محبان اہلبیتؑ کو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت اور توسل سے غافل نہیں رہنا چاہیے، معصومہ نقوی
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
ایم ڈبلیو ایم شعبہ خواتین کے صدر کا کہنا تھا کہ یکم ذی القعد وہ مبارک دن ہے جس میں باب الحوائج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے آنگن میں ایسی دختر نے جنم لیا جن کی شفاعت سے تمام شیعیان علیؑ بہشت میں داخل ہوں گے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی صدر سیدہ معصومہ نقوی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آغاز عشرہ کرامت و ولادت با سعادت کریمہ اہلبیتؑ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی بابرکت مناسبت پر تمام محبان خاندانِ نبوت و بالخصوص امام زمانہ عج کی خدمت اقدس میں ھدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتی ہوں۔ حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا کا یوم ولادت یوم ِ دختر کے عنوان سے بھی معروف ہے، یکم ذی القعد وہ مبارک دن ہے جس میں باب الحوائج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے آنگن میں ایسی دختر نے جنم لیا جن کی شفاعت سے تمام شیعیان علیؑ بہشت میں داخل ہوں گے، جن کی زیارت کا اجر و ثواب کثیر روایات میں درج ہے۔
انہوں نے کہا کہ جناب معصومہ قم کی بارگاہ سے اخروی و دنیاوی حاجات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا پورے جہان کی پناہگاہ ہے، محبان اہل بیت علیہم السلام کو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت اور توسل سے غافل نہیں رہنا چاہیے کیونکہ خدا کے نزدیک ان کا مقام بہت بلند ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ہر کمال کو زوال ہے
اللہ رب العزت کا یہ عدل کا نظام ہے کہ ’’ہر کمال کو زوال ہے، ہر بلندی کے بعد پستی کا آنا لازمی ہے۔‘‘ جیسے رات کی تاریکی کے بعد دن کے اجالے کا پھیلنا لازمی ہوتا ہے۔ ایسے ہی ہر بدی اور ہر برائی کے بعد اچھائی اور نیکی کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ہر چیز کا جوڑا پیدا فرمایا ہے۔ اب شاید بدی کی تاریکی چھٹنے اور اجالا پھیلنے کا وقت قریب آنے والا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب گیڈر کی موت آتی ہے تو اس کا رخ شہر کی طرف ہو جاتا ہے کچھ ایسا ہی یہاں ہوتا نظر آنے لگا ہے۔ سیاست میں کب کیا کچھ ہو جائے اس کا علم کسی بھی انسان کو نہیں ہوتا پر اللہ رب العزت کو سب ہی علم ہوتا ہے اور سب کچھ اس کی حکمت اور رضا سے ہورہا ہوتا ہے، جو وہ پاک رب چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، انسان لاکھ چاہیے پر وہ کچھ بھی اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتا۔ انسان تو خود اتنا بے بس ہے کہ وہ چاہ کر بھی اپنے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا گر اللہ چاہے تو پھر ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ حکمران، ان کو لانے والے اور ان کی حمایت کرنے والے کچھ بھی اپنی مرضی و منشا سے نہیں کرسکتے پر عجب بات یہ ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ یہ لوگ چاہ رہے ہیں وہی ہورہا ہے تو اصل میں یہی لوگ غفلت کا شکار اور گمراہی میں مبتلا نظر آرہے ہوتے ہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے کچھ عرصہ کے لیے اپنی مرضی سے ان کی رسی کو دراز کر رکھا ہوتا ہے اور ان کو ڈھیل دی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی من مرضی کی کرلے جس میں وہ حقیقتاً خسارہ میں رہتے ہیں۔ اگر ہم وطن عزیز میں دیکھیں ابتدائی شروع کے چند سال چھوڑ کر تو ساری حقیقت ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر کھڑی ہو جائے گی۔ جب بھی وطنِ عزیز کو اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی مخلص سربراہ ملا ہے اس کی قدر نہیں کی یا پھر اس سربراہ نے اپنے ہی ہاتھوں سے خود کو تباہ و برباد کرنے کے ساتھ ہی وطن عزیز اور عوام کو بھی بے پناہ نقصان پہنچایا۔ ہماری ملکی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے پھر ہم اس سے کسی بھی قسم کی عبرت حاصل نہیں کر پاتے ہیں اور حکمرانی کے نشہ میں چور سرمستی میں مبتلا واحد اللہ کو بھلا کر خود وقت کے فرعون بن بیٹھتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ کل اگر یہ حکمرانی نہیں رہی تو ہمارا انجام کیا ہوگا اور ہم کل اللہ کے سامنے کیسے کھڑے ہو پائیں گے۔
