لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 اپریل ۔2025 )کسان اتحاد کے سربراہ خالد حسین باٹھ نے دعوی کیا ہے کہ گندم کی خریداری میں سپورٹ پرائس ختم ہونے پر کسانوں کا 900 ارب روپے نقصان ہوا ہے جبکہ کسانوں نے حکومت پنجاب کے 15 ارب روپے کا ریلیف پیکیج بھی مسترد کردیا ہے. خالد حسین باٹھ نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں سپورٹ پرائس ختم ہونے پر گندم کی قیمت میں 1700 روپے اضافے پر کہا کہ 2022 میں یوریا کھاد 1600 روپے کی مل رہی تھی اور ڈی اے پی کھاد 8000 روپے کی تھی.

انہوں نے کہاکہ حکومت نے یوریا سیدھا 4500 روپے کی کردی جبکہ ڈی اے پی 12000 روپے کردی اسی طرح بجلی 15 روپے سے 60 روپے فی یونٹ چلی گئی‘ ڈیزل کا ریٹ بھی 30 سے 40 فیصد بڑھ گیا.

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حکومت کہتی ہے آئی ایم ایف کا دبا ﺅہے لیکن یہ اپنے لوگوں کو بچا لیتے ہیں شوگر مالکان ہم سے گنا 35 کے ریٹ پر خریدتے رہے پھر 38 کا لیا اور آخر میں حکومت کو دکھانے کیلئے دس دس ٹرالیاں 450 سے 500 کے ریٹ میں خرید لیں.

انہوں نے دعوی کیا کہ شوگر مالکان نے چینی بیچی 165 روپے فی کلواور انہیں سہولت دینے کیلئے حکومت فورا ایکشن میں آئی اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے شوگر مل مالکان سے ملاقات کی اور ہمیں بلایا تک نہیں حکومت نے چینی کا ریٹ 165 روپے کردیا جو 115 روپے میں بھی مل سکتی تھی. کالد حسین باٹھ نے کہا کہ بہاولپور میں گندم کی کاشت پر خرچہ 4 ہزار سے 4200 روپے فی من ہے جبکہ حکومت پنجاب نے 3900 روپے کا اعلان کرکے بھی نہیں خریدی اور اب ہم گندم 2 ہزار روپے میں بیچنے پر مجبور ہیں جو کہ فی من 2200 روپے کا نقصان ہے.                                             

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حسین باٹھ

پڑھیں:

