Islam Times:
2025-04-25@01:29:31 GMT

ایران کا جوہری پروگرام(3)

اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT

ایران کا جوہری پروگرام(3)

اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا

مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"

اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔

امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"

اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے

اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔  
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔

اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"

ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔

مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ٹیکنالوجی میں مسقط مذاکرات ممکن نہیں ایک مضبوط کے طور پر کہ ایران ایران نے سکتا ہے جہاں سے کرے گا کے لیے دیا کہ چکا ہے

پڑھیں:

ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ

ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہو گئے ہیں۔ دونوں اطراف کہہ رہے ہیں کہ معاہدہ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ ایران اپنا نیو کلئیر پروگرام بند کرنے اور امریکا معاشی پابندیاں ختم کرنے کے اشارے دے رہا ہے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ اگر اس کے ساتھ ا چھی ڈیل کی جائے تو وہ ایٹم بم نہیں بنائے گا۔ اگر ڈیل نہ کی گئی توپھر اس کے پاس ایٹم بم بنانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ اب کیا یہ ڈیل ہو جائے گی۔

ویسے تو یوکرین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یوکرین کے پاس تو ایٹمی صلاحیت موجود تھی۔ اس وقت یوکرین پر بھی ایسے ہی دباؤ ڈالاگیا۔اس سے اس کی ایٹمی صلاحیت واپس لے لی گئی۔ ا س وقت یوکرین کو بھی یہی یقین دلایا گیا تھا کہ یوکرین کی سیکیورٹی دنیا کے ذمے ہوگی۔ امریکا سمیت سب نے یوکرین کو اس کے دفاع کی ضمانت دی۔

یوکرین کو یورپی یونین میں شمولیت کے سبز باغ بھی دکھائے گئے۔ لیکن آج یوکرین کی حالت دیکھیں۔ روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہوا ہے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ امریکا اس تنازع سے پیچھے ہٹ چکا ہے، یورپ بھی اپنی جان بچانے کی فکر میں ہے۔ یوکرین کو یورپی یونین میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے۔ یوکرین کے ایک بڑے حصہ پر روس قبضہ کر چکا ہے۔ اور دنیا یوکرین کی مزید مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سب یوکرین کو سرنڈر کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ یوکرین کو شکست تسلیم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ یوکرین تنہا نظر آرہا ہے۔

اگر آج یوکرین کے پاس ایٹمی طاقت ہوتی تو کیا روس یوکرین پر حملہ کر سکتا تھا۔ ایٹمی طاقت دفاع کی ضامن ہے۔ پاکستان کی مثال بھی سامنے ہے۔ جب سے پاکستان نے ایٹمی طاقت حاصل کی ہے۔ بھارت کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کئی دفعہ جنگ کے قریب آئے ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کی ایٹمی طاقت ہی جنگ روک رہی ہے۔

ایرن اور امریکا کے درمیان معاہدہ کو ان مثالوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ماہرین کی رائے ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کے کافی قریب پہنچ چکا ہے۔ ایران چھ ماہ میں چار ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں۔ اسی لیے ایران سے فوری ڈیل کی بات کی جا رہی ہے۔ اسرائیل بھی ایران سے ڈیل کے حق میں نظر آرہا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج ایران سے ڈیل کے لیے امریکا کیوں بے تاب ہے۔ ایٹمی ایران ایک خطرناک ملک ہوگا۔

ایران اس وقت امریکا سے صلح کرے گا۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ ایران کے سب اتحادی بری طرح مارے گئے ہیں۔ حماس بھی ایران کا اتحادی ہے۔ حماس کی لڑائی بھی ایران کی لڑائی تھی۔ لیکن ایران نے حماس کا کوئی خاص ساتھ نہیں دیا۔ ایران غزہ کی جنگ سے دوررہا۔ اس نے اسرائیل سے جنگ سے اجتناب کیا ہے۔

