آئی ٹی برآمدات 2.828 بلین ڈالر کی تاریخی سطح پر، وزیراعظم کا 23 فیصد اضافے کا خیرمقدم
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے مالی سال 2025 کے پہلے 9 ماہ کے دوران انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کی برآمدات میں 2.828 بلین ڈالر تک پہنچنے اور گزشتہ برس کے مقابلے میں 23 فیصد اضافے کو ایک اہم کامیابی قرار دیا ہے۔
وزیراعظم نے اس نمایاں پیش رفت کو سراہتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے بروقت اور مناسب سہولیات کی فراہمی نے آئی ٹی شعبے کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں برآمدات میں تاریخی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت آئی ٹی برآمدات 2.
وزیراعظم نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ پاکستان کے آئی ٹی آنٹرپرینیورز نے نہ صرف روایتی مارکیٹوں میں بلکہ نئی بین الاقوامی منڈیوں میں بھی اپنی خدمات فراہم کیں، جو حکومتی پالیسیوں اور مراعات کا عملی ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ٹی برآمدات میں یہ غیر معمولی اضافہ حکومت کی ٹیم کی انتھک محنت، وژن اور موثر پالیسی سازی کا نتیجہ ہے۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ آئی ٹی شعبے میں کام کرنے والے ماہرین کی تعداد بڑھانے کے لیے حکومت سرگرم ہے، تاکہ مزید نوجوان بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر سکیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت آئی ٹی سیکٹر کو مزید وسعت دینے، اس کی استعداد کو بڑھانے اور برآمدات میں اضافے کے لیے پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو جدید آئی ٹی اسکلز سے لیس کرنے سے نہ صرف انفرادی سطح پر روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ قومی معیشت بھی مضبوط ہوگی۔
Post Views: 3ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: برآمدات میں نے کہا کہ آئی ٹی
پڑھیں:
فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اٹلی: غزہ کے 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے ایک طویل، پرخطر اور غیر معمولی سفر کے بعد بالآخر یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں اٹلی کا رخ کیا، یہ سفر ایک سال سے زائد عرصہ، ہزاروں ڈالر کے اخراجات، کئی ناکامیوں اور بالآخر ایک جیٹ اسکی کے ذریعے ممکن ہوا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ابو دخہ نے اپنی کہانی ویڈیوز، تصاویر اور آڈیو فائلز میں دستاویزی شکل میں ریکارڈ کی جو انہوں نے عالمی میڈیا سے شیئر کیں، جس میں بتایا کہ وہ غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ اسرائیل، حماس جنگ کی تباہ کاریوں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، جس میں مقامی حکام کے مطابق اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اپریل 2024 میں 5 ہزار ڈالر ادا کر کے رفح سرحد کے راستے مصر کا سفر کیا بعدازاں وہ پناہ کے لیے چین گئے لیکن ناکامی پر ملیشیا اور انڈونیشیا کے راستے دوبارہ مصر لوٹ آئے، پھر لیبیا پہنچے جہاں انسانی اسمگلروں کے ساتھ دس ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے تقریباً 5 ہزار ڈالر میں ایک استعمال شدہ یاماہا جیٹ اسکی خریدی، اضافی 1500 ڈالر جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس پر خرچ کیے۔
دو دیگر فلسطینی ساتھیوں کے ساتھ انہوں نے 12 گھنٹے کا سمندری سفر کیا، دورانِ سفر انہیں تیونس کی گشتی کشتی کا تعاقب بھی برداشت کرنا پڑا، ایندھن ختم ہونے پر 20 کلومیٹر دوری پر انہوں نے مدد طلب کی، جس کے بعد یورپی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کے ایک مشن کے تحت رومانیہ کی گشتی کشتی نے انہیں بچایا اور وہ 18 اگست کو لampedusa پہنچے۔
یورپی ادارے کے ترجمان کے مطابق یہ واقعہ ’’انتہائی غیر معمولی‘‘ تھا، ابو دخہ اور ان کے ساتھیوں کو اٹلی کے جزیرے سے سسلی منتقل کیا گیا مگر بعد میں وہ حکام کی نگرانی سے نکل کر جینوا سے برسلز روانہ ہو گئے اور پھر جرمنی جا پہنچے، جہاں وہ اس وقت پناہ کے درخواست گزار کے طور پر مقیم ہیں۔
ابو دخہ کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان خان یونس کے ایک خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہے، جہاں ان کا گھر جنگ میں تباہ ہو چکا ہے، ان کے والد نے کہا کہ وہاں اس کا انٹرنیٹ شاپ تھا اور زندگی کافی بہتر تھا مگر سب کچھ تباہ ہوگیا۔
خیال رہےکہ ابو دخہ اس وقت جرمنی کے شہر برامشے میں ایک پناہ گزین مرکز میں مقیم ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو، جن میں سے ایک کو نیورولوجیکل مرض لاحق ہے، جرمنی بلا سکیں، انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے اپنی جان داؤ پر لگائی، بغیر اپنے خاندان کے زندگی کی کوئی معنویت نہیں۔
غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور امریکی حمایت کو مقامی عوام نے امداد کے نام پر دہشت گردی قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن رہے ہیں جبکہ اسپتال، پناہ گزین کیمپ اور بنیادی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہیں، عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے، دوسری جانب مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور خاموشی نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