اسلامی شعائر اور انکا تحفظ
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: دشمن ہمارے اندر سرایت کرچکا ہے۔ آج مسجد اقصیٰ کا حال پوری امت کے سامنے ہے۔ وہ صیہونیت کے پنچے میں ہے۔ اسکی آزادی پر پوری امت کے حکمران خاموش ہیں۔ وہ خاموشی سے اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ اگر اسرائیل مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو کر لے۔ اللہ نے جن قوموں کیخلاف ہمیں مکمل اور بھرپور تیاری کیساتھ میدان جنگ میں اترنے کا حکم دیا تھا، انکے ساتھ ہم دوستی کی پینگیں دراز کر رہے ہیں۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ جو اسرائیل ہمارے فلسطینی بھائیوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے، اسی ظالم کیساتھ ایک عرب ملک فوجی مشقیں کر رہا ہے۔ اپنے تجربات اور اسلحہ اسکے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔ امت مسلمہ نے اپنی طول تاریخ میں یہ شرمناک صورتحال کبھی نہ دیکھی تھی، جسکا آج اسے سامنا ہے۔ تحریر: مفی گلزار احمد نعیمی
شعائر شعیرہ کی جمع ہے، جس کا معنی ہے نشانی۔ جب ہم اسلامی شعائر کی بات کرتے ہیں تو ان سے مراد ہر وہ چیز ہے، جو اللہ سبحانہ و تعالٰی کی اطاعت کی نشانی ہو۔ وہ شعائر میں شامل ہے۔ اس میں عبادات، اوقات، مقامات اور دیگر چیزیں جو اللہ کی اطاعت اور اس کی خوشنودی کا پتہ دیں تو وہ شعائر کہلائیں گی۔ شعائر اللہ میں اوقات شامل ہیں، جیسے حرمت والے مہینے، جمعۃ المبارک، ایام تشریق اور رمضان المبارک وغیرہ۔ عبادات کو اگر دیکھیں تو وہ شعائر اللہ میں شامل ہیں، جیسے پانچ نمازیں، آذان و اقامت اور تلاوت کلام الہیٰ۔ اسی طرح مقامات میں کعبۃ اللہ مسجد نبوی اور مسجد اقصی، روضہ رسول، نجف اشرف میں جناب مولا علی کرم اللہ وجہہ کا مزار، کربلا میں امام عالی مقام اور دیگر شھدائے کربلا کے مزارات۔
انبیاء رسل اور اولیاء و شھداء کے مزارات بھی شعائر اللہ میں شامل ہیں۔ کیونکہ دین کی نشر و اشاعت اور دینی معاملات میں ان کا بہت اہم کردار ہوتا ہے، انہیں کے ذریعے اسلام کی شان و شوکت اور وجاهت کا تحفظ ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے کی فرمایا: "ان الصفا والمروة من شعائر الله" (البقر) ترجمہ: "بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔" اللہ مجدہ الکریم نے صفا کو برقرار رکھا، منیٰ کو برقرار رکھا۔ یہ اور مندرجہ بالا تمام چیزیں سب بزرگوں اور اکابر دین کی یادگاریں ہیں۔ ان چیزوں کو دیکھنے سے ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ ان شعائر کی عزت و تکریم کرنا تقویٰ کی علامت ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا "و من يعظم شعائر الله فأنها من تقوى القلوب" (الحج: 32) ترجمہ: "جو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو بے شک شک یہ دل کے تقویٰ کی باتیں ہیں۔" جو شخص ان کو اہمیت نہیں دیتا، وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔
علامہ ابن جریر طبری نے روایت کیا ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک عیسائی رہتا تھا۔ جب مؤذن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آذان کہتا تھا اور جب وہ آذان کہتے وقت اشهد ان محمداً رسول اللہ کہتا تھا تو یہ بدبخت بکواس کرتا تھا (حرق الكاذب معاذ اللہ)۔ ایک دن اس کی خادمہ آگ لائی اس کے سب گھر والے سوئے ہوئے تھے۔ آگ سے ایک شعلہ اٹھا، اس نے سارے گھر کو جلا دیا۔ یہ بدبخت بھی اسی گھر میں کے ساتھ خاکستر ہوگیا۔(۲) مفسر شھیر علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر تبیان القرآن میں سورۂ نساء کی آیت 140 کے تحت لکھا ہے کہ جب مسلمان سجدہ کرتے تو یہودی اور مشرکین انکا مذاق اڑاتے تھے اور جب مسلمان آذان دیتے تو وہ اس طرح کہتے تھے کہ یہ اس طرح چلا رہے ہیں، جیسے قافلہ والے چلاتے ہیں۔
