Daily Ausaf:
2025-11-03@14:42:45 GMT

کفار کے ساتھ نبی اکرم ﷺکا معاشرتی رویہ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکالنے میں مسلمانوں نے پہل نہیں کی تھی بلکہ خود یہودیوں نے اپنی فطرت کے مطابق مسلسل بدعہدی کے ذریعہ یہ ماحول پیدا کر لیا تھا اور ان کی جلاوطنی کے فیصلے اس وقت کے عام عرف کے مطابق جرگوں اور ثالثوں کے ذریعہ ہوئے اور یہودیوں نے ان فیصلوں کو تسلیم کیا۔
مدینہ منورہ میں جناب نبی اکرم ﷺ کو ایک اور طبقہ سے بھی سابقہ درپیش رہا جس کے بارے میں قرآن کریم نے کہا ہے کہ وہ ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر ’’وما ہم بمومنین‘‘ وہ مومن نہیں ہیں۔ یہ منافقین تھے جن کی قیادت عبد اللہ بن أبی کر رہا تھا، میری طالب علمانہ رائے میں عبد اللہ بن أبی کو حکومت کا چانس ختم ہو جانے پر جو غصہ تھا وہ باقی ساری زندگی اس کا بدلہ ہی لیتا رہا۔ اس نے مدینہ منورہ میں بڑے بڑے فتنے کھڑے کیے اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ احد کی جنگ میں وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر میدان سے نکل گیا۔ اس وقت جنگ کے لیے احد تک جانے والے لشکر کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں سے تین سو افراد عبد اللہ بن ابی کی قیادت میں میدان چھوڑ کر واپس آگئے تھے۔ اس سے ان کا تناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کم و بیش تیس فی صد تھے۔
غزوۂ احد کے بعد مسلمانوں میں ان منافقین کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہئے، بعض کی رائے تھی کہ
ان کے خلاف کاروائی کی جائے جبکہ دوسرے حضرات کا خیال تھا کہ انہیں اسی طرح ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس کا ذکر قرآن کریم نے ’’فمالکم فی المنافقین فئتین…الخ‘‘ کی آیت کریمہ میں کیا ہے۔ ان منافقین نے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر جھوٹی تہمت کا بازار گرم کیا۔ انہوں نے مدینہ منورہ سے مہاجرین کو نکال دینے کی سازش بھی کی جس کا تذکرہ قرآن کریم کی سورۃ المنافقون میں ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود حضورﷺنے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ وہ معاشرتی زندگی حتیٰ کہ مذہبی معاملات میں بھی مسلمانوں کے ساتھ مسلسل شریک رہے۔ ان کے خلاف نہ کوئی احتجاجی کاروائی ہوئی اور نہ ہی انفرادی طور پر ان میں سے کسی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی کسی کو اجازت ملی۔ عبد اللہ بن أبی کو قتل کرنے کی اجازت حضرت عمرؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے علاوہ حضرت سعد بن معاذؓ نے بھی مانگی تھی مگر آپ ﷺ نے کسی کو اجازت نہیں دی اور یہ فرمایا کہ اس سے دنیا کے دوسرے لوگوں کو یہ تاثر ملے گا کہ حضرت محمدﷺتو اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔یہ جناب نبی اکرم ﷺ کی کمال حکمت عملی تھی کہ ان منافقین کی الگ گروہی شناخت قائم نہ ہونے دی جائے اور انہیں مدینہ منورہ کے اندر کوئی داخلی محاذ بنانے کا موقع نہ دیا جائے۔ حتیٰ کہ جن چودہ منافقین نے نبی اکرمؐ کو راستے میں گھیر کر قتل کرنے کی ناکام کاروائی کی تھی۔ آپ ﷺنے ان کے نام تک حضرت حذیفہؓ کے علاوہ کسی کو نہیں بتائے اور انہیں بھی سختی کے ساتھ تاکید کی کہ ان میں سے کسی کا نام ظاہر نہ ہونے پائے۔ اور یہ بھی اسی حکمت عملی کا حصہ تھا کہ انہیں مسجد کے نام پر اپنا الگ مرکز بنانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ ان کی بنائی ہوئی مسجد کو ’’مسجد ضرار‘‘ قرار دے کر منہدم کرا دیا گیا۔ان منافقین کے بارے میں جنہیں قرآن کریم نے ’’وما ہم بمؤمنین‘‘ کہہ کر کافر قرار دینے کا اعلان کر دیا تھا، آنحضرت ﷺ کی حکمت عملی یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انہیں معاشرتی طور پر الگ کر کے اپنا تشخص قائم کرنے کا موقع نہ دیا جائے اور داخلی طور پر اپنے لیے کوئی محاذ کھڑا نہ ہونے دیا جائے۔ اس کامیاب حکمت عملی کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ وہ لوگ جو غزوہ احد کے وقت کم و بیش تیس فیصد دکھائی دے رہے تھے، حضرت حذیفہؓ والے واقعہ تک ان کی تعداد درجن بھر رہ گئی تھی، اور اس کے بعد تاریخ میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ وہ کدھر گئے؟ ظاہر بات ہے کہ سارے مرکھپ تو نہیں گئے تھے بلکہ آہستہ آہستہ توبہ تائب ہو کر مسلمانوں کے عمومی معاشرے میں تحلیل ہو کر رہ گئے تھے جو جناب رسول اللہ ﷺ کی کمال حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔اس دس سالہ مدنی دور میں کفار کے ساتھ جناب نبی اکرم ﷺ کی معاشرتی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں جہاں کافر قوموں کے ساتھ دو درجن سے زیادہ جنگیں موجود ہیں وہاں معاہدات بھی تاریخ کا حصہ ہیں، مل جل کر رہنے کی روایت بھی میثاقِ مدینہ کی صورت میں واضح دکھائی دیتی ہے، اور داخلی دشمنوں کو صف آرائی کا موقع نہ دیتے ہوئے آہستہ آہستہ انہیں بے اثر کر دینے کی کامیاب حکمتِ عملی کے ثمرات بھی نظر آتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: عبد اللہ بن ا حکمت عملی کا ان منافقین نبی اکرم ﷺ دیا جائے کے ساتھ کے خلاف ا ہستہ

