برطانیہ، یہودیوں کی نمائندہ تنظیم کی غزہ میں جاری جنگ کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
برطانیہ میں یہودیوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم کے درجنوں ارکان نے غزہ میں جاری ’دل دہلا دینے والی جنگ‘ پر اسرائیلی حکومت کی مذمت کی ہے۔
فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک کھلے خط میں برٹش جیوز کی بورڈ آف ڈپٹیز کے 36 ارکان نے کہا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں دوبارہ شروع کی گئی جارحیت کے نتیجے میں زندگیوں اور روزگار کے ایک بار پھر ضیاع پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔
یہ خط بورڈ کے کچھ ارکان کی طرف سے غزہ کی جنگ کی پہلی مخالفت ہے، بورڈ میں 300 سے زائد ڈپٹیز شامل ہیں۔ خط کے جواب میں بورڈ نے کہا کہ اس کے تقریباً 10 فیصد ارکان اس پر دستخط کنندگان ہیں اور ممکن ہے کہ دیگر بھی اس پیغام سے اتفاق کرتے ہوں۔
بورڈ نے مزید کہا کہ بلاشبہ دیگر ارکان اس خوفناک صورتحال کی بنیادی ذمہ داری حماس پر ڈالنے اور 7 اکتوبر کے سنگین جرائم کے اعادے کو روکنے کی ضرورت پر زور دیں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بورڈ میں رائے کا تنوع اسرائیلی سیاست سے مختلف نہیں، جہاں ایک زوردار جمہوری ماحول میں ان دردناک زندگی اور موت کے معاملات پر شدید بحث ہوتی ہے۔
کھلے خط کے دستخط کنندگان نے اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اسرائیل کی روح چھینی جارہی ہے اور ہم، برٹش جیوز کی بورڈ آف ڈپٹیز کے ارکان اس اسرائیل کے مستقبل کے لیے خوفزدہ ہیں جس سے ہمارا گہرا تعلق ہے۔
خط میں اسرائیلی حکومت پر تنقید کی گئی کہ اس نے جنگ بندی توڑ کر غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا، بجائے اس کے کہ سفارتی راستہ اختیار کرتی اور جنگ بندی کے اگلے مرحلے پر متفق ہوتی۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 2 مارچ کو خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان کی رسائی روک دی اور دو ہفتے بعد جنگ دوبارہ شروع کر دی۔
اسرائیل کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ بندی کے پہلے مرحلے کو بڑھانے اور باقی 59 مغویوں کی رہائی کی پیشکش قبول نہیں کی۔
حماس نے الزام لگایا کہ اسرائیل نے اصل معاہدے کی خلاف ورزی کی، جس کے مطابق دوسرے مرحلے میں تمام باقی زندہ مغویوں کو رہا کرکے جنگ مستقل طور پر ختم کی جانی تھی۔
خط کے ایک اور دستخط کنندہ وکیل فلپ گولڈن برگ نے بی بی سی ریڈیو کو بتایا کہ برطانوی یہودیوں میں رائے کا پورا ایک سلسلہ موجود ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہمیں یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا۔
اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے سرحد پار حملے کے جواب میں حماس کو ختم کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے حماس کے زیرانتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق کم از کم 51,025 افراد غزہ میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
قطر کا اسرائیل کیخلاف عالمی فوجداری عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان
قطر نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے دوحہ میں حماس رہنماؤں پر حملے کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) میں قانونی چارہ جوئی کرے گا۔
اس بات کا اعلان قطری وزیرِ مملکت برائے خارجہ امور ڈاکٹر محمد بن عبدالعزیز الخلیفہ نے اپنے ایک بیان میں کیا۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ ہیگ میں آئی سی سی کی ڈپٹی پراسیکیوٹر نزہت خان سے دو ملاقاتیں کی ہیں جن میں اسرائیل کو قانونی طور پر کٹہرے میں لانے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
قطر کے وزیر خارجہ ڈاکٹر الخلیفہ نے کہا کہ قطر اپنی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر دستیاب قانونی راستہ اختیار کرے گا۔
محمد بن عبدالعزیز الخلیفہ کا مزید کہنا تھا کہ مجرموں کو سزا دلوانے اور عالمی قوانین کے تحت جوابدہ بنانے کے لیے عالمی انصاف کے در پر دستک دی ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب رواں ماہ اسرائیل نے دوحہ میں ایک رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا جس میں حماس کی اعلیٰ قیادت غزہ جنگ بندی سے متعلق امریکی تجویز پر مشاورت کر رہے تھی۔
حماس نے تصدیق کی کہ اسرائیلی حملے میں الخلیل الحیا کے بیٹے سمیت 5 ارکان شہید ہوگئے تھے۔
دوسری جانب اسرائیلی حکام نے تصدیق کی کہ حماس رہنما الخلیل الحیا ہدف تھے جو 7 اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملے کے ذمہ دار تھے۔
اسرائیلی فوج کے بیان میں کہا گیا تھا کہ نشانہ بنائے گئے حماس رہنما وہ افراد تھے جو اسرائیل میں 1,200 شہریوں کے قتل اور 251 افراد کے اغوا میں ملوث تھے۔
تاہم بعض اسرائیلی سیکیورٹی حکام نے اس حملے پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے مذاکرات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ قطر نے دو سال تک اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی اور ایک مرکزی ثالث کے طور پر سامنے آیا ہے لیکن دوحہ پر حملے کے بعد اس نے اسرائیل کے خلاف قانونی جنگ کا فیصلہ کیا۔