اس طرح یہ لوگ شعائر اللہ کی بے حرمتی کیا کرتے تھے۔ اس لیے اللہ نے ان سے دوستی اور تعلق رکھنے سے منع فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے۔ "یا بھا الذين أمنوا لا تتخذوا الذين اتخذوا دينكم هزوا و لعبا" (المائده) اے ایمان والو! جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا لیا ہے، ان سے دوستی مت رکھو۔ نہ ان سے دوستی رکھی جائے اور نہ ہی ایسی مجلسوں میں شریک ہوا جائے، جو شعائر اللہ کے مذاق کا موجب ہیں۔ وہ مقامات جو ازل سے اللہ نے قابل احترام بنائے ہیں، ان کی عزت کا تحفظ تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "قیامت سے پہلے فتنے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ہونگے اور آدمی حالت ایمان میں صبح کرے گا تو شام کو کافر ہو جائے گا اور شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا تو صبح کو کا فر ہو جائے گا اور کئی اقوام دنیاوی مال کے عوض اپنا دین بیچیں گی۔" (الترمذی السنن ابواب الفتن)
آج امت مسلمہ شعائر اللہ کی پرواہ نہیں کر رہی۔ اسلام کی عظمت کی عظیم نشانیاں آہستہ آہستہ مٹائی جا رہی ہیں۔ حجاز مقدس اور عرب دنیا ارض فلسطین و شام شعائر الله سے بھرے پڑے ہیں۔ ہمارا دشمن وہ سب کچھ مٹانا چاہتا ہے اور ہم بحیثیت مسلمان اس کی کچھ پرواہ نہیں کر رہے۔ یہود و نصاریٰ اور صیہونیت و ہنود کے بچھائے ہوئے حال میں ہم پھنس چکے ہیں۔ ہمارے حکمران ان کے اطاعت گزار غلام بن چکے ہیں اور ان کے حکم پر اسلام کے بڑے بڑے نشانات مٹانا چاہتے ہیں۔ حتی کہ اگر انہیں اسلامی دنیا کے عوام کا ڈر نہ ہوتا تو ابھی تک گنبد خضراء کو بھی معاذ اللہ مٹا چکے ہوتے۔
دشمن ہمارے اندر سرایت کرچکا ہے۔ آج مسجد اقصیٰ کا حال پوری امت کے سامنے ہے۔ وہ صیہونیت کے پنچے میں ہے۔ اس کی آزادی پر پوری امت کے حکمران خاموش ہیں۔ وہ خاموشی سے اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ اگر اسرائیل مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو کر لے۔ اللہ نے جن قوموں کے خلاف ہمیں مکمل اور بھرپور تیاری کے ساتھ میدان جنگ میں اترنے کا حکم دیا تھا، ان کے ساتھ ہم دوستی کی پینگیں دراز کر رہے ہیں۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ جو اسرائیل ہمارے فلسطینی بھائیوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے، اسی ظالم کے ساتھ ایک عرب ملک فوجی مشقیں کر رہا ہے۔
اپنے تجربات اور اسلحہ اس کے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔ امت مسلمہ نے اپنی طول تاریخ میں یہ شرم ناک صورت حال کبھی نہ دیکھی تھی، جس کا آج اسے سامنا ہے۔ یہ خالصتاً عربوں کا مسئلہ تھا، مگر آج عرب اسے اپنا مسئلہ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ ایک بادب ملت کیسے بے ادب ہوگئی۔ ہمارے لوگ غیر کی سازشوں کا شکار ہیں اور انہیں محسوس تک نہیں ہو رہا۔ نیکی اور ہدایت کے تمام رشتے ختم ہو رہے۔ ہم ہیں کہ وہی کام کر رہے ہیں، جو دشمن چاہتا ہے۔ ہم غیر دانستہ طور پر اپنے دشمن کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پوری امت کے شعائر اللہ کر رہے ہیں کر رہا ہے چاہتا ہے اللہ کی اللہ نے کے ساتھ کے ہیں
