افغان طالبان، ٹی ٹی پی سے متعلق پاکستانی تحفظات دور کرنے پر آمادہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیر خارجہ اسحق ڈار کل کابل کا دورہ کریں گے، اس دورے کو پاک افغان روابط میں ایک پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ذرائع نے اسحق ڈار کے دورہ کابل کی تصدیق کرتے ہوئے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ وہ 19 اپریل ( ہفتہ )کو کابل پہنچیں گے، جو تین سال بعد کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ کابل ہے۔
قبل ازیں اکتوبر 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ نے افغانستان کا دورہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں اسلحہ چھوڑنا سنگین فوجی کوتاہی تھی، پاکستان کے خلاف استعمال بند ہو، امریکی عہدیدار
وزیر خارجہ کا یہ دورہ چند سال سے جاری دوطرفہ کشیدگی کے خاتمے کا عکاس ہے جو پاکستان کی سکیورٹی خدشات دور کرنے سے کابل کے گریز کی وجہ سے پیدا ہوئی۔
ذرائع نے کہا کہ نمائندہ خصوصی محمد صادق خان کے کابل میں جائنٹ کوآرڈنیشن کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے بعد طالبان حکومت نے پہلی بار کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق پاکستانی خدشات کے تدارک پر سنجیدگی دکھائی ہے،اس پیش رفت کے تناظر میں وزیر خارجہ کو کابل بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔
مزید پڑھیں: آزاد کشمیر: حقوق تحریک کی آڑ میں دہشتگردی کا نیٹ ورک بےنقاب،بھارت اورافغانستان ملوث ہیں،وزیر داخلہ
نمائندہ خصوصی محمد صادق نے دوطرفہ روابط میں مثبت پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ طویل وقفے کے بعد کابل کیساتھ اعلیٰ سطحی روابط کی بحالی خوش آئند ہے، پاکستان کابل سے مشاورت کیساتھ سہ فریقی اور کثیر فریقی میکانزم فعال بنانے پر کام کرے گا ، جس میں قریبی ہمسائے پلس روس فارمیٹ، پاک چین سہ فریقی، پاکستان ازبکستان سہ فریقی اور پاک ایران سہ فریقی میکانزم شامل ہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے چین کے نمائندہ خصوصی برائے کابل یوی ثیاؤیونگ سے آن لائن ملاقات میں افغانستان کیساتھ سی فریقی عمل کی بحالی پر غور کیا۔
یہ تجویزجلد کابل حکومت کیساتھ زیر بحث آئے گی۔مزید برآں وزیر خارجہ ڈار 22 اپریل کو ڈھاکہ کا بھی دورہ کریں گے جو بڑھتے دوطرفہ روابط کے حوالے ایک اہم پیش رفت اور 2012 کے بعد کسی بھی پاکستانی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ بنگلہ دیش ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان فی الفور دہشت گرد تنظیموں کو لگام ڈالے، اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دے، وزیراعظم
بعد ازاں روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے اسحاق ڈار سے ملاقات کی ۔ملاقات میں مختلف شعبوں میں طویل المدتی، کثیر جہتی شراکت داری کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔
بعد ازاں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد میں آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنٹ سینٹر نے روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف کے ساتھ ایک وسیع گول میز مباحثے کی میزبانی کی۔
آئی ایس ایس آئی میں ہونے والے اجلاس کا مقصد ہتھیاروں کے کنٹرول، علاقائی استحکام اور کثیر جہتی تعاون سمیت متعدد موضوعات پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔
آئی ایس ایس آئی کے شرکاء میں سفیر سہیل محمود ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی، سفیر خالد محمود چیئرمین بی او جی اور آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنٹ سینٹر اور سی ایس پی ٹیموں کے ممبران نے شرکت کی۔
بعد ازاں تیسری اقوام متحدہ امن مشن 2 روزہ وزارتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ عالمی امن واستحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ بعد ازاں افغانستان کے قائم مقام وزیرتجارت و صنعت حاجی نورالدین عزیزی نے اسحاق ڈارسے ملاقات کی۔ ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
افغانستان سے حملہ کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کی ذمے داری کابل پر ہے،عطا تارڑ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-01-7
اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک )وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ مشترکہ نگرانی اور توثیق کے نظام کے قیام کے بعد اب یہ ذمہ داری کابل پر عائد ہوگی کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے جو افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔پاکستانی اور افغان طالبان وفود کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ہفتے کے روز استنبول میں شروع ہوا تھا، تاہم کابل سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں پر اسلام آباد کے دیرینہ تحفظات مذاکرات میں بڑا تنازعہ بنے رہے، جس کے باعث بات چیت میں تعطل پیدا ہوا۔بعد ازاں ترکی اور قطر نے دوسری بار ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں مذاکراتی عمل کو اس وقت بچا لیا، جب پاکستان نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ بات چیت ’ ناکام’ ہوگئی ہے اور اس کے مذاکرات کار وطن واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ان مذاکرات میں تین نکاتی سمجھوتہ طے پایا جنگ بندی کے تسلسل، امن کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی اور تصدیق کے ایک نظام کے قیام، اور معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں سزاؤں پر اتفاق۔ اس نظام کی عملی تفصیلات 6 نومبر کو استنبول میں دونوں جانب کے سینئر نمائندوں کی ملاقات کے دوران طے کی جائیں گی۔نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات نے استنبول میں زیرِ بحث نگرانی کے نظام سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ دنوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے گا اور مشترکہ نظام کے طریقہ کار پر بات چیت ہوگی۔انہوں نے کہا، ’ ذمے داری افغان حکومت پر ہے کیونکہ ان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک اضافی فورم ہوگا جہاں شواہد فراہم کیے جائیں گے، اور افغان طالبان حکومت کو کارروائی کرنا ہوگی۔ اگر وہ کارروائی نہیں کرتے، تو انہیں سزا ملے گی۔’‘‘فتنہ الخوارج’’ کی اصطلاح ریاست کی جانب سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جبکہ بلوچستان میں سرگرم گروہوں کو ‘‘فتنہ الہندوستان’’ کہا گیا ہے تاکہ دہشت گردی اور عدم استحکام میں بھارت کے مبینہ کردار کو اجاگر کیا جا سکے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر یہ نظام قائم ہونے کے بعد افغانستان سے پاکستان پر حملہ ہو تو کیا پاکستان افغان سرزمین پر جوابی کارروائی کرے گا، تو عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ یہ صورتحال پر منحصر ہوگا۔انہوں نے جواب دیا، ’ اگر صورتحال بہت سنگین ہوئی اور پاکستان کو بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت جوابی کارروائی کا حق حاصل ہوا، تو فیصلہ حالات کے مطابق کیا جائے گا۔’انہوں نے مزید کہا، ’ جب یہ نظام قائم ہو جائے گا، مشترکہ تصدیق ہوگی اور شواہد سامنے آئیں گے، تو جو فریق معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا، اسے سزا ملے گی۔ لیکن یہ حالات پر منحصر ہے۔ اب افغان طالبان کے پاس بہانے بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ چونکہ تیسرے فریق بھی شامل ہیں، انہیں کارروائی کرنا ہوگی۔’افغانستان کی جانب سے دہشت گردی کے مشتبہ عناصر کو پاکستان کے حوالے کرنے کی پیشکش سے متعلق سوال کے جواب میں عطاء اللہ تارڑ نے وضاحت کی کہ پاکستانی حکومت نے یہ پیشکش مسترد کر دی تھی اور سوال اٹھایا کہ افغان طالبان انتظامیہ مذاکرات کے بعد اس طرح کے بیانات کیوں دے رہی ہے۔انہوں نے کہا، ’ معاملہ واضح ہے: پاکستان نے پہلے ہی مطالبہ کیا تھا کہ جو دہشت گرد پاکستان کے لیے خطرہ ہیں، انہیں کنٹرول یا گرفتار کیا جائے۔ تاہم افغان فریق کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہیں اور انہیں حوالے کر دیا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ یہ نئے بیانات حقائق کو مسخ کر رہے ہیں۔ ہم نے فوری طور پر سرحدی راستے سے حوالگی کی تجویز دی تھی یہ ہمارا دیرینہ مؤقف ہے۔ ’ میں نہیں جانتا کہ وہ ایسے بیانات دے کر صورتحال کو کیوں پیچیدہ بنا رہے ہیں۔’