Express News:
2025-11-03@17:12:09 GMT

خطرات سے بھری دنیا

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

ہم سب جیسا بچپن گزارتے ہیں، اس میں ہمارے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا مگر جب ہمارے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں اور ہر آنے والا دن انھیں پہلے سے ذرا سا بڑا کر دیتا ہے تو ہم ان کے حوالے سے خواب دیکھنا شروع کردیتے ہیں، ہر وقت انھی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ انھیں ایسا بچپن مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی یادیں ہمارے بچپن سے بہتر ہوں ۔

دل چاہتا ہے کہ ان کے لیے سب سے اچھا تلاشیں، خواہ وہ کوئی لباس ہو، کھانا، اسکول یا اس سے بڑا کوئی انتخاب۔ ہم انھیں وہ سب کچھ دینے کی کوشش کرتے ہیں جو وہ مانگتے ہیں ، وہ بھی جو وہ نہ مانگیں اور ہمیں علم ہو کہ اس کے پاس ہونا چاہیے۔ دوسروں کے بچوں کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ ہمارے بچوں کے پاس بھی ہونا چاہیے، یہی ہماری خواہش ہوتی ہے۔ ہمارے سارے سپنے اپنے بچوں کے گرد ہوتے ہیں، اپنی خواہشات تو درکنار… اپنی ضروریات کو بھی ہم پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ہم سے جو کچھ بن پاتاہے وہ اپنے بچوں کے لیے کرتے ہیں مگر ہم سے کچھ بنیادی غلطیاں بھی سرزد ہو جاتی ہیں۔

ہم اپنے بچوں کو ان خطرات سے آگاہ نہیں کرتے جن کے بارے میں ہم ان کی پیدائش کے فوراً بعد سے خود پریشان رہتے ہیں۔ انھیں کوئی بیماری نہ ہو جائے، ذرا سی بے احتیاطی سے انھیں کوئی چوٹ نہ لگ جائے۔ بچے کی پرورش میں اس کے نئے نئے بننے والے والدین چھوٹی سے چھوٹی بات پر پریشان ہو کر یا تو ڈاکٹر وںکے پاس دوڑتے ہیں یا نانیوں دادیوں سے ٹونے اور ٹوٹکے پوچھتے ہیں۔

بچے ذرا سے بڑے ہوتے ہیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ اب تک کی پریشانیاں تو بہت چھوٹی چھوٹی پریشانیاں تھیں، اس سے آگے اس سے بڑے بڑے مسائل ہیں۔ بچہ چلتا ہے تو کسی اونچی جگہ سے گر نہ جائے، لاعلمی میں کمرے یا گھر سے باہر نہ نکل جائے، بجلی کے کسی سوئچ میں انگلی نہ ڈال دے، باورچی خانے میں کسی گرم چیز سے اس کا ہاتھ نہ چھو جائے یا وہ گرم پانی اپنے اوپر نہ الٹا لے۔

ذرا سا اور بڑا ہوتا ہے ، بڑھتی عمر کے ساتھ وہ اپنے گھر کی حدود سے نکل کر گھر سے باہر جانا شروع کر دیتا ہے، وہ اسکول جاتا ہے، مسجد جاتا ہے، دوستوں کے گھروں میں جاتا ہے، بازاروں میںجاتا ہے، کسی تفریحی مقام پر جاتا ہے، غرض جہاں جہاں ہمیںجانا ہے وہ ہر جگہ ہمارے ساتھ ہو گا، کوشش ہوتی ہے کہ وہ نظر کے سامنے رہے مگر جب وہ اسکول، ٹیوشن پر یا مسجد جاتا ہے تو ہم اس کے ساتھ نہیں ہوتے، وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کو جاتا ہے تو ہم ہمہ وقت اس کے ساتھ نہیں ہوتے۔

یہ وہ وقت ہے جب ہمارا بچہ ہر طرف سے خطروں میں گھرا ہوا ہوتا ہے، اغوا ، جسمانی استحصال، تشدد، گالی گلوچ، غصہ، بری صحبتیں، سگریٹ، نشہ آور اشیاء، غلط سلط فلمیں دیکھنا، چھیڑ چھاڑ، شرارت ہی شرارت میں چوری چکاری کی وارداتیں کرنا، آپس میں ایسے خطر ناک prank  کرنا جس سے خود ان کو یا کسی دوسرے کو نقصان ہو جائے۔

