Express News:
2025-04-28@00:51:22 GMT

مستقبل قریب میں روس چین جنگ ہو سکتی ہے ؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

سابق روس زار سلطنت پھر سابق سوویت یونین اور اب روس ۔ اس کی تاریخ میں جس بادشاہ نے روس کو عظیم سلطنت بنایا وہ دی گریٹ پیٹر اعظم تھا جو 9 جون 1672 ء کو پیدا ہوا اور 8 فروری 1725 ء میں  52 سال کی عمر میں وفات پائی ۔ اُس کی بادشاہت روسی سلطنت پر 7 مئی 1682 ء سے 8 فروری1725 ء تک رہی لیکن اُس نے 1690 ء سے اپنی وفات تک زار سلطنت اور روس کو دنیا کی طاقتور سلطنت اور ملک بنا دیا۔

اس کے بعد سے اب تک روس کئی بحرانوں سے گذرا۔ ترکی سے بھی روس کی جنگیں ہوئیں، 1812 ء میں نپولین نے روس پر حملہ کیا، 1904-05ء میں روس کو جاپان سے جنگ میں شکست ہوئی ، روس 1914 ء سے1918 تک ہو نے والی جنگ عظیم میں جرمنی اور ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے خلاف اتحادیوں میں شامل تھا اور جنگ کے خاتمے سے ایک سال پہلے روس میں لینن، اسٹالن کیمو نسٹ انقلاب لے آئے اور روس کو جنگ عظیم اوّل سے با ہر نکال لیا، واضح رہے کہ جنگ عظیم اوّل میں سب سے زیادہ ہلاکتیں روسی فوجیوں کی تھیں جو 17 لاکھ سے زیادہ تھیں اور 45 لاکھ کے قریب روسی زخمی اور معذ ور ہوئے تھے جب کہ امریکہ جو روس کے جنگ سے نکلنے پر اتحادیوں میں شامل ہوا اُس کے 116516 فوجی ہلاک ہوئے اور سب سے زیادہ فائدہ امریکہ کو ہوا۔

اگر 1917 ء میں روس جنگ سے باہر نہ آتا تو وہ مقبوضہ علاقوں کی حصہ داری میں برطانیہ کے برابر کا حصہ دار ہوتا اور ترکی کی سلطنت کی تقسیم میں اُس کی حصہ داری بھی ہوتی لیکن دوسری جانب روس کو باوجود اس کے کہ اُس کے لاکھوں افراد جنگ عظیم اوّل میں ہلاک ہوئے جنگ کے خاتمے سے ایک سال پہلے نکلنے سے یہ فائدہ ہوا کہ باقی جیتنے اور ہارنے والے ممالک جنگ سے اتنے تباہ حال ہو گئے تھے کہ وہ روس کی کیمونسٹ حکومت کے خلاف کوئی فوجی کا روائی نہیں کر سکتے تھے ۔ یوں جنگ عظیم اوّل کے خاتمے کے اور 1924 ء میں لینن کی وفات تک سابق سوویت یونین مستحکم ہو چکا تھا اور انقلاب کو اسٹالن نے تھوڑے عرصے میں ظالمانہ طور پر ختم کر دیا تھا ۔

جنگ عظیم اوّل کے 15 سال بعد جنگ کی وجہ سے ہونے والی عظیم عالمی کساد بازری ابھی جاری تھی کہ 1933 ء جرمنی میں ہٹلر جرمنی کا چانسلر منتخب ہو گیا اور 1939 ء میں جنگ عظیم دوئم کا آغاز ہوا تو جنگ کے آغاز پر سوویت یونین کے اسٹالن اور ہٹلر نے مل کر پو لینڈ پر قبضہ کر کے اس ملک کو آپس میں تقسیم کر لیا مگر جلد ہی ہٹلر سے حماقت ہوئی اور وہ اسٹالن کا بھی مخالف ہوا اور نپولین کی طرح غلطی کر بیٹھا اور روس پر حملہ کر دیا۔

