لاہور:

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ کوشش ہے پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو واپس اسی سطح پر لے آئیں جہاں مشترکہ امور پر بات چیت ہوسکے، ہمارا اختلاف پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی سے بھی ہے لیکن لڑائی نہیں ہے۔

یہ بات انہوں ںے لاہور میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کافی عرصہ سے ارادہ تھا کہ جب لاہور آؤں تو منصورہ بھی آؤں تاکہ باہمی رابطے بحال ہوں، آج کی ملاقات میں پروفیسر خورشید کی وفات پر اظہار تعزیت کیا ہے، 27 اپریل کو مینار پاکستان میں غزہ کے حوالے سے کانفرنس اور مظاہرہ ہوگا، اس میں ہم سب شریک ہوں، ملک بھر میں بیداری کی مہم چلائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مجلس اتحاد امت کے نام سے پلیٹ فارم تشکیل دے رہے ہیں، لاہور میں 27 اپریل کو ہونے والی کانفرنس اسی پلیٹ فارم سے ہوگی، دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہیں جو لوگ اسرائیل گئے وہ پاکستان یا مسلمانوں کے نمائندے نہیں تھے، امت کو مسلم حکمرانوں کے رویوں سے تشویش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاد انتہائی مقدس لفظ ہےاس کی اپنی ایک حرمت ہے، جہاد کا مرحلہ تدبیر کے تابع ہوتا ہے، آج جب مسلم ممالک تقسیم ہیں تو جہاد کی صورتیں بھی مختلف ہوں گی، ہمیں لوگوں کی باتوں کی پروا نہیں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ شریعت اور اسلام کیا کہتا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جن علما کرام نے فلسطین کے حوالے سے جہاد فرض ہونے کا اعلان کیا ان کے اعلان کا مذاق اڑایا گیا، ان ہی علما کرام نے ملک کے اندر مسلح جدوجہد کو حرام قرار دیا اس پر کیوں عمل نہیں کیا جاتا؟

سیاسی معاملے پر گفتگو میں انہوں نے کہا کہ جے یو آئی صوبائی خود مختاری کی حامی ہے، نہروں کے حوالے سے سندھ کے مطالبے کا احترام کرتے ہیں، نہروں کا معاملہ وفاق میں بیٹھ کر باہمی مشاورت سے طے ہونا چاہیے، ہماری کوشش ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو واپس اس سطح پر لے آئیں جہاں مشترکہ امور پر بات چیت ہوسکے، ہمارا اختلاف پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی سے بھی ہے لیکن لڑائی نہیں ہے۔ 

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام نے اصولی طور پر طے کیا ہے کہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھیں گی،  26ویں آئینی ترمیم ہماری نظر میں غیر ضروری تھی، 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے جے یوآئی کی اپنی پالیسی تھی، حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ آج کی ملاقات میں ملک کی سیاسی صورتحال سمیت غزہ کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: الرحمان نے کہا جماعت اسلامی فضل الرحمان کے حوالے سے نے کہا کہ

پڑھیں:

محمد لئیق خان ایک متحرک اور بہادر راہنما

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251214-03-5

 

محمد حسین محنتی

محمد لئیق خان جماعت اسلامی اورنگی کے رکن، معروف سماجی رہنما، محنتی اور بہادر نوجوان تھے۔ ان کا خاندان تقسیم کے وقت ہجرت کرکے پاکستان میں شکارپور آیا کچھ عرصہ کے بعد سکھر رہائش پذیر ہونے وہاں تعلیم حاصل کی اور ملازمت کے لیے کراچی منتقل ہوگئے اورنگی ٹاؤن کو اپنا مرکز و محور بنایا۔ طالب علمی کی زندگی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ فعال کردار ادا کیا۔ تعلیم سے فارغ ہوکر جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے۔ کارکن کی حیثیت سے مختلف ذمے داریاں نبھائیں، جماعت کی رکنیت اختیار کی۔ غریب اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا اور ان کے مسائل حل کرنا ان کا بہترین شغل تھا پورے اورنگی ٹاؤن سے لوگ پولیس، آپس کے جھگڑوں اور دیگر مسائل کے حل سلسلے میں ان سے رابطہ کرتے اور وہ شام سے رات گئے تک ان کے ساتھ دوڑ بھاگ میں لگے رہتے‘ اسی عرصے میں ایم کیو ایم کا قیام عمل میں آیا اور کراچی کے مختلف علاقوں میں لسانیت اور قوم پرستی کی آگ لگ گئی ہم یہاں پر ایم کیو ایم کے قیام کا پس منظر اور اس کے محرکات بھی آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔

کراچی شہر میں جماعت اسلامی ایک مؤثر عوامی جماعت کی حیثیت سے فعال اور متحرک تھی اسی وجہ سے شہر میں امن و امان، خوشحالی، بھائی چارے اور ترقی کا ماحول تھا۔ یہ امن و امان اور محبت کا ماحول ملکی اور غیر ملکی طاقتوں کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ سندھ میں اردو بولنے والی مہاجر آبادیوں میں احساس محرومی پایا جاتا تھا اس کی ایک وجہ کراچی اور حیدرآباد میں مہاجر آبادی کو سرکاری نوکریوں میں تعصب کی بنیاد پر بہت کم مواقع ملنا جیسے عوامل شامل تھے۔ سندھ یونیورسٹی و دیگر کالجوں میں مہاجر طلبہ کو داخلوں میں کافی دشواریاں پیش آتیں۔ اس وجہ سے ماحول میں کافی تناؤ پیدا ہوگیا تھا۔ انہی دنوں میں ایک طالبہ بشریٰ زیدی کوچ کے حادثے میں ہلاک ہوگئیں۔ اس کو جواز بنا کر شہر میں پٹھان مہاجر فسادات پھلائے گئے۔ یہ لسانیت کی آگ تیزی سے پھلتی چلی گئی، اس کے بڑے منفی اثرات شہر کی سیاست خصوصاً اورنگی ٹاؤن پر پڑے۔ ایم کیو ایم نے 1985 سے لسانیت کی سیاست کو مزید ہوا دی اور پورے صوبہ سندھ میں مہاجر آبادیوں کو اس کی آماجگاہ بنا دیا۔ آنے والے برسوں میں انتخابی سیاست اور طلبہ و مزدور سیاست کو مکمل طور پر لسانیت کے رنگ میں رنگ دیا گیا۔ اس عرصے میں ہونے والے تمام انتخابات میں ایم کیو ایم کو کامیابی ملی۔ جماعت اسلامی نے شہر میں محبت یکجہتی اور خدمت کے پیغام اور عملی جد وجہد کے ذریعے شہرکو دہشت گردی اور لسانیت سے پاک کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ جنرل مشرف نے حکومت سنبھالنے کے بعد سب پہلے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا۔ انہوں نے بلدیاتی قوانین میں رد و بدل کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے کئی محکموں کو بلدیاتی حکومتوں کے حوالے کر دیا۔ ایم کیو ایم نے نئے قوانین کو مسترد کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ جماعت نے اختیارات کے نچلی سطح پر منتقلی کو عوام کے بہترین مفاد میں سمجھتے ہوئے آگے بڑھ کر نئے قوانین کو قبول کر لیا۔ اس طرح جماعت کے کارکنان کی جان توڑ کوششوں اور بیش بہا قربانیاں کے نتیجے میں 2001 میں بلدیاتی انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان صاحب نے ناظم سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا انتخاب اپنی پوری ٹیم کے ساتھ جیت لیا۔ جناب نعمت اللہ خان اور ان کے ساتھیوں نے اہم ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کرکے شہریوں کے دل جیت لیے۔ اس طرح کراچی شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ 2002 میں مشرف حکومت نے قومی الیکشن کا اعلان کیا۔ جماعت نے ایم ایم اے کے تحت اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ اورنگی میں محمد لئیق خان کی خدمات اور ان کے عوامی رابطوں کے پیش نظر ان کو میدان میں اُتارا۔ انہوں نے گھر گھر رابطے کیے۔ اورنگی کے سلگتے ہوئے مسائل کو ہائی لائٹ کیا۔ کارکنان کے ساتھ مل کر جارحانہ عوامی مہم چلائی۔ اورنگی ٹاؤن ایم کیو ایم کا گڑھ ہونے کے باوجود ان کو معجزاتی طور پر شکست ہوئی۔ جماعت کے کارکنان نے اپنی کامیابی پر شکرانہ ادا کیا اور ان مسائل کے حل کے لیے ٹھان لیا۔ جناب محمد لئیق خان نے مختلف کمیٹیاں تشکیل دیں۔ ایم کیو ایم کے کارکنان کے سر پر ہاتھ رکھ کر ان کو جماعت میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ مرحوم لئیق خان نے رات دن ایک کرکے اورنگی کے حالات میں بہتری کے لیے اہم کردار ادا کیا ۔ لئیق خان نے قومی اسمبلی میں تلخ اور متواتر سوالات سے وزراء کو ہلا کر رکھ دیا۔ قومی اسمبلی کے پورے ٹنیور میں پرائیویٹ بل ایک ہی پاس ہوا اور وہ شادیوں کے کھانے کا ون ڈش کا بل تھا جسے لئیق خان نے ہمارے ساتھ ملکر پیش کیا تھا۔ وہ کبھی اجلاس سے غیر حاضر نہیں رہے۔ راقم ان کے پڑوس کے لاج میں رہتے تھے اس لیے کھانا اجلاس میں شرکت ساتھ ہی ہوتا تھا۔ ان کا لاج اورنگی کے ساتھیوں سے بھرا رہتا۔ لئیق بھائی نے اپنے لاج میں کھانے کا انتظام رکھا تھا۔ اس لیے ان کے کمرے میں ہم لوگ ساتھ ملکر کھانا کھاتے۔ اللہ تعالیٰ محمد لئیق خان کی سماجی خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین

 

محمد حسین محنتی

متعلقہ مضامین

  • لاہور: ملزم جیولری مارکیٹ کے سناروں کا 20 کلو سونا لیکر فرار
  • محمد لئیق خان ایک متحرک اور بہادر راہنما
  • لاہور: لطیف جیولری مارکیٹ سے کروڑوں روپے مالیت کا 20 کلو سونا غائب ہونے بڑا اسکینڈل 
  • فیض حمید کے سازشی عناصر اب بھی عمران کو اقتدار میں لانا چاہتے ہیں، خواجہ آصف کا دعویٰ
  • امریکی کانگریس میں بھارت سے تعلقات میں جمود، پاکستان کو کلیدی شراکت دار قرار دینے پر بحث
  • جتھے لانا یا لشکر کشی کرانا، یہ سینیٹ میں نہیں ہوسکتا: ڈپٹی چیئرمین سینیٹ
  • شوہر کے میرا کے ساتھ تعلقات پر جویریہ سعود نے خاموشی توڑ دی
  • نادیہ خان کے خلیل الرحمان قمر کے بارے میں سخت ریمارکس
  • اداکارہ سارہ علی خان کے دیے گئے بسکٹ فقیر نے شکریہ کے ساتھ واپس کردیے، ویڈیو وائرل
  • فٹبال کوچ کو خاتون کیساتھ نازیبا تعلقات پر برطرفی کے بعد گرفتار بھی کرلیا گیا