Express News:
2025-04-25@02:04:53 GMT

خطرات سے بھری دنیا

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

ہم سب جیسا بچپن گزارتے ہیں، اس میں ہمارے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا مگر جب ہمارے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں اور ہر آنے والا دن انھیں پہلے سے ذرا سا بڑا کر دیتا ہے تو ہم ان کے حوالے سے خواب دیکھنا شروع کردیتے ہیں، ہر وقت انھی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ انھیں ایسا بچپن مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی یادیں ہمارے بچپن سے بہتر ہوں ۔

دل چاہتا ہے کہ ان کے لیے سب سے اچھا تلاشیں، خواہ وہ کوئی لباس ہو، کھانا، اسکول یا اس سے بڑا کوئی انتخاب۔ ہم انھیں وہ سب کچھ دینے کی کوشش کرتے ہیں جو وہ مانگتے ہیں ، وہ بھی جو وہ نہ مانگیں اور ہمیں علم ہو کہ اس کے پاس ہونا چاہیے۔ دوسروں کے بچوں کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ ہمارے بچوں کے پاس بھی ہونا چاہیے، یہی ہماری خواہش ہوتی ہے۔ ہمارے سارے سپنے اپنے بچوں کے گرد ہوتے ہیں، اپنی خواہشات تو درکنار… اپنی ضروریات کو بھی ہم پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ہم سے جو کچھ بن پاتاہے وہ اپنے بچوں کے لیے کرتے ہیں مگر ہم سے کچھ بنیادی غلطیاں بھی سرزد ہو جاتی ہیں۔

ہم اپنے بچوں کو ان خطرات سے آگاہ نہیں کرتے جن کے بارے میں ہم ان کی پیدائش کے فوراً بعد سے خود پریشان رہتے ہیں۔ انھیں کوئی بیماری نہ ہو جائے، ذرا سی بے احتیاطی سے انھیں کوئی چوٹ نہ لگ جائے۔ بچے کی پرورش میں اس کے نئے نئے بننے والے والدین چھوٹی سے چھوٹی بات پر پریشان ہو کر یا تو ڈاکٹر وںکے پاس دوڑتے ہیں یا نانیوں دادیوں سے ٹونے اور ٹوٹکے پوچھتے ہیں۔

بچے ذرا سے بڑے ہوتے ہیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ اب تک کی پریشانیاں تو بہت چھوٹی چھوٹی پریشانیاں تھیں، اس سے آگے اس سے بڑے بڑے مسائل ہیں۔ بچہ چلتا ہے تو کسی اونچی جگہ سے گر نہ جائے، لاعلمی میں کمرے یا گھر سے باہر نہ نکل جائے، بجلی کے کسی سوئچ میں انگلی نہ ڈال دے، باورچی خانے میں کسی گرم چیز سے اس کا ہاتھ نہ چھو جائے یا وہ گرم پانی اپنے اوپر نہ الٹا لے۔

ذرا سا اور بڑا ہوتا ہے ، بڑھتی عمر کے ساتھ وہ اپنے گھر کی حدود سے نکل کر گھر سے باہر جانا شروع کر دیتا ہے، وہ اسکول جاتا ہے، مسجد جاتا ہے، دوستوں کے گھروں میں جاتا ہے، بازاروں میںجاتا ہے، کسی تفریحی مقام پر جاتا ہے، غرض جہاں جہاں ہمیںجانا ہے وہ ہر جگہ ہمارے ساتھ ہو گا، کوشش ہوتی ہے کہ وہ نظر کے سامنے رہے مگر جب وہ اسکول، ٹیوشن پر یا مسجد جاتا ہے تو ہم اس کے ساتھ نہیں ہوتے، وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کو جاتا ہے تو ہم ہمہ وقت اس کے ساتھ نہیں ہوتے۔

یہ وہ وقت ہے جب ہمارا بچہ ہر طرف سے خطروں میں گھرا ہوا ہوتا ہے، اغوا ، جسمانی استحصال، تشدد، گالی گلوچ، غصہ، بری صحبتیں، سگریٹ، نشہ آور اشیاء، غلط سلط فلمیں دیکھنا، چھیڑ چھاڑ، شرارت ہی شرارت میں چوری چکاری کی وارداتیں کرنا، آپس میں ایسے خطر ناک prank  کرنا جس سے خود ان کو یا کسی دوسرے کو نقصان ہو جائے۔