پڑھیں:

پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ اس وقت پارٹی اور وفاقی حکومت یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو رہے۔

نجی ٹی وی کے پروگرام دوسرا رخ میں گفتگو کرتے ہوئے گوہر علی خان نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی انداز میں تلاش نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والی بات چیت بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: موجودہ آرمی چیف کے دور میں عمران خان کی رہائی ممکن ہے، بیرسٹر گوہر علی خان

انہوں نے بتایا کہ جب مارچ 2024 میں پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کا مینڈیٹ چُرایا گیا ہے، تو پارٹی بانی عمران خان نے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی، مگر جب بات چیت آگے نہ بڑھی تو کہا گیا کہ پی ٹی آئی صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے۔

گوہر علی خان کے مطابق عمران خان نے کہا تھا کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اگر کوئی تجویز لے کر آتے ہیں تو اس پر غور کیا جائے گا۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید بتایا کہ 26 نومبر کو ایک اور کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی لیکن حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدگی ظاہر نہیں کی گئی۔ ہماری اور حکومت کی کمیٹیوں کے قیام کے باوجود دو ہفتے تک ملاقات نہ ہو سکی۔ اس کے بعد حکومت نے ملنے میں دلچسپی نہیں دکھائی، اس لیے ہم نے محض فوٹو سیشن کے لیے بیٹھنے سے انکار کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا قومی اسمبلی کی 4 قائمہ کمیٹیوں سے استعفیٰ

انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد محض بات چیت نہیں بلکہ سیاسی مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنا تھا، جو جمہوریت، پارلیمان اور تمام جماعتوں کے لیے بہتر ہوتا، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔

خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشنز پر مؤقف

گوہر علی خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں جاری آپریشنز کے حوالے سے جنوری، جولائی اور ستمبر میں آل پارٹیز کانفرنسز بلائیں۔ ان کے مطابق انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز ضروری ہیں، تاہم ان میں شہریوں کو نقصان یا سیاسی استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ آپریشنز میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے گھر آج تک دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکے، اس لیے آئندہ کسی بھی کارروائی میں عوامی تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسٹیبلشمنٹ بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی مذاکرات

متعلقہ مضامین

  • آزاد ‘ محفوظ صحافت انصاف ‘ جمہوریت کی ضامن: سینیٹر عبدالکریم 
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • کینیڈا اور فلپائن کا دفاعی معاہدہ، چین کو روکنے کی نئی حکمتِ عملی
  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  •  دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن 
  • دہشت گردی پاکستان کےلیے ریڈ لائن ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، بیرسٹر دانیال چوہدری
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر