بھارتی ’’فالس فلیگ آپریشنز‘‘کا طویل اور تاریک ماضی
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
بھارت کی سیاست میں پاکستان دشمنی محض ایک خارجی بیانیہ نہیں بلکہ داخلی سیاست، عوامی جذبات کے کنٹرول، اور انتخابی مفادات کے لیے سب سے طاقتور ہتھیار بن چکی ہے۔ ہر بار جب بھارتی حکومت کسی سیاسی بحران میں پھنستی ہے، جب کوئی عالمی شخصیت بھارت کے دورے پر آتی ہے، یا جب کسی ریاست میں انتخابات ہونے کو ہوں، تو ایک نہ ایک دہشت گرد حملہ ہوتا ہے، اور بغیر کسی تحقیق کے اس کا الزام پاکستان پر دھر دیا جاتا ہے۔اب کی بار پہلگام کا واقعہ اسی سلسلے کی ایک اور کڑی کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ایک سیاحتی مقام، جہاں سینکڑوں افراد ہر روز آتے جاتے ہیں، جہاں سیکورٹی کے دعوے آسمان چھوتے ہیں، وہاں بیس منٹ تک دہشت گرد حملہ ہوتا ہے اور بھارتی فورسز کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ حیرت انگیز طور پر نہ صرف حملہ آور آرام سے کارروائی کرتے ہیں بلکہ اتنی دیر تک فورسز کی غیر موجودگی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ یا تو وہ جان بوجھ کر غیر حاضر رہیں یا پھر اس حملے کو روکنے کی کوئی نیت ہی نہ تھی۔اس وقت امریکی نائب صدر بھارت کے دورے پر تھے جیسا کہ مارچ 2000ء میں بل کلنٹن کا دورہ تھا اور ٹھیک اسی دوران چھٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی الزام پاکستان پر لگایا گیا لیکن بعد میں بھارت کے سابق جنرل کے ایس گل نے اعتراف کیا کہ یہ ایک اندرونی کارروائی تھی جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنا تھا تاکہ بھارت کو امریکہ کی ہمدردی اور حمایت حاصل ہو۔پہلگام حملے کی ٹائمنگ، مقام، اور سیکورٹی میں مشکوک خلا اس واقعے کو ایک عام دہشت گرد کارروائی نہیں بناتے بلکہ اسے ایک سیاسی اسکرپٹ کی شکل دیتے ہیں۔ بھارت کا میڈیا جسے اب ’’گودی میڈیا‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے، حملے کے صرف پانچ منٹ بعد بغیر کسی ثبوت یا تحقیق کے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔
یہ میڈیا اس قدر حکومت کا تابع بن چکا ہے کہ زمینی حقائق کو چھپانا، جھوٹی ویڈیوز چلانا اور سوالات اٹھانے والوں کو غدار قرار دینا اب اس کی فطرت بن چکی ہے۔پہلگام حملے میں ایک دلچسپ پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ ایک بھارتی رپورٹر جو موقع پر پہنچا اور اس نے سیکورٹی کی ناقص صورتحال پر سوالات اٹھانے شروع کیے اس کی لائیو کوریج اچانک منقطع کر دی گئی۔ یہی نہیں کئی صحافیوں کو پہلگام جانے سے روکا گیا حالانکہ بھارتی میڈیا کے لیے ایسے مواقع پر کوریج ہمیشہ ترجیحی بنیادوں پر دی جاتی ہے۔ تو کیا یہ سب صرف اتفاقات ہیں یا کسی بڑی اسکرپٹ کا حصہ؟بھارت کا فالس فلیگ آپریشنز کا ماضی طویل اور تاریک ہے۔ 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد بھی پاکستان پر الزام لگایا گیا۔ اس واقعے کے نتیجے میں دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے۔ لیکن بعد میں بھارتی پولیس افسران اور تفتیشی اداروں کی رپورٹس میں ایسے شواہد سامنے آئے جنہوں نے اس حملے کی اصل کہانی کو مشکوک بنا دیا۔ کچھ ماہرین نے تو یہاں تک کہا کہ یہ حملہ داخلی طور پر منظم تھا تاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کیا جا سکے۔2008 ء میں ممبئی حملے ہوئے، جو دنیا کی توجہ کا مرکز بنے۔ ایک پاکستانی نوجوان اجمل قصاب کو ان حملوں کا مرکزی کردار قرار دیا گیا۔ لیکن اس کے اردگرد کئی سوالات اٹھے، جیسے حملے کی نوعیت، بھارتی خفیہ اداروں کی لاپرواہی اور سب سے اہم اجمل قصاب کی گرفتاری اور بیان کی متضاد تفصیلات۔ بھارت کے اندر ہی کئی حلقے ان حملوں کو مکمل طور پر ایک ’’پلانڈ‘‘ کارروائی قرار دے چکے ہیں۔