اسٹالن اب برطانیہ ، فرانس اور بعد میں امریکہ سمیت اتحادیوں میں شامل ہو گیا ۔ 1945 ء میں جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو اگرچہ سوویت یونین کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے مگر جنگ کے خاتمے پر جب جرمنی پر قبضہ ہوا تو پہلے سوویت یونین ہی کی فوجیں برلن میں داخل ہوئی تھیں اور پھر نہ مشرقی یورپ ہنگر ی ، چیکو سلاوکیہ ، یوگو سلاویہ ، رومانیہ اور دیگر ممالک میں روس نواز کیمونزم ’’اشتراکیت‘‘ کا نظام قائم ہوا، بلکہ بالٹک ریاستوں میں بھی سوویت یونین کا اقتدار مزید مضبوط ہو گیا ۔ یوں اُس وقت سے لے کر 1980 ء کی دہا ئی کے آخر تک بلکہ 1991 ء نہ صرف سوویت یونین وارسا معاہدے کے اشتراکی ممالک کے گروپ کے ساتھ اتحاد ی تھا بلکہ سوویت یونین کی امریکہ کے برابر کی قوت تھی ۔

 1945 ء میں جنگِ عظیم دوئم کے خاتمے کے بعد سرد جنگ شروع ہو گئی جس میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے ۔ 1945 ء سے 1990 ء کے آغاز تک سوویت کا رقبہ 2 کروڑ 26 لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ تھا اور 1980ء تک اُس کی آبادی 26 کروڑ 45 لاکھ تھی۔ سوویت یونین میں 1990 ء تک لیتھونیا، لٹویا ، اسٹونیا ، جارجیا ، یو کرائن، بلا روس، کرغیزستان مولڈویا Moldova، ازبکستان ، تاجکستان ، آرمینیا، آذر بائیجان ، ترکمانستان، قازقستان اور روس شامل تھے ، 1980-81 ء میں سوویت یونین نے افغانستان میں فوجیں اتارنی شروع کر دیں جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اٖضافہ ہوتا رہا مگر دوسری جانب پاکستان کی پشت پناہی اور امریکہ اور یورپ کے بھرپور تعاون کی وجہ سے سوویت یونین 1945 ء سے شروع ہونے والی جنگ اب ہار چکا تھا اور جنگ سے نکلنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہا تھا۔

1985 ء سے اقوام متحدہ ، امریکہ ، سوویت یونین، افغانستان اور پا کستان کے درمیان جنیوا بات چیت شروع ہو گئی تھی اور آخر کار 1988 ء یہ جنیوا معاہدہ طے پایا اور روس اربوں ڈالر کا اسلحہ افغانستان کی اشتراکی حکومت کے سربراہ صدر نجیب کے حوالے کر کے نکل گیا، اس کے بعد سوویت یونین میںانتخابات کے نتیجے میں گوربا چوف سربراہ منتخب ہوئے اور اُنہوں نے خود ہی اشتراکیت کے خلاف ملک میں آزادی رائے (پرسسٹرائیکا) اور آزاد معیشت ( گلاسناٹ ) کے لیے فوری اور ہنگامی اقدامات کئے ۔ 11 مارچ 1990 ء مو لیتھویا نے سوویت یونین سے الگ ہو کر آزادی کا اعلان کر دیا اور 12 دسمبر1991 ء کو خود روس 17098242 مربع کلومیٹر رقبے کے ساتھ غیر اشتراکی معیشت اور آزادی رائے کی بنیاد پر روس کہلایا یعنی سوویت سے 15 آزاد ملک الگ الگ ہو کر د نیا کے نقشے پر نمودار ہوئے، یہ دنیا کی بہت بڑی تبدیلی تھی اِن تمام ملکوں نے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کی بلاروس اور یو کرائن اور قازقستان وغیرہ سے ایٹمی اسلحہ اور تنصیبات روس کو منتقل ہوئیں اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ووٹوں کا اختیار اور قوت بھی روس کو دے دی گئی ۔

افغانستان میں جنگ کے دوران سابق سوویت یونین میں کرپشن ، معاشی ، اقتصادی ،بحران شدت اختیار کر گئے تھے اور معیشت اندر سے کھوکھلی ہو گئی تھی ۔ جب گورباچوف نے اقتدار میں آکر اصلاحات کیں تو ملک میں مہنگائی بہت بڑھ گئی اور عوام کی قوت خرید میں بہت کمی واقع ہوئی ۔ 1990-91 ء عام روسی شہری کی ماہانہ آمدنی میں 25 ڈالر کی کمی ہوئی ، غربت 45 فیصد ہو گئی ، اوسط عمر جو پہلے64 سال تھی ، گھٹ کر 57 سال ہو گئی ،1990-91 ء میں سوویت یونین کے روبل اور ڈالر کی قیمت یکساں تھی ، 1992 ء میں ایک امریکی ڈالر 419 روبل کا ہو گیا ،1993 ء میں ایک ڈالر کی قیمت1237 روبل ہو گئی، 1994 ء میں ڈالر 3500 روبل کا ہو گیا ، 1995 ء میں ڈالر4600 روبل کا ہو گیا اور 1996 ء میں ڈالر کی قیمت 5900 روبل ہو گئی ۔

دنیا کی بڑی ایٹمی اور فوجی قوت اب بھی روس تھی اور یہاں ایسی اقتصادی صورتحال دنیا کے لیے بہت بڑی پر یشانی کا سبب بن سکتی تھی ۔ 1998 ء میں امریکہ کے صدر بل کلنٹن کو بھی تشویش لاحق ہوئی ، یوں آئی ایم ایف کی جانب سے 1998 ء میں روس کے لیے 23.