گندم کا بحران؟ آرمی چیف سے اپیل

ملک میں گندم کی کٹائی کا موسم ہے، یہ خوشیوں اور موج میلے کا زمانہ ہوتا ہے لیکن اس بار یہ کسان کی خوشیوں کی بجائے ماتم اور دکھ و کرب کے زمانے میں بدل چکا ہے۔ گندم کی موجودہ مارکیٹ قیمت 1800 سے 2200 روپے فی من ہے، جو کاشتکار کی لاگت سے کہیں کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسان کیوں مجبور ہے، اور ذمہ دار کون ہے؟
ایک اوسط درجے کے کسان کے لیے گندم کی کاشت پر آنے والے اخراجات کچھ یوں ہیں: زمین کا ششماہی کرایہ(ٹھیکہ) تقریباً 50,000 روپے فی ایکڑ، بیج 4,000 تا 5,000 روپے، کھاد (ڈی اے پی، یوریا)16,000 تا 20,000 روپے، زرعی ادویات 3,000 روپے، زمین کی تیاری و مشینری 7,000 روپے، پانی و مزدوری 8,000 روپے۔ کٹائی و گہائی (ہارویسٹر تھریشر کا خرچہ )15,000 روپے فی ایکٹر، اس طرح مجموعی لاگت تقریباً ایک لاکھ سے ایک لاکھ 10 ہزار روپے فی ایکڑ بنتی ہے۔
اگر پیداوار 40 من فی ایکڑ ہو، اور قیمت 2000 روپے فی من ملے تو گندم کی کل آمدن 80,000 روپے بنتی ہے۔ توڑی (بھوسہ) کی قیمت شامل کر لیں تو یہ آمدن 88,000 روپے فی ایکڑ بنتی ہے یوں کسان کو 12,000سے 22,000 روپے فی ایکڑ کا سیدھا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی گواہی ہے جو کسان کو زندہ درگور کر رہا ہے۔
اس بار پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت (پاسکو) نے گندم کی سرکاری خریداری کا آغاز ہی نہیں کیا اور یہ کام بے رحم پرائیویٹ سیکٹر کے ذمے لگا دیا ہے جس کے سینے میں دل کی بجائے پتھر ہوتا ہے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کسان کھلے بازار میں مڈل مین کے رحم و کرم پر ہے، جو 1800 سے 2200 روپے فی من گندم خرید رہے ہیں۔ کسان اپنی فصل اس لیے بیچنے پر مجبور ہے کیونکہ اس نے زمین کا کرایہ اور مزدوری دینی ہے، اور قرض واپس کرنا ہے، اور تاخیر کی گنجائش نہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اربوں روپے کی گندم درآمد کرنے والی حکومت کسان کو اس کی اپنی اگائی گئی فصل کا مناسب نرخ نہیں دے سکتی۔ 2022-23 ء میں یوکرین اور روس سے 35 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، جس سے مقامی مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں زمین بوس ہوگئیں۔ کسان کی محنت کی کوئی قدر نہ رہی، جیسے یہ ملک کسی زرعی معیشت پر نہیں بلکہ درآمدی بیساکھیوں پر کھڑا ہو۔
یہ سب صرف معاشی ناکامی نہیں، بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی اظہار ہے۔ ایک طرف اخراجات کا بوجھ، دوسری طرف قیمتوں کی گراوٹ، اور تیسرے جانب سرکار کی بے حسی ‘ ایک طرف کسان کو دیوالیہ کر دینا اور پھر اسے ہی غفلت کا مورد الزام ٹھہرانا سخت زیادتی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو کسان زمین اور کاشتکاری چھوڑ کر دوسرے دھندوں میں لگ جائے گا، اور ہم خوراک کے لئے دوسروں کے دست نگر ہو کر رہ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کہاں ہے اس وقت مناپلی کنٹرول اتھارٹی؟ یعنی کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ملک کے اس سب سے بڑے مسئلے پر نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا، انسانی حقوق کا کوئی ادارہ یا کوئی بار کونسل اس حوالے سے عدالت عظمی میں رٹ پٹیشن دائر کیوں نہیں کرتی؟ کہاں ہے عوام کی منتخب پارلیمنٹ؟ افسوس صد افسوس کہ کوئی بھی کسان کے اس اجتماعی جنازے کو کندھا دینے پر تیار نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری حرکت میں آئیں اور گندم کی سپورٹ پرائس 3000 روپے فی من فوری مقرر کی جائے۔ پاسکو اور صوبائی حکومتیں فوری خریداری کا شفاف نظام شروع کریں۔ ذخیرہ اندوزوں، فلور ملز اور مڈل مین مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کسانوں کو زرعی قرضوں میں ریلیف اور سبسڈی دی جائے۔ درآمدات و برآمدات کو مقامی پیداوار کی صورتحال سے مشروط کیا جائے۔اس صورتِ حال کی بڑی حد تک ذمے دار ملک کی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو انتخابات کے موسم میں تو ووٹ لینے کیلئے کسانوں کو یاد کرتی ہیں، ان کے کھیتوں میں تصویریں بنواتی ہیں اور ووٹ کو عزت دو کے جھوٹے نعرے لگاتی اور جھوٹے وعدے کرتی ہیں۔ مگر انتخابی کامیابی کے بعد وہ دیہی اکثریت کے مسائل سے لاتعلق ہو جاتی ہیں۔ یہ رویہ صرف بے حسی نہیں بلکہ قومی مفادات سے کھلم کھلا غداری کے مترادف ہے۔
دوسری طرف، کسان خود بھی اس زبوں حالی کا کچھ نہ کچھ ذمے دار ضرور ہے۔ ملک میں کوئی مضبوط، منظم اور موثر کسان تنظیم، ٹریڈ یونین یا فیڈریشن موجود نہیں جو اجتماعی آواز بلند کرے، پالیسی سازی میں کردار ادا کرے اور حکومت کو جوابدہ بنائے۔ جب تک کسان اپنے حقوق کے لیے اجتماعی طور پر خود منظم نہیں ہوتا، استحصال کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت مہنگائی کی صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ کاشتکار ایک من گندم بیچ کر ایک کلو بکرے کا گوشت نہیں خرید سکتا جو 2200 سے 2400 روپے فی کلو ہے، ایک من گندم بیچ کر وہ اپنے بچوں کیلئے ایک دن کے 3 وقت کھانے کا انتظام نہیں کر سکتا، ان حالات میں اس نے اگلی فصل کپاس، چاول یا گنا بھی کاشت کرنی ہے، اور اگلے 6 ماہ اپنے گھریلو اور نئی فصل کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہیں، ان نازک ترین حالات میں ملک کی 60 سے 70 فیصد دیہی آبادی تھک ہار کر اب آرمی چیف کی طرف دیکھ رہی ہے، کیونکہ پاکستان میں اب تو یہ روایت ہی پڑ گئی ہے کہ سول حکومتوں کی ناکامی و نااہلی سے پیدا ہونے والے بحرانوں کے حل کیلئے پھر مدد کیلئے پاک فوج کو ہی پکارا جاتا ہے، اس لئے سپہ سالار اعظم سے اپیل ہے کہ اب وہی کاشتکاروں کی خاموش چیخیں اور التجائیں سن کر فوری مداخلت کریں۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

متعلقہ مضامین

  • گندم کا بحران؟ آرمی چیف سے اپیل
  • کسان اور کاشتکار کا گلا دبا دیا گیا ہے: صدر پاکستان کسان اتحاد
  • پنجاب اور سندھ کے اضلاع میں گندم کی تیار فصل میں آگ لگنے سے کسانوں کو لاکھوں کا نقصان
  • مراد شاہ کو پنجاب کے کسانوں کی فکر زیادہ، سندھ میں گندم کی سرکاری قیمت مقرر کی؟ عظمیٰ بخاری 
  • پنجاب اسمبلی: گندم کی قیمت کا اعلان نہ ہونے پر اپوزیشن کا احتجاج: چھوٹے کسانوں کو تحفظ دینگے، حکومت
  • جولانی حکومت نے فلسطین اسلامی جہاد کے دو سینیئر اہلکاروں کو گرفتار کر لیا
  • روٹی کی قیمت 30 روپے مقرر ،سرکاری نرخنامہ کے مطابق روٹی کی فروخت کو یقینی بنائیں ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ
  • مراد علی شاہ کو سندھ سے زیادہ پنجاب کے کسانوں کی فکر ہے: عظمیٰ بخاری
  • گندم کی قیمت مقرر کرنے کا معاملہ: پنجاب کابینہ گندم کی ڈی ریگولرائزیشن پر فیصلہ کرے گی، محکمہ پرائس کنٹرول
  • ’’بندر کے ہاتھ ماچس لگ گئی‘‘ پنجاب میں گندم بحران پر مشیر خزانہ پختونخوا کا ردعمل