بدقسمتی سے سیاستدان جمہوریت کا جنازہ نکال رہے ہیں، ایمل ولی خان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
ایمل ولی خان(فائل فوٹو)۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ آج سینیٹ میں جو ماحول دیکھا، یہ جمہوریت کا جنازہ نکل رہا ہے۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایمل ولی نے کہا کہ بدقسمتی سے سیاستدان جمہوریت کا جنازہ نکال رہے ہیں، آپ میں بات سننے کی ہمت نہیں تو ایسی قانون سازی نہیں چل سکتی۔
ایمل ولی کا کہنا تھا کہ سینیٹ کے ملازمین سینیٹرز کو اشارے کر رہے تھے کہ باہر نکلیں، مسلم لیگ ن کورم کی نشاندہی کر رہی تھی۔
اے این پی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سینیٹرز ایک دن کی تنخواہوں کو نہیں چھوڑتے، یہ ساتھی ایک کمپنی کی پیداوار ہیں، ایک پرو ہے ایک پرومیکس۔
انہوں نے کہا کہ دونوں سائیڈوں سے ارکان ایک ادارے کو ہی خوش کرنے میں لگے ہیں، گرین چولستان پروگرام کا کچا چٹھا میں کھولوں گا۔
ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ مائنز اینڈ منرلز قوم کے ہیں، اگر ن لیگ پی ٹی آئی مل کر فیصلے کریں تو ہم مقابلہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس ملتوی کر کے جمعہ کو بلایا، 4 دن کی تنخواہیں سینیٹرز کو مل گئی ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ایمل ولی خان
پڑھیں:
حالات خراب ہیں!
میں نے سب سے پہلے یہ جملہ کہ ’’حالات خراب ہیں‘‘ 1980 میں اپنے والد سے سنا جب میں نے میٹرک کے امتحانات کے بعد اپنے والد سے اپنے اسکول کے گروپ کے ساتھ پاکستان کی سیر پر جانے کی اجازت اور پیسے طلب کیے۔ کچھ میری اپنی ضد اور سب سے بڑھ کر والدہ کی سفارش کے نتیجے میں اجازت اور پیسے دونوں مل گئے۔
پورے سفر کا دورانیہ تئیس دن تھا جس میں تمام شمالی علاقہ جات بھی شامل تھی۔ اخراجات کا تخمینہ اسکول نے ساڑھے چھ سو لگایا تھا کہ جس میں رہائش، کھانا پینا اور چند مخصوص علاقوں کی سیر بھی شامل تھی۔ شاید نئی نسل کو یہ رقم ایک لطیفہ ہی لگے مگر 1980 میں یہ ایک خاصی مناسب رقم ہوتی تھی۔
اس سفر سے آنے کے بعد جو جملہ مستقل طور پر میری زندگی کا حصہ بن گیا وہ آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ ’’ حالات خراب ہیں‘‘۔ ایسا نہیں کہ اس سفر میں کوئی حادثہ پیش آیا ہو۔ سفر بہترین رہا، انتظامات شاندار تھے اور یہ سفر آج بھی میری یادوں کے دریچوں میں ایک خوبصورت یاد کے طور پر محفوظ ہے۔ اس کے بعد ہر دو یا تین سال بعد میں دوستوں کے ساتھ سفر پر جاتا اور شادی کے بعد پہلے صرف بیگم اور بعد میں بچوں کے ساتھ پورا پاکستان دیکھا اور دکھایا۔ ہر سفر سے پہلے والدین سے اجازت ضرور لی لیکن اجازت سے پہلے جو جملہ سننے کو ملتا وہ یہی ہوتا تھا کہ حالات خراب ہیں، نہ جاؤں تو بہتر ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ میں نے سدھر کر دیا اور نہ حالات تبدیل ہوئے۔ ہر سفر سے پہلے یہ جملہ میرا مستقل ساتھی رہا اور آج بھی ہے کہ حالات خراب ہیں۔
