قازقستانی جامعات کے سربراہان کے وفد کا او آئی سی-کامسٹیک کا دورہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
— جنگ فوٹو
قازقستان کی 11 نمایاں جامعات کے سربراہان پر مشتمل 24 رکنی اعلیٰ سطحی وفد نے منگل کو او آئی سی-کامسٹیک سیکریٹریٹ اسلام آباد کا دورہ کیا۔
اس دورے کا مقصد پاکستان اور قازقستان کے درمیان تعلیمی و سائنسی شعبوں میں تعاون کے نئے امکانات کا جائزہ لینا اور دو طرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔
کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے وفد کو خوش آمدید کہا اور تعلیمی اشتراک کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے قومی و بین الاقوامی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی سائنسی اور تکنیکی تعاون کی مستقل کمیٹی (کامسٹیک) اور بنگلا دیش کے درمیان اعلیٰ سطحی تعلیمی اور تحقیقی تعاون کا اجلاس ڈھاکا میں منعقد ہوا۔
اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے نومبر 2025ء میں ’قازقستان-پاکستان ریکٹرز فورم‘ اسلام آباد میں منعقد کرنے کی تجویز پیش کی، جسے وفد کی جانب سے بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی۔
اس فیصلے کو دونوں ممالک کی جامعات کے درمیان پائیدار روابط کے آغاز کے طور پر سراہا گیا۔
پروفیسر چوہدری نے فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے وفد سے کامسٹیک کے ’5000 فلسطینی فیلوشپ پروگرام‘ میں تعاون کی اپیل کی اور اسے مشترکہ انسانی ذمہ داری قرار دیا۔
ملاقات کے دوران او آئی سی رکن ممالک کی جامعات کی عالمی درجہ بندی میں بہتری، ڈگریوں کی باہمی منظوری اور تعلیمی و تحقیقی ویزا کی سہولتوں پر بھی بات چیت ہوئی۔ کامسٹیک کی جانب سے ہر سال 30 تعلیمی و تحقیقی دوروں کے لیے گرانٹس کی تجویز بھی دی گئی تاکہ پاکستان اور قازقستان کے درمیان علمی تبادلے کو فروغ دیا جا سکے۔
یہ دورہ دونوں ممالک کے مابین اعلیٰ تعلیم اور تحقیق میں تعاون کے فروغ کے لیے پیش خمیہ ثابت ہوگا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کے درمیان او آئی سی
پڑھیں:
پنجاب کی سرکاری و نجی یونیورسٹیوں میں ایم پی ایز کی لازمی شمولیت، نیا قانون، نئی تنقید
پنجاب کی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے قوانین میں اہم ترمیم متعارف کرائی گئی ہے، جس کے تحت تمام یونیورسٹیوں کی گورننگ باڈیز میں اراکینِ صوبائی اسمبلی (ایم پی ایز) کی نمائندگی لازمی قرار دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ پنجاب اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹس لاز (ترمیمی) بل 2025 کے ذریعے کیا گیا، جس پر گورنر پنجاب نے 25 جولائی 2025 کو دستخط کرکے اسے باقاعدہ ایکٹ کی شکل دے دی ہے۔
ترمیمی بل کے مطابق، پنجاب کی ہر سرکاری اور نجی یونیورسٹی کے گورننگ بورڈ یا سینڈیکیٹ میں 3 ایم پی ایز کی شمولیت لازمی ہوگی، جن میں کم از کم ایک خاتون رکن شامل ہونا ضروری ہے۔ ان اراکین کی نامزدگی کا اختیار اسپیکر پنجاب اسمبلی کے پاس ہوگا۔ اس اقدام کا مقصد یونیورسٹیوں کی پالیسی سازی اور انتظامی امور میں صوبائی نمائندوں کی براہِ راست شمولیت کو یقینی بنانا بتایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: گوادریونیورسٹی کے وائس چانسلر کا ڈرائیور کوئٹہ سے اغوا، تاوان طلب
اس سے پہلے سینڈیکیٹ میں 17 اراکین ہوتے تھے، جن میں صرف ایک ایم پی اے شامل ہوتا تھا۔ دیگر ممبران میں 4 پروفیسرز، لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، اور وائس چانسلر (بطور صدر) شامل ہوتے تھے۔ تاہم اب، اس بل کی منظوری کے بعد ایم پی ایز کی تعداد میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
یہ بل پنجاب اسمبلی میں کثرتِ رائے سے منظور کیا گیا۔ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے تعلیمی پالیسیوں کو صوبائی ترقیاتی ایجنڈے کے مطابق بنانے میں مدد ملے گی۔ لیکن، ماہرینِ تعلیم اور وائس چانسلرز اسے تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت قرار دے رہے ہیں۔
حکومت کا مؤقفحکومتی نمائندوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون یونیورسٹیوں کو صوبائی ترقیاتی ایجنڈے سے ہم آہنگ کرے گا۔ ان کے مطابق، ایم پی ایز کی شمولیت سے طلبہ، اساتذہ، اور عوامی نمائندوں کے درمیان رابطہ مضبوط ہوگا، جس کا فائدہ تعلیمی نظام کو پہنچے گا۔
مزید پڑھیں: پانی پاکستان کی ریڈ لائن، کشمیر کو کبھی نہیں بھولیں گے: فیلڈ مارشل کا وائس چانسلرز اور اساتذہ سے خطاب
وائس چانسلرز اور فیکلٹی تنظیموں کا ردِعملپنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے اس قانون پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گورننگ باڈیز میں پیشہ ورانہ مہارت اور تعلیمی تجربے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ ان کے مطابق، سیاسی نمائندوں کی شمولیت سے انتظامی فیصلوں میں تاخیر اور غیر ضروری دباؤ کا خدشہ ہے، جو تعلیمی و تحقیقی مقاصد کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
اسی طرح، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب نے اس قانون کی منظوری پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں کے گورننگ بورڈز میں سیاسی مداخلت اداروں کی خود مختاری کو متاثر کرے گی۔ انہوں نے ماہرین پر مشتمل کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا، جسے وہ اس عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: شمو قتل: ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پراکٹر کے استعفوں کا مطالبہ
دوسری طرف، فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز (فپواسا) پنجاب چیپٹر نے جولائی 2025 میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس کی صدارت ڈاکٹر محمد اسلام (صدر) اور نظامت ڈاکٹر ریاض حسین خان سندھر (سیکریٹری) نے کی، جس میں مختلف جامعات جیسے پنجاب یونیورسٹی، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے نمائندوں نے شرکت کی۔
شرکا نے اس ایکٹ کو یونیورسٹی کی خودمختاری اور تعلیمی آزادی پر سنگین حملہ قرار دیا اور کہا کہ یہ قانون اصلاح نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو سیاست زدہ کرنے کی کوشش ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ گورننگ باڈیز میں جبری سیاسی شمولیت تعلیمی اداروں کی آزادی کو کمزور کرے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز گورننگ باڈیز گورننگ بورڈ یا سینڈیکیٹ