پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
پاکستان اور افغانستان، دو ہمسائے جنہیں فطرت نے جوڑا، مگر تاریخ اور سیاست نے اکثر جدا رکھا۔ یہ محض دو ممالک نہیں، بلکہ دو تہذیبوں، دو قوموں، دو مشترکہ دکھوں کی داستان ہے۔ ایک وہ، جو کبھی دروازہ کھول کر مہمان نوازی کرتا رہا؛ دوسرا وہ، جو ہر بار بدلتے نظام میں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے دوسروں پر شک کرتا رہا۔ مگر اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ان تعلقات کو نئی آنکھ سے دیکھیں،ایک ایسی نگاہ جو صرف ماضی کی گرد نہ دیکھے، بلکہ مستقبل کی روشنی تلاش کرے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان جب ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرا، تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں اس کی رکنیت کی مخالفت کی۔ مخالفت کی بنیاد ڈیورنڈ لائن تھی، وہ تاریخی لکیر جو 1893 میں برطانوی ہند اور افغان امارت کے درمیان کھینچی گئی، اور جو آج بھی پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر ایک سیاسی ارتعاش بن کر موجود ہے۔ پاکستان اسے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں تسلیم شدہ سرحد سمجھتا ہے، جبکہ افغانستان کی بیشتر حکومتیں، اور اب طالبان قیادت بھی، اسے ایک استعماری زخم تصور کرتی ہیں۔
پاکستانی مؤقف واضح اور قانونی بنیاد پر قائم ہے۔ اقوام متحدہ سمیت بیشتر عالمی ادارے ڈیورنڈ لائن کو ایک جائز سرحد مانتے ہیں۔ مگر افغانستان کی پشتون قوم پرستانہ سوچ، اور ‘پشتونستان’ کے خواب نے ان تعلقات میں بداعتمادی کا وہ بیج بویا، جو نصف صدی بعد بھی لہلہا رہا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قوم پرست تحریکوں کی پشت پناہی، سردار داؤد خان کی حکومت کے دوران بلوچ مزاحمت کاروں کو تربیت دینے جیسے اقدامات، کابل کی مداخلت پسندی کی روشن مثالیں ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کا کابل ملاقات میں ہونے والے فیصلوں پر جلد عملدرآمد پر اتفاق
1979 سے 1989 تک سوویت یلغار کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا، وہ محض اسٹریٹجک ڈیپتھ کا مظہر نہیں بلکہ ایک قومی قربانی کا باب ہے۔ تین ملین سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دینا، ہزاروں مدارس میں تعلیم وقیام، یہ وہ بوجھ ہے جس کی قیمت آج بھی پاکستان چکا رہا ہے۔ 2001 کے بعد، جب طالبان کو اقتدار سے ہٹا کر کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں لائی گئیں، تو توقع تھی کہ کابل پاکستان کا شکر گزار ہو گا۔ مگر اس کے برعکس، وہی کابل اسلام آباد کو خطے میں خرابی کی جڑ سمجھنے لگا۔
پاکستان پر الزام لگایا گیا کہ وہ طالبان کی پناہ گاہ ہے، افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ پاکستان کو قرار دیا گیا، جبکہ بھارت کی موجودگی اور افغانستان کی داخلی بدانتظامی کو نظرانداز کیا گیا۔ پاکستان نہ صرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ رہا، بلکہ 80 ہزار سے زائد قربانیاں دے کر، 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان سہہ کر، خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار بنا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر عالمی برادری اکثر خاموش رہی، اور افغانستان نے مسلسل الزام تراشی کی روش اپنائی۔
2021 میں طالبان کی واپسی ایک موقع تھا کہ پاکستان اور افغانستان تعلقات میں نئی جہت پیدا کریں۔ مگر افسوس، طالبان نے ڈیورنڈ لائن کو سرحد ماننے سے انکار کیا، اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے ساتھ اپنی قربت کو کم کرنے سے گریز کیا۔ 2022 کے بعد پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں میں جو اضافہ ہوا، اُس کے واضح سراغ افغان سرزمین کی طرف جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، پاکستان افغانستان کا اتفاق
افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کا بھی ایک تناظر ہے۔ پاکستان اس وقت بھی 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کا میزبان ہے، جن میں لاکھوں بغیر کاغذات کے مقیم ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے بارہا یہ نشاندہی کی ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر گروہ انہی مہاجر کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر پاکستان ایک واضح پالیسی کے تحت مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع کرتا ہے، تو اسے سیاسی انتقام قرار دینا انصاف نہیں۔
تجارتی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان متعدد پیچیدہ مسائل موجود ہیں۔ 2010 میں طے پانے والا افغانستان-پاکستان راہداری تجارت معاہدہ (APTTA) بظاہر دوطرفہ اقتصادی تعاون کا ایک اہم سنگِ میل تھا، جس کے تحت افغان تاجروں کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کے ذریعے اپنی اشیاء عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی سہولت دی گئی۔ تاہم، اس جیسے معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی، واہگہ کے راستے بھارت تک رسائی کا تنازع، اور سرحدی چوکیوں پر کرپشن اور بدسلوکی کے الزامات ،یہ تمام ایسے امور ہیں جنہیں افغان فریق اپنی جائز شکایات کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت سے افغان تجارت کو بعض اوقات ایک اسٹریٹیجک دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جو پاکستان کے قومی سلامتی واقتصادی مفادات سے متصادم ہو سکتا ہے۔