اب اس صورتحال میں یہ سوال یا سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ حالات کیوں خراب ہیں؟ اور حالات کس کی وجہ سے خراب ہیں؟ دونوں سوالات کے صحیح جواب دینے سے پہلے تو آپ یہ سمجھ لیجیے کہ ان سوالات کے درست جوابات دینے پر آپ کی حب الوطنی پر حرف آئے گا بلکہ صاحب حرف کیا پوری پوری چارج شیٹ یا ایف آئی آر یعنی پہلی معلوماتی روداد بھی درج ہوسکتی ہے کہ جس کے نتیجے میں آپ کے حالات یقیناً خراب ہوجائیں گے، حالانکہ ان سوالات کے درست جواب میں ہی اس مسئلے کا حل پنہاں ہے۔ اگر میں اپنے ’’حالات‘‘ کی ’’امان‘‘ پاؤں تو عرض کروں کہ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو نظام پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ نظام جو کہ خود ایک ضابطہ ہوتا ہے ایک ’’منظم بے ضابطگی‘‘ کا شکار ہے اور اس کا شکار خود اس کے رکھوالے کھیل رہے ہیں بلکہ کھیل کیا رہے ہیں انھوں نے تو پورے نظام کو ہی ’’رکھیل‘‘ بنا کر رکھا ہوا ہے۔
آج ثنا یوسف کے واقعے کا بہت چرچا ہے اور کل سلمان فاروقی والے واقعے کا بہت شور و غوغا تھا۔ ابھی تھوڑے دن پہلے یہ قوم نتاشا اقبال کو کوس رہی تھی اور پھر وہ وکٹری کا نشان بنا کر باعزت بری ہوگئی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایسے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں اور قانون ان کی پیش بندی سے قاصر ہے بلکہ اس کے آگے لاغر اور ناتواں ہیں۔ ان حالات میں سماجی ذرائع ابلاغ غریبوں کا رابن ہڈ یا سلطانہ ڈاکو بن کر نمودار ہوا ہے کہ جس کے آگے اس وقت قانون کے رکھوالے اور قانون شکن یکساں طور پر بےبس ہیں۔ اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ کوئی صحت مندانہ رحجان نہیں ہے بلکہ ایک کمزور، بیمار اور ذہنی طور پر معذور معاشرے کی علامت ہے کہ جس کا انجام سوچتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔
یہ سماجی ذرائع ابلاغ اس وقت ایک مادر پدر آزاد نظام بنا ہوا ہے کہ جو یکطرفہ روداد سنا یا دکھا کر معاشرے میں ہیجانی کیفیت طاری کردیتا ہے اور اس یکطرفہ کارروائی پر معاشرہ اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے اور اس فیصلے کے قانون اپنی کارروائی ضرور کرتا ہے کہ جس سے قانون کی بالادستی ضرور مستحکم ہوتی ہے مگر انصاف شرط نہیں ہوتا۔
سماجی ذرائع ابلاغ کیسے کام کرتا ہیں اس پر ایک کہانی اور اختتام۔ ایک بادشاہ کے سامنے ایک مقدمہ رکھا گیا۔ مقدمہ بالکل سیدھا تھا۔ سب کو نظر آرہا تھا کہ مدعی حق پر ہے مگر مدعا علیہ زور زور سے اور چیخ چیخ کر اپنا دفاع کررہا تھا اور اپنا دعوٰی بیان کررہا تھا۔ بادشاہ نے مدعا علیہ کے حق میں فیصلہ دے دیا، بعد میں جب دربار نے جان کی امان طلب کرکے اپنی اصلاح کےلیے بادشاہ سے فیصلے کی وجہ پوچھی تو بادشاہ نے جواب دیا کیا تمھیں نہیں پتہ کہ سچ کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا تو جس کی آواز تیز اور اونچی تھی میں نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس پر پورا دربار بادشاہ کی ثنا میں گونج اٹھا۔
یہی حقیقت اس وقت سماجی ذرائع ابلاغ کی ہے۔ نظام کی بربادی کے نتیجے ایک متبادل چیز پرورش پارہی ہے کہ جس کو نظام تو بالکل نہیں کہا جاسکتا، ہاں ایک مکمل افراتفری سے پہلے کی ایک شکل ضرور ہے اور اگر ہم اب بھی نہیں سنبھلے اور سدھرے تو پھر ہر چیز کا اللہ ہی حافظ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