کیا بھارت سورج اور ہوا کو بھی پاکستان آنے سے روک دے گا؟ پروفیسر ڈاکٹر معیز خان
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ توڑنے کے بعد ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے مابین تناؤ کی کیفیت ہے کیوں کہ اس بار بھارت نے پاکستان میں رہنے والے کروڑوں عوام سے براہ راست زندہ رہنے کا حق چھیننے کی کوشش کی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا سندھ طاس معاہدہ توڑنا اتنا آسان ہے یا ایسا ہونا ممکن ہے؟
اس حوالے سے جامعہ کراچی میں شعبہ تاریخ کے چئیرمین پروفیسر ڈاکٹر معیز خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت 3 دریا بھارت جبکہ 3 پاکستان کے حصے میں آئے۔ 1960 میں ہونے والے اس معاہدے کے بعد 3 دریا جن کا بہاؤ پاکستان کی طرف تھا وہ بھی غلط تھا کیوں کہ اگر بات کی جائے اس خطے کی تو پانی کشمیر سے بھارت کے کچھ علاقوں سے ہوتا ہوا پاکستان میں آتا ہے جو قدرتی طریقہ ہے اور اسے روکا نہیں جا سکتا۔
ڈاکٹر معیز خان کا کہنا ہے کہ اس فارمولے کو اگر ٹھیک مان بھی لیا جائے تو کیا بھارت ہماری ہوا اور سورج کو بھی روک لے گا؟ سندھ طاس معاہدہ جو کہ غلط تھا، چلیں ہم اسی کو اگر درست مان بھی لیں تو کیا بھارت اسے توڑ سکتا ہے؟ ایسا نہیں ہے اس میں تیسرے فریق ورلڈ بنک کو بھی شامل کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر معیز کے مطابق پہلے جنگیں ہوا کرتی تھیں اسلحے کے زور پر لیکن اب پانی کی قلت سیکیورٹی تھریڈ ہے، بڑی آبادی کے لیے غذا کی کمی سیکیورٹی تھریڈ ہے، ماحولیاتی آلودگی سیکیوریٹی تھریڈ ہے، پانی کی قلت ایک سنجیدہ سیکیورٹی تھریڈ ہے اور اس کو اسی طرح سنجیدہ لینا چاہیے۔
ڈاکٹر معیز کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا آبادی کے اعتبار سے پانچواں بڑا ملک ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی پانچویں آبادی والے ملک کو پیاسا مارا جا سکتا ہے؟ ایسا ممکن نہیں بین الاقوامی ادارے اور کمیونیٹیز اس میں اپنا کردار ادا کریں گیں لیکن ہم سچ لیتے ہیں کہ بھارت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا بھارت محفوظ رہے گا؟ اگر ہماری طرف پانی آتا ہے تو وہ ہر شکل میں آتا ہے وہ کبھی کم ہو گا کبھی سیلاب آئے گا لیکن جب بھارت کو سیلاب کا سامنا ہو گا تو تب کیا کرے گا؟
بھارت نے بنا تحقیق، قبل از وقت پاکستان پر دہشتگردی کا الزام لگا دیا ہے اور اس کی آڑ میں وہ اب پاکستان کے خلاف پانی کا ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ اس دھمکی کے بدلے میں بھارت کیا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کا ردعمل ذمہ دارانہ ہے، جہاں دہشتگردی کا واقعہ ہوا ہے وہ ایسا علاقہ نہیں کہ ہمارے بارڈر کے ساتھ جڑا ہوا ہو۔ وہ بہت اندر کا علاقہ ہے۔ اس لیے بغیر شواہد کے الزام لگانا اور دھمکانا قابل افسوس ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر معیز کیا بھارت
پڑھیں:
بابوسرٹاپ پر سیلاب میں بہنے والی ڈاکٹر مشعال کے 3 سالہ بیٹے کی لاش 2 دن بعد مل گئی
چلاس:بابوسرٹاپ پر سیلاب میں بہنے والی ڈاکٹر مشعال فاطمہ کے تین سالہ بیٹے کی لاش دو دن کے بعد مل گئی۔
ملک میں شدید بارشوں اور بالائی علاقوں میں طوفانی سیلابی ریلوں سے ناقابل تلافی نقصان ہوئے ہیں۔ اسی دوران چلاس کے قریب بابوسر ٹاپ پر آنے والے سیلابی ریلے میں لاپتا ہونے والے 3 سالہ بچے عبد الہادی کی لاش 2 دن بعد تلاش کر لی گئی۔
ننھا عبد الہادی، جو اپنی والدہ ڈاکٹر مشعال فاطمہ کے ہمراہ پکنک پر گیا تھا، قیامت خیز حادثے کے بعد لاپتا ہو گیا تھا۔
میڈیا ذرائع کے مطابق مقامی افراد نے گزشتہ شام سات بجے کے قریب بابوسر کے علاقے ڈاسر میں بچے کی لاش کو نالے میں دیکھا اور فوری طور پر متعلقہ حکام کو اطلاع دی، جس پر گلگت بلتستان اسکاؤٹس نے موقع پر پہنچ کر لاش کو نالے سے نکالا اور چلاس کے اسپتال منتقل کیا۔
یاد رہے کہ چند روز قبل لودھراں سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان اسکردو سے واپسی کے سفر پر تھا جب وہ بابوسر ٹاپ کے مقام پر اچانک آنے والے سیلابی ریلے کی زد میں آ گیا۔ حادثے میں ڈاکٹر مشعال فاطمہ اور ان کے دیور فہد اسلام موقع پر جاں بحق ہو گئے تھے جب کہ ڈاکٹر مشعال کا کمسن بیٹا عبد الہادی لاپتا ہو گیا تھا جس کی تلاش کا عمل جاری تھا۔