پانی کا تنازع ایک خاموش مگر شدید حساس معاملہ ہے۔ کابل دریا پاکستان کے لیے آبی زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان کی جانب سے ڈیم سازی اور پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے کی کوششوں کو اگر بروقت نہ روکا گیا، تو یہ تنازع آئندہ دہائیوں میں ایک نیا سنگین بحران بن سکتا ہے۔ پاکستان دہائیوں سے اس موضوع پر مذاکرات کی اپیل کر رہا ہے، مگر کابل کی جانب سے سنجیدگی کی کمی رہی ہے۔
مزید پڑھیں: اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر افغانستان سے بات چیت سود مند نہیں ہوگی، بیرسٹر سیف
اس سب کے باوجود، امید کی کچھ کرنیں باقی ہیں۔ 2024 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں 84 فیصد اضافہ ہوا۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا، تو یہ معاشی تعاون دوطرفہ اعتماد سازی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ دونوں فریقوں نے سرحدی روابط کو بہتر بنانے، اور مشترکہ تجارتی انتظامات پر بات چیت کا عندیہ دیا ہے۔
حل کیا ہے؟پہلا قدم: ایک مستقل، فعال، اور بااختیار پاک-افغان رابطہ کمیٹی کا قیام، جو صرف بحران کے وقت نہیں بلکہ مسلسل رابطے میں رہے۔
دوسرا قدم: عوامی سطح پر ثقافتی اور علمی تبادلے، جن میں نوجوان، اساتذہ، اور علما شامل ہوں۔
تیسرا قدم: دہشت گردی کے خلاف مشترکہ انٹیلیجنس اور آپریشنل تعاون، جس میں طالبان کو بھی اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔
چوتھا قدم: افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لیے ایک بین الاقوامی فریم ورک۔
پانچواں قدم: کابل دریا پر ایک باقاعدہ آبی معاہدہ، جس میں دونوں فریق کی ضروریات اور خدشات شامل ہوں۔
مزید پڑھیں: اسحاق ڈار کا پہلا دورہ افغانستان، اہم کیا ہے؟
پاکستان اور افغانستان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ہمسائے ہی نہیں، بلکہ جغرافیائی تقدیر کا حصہ ہیں۔ دشمنی یا بداعتمادی کا تسلسل نہ صرف دونوں قوموں کو نقصان پہنچائے گا، بلکہ پورے خطے میں ترقی اور امن کی راہ روک دے گا۔ پاکستان کی ریاست، افواج اور عوام نے بارہا ثابت کیا ہے کہ ہم امن کے خواہاں ہیں لیکن اس امن کی قیمت قومی سلامتی پر سودے بازی نہیں ہو سکتی۔
اب فیصلہ کابل کو کرنا ہے، وہ پاکستان کے ساتھ ایک باعزت تعلق چاہتا ہے یا مسلسل بداعتمادی کا اسیر رہنا چاہتا ہے۔ تاریخ نے ہر اُس قوم کو یاد رکھا ہے جس نے تعلقات کو عزت، وقار اور حقیقت پسندی کی بنیاد پر استوار کیا۔ اب وقت ہے کہ افغانستان بھی یہی انتخاب کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام اباد افغانستان بھارت پاکستان ٹی ٹی پی ڈیورنڈ لائین طالبان کابل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام اباد افغانستان بھارت پاکستان ٹی ٹی پی ڈیورنڈ لائین طالبان کابل پاکستان اور افغانستان افغان مہاجرین افغانستان کی پاکستان کے مزید پڑھیں کے لیے
پڑھیں:
تعلقات کے فروغ پر پاک، چین، روس اتفاق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-03-7
ضیاء الحق سرحدی
گزشتہ دنوں پاکستان، چین اور روس کا باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق ہوا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ نے شہباز شریف سے ملاقات میں کہا کہ چین دفاعی اور اقتصادی ترقی کے تمام شعبوں میں پاکستان کی مدد جاری رکھے گا۔ خصوصاً اس وقت جب سی پیک اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور پاکستان کے کلیدی اقتصادی شعبوں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپلز میں صدر شی جن پنگ ہے ملاقات وزیر اعظم نے صدر شی کو 2026ء میں پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت بھی دی۔ دریں اثناء بیجنگ میں وزیر اعظم شہباز شریف سے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ملاقات کی، ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان روس کے بھارت کے ساتھ تعلقات کا احترام کرتا ہے، لیکن پاکستان بھی روس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے جو خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہم ہوں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بیجنگ میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ملاقات کی۔ گرمجوش مصافحے سے شروع ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کے فروغ پر گفتگو کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں اور پاکستان ان روابط کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن اور خوشحالی کا خواہاں ہے اور روس اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
