امریکی رکن کانگریس جیک برگ مین نے بھی عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کردیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان کا اعلیٰ سطحی دورہ کرنیوالے امریکی رکن کانگریس جیک برگ مین نے پاک امریکا تعلقات میں انسانی حقوق پر زور دیتے ہوئے سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک بیان میں، ریپبلکن پارٹی سے وابستہ رکن کانگریس جیک برگمین نے پاکستان اور امریکا کے مضبوط تعلقات کو فروغ دینے میں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی اہمیت پر زور دیا۔
جیک برگ مین کا کہنا تھا کہ دورہ پاکستان کے دوران اور بعد میں امریکا میں رہنماؤں اور کمیونٹیز سے بات چیت کے تناظر میں، وہ عمران خان کی رہائی کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہیں۔
https://Twitter.
’پاکستان اور امریکا کی مضبوط شراکت داری مشترکہ اقدار یعنی جمہوریت، انسانی حقوق اور معاشی خوشحالی پر پروان چڑھتی ہے، آئیے مل کر آزادی اور استحکام کے لیے کام کریں۔‘
جیک برگ مین نے حال ہی میں پاکستان منرل انویسٹمنٹ فورم میں شرکت کے لیے امریکی کانگریس کے وفد کی قیادت ، کانگریس کے رکن تھامس سوزی اور جوناتھن جیکسن نے اپنے دورہ پاکستان کو ’انتہائی کامیاب اور مستقبل کے لیے اہم‘ قرار دیا تھا۔
کانگریس مین جیک برگ مین سمیت وفد کے اراکین نے پاکستان میں اپنے قیام کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر، وزیر داخلہ محسن نقوی اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھی عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیوں کر رہےہیں؟
رکن کانگریس جیک برگمین کے اس حالیہ بیان سے عمران خان کی رہائی کی وکالت کرنے والے امریکی قانون سازوں کی آواز میں اضافہ ہوا ہے، رواں برس فروری میں، کانگریس مین جو ولسن اور اگست پلگر نے سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کو لکھے ایک خط میں عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت پر زور دیا تھا۔
اس سے قبل رچرڈ گرینیل، نیشنل انٹیلی جنس کے سابق قائم مقام ڈائریکٹر اور صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی نے عوامی طور پر عمران خان کی رہائی کی وکالت کی ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں گرینل نے خان کی قید کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کے ردعمل پر تنقید کرتے ہوئے جمہوری اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے مزید سخت موقف اختیار کرنے پر زور دیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی کانگریس بائیڈن انتظامیہ بانی پی ٹی آئی پاکستان پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم جیک برگ مین رچرڈ گرینیل رہائی سیکریٹری آف اسٹیٹ صدر ٹرمپ عمران خان مارکو روبیوذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی کانگریس بائیڈن انتظامیہ بانی پی ٹی ا ئی پاکستان پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم جیک برگ مین رچرڈ گرینیل رہائی سیکریٹری ا ف اسٹیٹ مارکو روبیو رکن کانگریس جیک برگ عمران خان کی رہائی جیک برگ مین کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟
اسرائیل میں امریکہ کے نئے سفیر مائیک ہکابی نے فلسطینی تنظیم “حماس” پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کرے جس کے تحت تباہ حال غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی ترسیل ممکن ہو سکے۔
ہکابی نے پیر کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ “ہم حماس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسا معاہدہ کرے تاکہ انسانی بنیادوں پر امداد ان لوگوں تک پہنچائی جا سکے جنہیں اس کی شدید ضرورت ہے”۔
انھوں نے مزید کہا کہ “جب ایسا ہو جائے گا، اور یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا ، جو کہ ہمارے لیے ایک فوری اور اہم معاملہ ہے، تو ہم امید رکھتے ہیں کہ امداد کی ترسیل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے گی، اور اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ حماس اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے”۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب “حماس” نے جمعرات کو اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ ایک عبوری جنگ بندی تجویز کو مسترد کر دیا۔ اس تجویز میں قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ اور امداد کی فراہمی شامل تھی۔ “حماس” کے ایک اعلیٰ مذاکرات کار کے مطابق، ان کی تنظیم صرف مکمل اور جامع معاہدے کی حامی ہے، جس میں جنگ بندی، اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا اور تعمیر نو شامل ہو۔
قطر، امریکہ اور مصر کی ثالثی سے جنوری 2024 میں ایک عبوری جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، جس نے اکتوبر 2023 میں حماس کے غیر معمولی حملے کے بعد شروع ہونے والی پندرہ ماہ سے زائد طویل جنگ کو وقتی طور پر روک دیا تھا۔
معاہدے کا پہلا مرحلہ تقریباً دو ماہ جاری رہا، جس میں اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ تاہم دوسرے مرحلے پر اختلافات کے باعث یہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔ اسرائیل اس کی توسیع چاہتا تھا، جب کہ حماس چاہتی تھی کہ بات چیت اگلے مرحلے میں داخل ہو، جس میں مستقل جنگ بندی اور فوجی انخلا شامل ہو۔
18 مارچ کو اسرائیل نے دوبارہ سے غزہ کی پٹی پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے اور امداد کی ترسیل روک دی۔ اسرائیل نے الزام لگایا کہ حماس امداد کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے، جب کہ حماس نے یہ الزام مسترد کر دیا۔ اقوامِ متحدہ نے گذشتہ ہفتے خبردار کیا کہ غزہ اس وقت جنگ کے آغاز سے بد ترین انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔
اس سے قبل امریکی نیوز ویب سائٹ axios یہ بتا چکی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وزیراعظم نیتن یاہو سے رابطہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ جنگ بندی، یرغمالیوں کے معاہدے اور ایران کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات پر گفتگو کی جا سکے۔
یہ فون رابطہ ایسے وقت متوقع ہے جب “حماس” نے اسرائیل کی ایک اور عارضی جنگ بندی تجویز کو رد کر دیا ہے … اور ایران و امریکہ کے درمیان روم میں نئی جوہری بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے۔
Post Views: 1