 بغیر باقاعدہ سیکھے یا لائسنس حاصل کیے گاڑیاں چلانا، اسلحہ کا استعمال سیکھ لینا۔ ہم والدین اپنی سادگی میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچہ بالکل سیدھا ہے، اپنے کام سے کام رکھتا ہے، گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر آتا ہے، مسجد جاتا ہے اور لوٹ آتا ہے۔ ہمیں علم ہی نہیں ہو پاتا کہ کب اور کہاں بچہ اپنے بچپن سے کتنا دور نکل جاتا ہے ، اس کی فطری سادگی کا رنگ اتر چکا ہوتا ہے ۔

ا س کی دوستیوں، کلاس اور صحبت سے ہم لاعلم ہوتے ہیں اس لیے ہمارے اور اس کے بیچ ایک ان دیکھی خلیج حائل ہو چکی ہوتی ہے جو اس وقت پاٹی نہیں جا سکتی۔اس دور میں اس کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر اس کے دماغ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتا ہے ۔

گھروں میں خراب ماحول ، بچوں کے بیچ تفریق، رشتہ داروں کی دخل اندازی اور والدین کے بیچ نااتفاقی کی وجہ سے بچے ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض حادثات اور واقعات کے نتیجے میں وہ خود ایک صحت مندانہ زندگی نہیں گزار پاتے ۔ تعلیمی اداروں، کھیل کے میدا ن ، ملازمت اور کاروبار میں مقابلے کی دوڑ میں رہتے ہوئے انسان ہر وقت غصے اور جھنجلاہٹ کا شکار ہوتا اور دوسروں پرغصہ نکالتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچے ہمارے قد سے اوپر چلے جاتے ہیں اور ہم ان کے لیے دعاؤں کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتے۔

جن بچوں کو ہم نے مرغی کی طرح اپنے پروں میں سمیٹ کر پالا ہوتا ہے وہ جب بچپن اور جوانی میں ہمارے سامنے اس دنیا کے میدان میں کھیلنے نکلتے ہیں تو ہمیں ان کی عافیت کی فکر رہتی ہے کیونکہ ان کے پاس جذبہ ہوتا ہے اور ہمارے پاس تجربہ۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے انسان کے تجربات سے نہیں سیکھتا خواہ ایک باپ بیٹے کو ممکنہ خطرات کے بارے میں سکھانا چاہے یا ماں اپنی بیٹی کو رشتوں کی لڑی میں پروئے جانے کے بعد زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھانا چاہے۔

ہر کوئی آگ سے ہاتھ جلا کر ہی سیکھتا ہے کہ آگ جلاتی ہے، ہم لاکھ اپنے بچوں کو سمجھانا چاہیں مگر وہ عمر کے اس مقام پر ہوتے ہیں جہاں اولاد خود کو اپنے والدین سے بڑھ کر عقل مند اور معاملہ فہم سمجھنے لگتی ہے۔ انھیں والدین old school والے اور پرانے خیالات کے حامل لگتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے والدین اس سے تیس برس پہلے اس عمر میں تھے تو وہ وقت پرانا تھا، اس وقت حالات مختلف تھے مگر پھر بھی موجودہ حالات کے تناظر میں بھی بہت سے مقامات ایسے آتے ہیں کہ والدین اس وقت بھی اولاد کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔

اپنے ارد گرد خطروں سے بھری دنیا کو دیکھ کر صرف اپنے ہی نہیں، دوسروں کے بچوں کے بارے میں بھی پریشانی ہوتی ہے۔ سب والدین ایسے ہی ہوتے ہیں، اگر ایک جانور بھی اپنی اولاد سے اتنا پیار کرتا ہے کہ اس کے تحفظ کی خاطر اپنی جان بھی داؤ پر لگا دیتا ہے تو انسان کو تو اپنی اولاد اس سے کہیں پیاری ہوتی ہے کیونکہ وہ جذبات بھرا دل اور پرسوچ دماغ رکھتا ہے ۔ وہ بامعنی الفاظ بولنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اسے خوشی ، دکھ ، محبت، نفرت اور غصے کے اظہار کا قرینہ آتا ہے ۔ جانور ایک وقت کا کھا لیں تو انھیں اگلے وقت کے رزق کی فکر نہیں ہوتی مگر انسان اپنے ہی نہیں بلکہ اپنی اولادوں اور ان کی اولادوں کی فکر میں بھی مبتلا رہتا ہے، اس کے لیے تگ و دو کرتا ہے ، بچت کرتا ہے، منصوبہ بندی کرتا ہے۔

اگر سوچا جائے تو اس وقت اس دنیا میں جتنے بھی خطرات ہیں وہ کسی اور کے نہیں بلکہ خود انسانوں کے ہی پیدا کردہ ہیں۔ جب چیزوں کو ہم اس دور میں فتنہ سمجھتے ہیں یا خرابی کا باعث… وہ سب انسانوں ہی کی پیدا کردہ ہیں۔ ایجادات، جن کی وجہ سے زندگی میں سو آسانیاں ہیں، وہی ایجادات سو مسائل کا باعث بھی ہیں، سارا فرق ان کے استعمال کا ہے۔ جس طرح سانپ کے اپنے زہر کا تریاق اس کے اندر ہوتا ہے، کوئی تالا چابی کے بغیر نہیں بنایا جاتا، اسی طرح ہر مسئلے کا حل اس کی سمجھ بوجھ میں ہی چھپا ہوتا ہے۔

رشتہ داروں میں مخلص بھی ہوتے ہیں اور منافق بھی، انھیں پہچاننا بڑوں کا کام ہے اور بچوں کو ان سے بچا کر رکھنا بھی۔ دوستوں میںبھی وفادار ہوتے ہیں اور دل میں بغض رکھنے والے، آپ کی خوشی میں خوش ہونے والے بھی اور آپ کی خوشی میں دکھی ہوجانے والے بھی۔ آپ کی ذہانت سے متاثر ہوکر آپ کے دوست بننے والے بھی اور آپ کی ذہانت سے حسد میں مبتلا ہوکر آپ کو نقصان پہنچانے والے بھی، بظاہر دوستی کا لبادہ اوڑھ کر آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے، آپ کو بری لت میں مبتلا کر کے آپ کی زندگی کی کھلی راہوں کو مسدود کر دینے والے بھی۔اپنے بچوں کو اچھا کھلائیں، پہنائیں، پڑھائیں اور بسائیں مگر ان کے اندر اچھے برے کی پہچان کا شعور اس کی بہت کم عمری سے سکھانا شروع کر دیں کیونکہ جونہی وہ آپ کے قد کو پہنچ جائیں گے وہ خود کو آپ سے زیادہ عقل مند سمجھنا شروع کر دیں گے اور سمجھنے سمجھانے کا وقت گزر چکا ہو گا۔ صرف یہی نہ سمجھائیں کہ دنیا میں کیا کیا برائیاں، خرابیاں اور خطرات ہیں، یہ پہلے سکھائیں کہ وہ ایسے نہ بنیں کہ جس کی وجہ سے کوئی دوسرا خطرے میں مبتلا نہ ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے بارے میں اپنے بچوں ہوتے ہیں والے بھی بچوں کو ہوتی ہے کے ساتھ جاتا ہے ہوتا ہے بچوں کے نہیں ہو کرتا ہے ہیں اور کے پاس کے لیے

پڑھیں:

نومبر، انقلاب کا مہینہ

نومبر کی شامیں جب دھیرے دھیرے اُترتی ہیں تو یورپ کے شمال میں سرد ہوا کے جھونکے صرف پتوں کو ہی نہیں، تاریخ کے اوراق کو بھی ہلا دیتے ہیں۔ 1917 نومبر میں جب پیٹرو گراڈ کی سڑکوں پر مزدوروں، کسانوں سپاہیوں اور طلبہ کے نعرے گونج رہے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی تاریخ ایک نئے موڑ پر آ کر ٹھہری۔ روس کے عوام نے صدیوں پر محیط ظلم جاگیرداری اور سامراجی جکڑ سے نکلنے کے لیے ہاتھوں میں سرخ پرچم تھام لیا۔ دنیا نے پہلی بار دیکھا کہ اقتدار محلات سے نکل کر کارخانوں اورکھیتوں کے بیٹے، بیٹیوں کے ہاتھ میں آیا۔