ایران اور اسرائیل جنگ کے قریب آئے لیکن جنگ نہیں ہوئی۔ اسی طرح حزب اللہ بھی ایران کا اتحادی ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ کو بھی کافی نقصان پہنچایا ہے اور ایران، اسرائیل حزب اللہ جنگ سے دور رہا۔ اس نے عملی طورپر حزب اللہ کا کوئی ساتھ نہیں دیا پھر آپ حوثیوں کو دیکھ لیں۔ انھیں بھی ایران کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن اب جب امریکا حوثیوں پر حملے کر رہا ہے تو بھی ایران خاموش ہے۔

حال ہی میں سعودی وزیر دفاع نے ایران کا دورہ کیا۔ ان کی ایرانی سپریم لیڈر آئت اللہ خامنائی سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ اس میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بہتری پر بات ہوئی۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی حوثیوں پر ہی تنازعہ تھا۔

ایسے میں اس جنگ میں ایران حوثیوں کی مدد کرتا رہا ہے۔ لیکن اب جب امریکا نے حوثیوں پر حملے شروع کیے ہیں تو ایران نے حوثیوں کی ویسی مدد نہیں کی جیسی توقع تھی۔ ایران نے حوثیوں کے ساتھ بھی وہی پالیسی رکھی جو اس نے حزب اللہ اور حماس کے ساتھ رکھی۔ ایران نے ہر دفعہ خود جنگ سے بچنے کے لیے اتحادیوں کی قربانی دی ہے۔ ایران نے خود کو بچانے کی ضرورت کو اہم رکھا ہے۔

آج بھی ایران جنگ سے بچنے کے لیے امریکا سے معاہدہ کا خواہش مند لگ رہا ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ اگر جنگ کے بادل ایران سے ہٹ جائیں تو بہتر ہے۔ اس لیے ایران امریکا سے صلح کر رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکا سے ڈیل میں اسرائیل سے ڈیل بھی شامل ہوگی۔ ایران امن کی ضمانت چاہے گا۔ ایران یہ تو نہیں چاہے گا کہ وہ ایٹمی پروگرام بھی بند کر دے۔ امریکا سے معاہدہ بھی کر لے اور پھر اسرائیل حملہ بھی کر دے۔ اس لیے میری رائے میں ایران امریکا مذاکرات میں اسرائیل شامل ہے۔ ایران کا مفاد اسی میں ہے کہ اسرائیل سے امن کی شرط بھی شامل ہو۔

لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آج جو معاہدہ ہوگا وہ قائم رہے گا۔ ایران نے تو دیکھا ہے کہ کیسے معاہدے یک طرفہ توڑ دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایران ایٹمی پروگرام ختم کر دیتا ہے پھر کیا ہوگا۔ کیا پھر اسرائیل سے حملہ نہیں ہوگا۔ یہ درست ہے کہ ایران کے پاس ڈرون ہیں۔ روائتی ہتھیار بھی زیادہ ہیں۔ اس لیے وہ روائتی ہتھیاوں سے ایران کا تحفظ کر سکتا ہے۔ لیکن روائتی ہتھیار اور ایٹم کی طاقت میں فرق ہے ۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکہ کے درمیان فی الحال کوئی تجارتی مذاکرات نہیں ہو رہے ،چینی وزارت تجارت
  • جب اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا نادر موقع ضائع کر دیا؛ رپورٹ
  • امریکی وزیر خارجہ کے تازہ ریمارکس پر ایرانی اہلکار کا دوٹوک "انکار"
  • ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ
  • ایک ملی گرام افزودہ ہونیوالی یورینیم بھی IAEA کی نگرانی میں ہے، سید عباس عراقچی
  • ایران مذاکرات میں سنجیدہ ہے، رافائل گروسی
  • بغداد، ایران-امریکہ مذاکرات کی حمایت کرتا ہے، فواد حسین
  • ایران جوہری مذاکرات: پوٹن اور عمان کے سلطان میں تبادلہ خیال
  • عمان کے سلطان اور ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات، ایرانی جوہری مذاکرات پر تبادلہ خیال
  • میں نے نتین یاہو کیساتھ ایران سے متعلق بات کی، امریکی صدر