہی ہے اور وہ ہے وسواس، وسوسہ ڈالنے والے، بار بار پلٹ کر آنے والے کی۔ یہ وسوسے کیا کرتے ہیں یہ ہمارے دین ہمارے ایمان پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ ہمارے اندر سے آتا ہے۔ وسواس بار بار پلٹ کر آنے والا اور آگے والی آیت بتا رہی ہے یہ انسانوں میں سے بھی ہو سکتا ہے اور جنوں میں سے بھی۔ ہمیں بہت ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا سنتے ہیں۔
یہ کیا ہو سکتی ہیں سننے والی باتیں؟ یہ شریر لوگوں کی گم راہ باتیں بھی ہو سکتی ہیں جن کے اندر یہ تاثیر ہوتی ہے کہ وہ ہماری سماعت میں گھُل جاتی ہیں، ہمارے دلوں میں بیٹھ جاتی ہیں، ہماری سماعت سے بار بار ٹکراتی ہیں۔ یہ باتیں جھوٹی، لغو، لایعنی اور کوئی شرانگیز پروپیگینڈا بھی ہو سکتی ہیں، اور بے سروپا افواہیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اہل علم بتاتے ہیں کہ یہ وسواس اور اس طرح کی باتیں آپ کے صدر یعنی سینوں تک ہی رہتی ہیں، یہ آپ کے دل تک جانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ہیں، جب تک آپ خود ان کو اپنے دل میں جگہ دینے پر آمادہ نہ ہوں۔
یاد رکھیے! اگر ایک دفعہ ہم نے ان کو اپنے دل تک رسائی دے دی تو شیطان انہیں ایسا خوب صورت بنا کر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے کہ اپنے بُرے اعمال بھی ہمیں بھلے لگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سورۃ الانعام کی آیت نمبر 43 کا مفہوم آپ کے سامنے پیش خدمت ہے: ’’اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا۔‘‘ مفسرین کہتے ہیں جب کوئی فرد یا اقوام اخلاق و کردار کی انفرادی یا اجتماعی پستی میں مبتلا ہو کر اپنے دلوں کو زنگ آلود کر لیتی ہیں تو ان کو اپنے بُرے اعمال بھی اچھے لگتے ہیں کیوں کہ شیطان ان کے لیے ان کو خوب صورت بنا دیتا ہے۔
قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے بالکل واضح ہمیں بتا دیا کہ شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کر دیا۔ سورۃ الفلق میں خارجی بدی کی طاقتوں سے پناہ مانگی جا رہی ہے جو ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور یہ وہ خارجی طاقتیں ہیں، یہ بدی کی طاقتیں ہیں جو ہماری خارجی دنیا کو متاثر کرتی ہیں، اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ سورۃ الناس میں ہم پناہ مانگ رہے ہیں ان بدی کے خیالات سے جو اندرونی ہیں۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ بار بار ہمیں دعوت دے ہیں کہ سوچو، سمجھو، غور و فکر اور تدبر کرو۔ ہم عقل مند ہوتے ہوئے بھی اپنے دین اور ایمان کے خود دشمن بن جائیں۔۔۔ ؟ اﷲ تعالیٰ فرما رہے ہیں ہم نے تو دو راستے تمہیں دکھا دیے ہیں تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم وہ راستہ چنیں جو بدی کا راستہ ہے۔۔۔؟
اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم کلام اﷲ پر غور و تدبّر کر سکیں، ہمیں قرآن حکیم کے معانی و مفہوم کو سمجھنے کا فہم عطا ہو۔ ہمیں خاتم النبیین ﷺ کی احادیث مبارکہ سے مستفید ہونے اور آپ ﷺ کے اسوہ ٔ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی سعادت ملے اور ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔ آمین
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہو سکتی ہیں اﷲ تعالی جاتے ہیں کرتے ہیں ہوتی ہیں جاتی ہیں ہے کہ ہم ہیں اور ہی نہیں ہو جاتی رہے ہیں بھی ہو سے بھی ہیں کہ بہت ہی ہے اور اس لیے
پڑھیں:
علی ظفر کی بے دردی سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل
معروف گلوکار، اداکار اور مصور علی ظفر نے اسلام آباد میں قتل ہونے والی 17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے نام دل دہلا دینے والی ایک نظم تحریر کی ہے۔
سوشل میڈیا پر گلوکار علی ظفر نے اپنے جذباتی پیغام میں لکھا کہ ثنا یوسف کے بہیمانہ قتل سے میرے دل پر ایک ایسا بوجھ بن گیا ہے جو ہلکا ہونے کا نام نہیں لیتا۔
انھوں نے کہا کہ لیکن یہ غم نیا نہیں ہے۔ قندیل بلوچ سے نور مقدم تک بس نام بدلتے ہیں، زخم وہی رہتا ہے۔
علی ظفر نے مزید لکھا کہ یہ ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم اپنے گھر میں مردوں کی تربیت کریں۔ جب تک ہم اپنے بیٹوں کو نرمی، ہمدردی، احترام اور عزت دینے کی تعلیم نہیں دیں گے، ہم اپنی بیٹیاں کھوتے رہیں گے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں علی ظفر نے اس سانحہ پر اپنی لکھی ہوئی نظم ’’محبت‘‘ سنائی۔
محبت ملکیت نہیں، احساس ہے، یقین ہے
عورت کوئی شے نہیں — وہ مکمل ہے، مکمل ذات
مرد وہی ہے جو عورت کو بلند پرواز میں دیکھ کر مسکرائے
جس کی روح اُس کے آنسو سن کر بے قرار ہو جائے
عزت اُس کے لباس میں نہیں
بلکہ مرد کی نگاہ کی خاموش شائستگی میں ہوتی ہے
محبت فرمانبرداری کی بنیاد پر نہیں
بلکہ برابری، عزت اور باہمی رضامندی پر قائم ہوتی ہے
خوبصورتی کی فانی چمک پر فیصلہ نہ کرو
بلکہ اُس کے نام کی سچائی کو تلاش کرو
کیسا مرد ہے جو عورت کے انکار سے
اپنی انا زخمی محسوس کرے؟
حقیقی مرد دل جیتتا ہے، مانگ کر نہیں، حکم سے نہیں
بلکہ شائستگی کی طاقت اور آزادی دینے والے دل سے
یاد رہے کہ اسلام آباد میں ایک نوجوان نے دوستی سے انکار اور ملنے سے منع کرنے پر ٹک ٹاکر ثنا یوسف کو گھر میں گھس کر گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔
بعد ازاں ملزم فرار ہوگیا تھا جسے پولیس نے فیصل آباد سے حراست میں لے لیا۔ وہ بھی ٹک ٹاکر تھا اور ثنا کی مقبولیت سے حسد کرتا تھا۔
TagsShowbiz News Urdu