بھارت نے اپنے اقدامات سے پاکستان کو تحریری آگاہ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
بھارت نے 2 روز قبل پہلگام میں پیش آنے والے واقعے کو جواز بنا کر اٹھائے گئے اقدامات سے پاکستان کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا۔ذرائع کے مطابق بھارت نے ناپسندیدہ شخصیات قرار دینے والے فیصلے سے پاکستان کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے ۔بھارت نے پاکستانی ناظم الامور کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دینے سے متعلق نوٹس حوالے کیے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ناپسندیدہ شخصیات کو نوٹس دے کر انہیں ایک ہفتے میں بھارت چھوڑنے کے لیے حکم دیا گیا ہے ۔ذرائع نے بتایا ہے کہ بھارت نے پاکستانی ناظم الامور سعد احمد وڑائچ کو گزشتہ رات کو طلب کیا تھا۔واضح رہے کہ 2 روز قبل مقبوضہ کشمیر کے ضلع پہلگام کے سیاحتی مقام پر فائرنگ کے واقعے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ترجمان دفترِ خارجہ کی جانب سے پہلگام واقعے میں ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی گئی۔گزشتہ روز بھارتی حکومت نے پاکستان کے ساتھ 1960ء سے جاری پانی کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دیتے ہوئے ایک ہفتے میں بھارت چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور(اے اے سید) جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے جسارت کے اجتماع عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، تاہم اگر ہم اپنے بیانیے کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کریں تو اس سے ضرور فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا پہلا دور 1996ء سے 2001ء تک اور دوسرا دور 2021ء سے جاری ہے۔ پہلے دور میں طالبان کی جماعت اسلامی کی سخت مخالفت تھی، مگر اب ان کے رویّے میں واضح تبدیلی آئی ہے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ‘‘پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے، لیکن اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم کے مطابق امیرالمؤمنین ملا ہبۃ اللہ اور ان کے قریب ترین حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں باقی ہیں، جس کی ایک مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی 2 روزہ بندش کو قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے آخر میں پورے افغانستان میں انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا گیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہے، لیکن دو دن بعد طالبان حکومت نے خود اس فیصلے کو واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت بہرحال ایک بڑی تبدیلی ہے اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے گہرے منفی اثرات ہوئے ہیں۔ ‘‘آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘‘ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی۔ وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ ‘اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی’ بے وقوفی کی انتہا ہے۔انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف پہلے یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے، اور ماضی میں انہوں نے محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے کر تاریخ اور دین دونوں سے ناواقفیت ظاہر کی۔انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اس بیان پر بھی سخت ردعمل دیا کہ ‘‘ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے۔پروفیسر ابراہیم نے کہا یہ ناسمجھ نہیں جانتا کہ تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا جس نے خود امریکا کو شکست دی۔ طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ حکومت میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، نادانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت، احترام اور باہمی اعتماد کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، کیونکہ یہی خطے کے امن اور استحکام کی واحد ضمانت ہے۔