2019 ء میں پلوامہ حملے نے نریندر مودی کو لوک سبھا الیکشن سے عین پہلے ایک زبردست سیاسی ہتھیار فراہم کیا۔ چالیس بھارتی فوجی ہلاک ہوئے اور الزام ایک بار پھر پاکستان پر لگا دیا گیا۔ اس حملے کے بعد بھارتی فضائیہ نے بالاکوٹ میں کارروائی کی، جو بعد میں عالمی سطح پر ایک مضحکہ خیز واقعہ بن گئی کیونکہ کوئی جانی نقصان یا اہم ہدف تباہ ہونے کا کوئی ثبوت نہ مل سکا۔ بعد ازاں خود بھارتی گورنر ستیاپال ملک نے کھل کر کہا کہ یہ حملہ حکومت کی سیکورٹی ناکامی تھی اور اسے انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔اب پہلگام حملے کو دیکھیں تو نہ صرف یہ واقعاتی طور پر مشکوک ہے بلکہ اس کے پیچھے سیاسی محرکات بھی واضح ہیں۔ بیہار میں انتخابات قریب ہیں اور مودی حکومت ہمیشہ سے ایسے حالات پیدا کرتی آئی ہے جہاں عوامی جذبات کو پاکستان دشمنی کے جذبے سے جوڑ کر بی جے پی کے حق میں موڑ دیا جائے۔ بھارتی عوام کی بڑی تعداد جذباتی طور پر میڈیا کے بنائے ہوئے بیانیے کو سچ مان لیتی ہے اور یوں وہ حقائق سے دور رہتے ہیں۔یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اگر کسی صحافی کو پہلگام جیسے علاقے میں داخل ہونے کے لیے 18 چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے تو دہشت گرد بغیر رکاوٹ کے کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ کیا ان کے پاس کوئی خصوصی اجازت تھی؟ یا سیکیورٹی اداروں نے جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھیں؟ یہ تمام سوالات بھارتی سیکیورٹی سسٹم کی شفافیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں۔بھارتی عوام میں اب بھی وہ شعور موجود ہے جو ان جھوٹے بیانیوں کو پہچان سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی صحافی، سابق فوجی، اور سماجی کارکن اب کھل کر بول رہے ہیں۔ ایک بھارتی خاتون نے سوشل میڈیا پر پہلگام حملے کی حقیقت پر سوال اٹھایا اور کہا کہ یہ حملہ مودی سرکار کے سیاسی فائدے کے لیے کیا گیا کیونکہ انہیں ہر الیکشن سے پہلے ایسا ایڈونچر درکار ہوتا ہے جو عوام کو پاکستان کے خلاف مشتعل کر دے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ عالمی برادری ان تمام شواہد کے باوجود خاموش ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک انسانی حقوق کی پامالی پر تو آواز اٹھاتے ہیں مگر جب بھارت جیسے بڑے تجارتی ملک کی بات آتی ہے، تو ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ بھارت نے کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، مگر عالمی ضمیر صرف تب جاگتا ہے جب اسے اپنے مفادات کو خطرہ محسوس ہو۔اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان ان تمام فالس فلیگ آپریشنز کا منظم انداز میں ریکارڈ تیار کرے، انہیں عالمی فورمز پر پیش کرے، اور بھارت کی منافقت کو بے نقاب کرے۔ سوشل میڈیا، سفارت کاری، اور بین الاقوامی میڈیا میں اس بیانیے کو اجاگر کرنا ہوگا کہ بھارت اپنے داخلی ناکامیوں، سیکورٹی خلا، اور سیاسی مفادات کو چھپانے کے لیے کس طرح ہر بار پاکستان کو قربانی کا بکرا بناتا ہے۔ پہلگام حملہ ایک اور موقع ہے جب بھارت کے اس جھوٹے اور پراپیگنڈا پر مبنی چہرے کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ جو بھی واقعہ پاکستان پر الزام لگا کر سیاست کا ایندھن بنے، وہ سادہ دہشت گردی نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا کھیل ہے۔ ابھی چند روز قبل جب پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پوری دنیا کے سامنے دوٹوک انداز میں کشمیر کو پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ قرار دیا تو وہ صرف ایک سیاسی بیان نہیں تھا بلکہ پاکستان کے قومی بیانیے کی ترجمانی تھی۔ انہوں نے نہ صرف کشمیری عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا بلکہ یہ واضح کر دیا کہ کشمیر ہمارے لئے زندگی اور موت کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ الفاظ دشمن پر بجلی بن کر گرے۔ بھارت جو خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتا ہے، کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، ان کے حقوق سلب کر رہا ہے، اور ان کی آواز کو دبانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کر رہا ہے۔ جب پاکستان نے عالمی سطح پر کشمیریوں کا مقدمہ مضبوطی سے لڑنا شروع کیا، اور پاک فوج نے واضح پیغام دیا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں تو بھارت کی نیندیں اڑ گئیں۔اس بوکھلاہٹ کے نتیجے میں بھارت نے کئی انتہائی اقدامات کیے۔ سندھ طاس معاہدہ جو کہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک پرامن معاہدہ تھا اس کو منسوؓ کر دیا اور انڈیا سے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کئے، تعلیمی اور کاروباری ویزے منسوخ کئے اور مختلف شعبوں میں پاکستانیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دا ہے۔ یہ سب محض ایک چیز کا ثبوت ہے کہ بھارت کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کو دنیا کے سامنے اتنے مثر انداز میں اجاگر کیا۔یہ سارے اقدامات کے بعد اگر انڈیا معاملے کو جنگی میدان کی طرف لے کر جانا چاہتا ہے تو ہمارے وزیر دفاع ؓواجہ آصف کا تازہ بیان سامنے رکھے کہ ’’ابھی نندن تو یاد ہو گا۔‘‘
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پہلگام حملے کہ پاکستان پاکستان کو پاکستان پر میں بھارت کہ بھارت بھارت کے حملے کی کے لیے
پڑھیں:
بھارت: غیرملکی کے نام پر ملک بدری، نشانہ بنگالی بولنے والے مسلمان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے جمعرات کے روز اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی حکام نے سینکڑوں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش جانے پر مجبور کیا ہے۔ ادارے نے بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت پر سیاسی فائدے کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔
ایچ آر ڈبلیو نے بنگلہ دیشی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سات مئی سے 15جون کے درمیان کم از کم 1,500 مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو سرحد پار زبردستی بے دخل کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کو مارا پیٹا گیا اور ان کی بھارتی شناختی دستاویزات بھی تباہ کر دی گئیں۔
بھارت نے "بنگلہ دیش" کے غیر قانونی تارکین وطن کو سرحد پار بھیجنے کی بات تو تسلیم کی ہے، تاہم حکومت نے اس بارے میں کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں کہ وہ اب تک ایسے کتنے لوگوں کو بنگلہ دیش بھیج چکا ہے۔
(جاری ہے)
ایچ آر ڈبلیو کی ایشیا ڈائریکٹر ایلین پیئرسن نے کہا، "بھارت کی حکمران بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) بھارتی شہریوں سمیت بنگالی مسلمانوں کو غیر قانونی طور پر ملک سے باہر نکال کر امتیازی سلوک کو ہوا دے رہی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "بظاہر غیر قانونی تارکین وطن کی تلاش میں بھارتی حکومت ہزاروں کمزور لوگوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے، لیکن ان کے اقدامات مسلمانوں کے خلاف وسیع تر امتیازی پالیسیوں کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔
" دراندازوں کے خلاف مودی کی جدوجہدبھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے طویل عرصے سے بے قاعدہ ہجرت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے۔ انتخابات کے دوران اپنی عوامی تقریروں میں وہ اکثر بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین وطن پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور انہیں "درانداز" کہتے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ہلاکت خیز پہلگام حملے کے فوراً بعد، وزارت داخلہ نے مئی میں ہی ریاستوں کو غیر دستاویزی بنگلہ دیشی تارکین وطن کو پکڑنے کے لیے 30 دن کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