6 بلین (ارب) ڈالر کی ہنگامی امداد منظور ہو گئی اور اس رقم کے ملتے ہی روسی روبل کی قیمت میں اضافہ ہوا اور ایک امریکی ڈالر 20 روبل کا ہو گیا ۔ یہ کارنامہ گورباچوف کے بعد بورس یلسن کے دور کے تقریباً اختتام پر ہوا۔ اسی دوران پیوٹن اقتدار میں آئے اور ان کے آتے ہی روس نہ صرف اقتصادی طور پر مستحکم ہونے لگا بلکہ تھوڑے عرصے بعد عالمی سطح پر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی قدرے کامیاب کوششیں کر نے لگا ۔

 دوسری جانب چین بھی دنیا کا سب سے بڑا کیمونسٹ ملک ہے اور یہ 1949 ء میں آزاد ہوا تھا اور یہ آزادی موزے تنگ کی قیادت میں مسلح جد وجہد کے نتیجے میں حاصل کی تھی، چین کی سرحد روس سے بھی ملتی ہے اور چین کی اشتراکیت بھی اگرچہ بنیادی طور پر کارل مارکس کے اشتراکی فلسفے سے متاثر تھی مگر چین کی بنیاد ی معاشرت اور معیشت دیہی آبادی اور زراعت سے وابستہ تھی ، اس لیے اِن دونوں ملکوں میں جب اشتراکی معیشت اور طرز حکومت کا نظام متعارف ہوا تو وہ قدرے ایک دوسرے سے مختلف تھا اور لینن اور ماوزے تنگ کی اشتراکیت کی تعلیمات ایک دوسرے سے تھوڑی بہت مختلف تھیں ۔

روس میں اشتراکیت کے بانی لینن کا انتقال سوویت یونین کے انقلاب کے سات سال بعد ہوا تھا اور پھر کیمونسٹ نظام کو اسٹالن نے کامیاب بنایا تھا ، یوں جب چین آزاد ہوا تو ماوزے تنگ کے سامنے اُن کے قد کے برابر کے لیڈر اسٹالن تھے بلکہ ماوزے تنگ اُن کا حترام کرتے تھے ۔ موزے تنگ نے اپنی پوری زندگی میں دو بیرونی دورے کئے تھے ۔ پہلا دورہ اسٹالن کی 70 ویں سالگرہ پر آزادی کے فوراً بعد 16دسمبر 1949ء میں کیا تھا اور دوسرا دورہ سوویت یونین کے انقلاب کی 40 ویں سالگرہ پر کیا تھا اور ماوزے تنگ 17 دن سوویت یونین میں رہے تھے ۔

یہ دونوں دورے سوویت یونین ہی کے تھے ۔ماوزے تنگ نے اپنی پوری زندگی میں اور کسی ملک کا دورہ نہیں کیا ۔ پہلے دورے میں اُن کی تفصیلی ملاقات اسٹالن سے ہوئی اور وہ اُن سے بہت متاثر تھے ، یہ وہ زمانہ تھا جب بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر نہرو ، چین کے وزیرا عظم چواین لا ئی، انڈونیشیا کے صدر سیکار نو ، مصر کے صدر کرنل جمال ناصر اور مار شل ٹیٹو غیرجانبدار ملکوں کی عالمی تنظیم اور عالمی سطح پر غیر جا نبدار سیاسی نظریات کے پرچارک تھے ۔ اس دور میں بھارت چین دوستی بڑی مثالی تھی ۔ بھارت اور چین میں ہندو چینی بھائی بھائی کا نعرہ گونجتا تھا ۔

 چین کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیوں میں شامل ہے ۔ چین میں موجود آثار قدیمہ ساڑھے نو ہزار سال پرانے ہیں ۔ اٹھارویں صدی عیسوی تک چین دنیا کاایک آزاد خود مختار ا ور خوشحال ملک تھا اور اپنے علوم و فنون کی بنیاد ی پر دنیا میں مشہور تھا ۔ صدیوں تک چین کی ریشم پر اجارہ داری رہی اور لگ بھگ آج کا ون بیلٹ ون روڈ اور خصوصاً پاک چین سی پیک روٹ بھی قدیم شاہر اہ ریشم ہی کے ہی خطوط پر ہے ، پھر چین بھی برصغیر او رکئی دوسرے ملکوں کی طرح نو آبادیا تی عالمی نظام میں جکڑا گیا جس کے خلاف ماوزے تنگ کی مسلح جدوجہد میں یکم اکتوبر 1949 ء کو چین نے آزادی حاصل کی ، مگر امریکہ ، یورپ ، جاپان اور دیگر کئی ملکوں نے تائیوان لاؤس کو چین جانا اور چین کو تسلیم نہیں کیا ۔ یوں چین کو اقوام متحدہ کی رکنیت سے بھی 1971 ء تک محروم رکھا گیا ۔ 1953 ء تک جب تک سوویت یونین کے اسٹالن کی وفات نہیں ہوئی تھی چین ، سوویت یونین اور بھارت کے تعلقات مثالی تھے ۔

یوں دنیا بھر میں امریکہ اور یورپی یونین جاپان ترکی وغیرہ پر مشتمل نیٹو کے سامنے ایک طرف تو سوویت یونین کے زیر اثر اور نیٹو کے مقابلے میں قائم وارسا پیکٹ ممالک کا گروپ تھا تو ساتھ ہی خصوصاً 1950 ء کی دہا ئی میں بھارت، سوویت یونین اور چین کی دوستی بہت مثالی تھی ۔ اسٹالن کی وفات کے بعد نیکٹا خروشیف کی سر براہی میں سوویت یو نین اور چین کے تعلقات شروع کے ایک دو برسوں تو مناسب رہے مگر بعد میں چین کے موزے تنگ کے مقابلے میں خروشف کی پرسنلٹی اسٹالن کی مانند نہیں تھی، ویسے بھی سوویت یونین کی عالمی کیمونزم پر ایک طرح کی اجارہ داری تھی اور سوویت یونین کے خروشیف نے چین سے بھی اطاعت چاہی ، 1956 ء میں خروشیف نے اسٹالن کی پالیسیوں اور انداز سیاست پر شدید نوعیت کی تنقید کی اور اپنی پا لیسیاں نافذ کیں، یہ صوررتحال 1966 ء تک شدت سے جاری رہی، 1956 ء کے بعد بھارت کے جواہر لال نہرو نے اندازہ لگایا کہ چین کو عالمی سطح پر اب سوویت یونین کی مخالفت کی وجہ سے کیمونسٹ ملکوں کی حمایت بھی حاصل نہیں اور دوسری جا نب امریکہ اور یورپ بھی چین کے مخالف ہیں۔

 یہاں تک کہ چین اقوام متحدہ کی رکنیت سے بھی محروم ہے، پھر سوویت یونین سے بھارت کے تعلقات خصوصاً نہرو کی وجہ سے 1927 ء سے تھے، جب پنڈت جواہر لال نہرو نے سوویت کے انقلاب کے دس سالہ جشن میں شرکت کی تھی اس لیے اب نہرو نے بھارت کی خارجہ پالیسی کے اعتبار سے اس پہلو کو مفید جانا کہ چین کے ساتھ تنازعات کھڑے کئے جا ئیں اور اس کے مقابلے کے دو بلاکوں یعنی نیٹو اور وارسا پیکٹ گروپوں سے تعلقات مضبوط کئے جائیں، اُس زمانے میں چین کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی تھا کہ وہ بطور ملک عالمی برادری میں تنہائی کا شکار تھا ، نہرو نے چین کی اس تنہائی سے فائدہ اٹھا نے کے لیے اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کی ، بھارت نے چین کے علاقے تبت کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا اور آزاد ریاست کے حق میں تبت کے مذہبی رہنما دلائی لامہ کو چین کے خلاف بھارت میں سیاسی پناہ دی اور ساتھ ہی بھارت چین سرحدی تنازعات کو بھی بڑھایا جو پہلے سرد تھے۔

