گھر کی تزئین و آرائش کے دوران دیواروں سے انسانی ہڈیاں برآمد، معاملہ کیا تھا؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
ایک خاتون کو اپنے 16 ویں صدی کے گھر کی تزئین و آرائش کے دوران دیواروں میں انسانی ہڈیاں ملیں اور اس کے بعد مزید حیرت انگیز انکشافات بھی ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا قدیم شاہی قلعہ اور بھٹکتی ’بدروحیں‘
نیویارک پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی خاتون 28 سالہ ایمی بروک مین نے اپنے منگیتر 34 سالہ نورٹن جانسٹن کے ساتھ 3 بیڈ روم کی وہ پراپرٹی خریدی تھی اور دیواروں کی تزئین و آرائش خود ہی کر رہے تھے کہ انہیں ان میں سے انسانی ہڈیاں برآمد ہوگئیں۔
تزئین و آرئش کے لیے انہیں کمپنی نے 23 ہزار ڈالر کا معاوضہ بتایا تھا جس پر انہوں نے وہ کام خود ہی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایمی نے سنہ 1580 کا یہ گھر فروری 2023 میں 413،000 ڈالر میں خریدا تھا۔
دیوار سے ہڈی برآمد ہونے پر ایمی سمجھیں کہ 16 ویں صدی کے دوران برائی یا برے اثرات سے بچنے کے لیے دیواروں میں ہڈیاں ڈالی گئی ہوں گی لیکن پھر انہیں ایک ایک کرکے 6 ہڈیاں ملیں جن میں سے بظاہر ایک انسانی انگلی کی ہڈی تھی اور باقی جانوروں کی تھیں۔
اس جوڑے نے یہ بھی سنا ہوا تھا کہ ایک مقامی قاتل جیمز ہارگریوز ان کے گھر کے قریب رہتا تھا۔
ایمی کا کہنا تھا کہ دیواروں سے جب ہڈیاں برآمد ہوئیں تو وہ بہت گھبرا گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے تو ہم نے سوچا کہ اب ہمیں پورے انسانی جسم کی ہڈیاں ملیں گی۔
مزید پڑھیے: گھر کے نیچے کئی کمرے اور سرنگیں برآمد، مالک حیران رہ گیا
دیواروں پر لگے پیپرز کافی بوسیدہ ہوچکے تھے اور ان سے بدبو بھی آتی تھی اس وجہ سے انہوں نے دیوار کی تزئین و آرائش کا فیصلہ کیا تھا۔
لیکن ایمی اور ان کے منگیتر نورٹن، جو ایک سائنس ٹیچر ہیں، کو دیواروں میں سے ہڈیاں ملنے کے بعد ایک اور دھچکا لگا۔ انہیں دیوار میں سے جڑی بوٹیوں سے بھری ایک پراسرار سبز بوتل بھی ملی۔
ایمی نے کہا کہ ہمیں وہاں جادو پر ایک مضمون بھی ملا جس سے ظاہر ہوا کہ وہاں رہنے والے واقعی چڑیلوں پر یقین رکھتے تھے۔
وہ برائی سے بچنے کے لیے دیواروں اور جڑی بوٹیوں میں ہڈیاں ڈالتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ ان کی حفاظت کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر کمرے میں ہڈیاں ملی ہیں۔
اپنے گھر کی تاریخ پر تحقیق کرنے کے بعد انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ایک سزا یافتہ قاتل جیمز ہارگریوز ان کے بالکل ساتھ والے گھر میں رہتا تھا۔
مزید پڑھیں: ایمیزون کی خواتین جنگجوؤں کی 3 نسلیں روس کے ایک قدیم مقبرے سے برآمد
ہارگریوز کو اپنی ملازمہ پر حملہ کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا اور پھر ایک نوجوان وکیل کے کلرک کو پیٹھ میں گولی مار دی تھی جس نے اس پر مقدمہ دائر کیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
16ویں صدی کا گھر تزئین و آرائش چڑیلیں گھر سے انسانی ہڈیاں برآمد.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 16ویں صدی کا گھر انسانی ہڈیاں ہڈیاں برا مد کی تزئین انہوں نے کیا تھا کے لیے
پڑھیں:
غزہ کے جلاد کا آخری ہتھیار
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، یونیسف اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کا مکمل گھیراو کر کے اور ہر قسم کی غذائی اشیاء، پانی، دوائیاں اور ایندھن کی منتقلی روک کر جان بوجھ کر غزہ میں قحط پیدا کیا ہے۔ غذا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مائیکل فخری نے اپنے بیانیے میں کہا ہے: "غزہ میں بھوک کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور یہ انسانی ساختہ قحط ہے جو محاصرے، زراعت سے متعلقہ انفرااسٹرکچر کی نابودی اور انسانی امداد کی غزہ منتقلی روک کر پیدا کیا گیا ہے۔" یونیسف نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غزہ کے بچوں میں غذائی قلت شدید حد تک بڑھ گئی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی 50 فیصد تعداد غذائی قلت کے باعث خرابی صحت کا شکار ہے۔ تحریر: رسول قبادی
غزہ کی پٹی، جو طویل محاصرے کا شکار چھوٹا سا علاقہ ہے اس وقت اکیسویں صدی کے سب سے بڑے انسانی المیے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کا گھیراو تنگ کرتے ہوئے ایک طرف تو اسے شدید فضائی بمباری کا نشانہ بنا رکھا ہے جبکہ دوسری طرف ہر قسم کی انسانی امداد غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھی ہے۔ یوں صیہونی فوج 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر بروئے کار لانے میں مصروف ہے۔ دوسری طرف اس گھناونے مجرمانہ اقدام پر، جو واضح طور پر نسل کشی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کا مصداق ہے، بعض عرب اور اسلامی ممالک نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے بلکہ اس سے بھی بالاتر یہ کہ کچھ عرب ممالک تو حتی اسرائیل سے دوستی اور تعاون بڑھانے میں مصروف ہیں۔
بھوک کا جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال
اقوام متحدہ، یونیسف اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کا مکمل گھیراو کر کے اور ہر قسم کی غذائی اشیاء، پانی، دوائیاں اور ایندھن کی منتقلی روک کر جان بوجھ کر غزہ میں قحط پیدا کیا ہے۔ غذا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مائیکل فخری نے اپنے بیانیے میں کہا ہے: "غزہ میں بھوک کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور یہ انسانی ساختہ قحط ہے جو محاصرے، زراعت سے متعلقہ انفرااسٹرکچر کی نابودی اور انسانی امداد کی غزہ منتقلی روک کر پیدا کیا گیا ہے۔" یونیسف نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غزہ کے بچوں میں غذائی قلت شدید حد تک بڑھ گئی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی 50 فیصد تعداد غذائی قلت کے باعث خرابی صحت کا شکار ہے۔
امداد رسانی کے بہانے عام شہریوں کا قتل عام
غزہ میں جاری ایک انتہائی مجرمانہ اقدام فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے کے بہانے بلا کر گولیوں کا نشانہ بنانا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صیہونی ٹھیکے دار جنہوں نے غزہ میں امداد تقسیم کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، بھوکے فلسطینی شہریوں کے خلاف جنگی ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ شائع ہونے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقدامات انتہائی مشکوک اور مرموز ہیں جن میں اب تک 700 کے قریب عام فلسطینی شہری شہید اور ہزاورں زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ چوبیس گھنٹے میں کم از کم 18 فلسطینی بھوک کی وجہ سے شہید ہو گئے ہیں جبکہ غذا کی تلاش کرنے والے 70 فلسطینی صیہونی فوج کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ حملے جو "آزادانہ قتل عام" کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں، جنگ سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی اور عام شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا مصداق ہیں۔
غزہ میں نازک انسانی صورتحال
غزہ اس وقت بھرپور انسانی المیے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق غزہ کی کل آبادی کا 90 فیصد حصہ جلاوطنی پر مجبور ہو چکا ہے اور 18 لاکھ سے زیادہ فلسطینی انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں عارضی کیمپس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ پانی کی قلت، وبائی امراض جیسے ہیپاٹائٹ پھیل جانا، میڈیکل سہولیات کا تقریباً نہ ہونا اور دیگر مسائل نے فلسطینیوں کی زندگی دوبھر کر دی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اعلان کیا ہے کہ مارچ 2025ء سے اب تک کم از کم 57 بچے بھوک کے باعث شہید ہو چکے ہیں اور موت کے خطرے سے روبرو فلسطینی بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ غزہ کے اسپتال اور طبی مراکز صیہونی بمباری اور جارحیت کے نتیجے میں ناکارہ ہو چکے ہیں اور بھوک کے مارے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی تصاویر دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔
عرب اور اسلامی ممالک کی کوتاہی
اس انسانی المیے پر عرب اور اسلامی ممالک کی خاموشی درحقیقت فلسطین کاز اور انسانی اقدار سے غداری کے مترادف ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اپنے مجرمانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ دوسری طرف اسلامی ممالک نے توقع کے برخلاف مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اسرائیل کے خلاف سفارتی، اقتصادی اور سیاسی دباو ڈالنے سے گریز کر رہے ہیں جبکہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر خلیجی عرب ریاستوں نے اسرائیل سے تجارتی تعلقات پہلے کی طرح جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں سیاسی اور اقتصادی مفادات کی اہمیت بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کی جان سے زیادہ اہم ہے۔ عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی حکمرانوں پر نسل کشی کے الزام میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے اور یہ اسلامی ممالک اس کی بنیاد پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر سکتے تھے۔
عمل کا وقت ہے
غزہ میں اسرائیلی جرائم خاص طور پر بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا، بین الاقوامی قوانین، جنیوا کنونشن اور ابتدائی انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔ یہ انسانی المیہ عالمی برادری خاص طور پر اسلامی ممالک کی جانب سے فوری اور موثر اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ اسلامی ذرائع ابلاغ ان حکمرانوں کا چہرہ عیاں کریں جو فلسطین کاز سے غداری میں مصروف ہیں اور عوام کو فلسطینیوں کی حمایت کی ترغیب دلائیں۔ عالمی سطح پر فلسطین میں اسرائیلی ظلم و ستم سے آگاھی بڑھتی جا رہی ہے اور انسانی معاشرے بیدار ہو رہے ہیں۔ برطانیہ سمیت تقریباً 27 مغربی ممالک نے مشترکہ بیانیے میں صیہونی رژیم پر عام شہریوں کے وحشت ناک قتل عام اور جان بوجھ کر انسانی امداد روکنے کا الزام عائد کیا ہے اور فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف کچھ اسلامی ممالک ایسے بھی ہیں جو زور شور سے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