پاکستان سپر لیگ کے دسویں ایڈیشن کے میچز اس وقت راولپنڈی اور کراچی میں جاری ہیں۔ لیکن گزشتہ سالوں کی نسبت اس سال عوام میں وہ جوش و خروش دیکھنے کو نہیں ملا۔

 پی ایس ایل 10 کے اب تک ہونے والے میچز میں ایک بھی ہاؤس فل نہیں ہوسکا، پی ایس ایل کے میچوں میں خالی کرسیاں اب ایک معمول بن چکی ہیں جس پرغیر ملکی کھلاڑی بھی بول اٹھے کہ تماشائی کرکٹ کی جان ہوتے ہیں لیکن کراچی میں خالی اسٹیڈیم دیکھ کر مایوسی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیڈیم جا کر پی ایس ایل کے میچز دیکھیں اور پائیں قیمتی انعامات، پی سی بی کا بڑا اعلان

پی ایس ایل کے دوران اسٹیڈیم خالی ہونے پر سوشل میڈیا صارفین نے بھی سوال اٹھایا کہ آخر پی ایس ایل میں اسٹیڈیم خالی کیوں ہیں اس کی وجہ کیا ہے جس کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے سابق کپتان محمد حفیظ نے اس کی 3 وجوہات بیان کی ہیں۔

محمد حفیظ نے کہا کہ پاکستانی ٹیم کی آئی سی سی (انٹرنیشنل کرکٹ کونسل) اور اے سی سی (ایشیائی کرکٹ کونسل) کے بڑے میچز میں خراب پرفارمس اس کی بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر شائقین پاکستانی کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس سے خوش نہیں ہیں۔

Reasons low crowd in PSLX.


1- Pakistan team poor run especially in big events ICC & ACC
2- Surely & rightly fans are not happy
3- Over all experience as fan starting from rout plans, security measures to get to the stadium & so unfriendly experience in grounds https://t.co/zYnqPcIGsk

— Mohammad Hafeez (@MHafeez22) April 16, 2025

سابق کپتان نے پی ایس ایل میچز میں اسٹیڈیم خالی ہونے کی تیسری وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیڈیم تک پہنچنے کے لیے بنائے جانے والے روٹ پلانز،  سیکیورٹی انتظامات اور میدان میں غیر دوستانہ تجربہ بھی اس کی وجہ ہے۔

 کئی صارفین محمد حفیظ کی بات سے اتفاق کرتے نظر آئے کہ انہوں نے بالکل ٹھیک نشاندہی کی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان سپر لیگ پی ایس ایل محمد حفیظ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان سپر لیگ پی ایس ایل محمد حفیظ اسٹیڈیم خالی پی ایس ایل کے محمد حفیظ

پڑھیں:

معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!

بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر  انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔

کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟

کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔

کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟

اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟

یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !

بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔

قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔

میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔

تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔

افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔

نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟

یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راؤ علی

بلوچستان کوئٹہ لڑکیاں

متعلقہ مضامین

  • 2024 سے اب تک زیادہ شکستوں کا منفی ریکارڈ پاکستان کے نام جڑ گیا
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • عاشر وجاہت نے ہانیہ عامر سے دُوری کیوں اختیار کی؟
  • حلف نہ اٹھانے پر نشست خالی ہونے کا قانون، مراد سعید کے ڈی سیٹ ہونے کی باتیں لیکن  کیا اسحاق ڈار ڈی سیٹ ہوئے؟
  • اجے دیوگن کی اسٹیڈیم میں شاہد آفریدی سے ملاقات، بھارت میں ہنگامہ مچ گیا
  • تجربہ کار آل راؤنڈر محمد نبی بیٹے کے ہاتھوں پٹ گئے
  • کراچی کی مخدوش عمارتیں مکینوں سے خالی کروا کے بلڈرز کو فروخت کی جاسکتی ہیں، ایم کیو ایم
  • انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں بھارت کو بڑا دھچکا
  • سیریز بچانے کا آخری موقع، پاکستان دوسرے ٹی20 میں آج بنگلہ دیش کے خلاف کھیلے گا
  • حمیرا اصغر کی موت کی وجہ کرائے کا تنازعہ تو نہیں؟ نئی دستاویزات منظرعام پر آگئیں