اکتوبر انقلاب جو ہمارے کیلنڈر میں نومبر میں آیا، صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں تھی، یہ انسان کی برابری، آزادی اور عزتِ نفس کے خواب کی تعبیر تھی۔

لینن اور ان کے رفقا نے جو راہ دکھائی وہ صرف روس کے لیے نہیں تھی۔ وہ ایک ایسی چنگاری تھی جس نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا تک کے محکوم دلوں میں اُمیدکے چراغ روشن کیے۔

اس انقلاب نے بتایا کہ تاریخ کے پہیے کو صرف طاقتور نہیں گھماتے، کبھی کبھی محروم مزدور اور مفلس بھی اُٹھ کر دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ اکتوبر انقلاب نے دنیا کو یہ سکھایا کہ کوئی سماج اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک اس کے مزدور اورکسان زنجیروں میں جکڑے ہوں۔ مگر ہر انقلاب کے بعد وقت کی گرد بیٹھتی ہے۔

خوابوں کی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے اور نئے تضادات جنم لیتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ یہ سوال بھی ابھرا کہ کیا انقلاب محض ایک رومانی تصور تھا یا تاریخ کا ایسا موڑ جس نے انسان کو وقتی طور پر یقین دلایا کہ وہ اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے؟

نومبرکی یاد ہمیں یہ سوچنے پر مجبورکرتی ہے کہ انقلاب محض بندوقوں یا قلعوں کی فتح نہیں ہوتا بلکہ ذہنوں اور دلوں کی آزادی کا نام ہے۔ وہ سماج جو اپنے فکری اور اخلاقی سانچوں کو بدلنے سے گریزکرے، وہ انقلاب کے قابل نہیں ہوتا۔

روس نے یہ جرات کی اس نے بتوں کو توڑا، بادشاہت کو ختم کیا اور محنت کش انسان کو تاریخ کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ مگر جب ہم اس روشنی کو اپنے وطن پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو دل کسی اداس شام کی طرح بھاری ہو جاتا ہے۔

یہاں مزدور اب بھی اپنی مزدوری کے لیے ترستا ہے، کسان اب بھی زمین کا بوجھ اُٹھائے فاقہ کرتا ہے اور تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی انقلاب کے نعرے گونجے۔ ہماری زمین پر جنم لینے والی ترقی پسند تحریکیں چاہے، وہ مزدور تحریک ہو، کسان کمیٹی ہو یا طلبہ کی جدوجہد سب کسی نہ کسی موڑ پر ریاستی جبر، نظریاتی تقسیم اور مایوسی کا شکار ہوئیں۔

ایک زمانہ تھا جب کراچی کی فیکٹریوں سے لے کر پنجاب کے کھیتوں تک سرخ جھنڈا ہوا میں لہرا کرکہتا تھا کہ ’’ دنیا بھر کے مزدور ایک ہو جاؤ‘‘ مگرآج وہ آواز مدھم ہے، نہ وہ جلسے رہے نہ وہ عزم، شاید اس لیے کہ ہماری سیاست نے نظریے کو نکال پھینکا اور موقع پرستی کو گلے لگا لیا۔

جو لوگ مزدوروں کے حق کی بات کرتے تھے، وہ خود سرمایہ داروں کے دربار میں جا بیٹھے، جو قلم عوام کی جدوجہد کا ہتھیار تھا، وہ اب اشتہار کا آلہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں انقلابی جدوجہد کی کمزوری دراصل ہمارے اجتماعی احساسِ زیاں کی علامت ہے۔

