امریکی برانڈ صوفی کونسل اور اسرائیل کی حمائت
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
سوال یہ ہے کہ حضرت سید علی ہجویری ؒ،بابا فرید گنج شکرؒ،حضرت معین الدین چشتیؒ،حضرت سلطان باہو ؒ، حضرت بہائوالدین زکریاؒ ملتانی ،سمیت دنیا بھر میں کون سے صوفی با صفاء ہیں کہ جنہوں نے یہودیوں کو فلسطینی مسلمانوں پر کبھی ترجیح دی ہو؟ یقینا کوئی ایک بھی نہیں،تو پھر یہ جہلم کا پیر جسے اسرائیلی صدر پیار سے پیر مصدر شاہ کے نام سے یا د کرتا ہے،یہ کون اور اس کی صوفی کونسل کیا بلا ہے؟آئیے اسے اس رپورٹ کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،رپوٹ کے مطابق پیر مدثر شاہ صوفی کونسل کے چیئرمین ہیں۔ جنہوں نے ایک کتاب ’’وسپر ان دی سٹون‘‘لکھی ہے۔ یہ کتاب پنڈی کے اردگرد مختلف مذاہب کے آثار اور مقامات کے بارے میں ہے۔ ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ اور یہودی آثار کے حوالے سے اس کتاب میں تصاویر ہیں۔اس کتاب کی تعارفی تقریب یروشلم سینٹر فار پبلک افیئر میں 27مارچ کو ہوئی۔ اس تقریب میں گنتی کے دوڈھائی درجن افراد شریک ہوئے۔ کتاب کے لکھاری سمیت کچھ مہمانوں نے ورچوئل شرکت کی۔اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کا ایک ریکارڈڈ پیغام اس تقریب میں سنایا گیا۔ منتظمین تقریب اس میں ہونے والی باتوں کے حوالے سے بہت ہی احتیاط کا مظاہرہ کرتے رہے۔پیرمدثر شاہ سے یروشلم سینٹر نے رابطہ کر کے کہا تھا کہ آپ اپنے نام کی ادائیگی جیسے کرتے ہیں وہ ریکارڈ کر کے بھیجیں۔ اسرائیلی صدر آپ کا نام ٹھیک طرح سے ادا کرنا چاہتے ہیں۔
صدر اسحاق ہرزوگ پھر بھی نام کو پیرمصدر شاہ ہی بولتے رہے، ڈھائی منٹ کے اس ویڈیو پیغام میں 2 بار اسرائیلی صدر نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ ٹیکنالوجی، زراعت، ماحولیات اور دوسرے شعبوں میں تعاون کر سکتے ہیں،اسرائیلی صدر کے پیغام کی ویڈیو تقریب میں چلائے جانے کے بعد فوری جاری نہیں کی گئی۔ اس کو ایڈیٹنگ کے لئے زیر غور رکھا گیا۔ یہ اس احتیاط کا مظاہرہ تھا کہ کوئی لفظ یا جملہ ایسا نہ چلا جائے جس سے کوئی حساسیت منسلک ہو اور کسی غیرضروری ردعمل کا باعث بن جائے ۔ری پبلکن امریکی صدور ڈونلڈ ٹرمپ اور بش جونیئر کے مڈل ایسٹ ایڈوائزر اس تقریب میں شریک ہوئے۔ دو ڈھائی درجن افراد کی مختصر تقریب میں ہائی پروفائل شرکا کا اندازہ اسی سے لگا لیں۔ مائیکل ڈورن نے زوم کے ذریعے شرکت کی۔ یہ صدر بش کے دور میں امریکی وزارت دفاع میں پبلک ڈپلومیسی کے لئے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری رہے ہیں۔ یہ سینٹر فار پیس اینڈ سکیورٹی مڈل ایسٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔جیسن ڈی گرین بلاٹ دی ٹرمپ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کے علاوہ ٹرمپ کے چیف لیگل آفیسر رہے ہیں۔ٹرمپ کے دور صدارت میں یہ اسرائیل کے لئے صدر ٹرمپ کے مشیر تھے۔اس تقریب میں ایک اسرائیلی خاتون نے پاکستان اور پاکستانیوں کا شکریہ بھی ادا کیا جنہوں نے یہودی آثار کو اوریجنل حالت میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ انڈین سفارتخانے کے ایک نمائندے نے بھی تقریب میں شرکت کی۔انڈین ڈپلومیٹ کے لیے یقینی طور پر یہ بات اٹریکشن کا باعث تھی کہ ایک پاکستانی پیر کی کتاب کی مختصر سی تقریب رونمائی میں اتنی ہائی پروفائل شخصیات اور خود اسرائیل صدر شریک ہیں۔ سینئر صحافی کی رپورٹ کے مطابق پیر مدثر شاہ پاک یو ایس ایلومینائی کے اسلام آباد چیپٹر کے صدر ہیں۔ تعلق مچھ بلوچستان سے ہے۔ ان کی فیملی سروبا جہلم اور بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہے ہم پاکستانیوں نے نام نہاد صوفی ڈپلومیسی کے اثر اور پہنچ کو ابھی دریافت ہی نہیں کیا۔ اصل صوفی ازم کے احترام سے انکار ممکن نہیں ، ہم تصوف ، اہل تصوف کے کامل احترام کے قائل ہیں ، اور اسے تسلیم کرتےہیں ، لیکن جس طرح بعض شر پسند اور دین دشمن دینا سلام کا نام بدنام کرکے دین کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں ، اسی طرح بعض مفاد پرست ، دین اسلام اور صوفیاء عزام کے دشمن بھی صوفی ازم کا نام استعمال کرکے اسلام دشمن قوتوں کے مقاصد پورے کرتے ہیں ۔یہ نام نہاد صوفی کنکشن کتنا مضبوط ہے اس کا ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں ہے۔ اس پر کبھی ہم نے غور ہی نہیں کیا۔ ویسے ہی جنرل نالج واسطے عرض ہے کہ کئی ملکوں کے حکمران خاندان جن صوفیا کے عقیدت مند تھے ان کا تعلق بھی ہمارے خطے سے ہے ۔ ان کنیکشنز کو ڈھونڈنے اور استوار کرنے کی ضرورت ہے۔’’جہلم کے پیر مدثر اوراسرا ئیل کا پیر مصدر شاہ کی صوفی کونسل میں کون کون سے جعلی پیر اور ملاں شامل ہیں،ان پر اور ان کی سرگرمیوں پر بھی کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے ،نائن الیون کی یہودی کوکھ سے جنم لینے والا وحدت ادیان کا تصور ہو،یا بین المذاہب ہم آہنگی کا لولی پاپ،یہودو نصاریٰ نے ڈالر پھینک تماشا دیکھ کے اصول کے تحت بعض بدبختوں پر خوب ڈالر لٹائے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اصل صوفی ازم کے وابستگان امن و آشتی کے پرچارک ہوتے ہیں، مگر امریکن برانڈ صوفی کونسل اور صوفی ازم کے پرچارک پیر مصدر شاہ کو غزہ کے ساٹھ ہزار کے لگ بھگ انسانوں کا قاتل اسرائیل معصوم اور حماس کے مجاہد دہشت گرد نظر آتے ہیں۔
صوفی ازم کی آڑ میں صہیونیت اور دجال کے ان سہولت کاروں کا مکروہ چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ ذیل میں سندھ کے راشدی خاندان کے چشم وچراغ پیر سید یاسر الدین الراشدی کی ایک سندھی تحریر کا ترجمہ پیش خدمت ہے، جو انہوں نے تین دن قبل لکھی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’اسرائیل کی حامی صوفی کونسل پاکستان:صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں واقع درگاہ سروبا شریف کی گدی نشین، پیر مدثر شاہ، جو سچ انسٹیٹیوٹ اور اس کی ذیلی تنظیم ’’صوفی کونسل‘‘کے بانی ہیں، اسرائیل کے حامی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ پیر مدثر شاہ نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا ہے، جہاں ان کا خیر مقدم کیا گیا اور ان کے انٹرویوز بھی نشر ہوئے۔ ان انٹرویوز میں، پیر مدثر نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا اور اسرائیلی یہودیوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج ہم ان کے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھائیں گے تو کل ہمارے حقوق کے لیے بھی کوئی آواز نہیں اٹھائے گا۔ پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی مخالفت کی جاتی ہے، لیکن پیر مدثر شاہ اپنے پلیٹ فارم سے اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ بات حیران کن اور نہایت معنی خیز ہے کہ پاکستانی ریاستی ادارے اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ ایک طرف عالم اسلام فلسطینیوں کے قتل عام پر آواز اٹھا رہا ہے اور دوسری طرف مسلمان رہنما اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ اگر سندھ کے پیر اور علماء اس بنام نہادصوفی کونسل کے مقاصد سے واقف ہیں تو انہیں فورا اس سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے۔ اگر وہ لاعلمی میں اس کا حصہ بنے ہیں تو انہیں اس سے الگ ہو کر اسرائیل کے حامی پیر مدثر شاہ کو پیغام دینا چاہیے کہ وہ اسرائیل کی حمایت سے باز آئیں۔ اگر وہ واقعی سچے مسلمان ہیں تو انہیں اسرائیل کی حمایت سے گریز کرنا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ کہ اسرائیل کے یہودی بھی اس صوفی کونسل کے رکن ہیں۔‘‘