 1962 ء میں چین بھارت جنگ ہوئی جس میں بھارت کو شکست ہوئی مگر عالمی سطح پر بھارت نے امریکہ اور یورپ کو باور کروایا کہ اُس کی جنگ چین جیسے کیمونسٹ ملک کے خلاف تھی اس جنگ کے دوران ’’ بحوالہ قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ‘‘ جب چین بھارت جنگ شروع ہوئی تو چینی سفیر صدر ایوب خان کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کے پاس رات تین بجے آئے اور کہا کہ چین نے بھارت پر حملہ کر دیا ہے اور ہماری پیش قدمی جاری ہے، پا کستان کے پاس یہی موقع ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر پرحملہ کر کے اِ سکو بھارت سے آزاد کر وا لے مگر ایوب خان نے ایسا نہیں کیا کہ امریکہ نے خبردار کیا تھا کہ اس وقت بھارت ایک کیمونسٹ ملک سے حالت جنگ میں ہے اس لیے امریکہ اور اس کے اتحادی اور دوست بھارت کے حق میں ہیں ۔

دوسری جانب بھارت کی خارجہ پالیسی اتنی بہتر تھی کہ سوویت یونین جو اُس وقت دنیا میں کیمونسٹ بلاک کا سربراہ تھا اُس نے اپنے کیمونسٹ نظریات کے خلاف بھارت کی بھرپور حمایت اور مدد کی اس جنگ کے بعد بھارت اور پاکستان امریکہ کے تو دوست ہی رہے مگر علاقے میں خارجہ پالیسی تبدیل ہو گئی ۔ بھارت چین ایک دوسرے کے مخالف ہو گئے اور پاکستان اور چین میں دوستی قائم ہو گئی جو باوجود پاکستان کے سیٹو سینٹو جیسے معاہدوں میں ہونے کے جاری رہی، 1965 ء میں دوسری پاک بھارت جنگ ہوئی جس میں چین نے بھرپور انداز میں پاکستان کا ساتھ دیا اور سوویت یونین نے بھارت کی بے پناہ مدد کی۔

 ویسے بھی بھارت اپنی فوج کے لیے امریکہ برطانیہ سے جتنا اسلحہ خریدتا ہے اس سے کچھ زیادہ اسلحہ بھارت روس سے آج تک لیتا ہے، روس اور چین کے درمیان سرحد 4200 کلومیٹر لمبی ہے اور سرحدی تنازعات ان دونوں ملکوں کے درمیان موجود تھے اور سوویت یونین کے زمانے میں چین اور سوویت یونین کی سرحد زیادہ طویل بھی تھی ۔ 1969 ء میں جب پا کستان میں صدر یحٰی خان کی حکومت تھی تو چین اور سوویت یونین کے درمیان سرحدی جنگ ہوئی اُس وقت سوویت یونین میں برزنیف کی حکومت تھی اور چین میں ماؤزے تنگ حیات تھے ۔

سوویت یونین نے 6 لاکھ 58 ہزار فوج اور چین نے8 لاکھ14 ہزار فوج سرحد پر کھڑی کی ۔ یہ جنگ چند روز تک جا ری رہی جس میں دونوں جانب سے چند ہزار ہلاکتیں بھی ہوئیں اقوام متحدہ نے اس میں کوئی اہم کردار اس لیئے ادا نہیں کیا کہ چین اقوام متحدہ کی رکنیت سے محروم تھا۔ یہ دنیا کی پہلی جنگ تھی جوو دو ایٹمی قوت کی حامل اور دنیا کی دو بڑی کیمونسٹ پاورز کے درمیان ہوئی تھی ۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ ذوالفقا ر علی بھٹو جنہوں نے 1962 ء کی انڈیا چین جنگ کے فوراً بعد پاکستان چین تعلقات میں مضبوطی اور اضافے کے حوالے سے بہت کام کیا تھا، اس دور میں وہ یہ باور کروانے میں مصروف رہے کہ چین اور امریکہ تعلقات کے قیام سے دنیا کو اور خصوصاً چین امریکہ کو فائدہ ہو گا اور تائیوان کی بجائے چین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی نشست کے علاوہ سیکورٹی کونسل میں بھی مستقل نشست اور ویٹو پاور ملنا چاہیے، جولائی1971 ء میں امریکہ کے سیکرٹری ہنری کسنجر نے پاکستان سے چین کا خفیہ دورہ کیا جو بدقسمتی سے خفیہ نہ رہ سکا اور اس کی وجہ سے سوویت یونین نے یہ محسوس کیا کہ چین امریکہ اور پاکستان اتحاد سے سوویت یونین کو نقصان پہنچے گا۔