 بغیر باقاعدہ سیکھے یا لائسنس حاصل کیے گاڑیاں چلانا، اسلحہ کا استعمال سیکھ لینا۔ ہم والدین اپنی سادگی میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچہ بالکل سیدھا ہے، اپنے کام سے کام رکھتا ہے، گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر آتا ہے، مسجد جاتا ہے اور لوٹ آتا ہے۔ ہمیں علم ہی نہیں ہو پاتا کہ کب اور کہاں بچہ اپنے بچپن سے کتنا دور نکل جاتا ہے ، اس کی فطری سادگی کا رنگ اتر چکا ہوتا ہے ۔

ا س کی دوستیوں، کلاس اور صحبت سے ہم لاعلم ہوتے ہیں اس لیے ہمارے اور اس کے بیچ ایک ان دیکھی خلیج حائل ہو چکی ہوتی ہے جو اس وقت پاٹی نہیں جا سکتی۔اس دور میں اس کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر اس کے دماغ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتا ہے ۔

گھروں میں خراب ماحول ، بچوں کے بیچ تفریق، رشتہ داروں کی دخل اندازی اور والدین کے بیچ نااتفاقی کی وجہ سے بچے ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض حادثات اور واقعات کے نتیجے میں وہ خود ایک صحت مندانہ زندگی نہیں گزار پاتے ۔ تعلیمی اداروں، کھیل کے میدا ن ، ملازمت اور کاروبار میں مقابلے کی دوڑ میں رہتے ہوئے انسان ہر وقت غصے اور جھنجلاہٹ کا شکار ہوتا اور دوسروں پرغصہ نکالتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچے ہمارے قد سے اوپر چلے جاتے ہیں اور ہم ان کے لیے دعاؤں کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتے۔

جن بچوں کو ہم نے مرغی کی طرح اپنے پروں میں سمیٹ کر پالا ہوتا ہے وہ جب بچپن اور جوانی میں ہمارے سامنے اس دنیا کے میدان میں کھیلنے نکلتے ہیں تو ہمیں ان کی عافیت کی فکر رہتی ہے کیونکہ ان کے پاس جذبہ ہوتا ہے اور ہمارے پاس تجربہ۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے انسان کے تجربات سے نہیں سیکھتا خواہ ایک باپ بیٹے کو ممکنہ خطرات کے بارے میں سکھانا چاہے یا ماں اپنی بیٹی کو رشتوں کی لڑی میں پروئے جانے کے بعد زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھانا چاہے۔

ہر کوئی آگ سے ہاتھ جلا کر ہی سیکھتا ہے کہ آگ جلاتی ہے، ہم لاکھ اپنے بچوں کو سمجھانا چاہیں مگر وہ عمر کے اس مقام پر ہوتے ہیں جہاں اولاد خود کو اپنے والدین سے بڑھ کر عقل مند اور معاملہ فہم سمجھنے لگتی ہے۔ انھیں والدین old school والے اور پرانے خیالات کے حامل لگتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے والدین اس سے تیس برس پہلے اس عمر میں تھے تو وہ وقت پرانا تھا، اس وقت حالات مختلف تھے مگر پھر بھی موجودہ حالات کے تناظر میں بھی بہت سے مقامات ایسے آتے ہیں کہ والدین اس وقت بھی اولاد کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔

اپنے ارد گرد خطروں سے بھری دنیا کو دیکھ کر صرف اپنے ہی نہیں، دوسروں کے بچوں کے بارے میں بھی پریشانی ہوتی ہے۔ سب والدین ایسے ہی ہوتے ہیں، اگر ایک جانور بھی اپنی اولاد سے اتنا پیار کرتا ہے کہ اس کے تحفظ کی خاطر اپنی جان بھی داؤ پر لگا دیتا ہے تو انسان کو تو اپنی اولاد اس سے کہیں پیاری ہوتی ہے کیونکہ وہ جذبات بھرا دل اور پرسوچ دماغ رکھتا ہے ۔ وہ بامعنی الفاظ بولنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اسے خوشی ، دکھ ، محبت، نفرت اور غصے کے اظہار کا قرینہ آتا ہے ۔ جانور ایک وقت کا کھا لیں تو انھیں اگلے وقت کے رزق کی فکر نہیں ہوتی مگر انسان اپنے ہی نہیں بلکہ اپنی اولادوں اور ان کی اولادوں کی فکر میں بھی مبتلا رہتا ہے، اس کے لیے تگ و دو کرتا ہے ، بچت کرتا ہے، منصوبہ بندی کرتا ہے۔

اگر سوچا جائے تو اس وقت اس دنیا میں جتنے بھی خطرات ہیں وہ کسی اور کے نہیں بلکہ خود انسانوں کے ہی پیدا کردہ ہیں۔ جب چیزوں کو ہم اس دور میں فتنہ سمجھتے ہیں یا خرابی کا باعث… وہ سب انسانوں ہی کی پیدا کردہ ہیں۔ ایجادات، جن کی وجہ سے زندگی میں سو آسانیاں ہیں، وہی ایجادات سو مسائل کا باعث بھی ہیں، سارا فرق ان کے استعمال کا ہے۔ جس طرح سانپ کے اپنے زہر کا تریاق اس کے اندر ہوتا ہے، کوئی تالا چابی کے بغیر نہیں بنایا جاتا، اسی طرح ہر مسئلے کا حل اس کی سمجھ بوجھ میں ہی چھپا ہوتا ہے۔

رشتہ داروں میں مخلص بھی ہوتے ہیں اور منافق بھی، انھیں پہچاننا بڑوں کا کام ہے اور بچوں کو ان سے بچا کر رکھنا بھی۔ دوستوں میںبھی وفادار ہوتے ہیں اور دل میں بغض رکھنے والے، آپ کی خوشی میں خوش ہونے والے بھی اور آپ کی خوشی میں دکھی ہوجانے والے بھی۔ آپ کی ذہانت سے متاثر ہوکر آپ کے دوست بننے والے بھی اور آپ کی ذہانت سے حسد میں مبتلا ہوکر آپ کو نقصان پہنچانے والے بھی، بظاہر دوستی کا لبادہ اوڑھ کر آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے، آپ کو بری لت میں مبتلا کر کے آپ کی زندگی کی کھلی راہوں کو مسدود کر دینے والے بھی۔اپنے بچوں کو اچھا کھلائیں، پہنائیں، پڑھائیں اور بسائیں مگر ان کے اندر اچھے برے کی پہچان کا شعور اس کی بہت کم عمری سے سکھانا شروع کر دیں کیونکہ جونہی وہ آپ کے قد کو پہنچ جائیں گے وہ خود کو آپ سے زیادہ عقل مند سمجھنا شروع کر دیں گے اور سمجھنے سمجھانے کا وقت گزر چکا ہو گا۔ صرف یہی نہ سمجھائیں کہ دنیا میں کیا کیا برائیاں، خرابیاں اور خطرات ہیں، یہ پہلے سکھائیں کہ وہ ایسے نہ بنیں کہ جس کی وجہ سے کوئی دوسرا خطرے میں مبتلا نہ ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے بارے میں اپنے بچوں ہوتے ہیں والے بھی بچوں کو ہوتی ہے کے ساتھ جاتا ہے ہوتا ہے بچوں کے نہیں ہو کرتا ہے ہیں اور کے پاس کے لیے

پڑھیں:

غزہ کے بچوں کے نام

رات کے اندھیرے میں جب دنیا کے خوشحال اور پرامن شہروں میں نیند اپنی پُرکیف آغوش میں لوگوں کو سلاتی ہے تب غزہ میں مائیں اپنے بچوں کو ملبے تلے ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔ نہ بجلی ہے نہ پانی نہ دوا نہ دلاسہ۔ ہر طرف خاک اُڑتی ہے اس مٹی میں بے گناہ فلسطینی دفن ہیں۔