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسرائیل کی حمایت اسرائیلی صدر پیر مدثر شاہ صوفی کونسل اسرائیل کے صوفی ازم کرتے ہیں رہے ہیں ہیں تو اور اس کے لئے ہیں اس
پڑھیں:
بس اب بہت ہو چکا
7 اکتوبر 2023کو حماس نے اسرائیل پر میزائلوں کے تابڑ توڑ حملے کیے جن سے اسرائیل کے بارہ افراد ہلاک ہوئے مگر جب اسرائیل نے فلسطینیوں پر میزائل حملے شروع کیے، اس سے درجنوں فلسطینی شہید ہو گئے۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اب تک پچاس ہزار فلسطینی مرد عورتیں اور بچے شہید ہو چکے ہیں۔
گو کہ تمام مسلم ممالک کے علاوہ کچھ غیر مسلم ملک بھی اسرائیل کی اس جارحیت کو ختم کرانے کے لیے کوشاں ہیں مگر اسرائیل پرکوئی اثر نہیں پڑ رہا، وہ فلسطینیوں کے قتل عام میں بدستور مصروف ہے۔ اقوام متحدہ جیسا ادارہ جس کا حکم دنیا کے ہر ملک کو ماننا لازمی ہے۔ اسرائیل ان کی کیا برطانیہ، فرانس اور کینیڈا جیسے حلیف ممالک کی بھی نہیں سن رہا۔ عالمی عدالت انصاف بھی نیتن یاہو کو انسانیت کا قاتل قرار دے کر اس کے ریڈ وارنٹ جاری کرچکا ہے مگر نیتن یاہو اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کر رہا۔ وہ اسرائیل سے باہر ملکوں کا دورہ کر رہا ہے مگر اسے عالمی عدالت انصاف کے حکم کے باوجود کوئی ملک گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں پر یہ آفت حماس کے اسرائیل پر بغیر سوچے سمجھے میزائل حملے کا نتیجہ ہے۔ جب حماس نے اسرائیل پر میزائل حملہ کیا تھا اس وقت بھی راقم الحروف نے حماس کے اقدام سے اتفاق نہیں کیا تھا اور اپنے کالم میں اس کے بھیانک مضمرات کا ذکر کیا تھا کہ حماس کی اس غلطی سے فلسطینیوں پر کتنا بڑا عذاب آ سکتا ہے اور وہی ہوا۔ اسرائیلی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر اسے کیا کہا جائے کہ اسرائیلی قیادت تو حماس کے حملے کا جیسے کہ انتظار ہی کر رہی تھی کہ اسے موقع ملے تو وہ فلسطینیوں پر اپنا قہر ڈھائے اور غزہ کو تباہ کر کے فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرے اور غزہ پر قبضہ جما سکے، اب اسرائیل بالکل وہی کر رہا ہے جس کا ڈر تھا۔ اسرائیل ایسا کیوں کر رہا ہے کیوں کہ اسے اپنے آقا یعنی امریکا کی مکمل آشیرباد حاصل ہے اس کے علاوہ یورپی ممالک بھی اس کا دم بھر رہے ہیں۔
صرف مغربی ممالک ہی نہیں دیگر ممالک بھی اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو اس کا حق دفاع قرار دے رہے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے اسی وجہ سے طول پکڑ رہے ہیں کہ حماس نے حملے میں پہل کی تھی حالاں کہ اس غلطی کو نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے جیسے کہ اب بھارت نے پاکستان پر حملے میں پہل کی ہے وہ عالمی قوانین کے مطابق جارحیت کا مرتکب ہوا ہے مگر کوئی بھی ملک اسے جارح قرار دے کر اس کی مذمت نہیں کر رہا البتہ بغیر ثبوت کے پاکستان پر جارحیت کرنے کو ایک نامناسب اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ دراصل دنیا میں دہرا معیار چل رہا ہے سب ہی طاقتور