نئی دہلی کا دعویٰ ہے کہ ایسے تمام افراد کو نکالنے کا عمل غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کے لیے کیے گئے ہیں۔
البتہ تازہ رپورٹ میں ایسی تیز ترین کارروائیوں پر یہ کہہ کر تنقید کی گئی ہے کہ حکومت کی وجہ "ناقابل یقین" ہے، کیونکہ اس نے "کام کے مناسب حقوق، گھریلو ضمانتوں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات" کو نظر انداز کیا ہے۔
پیئرسن نے کہا، "حکومت مظلوموں کو پناہ دینے کی بھارت کی طویل تاریخ کو کم تر کر رہی ہے کیونکہ وہ اس سے سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔"
مئی میں بھارتی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ حکام نے تقریباً 40 روہنگیا پناہ گزینوں کو زبردستی حراست میں لیا اور بحریہ کے جہازوں کے ذریعے بین الاقوامی پانیوں میں چھوڑ دیا۔ سپریم کورٹ نے اسے "خوبصورتی سے تیار کی گئی ایک کہانی" قرار دیا ہے، تاہم مودی حکومت نے ابھی تک عوامی طور پر ان الزامات کی تردید نہیں کی ہے۔
مسلمان مہاجر مزدوروں کو نشانہ بنایا گیاایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کو ڈی پورٹ کیے جانے والوں میں سے کچھ تو بنگلہ دیشی شہری تھے، تاہم بہت سے وہ بھارتی شہری بھی ہیں، جو بنگلہ دیش سے متصل بھارت کی پڑوسی ریاستوں کے بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ اس لیے ممکن ہوا، کیونکہ حکام نے نکالنے سے پہلے ایسے متاثرہ افراد کی شہریت کی تصدیق سمیت کسی ضابطے پر عمل کیے بغیر انہیں تیزی سے ملک بدر کر دیا۔
نکالے گئے ایسے افراد میں سے 300 لوگ مشرقی ریاست آسام سے ہیں، جہاں متنازعہ شہریت کی تصدیق کا عمل نافذ کیا گیا ہے۔ دوسرے بنگالی بولنے والے مسلمان وہ ہیں، جو بھارتی ریاست مغربی بنگال سے کام کی تلاش میں گجرات، مہاراشٹر، راجستھان، اتر پردیش، اوڈیشہ اور دہلی ہجرت کر کے آئے تھے۔
بھارت میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنانا، ہندو قوم پرست تحریک کی خصوصیت ہے جس کی قیادت مودی کی جماعت بی جے پی اور اس سے متعلقہ گروہوں نے کی ہے۔
بنگلہ دیشی امیگریشن کے اس مسئلے کے اب بھاتی ریاست مغربی بنگال میں بھی مرکزی اہمیت حاصل کرنے کا امکان ہے، جہاں بی جے پی جیتنے میں ناکام رہی ہے اور وہاں 2026 میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ 'ہمیں لگا کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے'ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ اس نے ایک درجن سے زیادہ ایسے متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کا انٹرویو کیا ہے، جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو بنگلہ دیش سے بے دخل کیے جانے کے بعد بھارت دوبارہ واپس آئے ہیں۔
مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک تارکین وطن کارکن ناظم الدین شیخ جو پانچ سال سے بھارت کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی میں رہتے ہیں، نے بتایا کہ پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، پھر ان کی بھارتی شہریت ثابت کرنے والے ان کی شناختی دستاویزات کو پھاڑ دیا اور پھر انہیں 100 سے زائد دیگر افراد کے ساتھ سرحد پار بنگلہ دیش لے گئے۔
انہوں نے کہا، "اگر ہم بہت زیادہ بولتے تو وہ ہمیں مارتے تھے۔
انہوں نے مجھے میری پیٹھ اور ہاتھوں پر لاٹھیاں ماریں۔ وہ ہمیں مار رہے تھے اور ہم سے کہہ رہے تھے کہ تم یہی کہتے رہو کہ ہم بنگلہ دیشی ہیں۔"آسام کے ایک اور کارکن نے اسی طرح کی اپنی آزمائش کو یاد کرتے ہوئے کہا، "میں ایک لاش کی طرح بنگلہ دیش میں چلا گیا۔ چونکہ ان کے پاس بندوقیں تھیں، اس لیے میں نے سوچا کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے اور میرے خاندان میں سے کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔"
صلاح الدین زین (مہیما کپور)
ادارت: جاوید اختر