 یوں سوویت یونین اور بھارت نے آپس میں جنگی نوعیت کا معاہد ہ کر لیا کہ اگر بھارت اور سوویت یونین میں سے کسی ایک ملک پر کسی تیسرے ملک نے حملہ کیا تو یہ ایک ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا اس کا نقصان یہ ہوا کہ جب دسمبر 1971 ء میں بھارت پاکستان جنگ ہوئی تو امریکہ کا بحری بیڑہ کوئی کاروائی نہ کر سکا اور نہ ہی عملی طور پر چین خود کوئی اقدام اٹھا سکا ، دوسری جانب جنگ کے بعد شملہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے چین نے پاکستان بھارت کے مذاکرات کو پا کستان کے حق میں کرنے کے لیے 1974 ء تک بنگلہ دیش کو اقوام متحدہ کا رکن بننے سے محروم رکھا جس کا شکوہ بنگلہ دیش اب بھی چین سے کرتا ہے پھر جب افغانستان میں سوویت یونین نے فوجی جارحیت کی تو چین نے اس کی بھر پور مخالفت کی اور پا کستا ن کے موقف کی حمایت کی اور اقوام متحدہ میں سابق سوویت یونین کو اخلاقی سیاسی طور پر دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے آخرکار مفاہمت کرنا پڑی ، 1990 ء کے بعد روس اور چین میں تعلقات بہتر ہونے لگے ۔

چین میں1980 ء کی دہائی کی ون چائلڈ پالیسی اور اقتصادی اصلاحات کی وجہ سے چین تیزی سے ترقی کرنے لگا تو 2001 ء سے روس اور چین کے تعلقات مزید بہتر ہوئے ۔ 1989 ء میں روس کے گورباچوف اور چین کے ڈین ژیاؤ پنگ نے مذاکرات سے سرحدی تنازعات حل کرنے کی کوششوں کا سلسلہ شروع کیا اور 2006 ء میں روس اور چین کے درمیان سرحدی تنازعات حل کر دیے گئے ، نائن الیون یعنی 11 ستمبر 2001 ء میں امریکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے عالمی سیاست ، معاشیات اور اقتصادیات میں بڑی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کا محرک بھی امریکہ تھا، نیو ورلڈ آرڈر ، ڈبلیو ٹی او ، WTO گلوبل ولیج جیسی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی اسپیس ٹیکنالوجی کے مربوط انداز میں تیزی سے ترقی کرنے کی وجہ سے چین اور روس نے بھی اِن شعبوں میں امریکہ کا مقابلہ خوب کیا مگر روس کو سیاسی مسائل کا سامنا رہا۔

 اس دوارن امریکہ جس نے 1971 ء سے 1990 ء تک چین کو سوویت یونین کے خلاف رکھا تھا اِس خوش فہمی میں تھا کہ چین دنیا میں اتنی جلدی ترقی نہیں کر سکتا اور اس میں شک نہیں کہ ماوزے تنگ کی زرعی ، اقتصادی پالیسیاں حقائق کے برعکس تھیں جن کی وجہ سے چین کو نقصان ہوا تھا، جیسے ساٹھ کی دہائی جب سروے کی بنیاد پر بتایا کہ ہر سال چین میں پرندے لاکھوں ٹن اناج کھا جاتے ہیں تو پرندوں کو ہلاک کرنے کی مہم شروع ہوئی پرندوں کے خاتمے کی وجہ سے کھیتوں کو حشرات نے ایسا نقصان پہنچایا کہ پھر چین میں قحط کی وجہ سے ایک کروڑ سے زیادہ انسان ہلاک ہوئے ، اسی طرح موزے تنگ کو چین کی بڑھتی ہوئی آبادی درست لگتی تھی، 1950 ء میں چین کی آبادی 55 کروڑ تھی جو 1974 ء میں 90 کروڑ ہو گئی تھی مگر 1980 ء کی دہائی میںایک بچہ فی جوڑا پالیسی اپنائی گئی۔

 1989 ء میں جب چین میں ترقی اور پیداوار میں اضافے کی رفتار آبادی میں اضافے کے ٹھہراؤ کی وجہ سے آبادی کے مقابلے میں زیادہ ہونے لگی تو یہاں Tianammen Saquare تانمایان چوک پر ہزاروں نوجوان طلبا نے کیمونسٹ حکومت کے خلاف احتجاج کیا خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ احتجاج بھی 1990 ء میں دنیا کے دیگر کیمونسٹ ملکوں رونما ہونے احتجاج کی طرح پورے چین میں پھیل جائے گا اور اس کے نتیجے میں چین بھی چیک اینڈ سلواکیہ ، ہنگری ، رومانیہ ، وغیرہ کی طرح ہو جائے گا ، مگر ایسا نہیں ہوا ، تانمایان کے واقعہ کو اب 37سال گزر چکے ہیں اور اُس وقت کے جن نوجوانوں نے 20 سال کی عمر میں احتجاج کیا تھا اب 57 برس کے ہو چکے ہیں ۔

