پہلگام حملہ: اسکرپٹ، ہدایت کاری، اداکاری کی غلطیاں
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
پہلگام میں 2 درجن افراد کو ہلاک کرکے اس کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کا مںصوبہ ناکام ہوا ہے تو اس میں بے چارے نریندر مودی کا کیا قصور؟ انہیں اسکرپٹ رائٹر اچھے ملے ہیں نہ ڈائریکٹر، اور نہ ہی اداکار۔
منصوبہ بھارتی وزیر اعظم اور بھارتی وزیر داخلہ نے خوب سر جوڑ کر بنایا تھا کہ جب مودی جی سعودی عرب میں اور امریکی نائب صدر جے ڈی وینس بھارت میں ہوں تو ریاست جموں و کشمیر کے سب سے پر امن مقام پر کارروائی ڈالنی ہے۔
ایسا منصوبہ پہلی بار نہیں بنایا گیا تھا۔ اس سے پہلے، جب بھی کوئی امریکی صدر بھارت آیا، دہشتگردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوا۔ بعدازاں یہ راز بھی کھل گیا کہ ایسے واقعات خود بھارتی ایجنسیاں کچھ مقاصد حاصل کرنے کے لیے کرواتی رہیں۔ مثلاً سن 2000 میں ہونے والا چھٹی سنگھ پورہ کا سانحہ، جس میں ایک ہی وقت میں 35 سکھوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تھا۔ اس کا الزام بھی پاکستان پر عائد کیا گیا تاہم بعد ازاں معاملہ کسی دوسرے انداز میں کھلا۔
بھارتی آرمی کے سابق جنرل ایس کے گل کہتے ہیں کہ اس واقعے کا مقصد بھارت کے دورے پر آئے ہوئے بل کلنٹن کے سامنے پاکستان کے خلاف پرواپیگنڈا کرنا تھا کہ دیکھیں! پاکستان کیا کررہا ہے۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ منصوبہ بی جے پی نے تیار کیا تھا۔
خیر ! پہلگام حملہ پلان کا مقصد بہت واضح تھا جو کسی بھی طفل مکتب کو سمجھ آ سکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد مودی جی سعودی عرب میں اور امیت شاہ بھارت میں بین ڈالتے، اپنے سر کے بال نوچتے، ان میں راکھ ڈالتے کہ پاکستان نے کشمیر میں دہشتگردی شروع کردی۔
تاہم بُرا ہو بھارتی فوجی افسران کا جو پرلے د رجے کے چغد نکلے، وہ اپنے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے۔ اسکرپٹ میں غلطیاں، ہدایت کاری میں غلطیاں اور اداکاری بھی غلطیوں سے بھرپور۔ ایسے میں سارے منصوبے کا ستیاناس ہوگیا۔
مثلاً سہ پہر 3 بجے ’حملہ‘ ہوا اور تین بج کر تین منٹ پر سوشل میڈیا پر ایک جیسے الفاظ کے ساتھ پوسٹس شائع ہونا شروع ہوگئیں، جن میں حملہ کا الزام پاکستان پر عائد کردیا گیا۔ ارے بھائی! حملے اور پوسٹس میں تھوڑا سا وقفہ ہی ڈال لیتے تاکہ اس سارے ’ڈرامہ‘ پر کچھ نہ کچھ ’ حقیقت‘ کا گمان ہوتا۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ واقعہ ہونے کے اگلے 24 گھنٹے تک غیر ملکی میڈیا کو جائے وقوعہ تک رسائی نہیں دی گئی۔انھیں 60 کلومیٹر دور ہی روک دیا گیا۔ یہ بات بھی شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔ اب ان گھامڑوں کو کون سمجھائے کہ ڈرامہ کو کامیاب کرنے کے لیے ضروری تھا کہ وہاں ’حملے‘ کے فوری بعد کچھ ایسا ماحول بنایا جاتا کہ پہلی نظر میں دیکھنے سے ہی وہ ’دہشتگردی‘ لگتا۔ پھر فوراً غیرملکی میڈیا کو یہ ’دہشتگردی‘ دکھائی جاتی۔ یوں خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی۔
لیکن یہ ہدایت کار اور اداکار اس قدر نکمے اور نااہل نکلے کہ اس واقعے کے بعد 2 دراندازوں کو ہلاک کرکے ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا کہ کنٹرول لائن سے دراندازی ہوئی۔ یعنی 400 کلومیٹر دور سے۔ اور ہلاک ہونے والے ’دراندازوں‘ کے جوتے لش پش کر رہے تھے اور جوتے بھی شادی پر پہنے جانے والے تھے نہ کہ کمانڈوز والے۔ اگر کسی کو شک ہو تو بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا میں شائع ہونے والی تصاویر ہی دیکھ لے۔
پھر ان ’دراندازوں‘ کے کپڑے بھی سلوٹوں سے پاک و صاف و شفاف تھے۔ ان کے پاس ایسا اسلحہ اور سازوسامان نہیں تھا جو گوریلا کارروائیوں میں استعمال ہوتا ہو۔
سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر شائع ہونے والی یہ ساری تصاویر ہدایت کاروں کی نااہلی کے سارے پول کھول رہی ہیں۔ اب تو ان ’دراندازوں‘ کے نام اور گاؤں کے نام بھی سامنے آ گئے ہیں۔ ثابت ہوچکا ہے کہ بھارتی فوج نے مقامی نوجوانوں کو پکڑ کر ہلاک کردیا اور انھیں ’درانداز‘ قرار دیدیا۔
مقبوضہ کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہر 11 کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی مسلط ہے۔ اس کے باوجود ایسے واقعات رونما ہونا حیران کن ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ حملے میں مارے جانے والوں اور زخمی ہونے والوں میں انٹیلی جنس افسران اور ان کی فیملی کے لوگ تھے۔ کیا یہ بات مانی جاسکتی ہے کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز نے ان افسران کی حفاظت کا انتظام نہیں کیا ہوگا؟ پانچ چھ نامعلوم آئے، انھوں نے دو ڈھائی درجن لوگوں کو مارا اور آرام سکون سے واپس پلٹ گئے۔
واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ یہ ’حملہ‘ خود بھارتی ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے۔ کشمیر کی حریت پسند قیادت بھی اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کر رہی ہے اور اسے بھارتی ایجنسیوں کی کارروائی قرار دے رہی ہے۔ بھارتی ایجنسیاں اس سے پہلے بھی ایسی حرکتیں کر چکی ہیں۔
پہلگام حملہ کا عمومی مقصد پاکستان کا تاثر دنیا میں خراب کرنا تھا لیکن ایک خاص اور بڑا مقصد بھی تھا اور اب بھی ہے کہ پہلگام اور ایسے ہی دہشتگردانہ واقعات کروا کے، پھر ان کے بہانے ریاست جموں کشمیر کے باسیوں پر ایک نیا اور زیادہ سخت عذاب توڑا جائے۔ مخالفین پر کریک ڈاؤن کیے جائیں، باقی لوگوں کو بدترین پابندیوں کا شکار رکھا جائے۔ اس طرح ریاست جموں کشمیر پر بھارتی تسلط کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے۔
جب پانچ اگست 2019 کو بھارت نے ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، تب سے اب تک کشمیری قوم شدید غم و غصے بلکہ ایک سکتے کی سی کیفیت میں ہے۔ بھارت کو خوف لاحق ہے کہ کشمیری قوم کی یہ کیفیت کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ جب یہ اضطراب طوفان کی شکل اختیار کرے گا تو بھارت کا بہت کچھ تباہ و برباد ہوجائے گا۔
چنانچہ اب حکمت عملی یہ ہے کہ ایسے دہشتگردانہ واقعات کرکے ایک طرف دنیا بھر سے ہمدردیاں سمیٹی جائیں اور دوسری طرف کشمیری قوم پر شکنجہ زیادہ سے زیادہ کس دیا جائے تاکہ وہ مستقبل بعید تک سر جھکا کر ہی جئیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت پہلگام حملہ ریاست جموں کشمیر عبیداللہ عابد ریاست جموں کشمیر پہلگام حملہ بھارتی ا
پڑھیں:
بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
کرکٹ کی تاریخ میں ایک نہایت منفرد اور افسوسناک لمحہ اس وقت سامنے آیا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے روایت سے ہٹ کر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ یہ واقعہ اس کھیل کی اصل روح پر ایک کاری ضرب ہے ، کیونکہ کرکٹ کو ہمیشہ "جنٹل مینز گیم” کہا جاتا رہا ہے ، جہاں نہ صرف کھیل کے اصول بلکہ باہمی احترام اور تعلقات کی نزاکت بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کے کھلاڑیوں کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسندی کی لہر نے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہ محض ایک لمحاتی رویہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور بیانیہ کی عکاسی تھی جسے بھارتی میڈیا اور سیاستدان بڑی شدت کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ہمیشہ سے محض کھیل نہیں بلکہ ایک بڑے اعصابی معرکے کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کا جوش و خروش اپنی جگہ، لیکن کھیل کے بعد کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ اور خوشگوار ملاقات ہمیشہ ہی ایک مثبت پیغام دیتی رہی ہے ۔ چاہے ماضی میں کتنے ہی کشیدہ حالات کیوں نہ رہے ہوں، کرکٹ نے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے کا ایک ذریعہ فراہم کیا ہے ۔ لیکن حالیہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں کھیل کی روایات بھی نفرت کی سیاست کے سامنے دم توڑ رہی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے ایک عجیب ہنگامہ برپا کیا۔ "گودی میڈیا”کہلانے والے بھارتی چینلز نے یہ بحث چھیڑ دی کہ بھارت کو پاکستان سے کھیلنا ہی کیوں چاہیے ؟ گویا کھیل کی دنیا میں بھی تعلقات کو دشمنی اور سیاست کی عینک سے دیکھنے کی عادت بن گئی ہے ۔ بھارتی میڈیا کا یہ کردار نہ صرف کھیل کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بھارتی عوام کے ذہنوں میں بھی نفرت اور دوریاں بڑھا رہا ہے ۔ کرکٹ جیسے کھیل کو جنگ کا متبادل بنانے کی کوشش دراصل ایک خطرناک رجحان ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ کھیل ایک ایسا ذریعہ ہے جو دشمنی کے بادل چھانٹ کر امن کا پیغام دیتا ہے ، جب کہ جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے ۔ کھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو قریب سے جان سکیں، تعلقات میں نرمی پیدا ہو اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔ لیکن بھارت کی موجودہ انتہا پسندانہ روش نے اس فرق کو مٹا کر کھیل کو بھی نفرت کا اکھاڑا بنانے کی کوشش کی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی تاریخ شاندار لمحوں سے بھری ہوئی ہے ۔ 1987ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو جنرل ضیاء الحق نے "کرکٹ ڈپلومیسی” کے تحت راجیو گاندھی سے ملاقات کی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں وقتی بہتری پیدا کی۔ اسی طرح 2004ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے عوام نے بھارتی کھلاڑیوں کو بے مثال محبت دی۔ حتیٰ کہ شائقین نے بھارتی کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجائیں، ان کی کارکردگی کو سراہا اور دنیا کو دکھایا کہ کھیل کس طرح دشمنیوں کو مٹا سکتا ہے ۔ لیکن آج کا بھارت اپنی اسی تاریخ کو بھلا بیٹھا ہے اور کھیل کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہا ہے ۔
اصل مسئلہ بھارت کی اندرونی سیاست میں پنہاں ہے ۔ بھارتی حکمران جماعت نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان دشمنی کو ایک بیانیہ بنا لیا ہے ۔ انتخابی مہمات ہوں یا روزمرہ کی سیاست، پاکستان کے خلاف زہر اگلنا بھارتی رہنماؤں کے لیے ایک آسان ہتھیار ہے ۔ اس بیانیے کو بھارتی میڈیا نے مزید ہوا دی ہے ۔ ہر میچ کو ایک جنگ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہر پاکستانی کھلاڑی کو ایک دشمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ نفرت اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ کھیل کے بعد ایک مصافحہ بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔یہ رویہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ بھارت کے اپنے کھیل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کو امن اور دوستی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن بھارتی کھلاڑیوں کا یہ طرزِ عمل دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ بھارت کھیل کو بھی اپنی انتہا پسندی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اس سے بھارت کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے ، کیونکہ کرکٹ کے شائقین دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، وہ کھیل کے اندر دوستی اور عزت کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ہمیشہ اپنی طرف سے کھیل کی اقدار کا احترام کیا ہے ۔ چاہے جیت ہو یا ہار، انہوں نے بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا۔ لیکن بھارت کی جانب سے یہ سرد مہری اور غیر روایتی رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ کھیل کو نفرت سے آلودہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کا نقصان صرف پاکستان کو نہیں بلکہ خود بھارت کو بھی ہوگا، کیونکہ جب کھیل سے رواداری ختم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کھیل کا اصل حسن باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ کھیل کے میدانوں کو سیاست اور نفرت سے پاک رکھا جائے ۔ کرکٹ بورڈز کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو کھیل کی اصل روح یعنی باہمی احترام اور رواداری کی تربیت دیں۔ بین الاقوامی ادارے مثلاً آئی سی سی اور اے سی سی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کھیل میں غیر اخلاقی رویوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو سیاست کا میدان نہ بنایا جائے بلکہ اسے امن اور بھائی چارے کا ذریعہ بننے دیا جائے ۔ پاکستان اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کو مزید فعال کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ کھیل کو سیاست سے بالاتر سمجھنا چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ کھیل دشمنی نہیں بلکہ تعلقات بہتر بنانے کا ذریعہ ہے ۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کھیل دلوں کو جوڑتا ہے ، جب کہ جنگ دلوں کو توڑتی ہے ۔ اگر بھارت واقعی ایک بڑی قوم بننا چاہتا ہے تو اسے کھیل کے میدانوں میں بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ کھیلنا کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ دونوں قومیں قریب آئیں اور نفرت کی دیواریں توڑیں۔ کرکٹ کو نفرت کا نہیں بلکہ محبت اور امن کا ذریعہ بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