 وہ بچی جو اسکول سے واپس آرہی تھی، آسمان سے برستی آگ کی ایک لکیر نے اس کا بستہ اس کی کاپی اس کا ننھا سا یونیفارم اور اس کا وجود ایک لمحے میں مٹا دیا۔ دنیا کی خاموشی نے اس معصوم کی موت کو محض ایک کولیٹرل ڈیمیج میں بدل دیا۔

غزہ اب کوئی جغرافیائی حقیقت نہیں۔ یہ اب ایک اجتماعی قبر ہے جہاں ہر دن نئی قبریں کھو دی جاتی ہیں مگرکوئی کتبہ نہیں لگتا۔ نہ نام، نہ تاریخ پیدائش، نہ تاریخِ وفات۔ بس ایک ہجوم ہے جو ماضی حال اور مستقبل کو اپنی آنکھوں کے سامنے دفن کرتا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں حکومتیں لڑتی ہیں مگر مرتے عوام ہیں۔ غزہ میں تو حکومتیں بھی محصور ہوچکی ہیں اور عوام بھی۔ یہاں امن کا دروازہ کھلتا نظر نہیں آرہا اور لوگ بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔ایک طرف بمبار طیارے ہیں اور دوسری طرف بچوں کی وہ تصویریں جوکبھی اسکول کے کارڈ پر لگی تھیں۔

یہ کون سا انصاف ہے کہ ایک پورا خطہ دنیا کی سب سے جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کے نشانے پر ہو اور اس کی واحد طاقت اس کی مظلومیت ہو؟ یہ کون سا عالمی ضمیر ہے جو یوکرین کے لیے آنکھوں میں آنسو بھر لیتا ہے مگر فلسطین کے لیے اس کی زبان گُنگ اور قلم خشک ہوجاتا ہے؟

میں سوچتی ہوں اگر محمود درویش آج زندہ ہوتے توکیا لکھتے؟ کیا وہ پھر کہتے’’ ہم زندہ رہیں گے کیونکہ ہم مرنا نہیں چاہتے۔‘‘یا پھر خاموش ہو جاتے؟ جب مسلسل بمباری میں زندگی کی ہر صورت بکھر جائے تو شاعری بھی بے بس ہو جاتی ہے۔غزہ کے اسپتالوں میں زخمی بچوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ موت کا گہرا سایہ ہر وقت فلسطینیوں کے سر پہ منڈلاتا رہتا ہے۔ ایک بچہ جس کی دونوں ٹانگیں اُڑ چکی ہیں۔ اپنی ماں سے پوچھتا ہے’’ امی،کیا اب بھی میں اسکول جا سکوں گا؟‘‘ اور ماں اپنی چیخ اپنے سینے میں دفن کر لیتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی قراردادیں انسانی حقوق کے عالمی منشور انصاف کے دعوے دار بین الاقوامی ادارے سب غزہ میں ہونے والے ظلم کو روکنے سے قاصر ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ غزہ میں ہونے والے مکروہ جرائم کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں مگر اسرائیل اور امریکا کی حکومتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ مگر تاریخ اس ظلم و زیادتی کو نہ بھولے گی اور نہ معاف کرے گی۔

میں نے ایک بوڑھی فلسطینی عورت کی تصویر دیکھی جو اپنی بیٹی کی لاش پر بیٹھ کر کہہ رہی تھی ’’ یہ میری آخری امید تھی اب خدا ہی باقی ہے۔‘‘ اُس عورت کی آنکھوں میں وہ دکھ تھا جسے لفظوں میں نہیں سمویا جا سکتا۔ یہ دکھ کسی ایک ماں کا نہیں پورے مشرقِ وسطیٰ کا نوحہ ہے جو روز نئی لاشوں پر ماتم کرتا ہے۔

ظلم جہاں بھی ہو انسان کے اندرکی انسانیت اگر زندہ ہو تو خاموش نہیں رہ سکتا۔ تو پھر یہ عالمِ اسلام کیوں خاموش ہے؟ تمام مسلم ممالک فلسطینیوں کے لیے کیا کررہے ہیں؟ اس خاموشی کا حساب ایک نہ ایک دن دینا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ تمام ممالک ایک ہوکر فلسطینیوں کی آواز بنیں اور ان کا ساتھ دیں۔ کیسے ان بچوں سے منہ موڑا جاسکتا ہے جو اسرائیل کی درندگی کا شکار ہو رہی ہیں۔

کیا ہم صرف اس وقت جاگتے ہیں جب مظلوم ہماری زبان بولے ہمارا لباس پہنے یا ہمارے مفادات سے جُڑا ہو؟ اگر ظلم کو صرف قوم نسل یا مذہب کے ترازو میں تولا جائے تو انسانیت کہاں جائے گی۔میری آنکھوں کے سامنے غزہ کا ایک اور منظر آتا ہے ایک لڑکی جو اپنی چھوٹی بہن کو گود میں لیے کھڑی ہے، اس کے سر سے خون بہہ رہا ہے مگر وہ رو نہیں رہی۔ وہ بس خلا میں دیکھ رہی ہے جیسے سوال کر رہی ہو’’ کیا میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں فلسطینی ہوں؟‘‘یہ سوال صرف اسرائیل سے نہیں ہم سب سے ہے۔جو لوگ غزہ کے ظلم پر خاموش ہیں وہ درحقیقت اس بچی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے قابل نہیں۔کیونکہ وہاں صرف لہو نہیں ایک پوری نسل کی شکستہ امیدیں جھلک رہی ہیں۔

پاپائے روم فرینسس، نے کہا’’ یہ جنگ نہیں یہ نسل کشی ہے۔‘‘ مگر کیا یہ آواز عالمی عدالتوں کے کانوں تک پہنچی؟ یا پھر وہ عدالتیں صرف ان کے لیے کھلتی ہیں جو سفید فام ہوں یا جن کے پاس نیٹوکی چھتری ہو؟غزہ کی بربادی صرف اسرائیلی اور امریکی ریاستوں کی جارحیت کا شکار نہیں بلکہ وہ حکومتیں جو اس ظلم پر خاموش ہیں وہ سب اس گناہ میں شریک ہیں۔ جہاں حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، وہیں دنیا بھر میں عام آدمی سڑکوں پہ فلسطین کے لیے اپنی آواز اٹھا رہا ہے۔

میں چاہتی ہوں کہ اس تحریرکے آخر میں کوئی امید کی بات لکھوں مگر جھوٹ نہیں لکھ سکتی۔ غزہ کے بچوں کی لاشوں پر امن کی کوئی داستان نہیں لکھی جا سکتی۔ ہاں اگرکچھ باقی ہے تو یہ ایک سوال جو ہر باشعور انسان کے دل میں جاگنا چاہیے۔ ’’ اگر ہم نے آج غزہ کے لیے آواز نہ اٹھائی تو کل جب ہمارے دروازے پر قیامت آئے گی تو کون ہمارے لیے بولے گا؟‘‘

متعلقہ مضامین

  • بھارت ہمیشہ خود ہی مدعی، خود ہی گواہ اور جج بن جاتا ہے
  • پنجاب پولیس کے میٹرک پاس بچوں کیلئے مفت اسکلز ڈیولپمنٹ کورسز کا فیصلہ
  • پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا کر بھارت اپنے جرائم چھپانا چاہتا ہے، صدر آزاد کشمیر سلطان چوہدری
  • پاکستان دنیا کا 5 واں سب سے زیادہ آب و ہوا کا شکار ملک قرار
  • والدین اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لازمی لگوائیں: مریم نواز
  • وفاق و صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکیں، اپوزیشن کا کوئی باضابطہ اتحاد نہیں: فضل الرحمن
  • نیا پوپ کون ہوگا چارنام زیر غور، کیتھولک دنیا کی نظریں ویٹیکن پرجم گئیں
  • جو نام ہم بھجواتے وہ جیل انتظامیہ قبول نہیں کرتی، نعیم حیدر
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • دہشت گردوں سے لڑنا نہیں بیانیے کا مقابلہ کرنا مشکل ہے، انوارالحق کاکڑ