صدر پیوٹن نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہترین قرار دیا اور کہا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر انہیں شدید افسوس ہوا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایس سی او سمٹ میں شرکت کی دعوت بھی دی جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ روس کا دورہ کر کے انہیں خوشی ہوگی۔ روسی صدر نے مزید کہا کہ پاکستان اور روس کو مختلف شعبوں میں مل کر آگے بڑھنا ہوگا جبکہ دونوں ممالک عالمی فورم بالخصوص اقوام متحدہ میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اپنی متوازن اور آزادانہ حیثیت کے باعث عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے۔ شہباز شریف کی چین اور روس کے سربراہان سے ملاقاتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ انہیں مزید مضبوط کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کی گہرائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دونوں ممالک نہ صرف معاشی ترقی بلکہ دفاعی شعبے میں بھی ایک دوسرے کے مضبوط شراکت دار ہیں۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ اس شراکت داری کو نئی بلندیوں تک لے جانے کا عزم رکھتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور روس کے تعلقات میں حالیہ برسوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ روس کے ساتھ پاکستان کی بڑھتی ہوئی قربت نہ صرف دو طرفہ تجارت اور معاشی تعاون کے لیے اہم ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی ایک کلیدی عنصر ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ روس کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا احترام کیا ہے لیکن اپنی آزادانہ پالیسی کے تحت روس کے ساتھ مضبوط تعلقات کے قیام پر زور دیا ہے۔ یہ تعلقات نہ صرف دو ممالک کے درمیان بلکہ پورے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ روس کے صدر کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہترین قرار دینا اور عالمی فورم جیسے اقوام متحدہ میں مشترکہ موقف کی حمایت اس بات کا عکاس ہے کہ دونوں ممالک خطے کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ چین، روس، اور امریکا جیسے بڑے عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان نہ تو کسی ایک عالمی طاقت کے بلاک میں شامل ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کے خلاف وہ اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ پاکستان، چین اور روس کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون خطے میں امن، معاشی ترقی، اور خوشحالی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے معاشی ترقی، روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی دفاعی اور تجارتی شراکت داری، اور عالمی فورمز میں مشترکہ موقف خطے کو عالمی سیاست کے پیچیدہ منظر نامے میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ پاکستان کی یہ سفارتی کامیابی اس بات کی غماز ہے کہ وہ نہ صرف اپنے قومی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی ایک ذمے دار کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تجارت، تعاون اور باہمی ترقی کے امکانات کے بے شمار راستے موجود ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں تلاش کیا جائے اور عمل درآمد کیا جائے۔ پاکستان سے ماسکو تک یہ پورا وسط ایشیا ایک قدرتی تجارتی بلاک کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن عالمی استعمار اور سیاسی مفادات نے اس خطے کو تقسیم کر کے رکھا۔ اب جبکہ خطے کے تمام ممالک یا بھی تعاون اور تجارت کے فروغ کا فیصلہ کر چکے ہیں تو لازم ہے کہ ایک دوسرے کو ہر طرح کی تجارت میں ترجیح دی جائے اور باہمی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے مل کر ترقی کی شاہراہ پر سفر طے کیا جائے۔ اس خطے کے تمام ممالک کی ترقی و خوشحالی ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک روس بارٹر ٹریڈ معاہدہ دونوں ملکوں ہی نہیں پورے خطے کے لیے مفید ثابت ہوگا حالانکہ پاک روس تجارتی معاہدہ مارچ 2023 میں ماسکو میں طے پایا تھا۔ جس کے تحت پاکستان روس کو چاول، دوائیں، پھل اور کھیلوں کے سامان سمیت 26 اشیاء برآمد کرے گا جبکہ روس سے پٹرولیم مصنوعات ایل این جی، گندم اور دھاگے سمیت 11 اشیاء درآمد کی جائیں گی۔ بہت سے ممالک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ توانائی کے پائیدار ذرائع آج کی دنیا میں بہت اہم ہیں، اور ان تک رسائی ہر ایک کی زندگی کے امکانات کو بہتر بنا سکتی ہے۔
کسی قوم کی ترقی کا ایک اہم جز و توانائی کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ متعدد اعداد وشمار سے پتا چلتا ہے کہ اگر توانائی تک سستی رسائی کو آسان بنایا جائے تو انسانی ترقی اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کے سنگم پر واقع پاکستان کو اسٹرٹیجک فائدہ حاصل ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان کی توانائی کی صورتحال مثالی نہیں ہے کیونکہ ریاست درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس کے پاس توانائی کے اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ خود کو برقرار رکھ سکے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب اور اخراجات میں تبدیلی کے نتیجے میں درآمدی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے توانائی کے سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے، جیسا کہ بجلی کی مسلسل بندش، گیس کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ، بڑھتی ہوئی قیمتیں، اور ایندھن کی خراب سپلائی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ توانائی قومی سلامتی کا ایک اہم جزو ہے، پاکستان کی موجودہ صورتحال توانائی کے عدم تحفظ کے طور پر سب سے بہتر ہے۔ پاکستان اپنی توانائی کی استعداد پر قابو پانے کے لیے علاقائی رابطوں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