 اِن 37 برسوں میں چین دنیا کی دوسری معاشی ، اقتصادی قوت اور تیسری فوجی قوت بن چکا ہے ۔ آج چین کی آبادی 1 ارب41 کروڑ کے قریب ہے، آبادی میں نسلی قومی اعتبار سے 91.1 فیصد ہان چینی ہیں اور باقی دیگر ہیں ، مذہبی لحاظ سے 33.4 فیصد بدھ ہیں، 25.2 لا دین ، 19.6 فیصد تاوازم ، 2,5 فیصد عیسائی ، 1.6 فیصد مسلمان اور باقی17.7 دیگر مذاہب سے وابستہ ہیں ۔ چین کا رقبہ 9596961 مربع کلومیٹر ہے ۔ 2024 ء کے مطابق چین کا جی ڈی پی (پی پی پی) 37.072 ٹریلین ڈالر تھا، فی کس سالانہ آمدنی 26310 ڈالر ہے، چین دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں غربت کا خاتمہ ہو چکا ہے ، یعنی جیسی سماجی ، سیاسی، انتظامی اور اقتصادی ساخت چین کی ہے ایسی دنیا میں کسی اور ملک اور قوم کی نہیں اس لیے نہ تو اس ملک میں داخلی بحران پیدا کر کے قیادت تبدیلی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اقتصادی ترقی روکی جا سکتی ہے ۔

نپولین کے زمانے میں جب چین زوال پذیر تھا تو نپولین نے کہا تھا کہ چین ایک سویا ہوا اژدھا ہے اِس کو مت جگاؤ یہ جاگ گیا تو دنیا کو کھا جائے گا ۔ اب اس تمام تناظر میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کے پیوٹن سے یوکرائن میں جنگ بندی اور مفتوحہ علاقے پر روس کے حق کو تسلیم کرنے کے ساتھ روس سے دوستی چاہتے ہیں اور ماہرین کا خیال یہ ہے کہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ جس طرح چین نے ماضی میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ اور یورپ کے موقف کی تائید کی تھی اسی طرح روس اب چین کے خلاف ہو کر بدلتی ہوئی صورتحال سے فائد ہ اٹھائے اور جس طرح پاکستان نے چین اور امریکہ کے تعلقات جوڑنے میں جولائی 1971 ء میں اہم کردار ادا کیا تھا اب وہی کردار بھارت ادا کرے ۔ اس حوالے سے چین کے صدر شی ژنگ نے 24 فروری کی اطلاعات کے مطابق بھی بات چیت کی تھی اور یہ باور کر وایا کہ دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال کے باوجود دونوں ملکوں یعنی روس اور چین کے تعلقات امریکہ ، بر طانیہ اور دیگر ملکوں کے حوالے سے ویسے ہی رہیں گے جیسے ہیں یعنی دونوں ملک ایک دوسرے کی اقتصادی ، عسکری ، تکنیکی مدد کرتے رہیں گے۔

 امریکہ برطانیہ یہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ روس اور چین جو دنیا کی دو بڑی اور اہم قوتیں ہیں اِن کا آپس کا تعاون جب تک قائم ہے شائد وہ اِن دونوں ملکوں میں سے کسی ایک کو بھی زیر نہیں کر سکیں گے اور دور جدید کی سرد جنگ بھی اگر جاری رہتی ہے تو آخر کار نقصان امریکہ اور برطانیہ ہی کا ہو گا ۔ اب دیکھنا ہو گا کیا روس واقعی امریکہ کے قریب آسکتا ہے کیونکہ دوسری جانب یورپ بھی امریکہ کی جانب سے یوکرائن کے موقف پر تبدیلی کی وجہ سے امریکہ اور نیٹو سے منحرف ہو رہا ہے ۔ دنیا بہت تیز ی سے بدل رہی ہے اور اس میں سب سے جلدی ڈونلڈ ٹرمپ کو ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ اس تیز رفتاری کے ساتھ توازن بھی قائم رکھ سکیں گے؟