کے ساتھ ہیں پھر یہاں بھارت کو یہ فائدہ پہنچ رہاہے کہ اس نے سرائیل کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا ہے،دونوں ہی غاصب ملک ہیں۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور بھارت نے کشمیر پر اپنا ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ چنانچہ امریکا اور یورپی ممالک اگر بھارت کی مذمت کرتے ہیں اور اسے کشمیر خالی کرنے کے لیے کہتے ہیں اور جوکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق صحیح اقدام ہوگا تو ادھر اسرائیل کو فلسطین پر اپنا قبضہ ختم کرنے کے لیے بھی زور ڈالنا ہوگا جوکہ ان کی اپنی پالیسی کے خلاف ہوگا، بس عالمی طاقتوں کی انھی مصلحتوں کی وجہ سے اب تک نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکا ہے اور نہ مسئلہ فلسطین پر کوئی پیش رفت ہو سکی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اقوام متحدہ نے محکوم قوموں کو غاصب ممالک کے خلاف جدوجہد کرنے کا اختیار دیا ہے اور حماس نے اسی نظریے کے تحت اسرائیل پر حملہ کیا تھا کہ وہ اپنی آزادی کے لیے غاصب اسرائیل کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے ہیں مگر اسے دہشت گردی سے جوڑا گیا اسی طرح کشمیر میں جو مجاہدین بھارت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں انھیں دہشت گرد گردانا جاتا ہے جب کہ ایسا کہنا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حماس کا اسرائیل کے خلاف میزائلوں سے حملہ بھی ان کی اپنی جدوجہد آزادی کا حصہ تھا جسے کسی طرح بھی دہشت گردی سے نہیں جوڑا جانا چاہیے مگر افسوس کہ حماس کو یہ اقدام بہت مہنگا پڑ گیا اور ان کی قوم کے لیے ایک وبال بن گیا جس کا قہر وہ پونے دو سالوں سے مسلسل جھیل رہے ہیں۔
عرب ممالک اس جنگ کو بند کرانے میں مکمل ناکام ہو گئے ہیں وہ اسرائیل پر دباؤ تک نہیں ڈال سکتے کیونکہ اسرائیل کے پیچھے امریکا ہے جس سے آنکھیں ملانا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ امید تو یہ کی جا رہی تھی عرب ممالک امریکا سے اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے اسرائیل کو ٹرمپ سے شٹ اپ کال دلوا سکیں گے مگر وہ فلسطینیوں کو اسرائیلی حملوں سے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب ممالک بھی جلد از جلد جنگ بند کرانا چاہتے ہیں مگر افسوس کہ امریکا کے آگے بے بس ہیں اور نیتن یاہو امریکی پشت پناہی سے فائدہ اٹھا کر غزہ کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
ٹرمپ کے بارے میں یہ ایک اہم سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے خلاف ہیں دنیا میں جہاں کہیں بھی جنگ ہو رہی ہے اسے ختم کرانا ان کا مشن ہے مگر اسرائیل تو تقریباً پونے دو سال سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے اور روز ہی شہادتیں ہو رہی ہیں مگر ٹرمپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ایک عرصے سے جنگ بندی کرانے اور نئی فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عرب ممالک اور امریکی نمایندوں کے درمیان گفت و شنید جاری ہے مگر یہ کب عملی شکل اختیار کرے گا، اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا کیونکہ اس میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی آڑے آ رہی ہے وہ نہ تو جنگ بندی چاہتا ہے اور پھر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تو وہ بالکل بھی تیار نہیں ہے۔ وہ فلسطینی ریاست کو کیا تسلیم کرے گا کیونکہ وہ تو گریٹر اسرائیل کا پرچار کرتا نظر آ رہا ہے۔