ہم نے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں، وہ نسلیں جو کبھی لینن چی گویرا یا فیض کے الفاظ سے آگ پاتی تھیں، آج کسی موبائل اسکرین پر عارضی غم اور مصنوعی خوشی کی پناہ ڈھونڈتی ہیں۔ یہ وہ خلا ہے جو صرف فکر سے یقین سے اور اجتماعی جدوجہد سے پُر ہو سکتا ہے۔

 نومبرکا مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انقلاب ایک دن میں نہیں آتا۔ وہ برسوں کے صبر، قربانی اور شعور سے جنم لیتا ہے۔ روس کے مزدور اگر محض اپنی بھوک کے خلاف اُٹھتے تو شاید تاریخ نہ بدلتی۔ مگر انھوں نے صرف روٹی نہیں، عزت، علم اور انصاف کا مطالبہ کیا۔

یہی مطالبہ آج بھی زندہ ہے ماسکو سے کراچی تک انسان کے دل میں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ انقلاب کا خواب اگر دھندلا بھی جائے تو اس کی چنگاری باقی رہتی ہے۔ وہ چنگاری جو کسی طالب علم کے ذہن میں سوال بن کر جنم لیتی ہے، کسی مزدورکے نعرے میں صدا بن کر گونجتی ہے یا کسی ادیب کے قلم میں احتجاج بن کر ڈھلتی ہے، یہی چنگاری آنے والے کل کی روشنی ہے۔

یہ مہینہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہر وہ سماج جو ظلم اور نابرابری کو معمول سمجھ لے وہ اپنے زوال کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے، اگر روس کے عوام اپنی خاموشی توڑ سکتے تھے تو ہم کیوں نہیں؟ ہم کیوں اپنی تقدیر کے فیصلے چند طاقتور ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں؟

شاید اس لیے کہ ہم نے انقلاب کو صرف کتابوں میں پڑھا زندگی میں نہیں جیا۔وقت گزر چکا مگر تاریخ کے اوراق کبھی بند نہیں ہوتے۔ شاید کسی اور نومبر میں کسی اور زمین پر نئی نسل پھر سے وہی سرخ پرچم اُٹھائے اورکہے ہم اس دنیا کو بدلیں گے اور جب وہ دن آئے گا تو ماسکو سے کراچی تک ہر انقلابی روح ایک لمحے کے لیے مسکرائے گی۔

آج کے عہد میں جب دنیا ایک بار پھر معاشی ناہمواری، ماحولیاتی تباہی اور جنگوں کی لپیٹ میں ہے تو اکتوبر انقلاب کی گونج نئے سوال اٹھاتی ہے۔ کیا انسان پھر سے وہی جرات کرسکتا ہے کیا طاقتورکے خلاف کھڑے ہوکر نظام کو بدلنے کا خواب دیکھا جاسکتا ہے؟

شاید یہی سوال نومبر کی ہوا میں بسا ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری کے بت پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں مگر ساتھ ہی دنیا کے ہر گوشے میں کوئی نہ کوئی مزدور طالب علم یا ادیب اب بھی انصاف اور برابری کے خواب کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

وہ شاید تھکے ہوئے ہیں مگر ہارے نہیں۔ شاید آنے والے برسوں میں یہ بکھری ہوئی چنگاریاں مل کر پھر سے ایک روشنی بن جائے۔

متعلقہ مضامین

  • مصر کے عظیم الشان عجائب خانے نے دنیا کیلئے اپنے دروازے کھول دیے
  • ترقی کا سفر نہ روکا جاتا تو ہم دنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہوتے: احسن اقبال
  • اتنی تعلیم کا کیا فائدہ جب ہم گھریلو ملازمین کی عزت نہ کریں: اسماء عباس
  • کراچی پر حملے کی خبر جھوٹی تھی، جعلی خبریں ہمیں بھی حقیقت لگنے لگیں، بھارتی آرمی چیف کا بیان
  • ہیوی ٹریفک اسلام آباد میں ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کا سبب، شہریوں کی صحت کو سنگین خطرات لاحق
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • کیریبین میں مبینہ منشیات سے بھری کشتی پر امریکا کا حملہ، 3 افراد ہلاک
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • تلاش
  • ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شرپسند ملک دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے، عباس عراقچی