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی رکنیت امریکہ اور یورپ روس اور چین کے روبل کا ہو گیا سرحدی تنازعات جنگ عظیم او ل خارجہ پالیسی عالمی سطح پر کیمونسٹ ملک دونوں ملکوں اور چین میں میں امریکہ دونوں ملک میں بھارت ایک دوسرے ماوزے تنگ اسٹالن کی کے مقابلے کے تعلقات ہلاک ہوئے امریکہ کے کے درمیان کی وجہ سے کے خاتمے چین دنیا جنگ ہوئی نہیں کیا کستان کے دنیا میں بھارت کے بھارت کی سے زیادہ کی بنیاد پا کستان چین کی ا کرنے کی ڈالر کی تھی اور شروع ہو کیا تھا کے خلاف تھا اور میں چین جائے گا ہیں اور کے ساتھ چین اور اور روس دنیا کی پر حملہ روس کو جنگ ہو تھا کہ کے لیے کی طرح جنگ کے کے بعد روس کے اور پا کے صدر کو چین چین نے ہے اور سے بھی چین کو ہوا تو ہوئی ا ہو گئی ایک دو جب چین کی تھی تنگ کی اس لیے نے چین سے چین اور اس کہ چین ئے اور کر دیا اور یہ

پڑھیں:

نااہل کے پی حکومت پاراچنار کا 25 کلومیٹر کا روڈ نہیں کھلوا سکتی، فیصل کریم کنڈی

گورنر کے پی کے کا لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ انڈیا اپنی نااہلی کا الزام پاکستان پر لگانا چاہتا ہے، پاکستان نے ہمیشہ دہشتگردی کا مقابلہ کیا ہے، پاکستانی قوم پاک فوج کیساتھ کھڑی ہے، مودی سرکار نے پہلے بھی باڈر پار کیا تھا تو منہ توڑ جواب ملا تھا، اس بار کوئی حرکت کی تو چائے بھی نہیں ملے گی۔ اسلام ٹائمز۔ لاہور میں داتا دربار پر گورنر کے پی کے فیصل کریم کنڈی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما نورعالم نے حاضری دی اور لنگر تقسیم کیا۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر کے پی کے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ انڈیا نے پہلگام حملے کا الزام بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر لگا دیا، انڈیا اپنی نااہلی کا الزام پاکستان پر لگانا چاہتا ہے، پاکستان نے ہمیشہ دہشتگردی کا مقابلہ کیا ہے، پاکستانی قوم پاک فوج کیساتھ کھڑی ہے، مودی سرکار نے پہلے بھی باڈر پار کیا تھا تو منہ توڑ جواب ملا تھا، اس بار کوئی حرکت کی تو چائے بھی نہیں ملے گی۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا پاکستان کیلئے ہم فوج اور اداروں کیساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  افغانستان کی زمین پاکستان کیخلاف استعمال ہو رہی ہے، پاکستان میں دہشتگردی میں ستر فیصد ہاتھ انڈیا کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے، کے عوام صرف امن چاہتے ہیں، کے پی کے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، نااہل حکومت پارا چنار پچیس کلومیٹر کا روڈ نہیں کھلوا رہی، یہ صوبے میں کیا امن قائم کرے گی، پی ٹی آئی کے لوگ ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں، ایک وزیر دوسرے وزیر کو چور کہہ رہا ہے۔ وزیراعلی علی امین گنڈا پور اچھے بچوں کی طرح کام کر رہے ہیں، اسلام آباد سے جو ڈیوٹی لگتی وہ پوری کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • شانگلہ، فلسطین سے یکجہتی کیلئے ہڑتال کے معاملے پر جھگڑا، صدر میڈیکل اسٹور یونین قتل
  • نااہل کے پی حکومت پاراچنار کا 25 کلومیٹر کا روڈ نہیں کھلوا سکتی، فیصل کریم کنڈی
  • سلامتی کونسل میں شام کی نئی قیادت اور مستقبل کے مسائل پر بحث
  • چینی چھوڑنے سے فائدہ ہوتا ہے یا نقصان؟وہ حقائق جو سب کومعلوم نہیں
  • کیا کوئی خاتون پوپ فرانسس کی جگہ پوپ بن سکتی ہیں ؟
  • آسٹریلین جونیئر اوپن اسکواش میں کامیابی کے بعد علی سسٹرز وطن واپس پہنچ گئیں
  • سفر سے پہلے پاسپورٹ کی ایسی 7 غلطیاں جوآپ کے لیے بڑی مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں ،جانیں
  • انتقال کرنے والے افراد کے شناختی کارڈ کیسے منسوخ کروائیں؟ گائیڈ لائنز جاری
  • انسانی جذبات اور تخلیق کو مصنوعی ذہانت نقل نہیں کر سکتی، مصنفین