پڑھیں:
فپواسا کی ڈاکٹر عبدالمجید پیرزادہ کی برطرفی کی مذمت
—فائل فوٹوفیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز (فپواسا) نے کہا ہے کہ وہ سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی (ایس ایم آئی یو) کراچی کے فیکلٹی رکن ڈاکٹر عبدالمجید پیرزادہ کی غیر منصفانہ برطرفی کی شدید مذمت کرتی ہے۔
جاری کیے گئے بیان میں فپواساکا کہنا ہے کہ یہ اچانک اور بلا جواز اقدام ضابطہ جاتی عمل کی سنگین خلاف ورزی اور مقررہ تادیبی قوانین کو نظر انداز کرنے کا عکاس ہے، جو ادارے کی ساکھ اور تقدس کےلیے خطرہ بن چکا ہے، یہ امر نہایت تشویشناک ہے کہ ڈاکٹر پیرزادہ کی برطرفی بظاہر ایک انتقامی کارروائی معلوم ہوتی ہے، جو اُن کی جانب سے جامعہ میں کرپشن اور انتظامی بے ضابطگیوں کو بے نقاب کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز نے کہا ہے کہ بجائے اس کے کہ یونیورسٹی انتظامیہ ان سنگین معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیتی، اس نے اختلافِ رائے کو دبانے اور حق گوئی کرنے والے استاد کو نشانہ بنانے کا راستہ اختیار کیا، اس اقدام نے اساتذہ کے درمیان خوف، غیر یقینی اور دھونس کا ماحول پیدا کر دیا ہے، جو علمی آزادی کو بری طرح متاثر کر رہا ہے اور یونیورسٹی کی گورننس پر اعتماد کو مجروح کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے فپواسا کی اپیل پر سندھ کی سرکاری جامعات میں تدریسی عمل کا بائیکاٹفپواسا کا کہنا ہے کہ ان سنگین حالات کے پیشِ نظر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، جو سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں، ان سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اس معاملے کا نوٹس لیں اور ڈاکٹر پیرزادہ کی برطرفی کے پسِ منظر میں مکمل طور پر غیر جانبدار، شفاف اور منصفانہ انکوائری کا حکم جاری کریں۔
فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز نے گورنر سندھ کامران ٹیسوری سے بھی اپیل کرتی ہے کہ وہ مداخلت فرمائیں اور جامعہ کے اساتذہ کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور ادارے کی ساکھ کی بحالی کو یقینی بنائیں۔
فپواسا نے پُر زور مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹر پیرزادہ کو فوری بحال کیا جائے تاکہ آزادانہ انکوائری مکمل ہونے تک انہیں ان کے عہدے پر بحال رکھا جا سکے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فپواسا یونیورسٹی انتظامیہ اور تمام متعلقہ حکام سے مطالبہ کرتی ہے کہ اساتذہ کو ہراسانی، انتقامی کارروائی یا کسی بھی قسم کے دباؤ سے مکمل تحفظ دیا جائے تاکہ وہ اپنے آئینی حقِ آزادیٔ اظہار، علمی خود مختاری اور پیشہ ورانہ دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
فپواسا نے ڈاکٹر پیرزادہ اور وسیع علمی برادری کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر انصاف، شفافیت اور علمی آزادی کے تحفظ کے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کرتے ہیں، فپواسا ہر قسم کی ناانصافی کے خلاف بھرپور آواز اٹھاتی رہے گی اور ملک بھر میں اساتذہ کے حقوق اور وقار کے تحفظ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