وطنِ عزیز کی تاریخ ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب جب حکمرانِ وقت اقتدار کے نشے میں مد ہوش ہونے لگتے ہیں تو ان کے زوال کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ ایک شفاف آئینے کی مانند ہمارے سامنے عیاں ہے۔ جب بھی صاحبِ اقتدار حکمران کو یہ گمان ہوتا ہے کہ ’’اس کی کرسی مضبوط ہوگئی ہے اور اسے کوئی نہیں ہلا سکتا‘‘ تب ہی وہ منہ کے بل گر پڑتا ہے۔ جنرل ایوب خان کو جب یہ گمان ہوا کہ انہیں اور اُن کے اقتدار کو کوئی ہلا نہیں سکتا تو انہوں نے من مانی کرنا شروع کردی تھی۔ آئین و قانون کی دھجیاں اڑانا شروع کردی تھیں اور اپنے لاڈلے بیٹے گوہر ایوب کو کھلی چھٹی دے دی تھی کہ وہ جو جی میں آئے کرتا پھرے۔ قانون تمہارے گھر کی لونڈی ہے بالآخر انہیں منہ کی کھانی پڑی اور ذلت و رسوائی کے ساتھ رخصت ہونا پڑا اور یہی حشر جنرل یحییٰ کا ہوا، انہوں نے بھی قانون کو اپنی جوتے کی نوک پر رکھا اور وہی ہوا جو ہوتا آیا تھا انہیں بھی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا اس کے بعد سونے کی چڑیا ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ لگی جب تک انہوں نے قانون کو قانون سمجھ کر اس کا احترام ملحوظ خاطر رکھا انہوں نے ملک پر ہی نہیں عوام کے دلوں پر بھی راج کیا اور جب انہیں اقتدار کا نشہ چڑا اور انہیں لگنے لگا تھا کہ اب ان کی کرسی مضبوط ہوگئی ہے اور اسے کوئی ہلا نہیں سکتا اور وہ خود کو قانون سے بالا تر سمجھنے لگے تو انہیں بھی اسی ہی قانون نے اپنے شکنجے میں جکڑا اور ان کی ساری قانون دانی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ ’’اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے‘‘ جب چلتی ہے تو وہ کچھ ہو جاتا ہے جس کا تصور تک انسان نہیں کرسکتا۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار اپنی طاقت اور بندوق کے زور پر حاصل کیا تھا اور تاثر یہی دیا تھا کہ انہوں نے اللہ کی مضبوط رسی کو تھام رکھا ہے، جب انہوں نے اللہ کی رسی کو چھوڑ کر امریکی رسی کو مضبوطی سے تھاما تو ان کا دماغ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگا تھا اور وہ سمجھنے لگے تھے کہ وہ خود ہی قانون ہیں اور وہ ہر ’’سیاہ و سفید کے مالک ہیں‘‘ وہ جو چاہیں کریں اللہ کے بجائے انہوں نے اپنے سر پر امریکا کا ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا پھر اس ہی قانون نے ان کے نیچے سے ہی نہیں بلکہ اوپر ہی اوپر ان کو اقتدار سے محروم کردیا تھا۔ اللہ کی ’’بے آواز لاٹھی‘‘ کام کر گئی تھی ایک مشہور قول ہے کہ ’’جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے‘‘ بقول شاعر ساحر لدھیانوی
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
جب اللہ رب العزت نے اقتدار میاں نواز شریف کے نصیب میں لکھا تو وہ بھی بالآخر ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں انہیں یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب ان کی کرسی مضبوط ہوگئی ہے اور اسے کوئی ہلا نہیں سکتا تو انہوں نے بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کوشش کی تو ان کے ہاتھ بھی جل گئے اور حکمرانی کا تخت ان کے نیچے سے سرک گیا۔ اس کے بعد ایک نیا دور شروع ہوا پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کو اقتدار نصیب ہوا جب تک وہ قانون اور آئین کی پاسداری کرتی رہیں حکومت کرتی رہیں لیکن جیسے ہی انہیں یہ گمان ہوا کہ ان کی کرسی اور ان کا اقتدار مضبوط ہوگیا ہے اور جب انہوں نے خود کو قانون سے ماورا جانا تب ان کا تختہ بھی الٹ دیا گیا۔ ایک بار پھر سے میاں نواز شریف کی لاٹری لگ گئی اور اقتدار انہیں نصیب ہوا پر انہوں نے اس سارے عرصے میں اپنی بے تختی اور بے توقیری قیدی سے کچھ بھی سبق حاصل نہیں کیا تھا۔ اب ان میں اپنے سر پرست ضیاء الحق کی خود سری اور خود مختاری کی خوبو خوب بس چکی تھی۔ انہوں نے اب زیادہ کھل کر اقتدار کے تخت پر بیٹھتے ہی خود کو ماورائے قانون سمجھ لیا تھا اور جو جی میں آیا، جیسا چاہا کرنا شروع کردیا تھا۔ قانون کو تو ہر حکمران اپنے ’’گھر کی لونڈی‘‘ سمجھتا رہا ہے کیونکہ وہ خود قانون ساز ادارے کا رکن ہونے کے باعث سمجھتا ہے کہ قانون کا کیا ہے یہ تو ہم نے خود ہی بنایا ہے پھر اس سے جیسا چاہے کھیلیں ہمیں روکنے والا کون ہوگا اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس قانون کا اطلاق صرف عوام پر ہوتا ہے۔ حکمرانوں، سیاست دانوں، قانون سازوں اور اشرافیہ پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا البتہ حکمرانوں اور ان کی رسی پکڑ کر چلانے والوں کی منشا پر حکومت مخالفین پر جیسا چاہے ویسا استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔
(جاری ہے )