اسٹاک مارکیٹ میں تیزی، انڈیکس میں 800 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
اسلام آباد:پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں آج تیزی رہی اور اتار چڑھاؤ کے بعد انڈیکس میں 800 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔
کے ایس ای 100 انڈیکس 808.28 پوائنٹس یا 0.71 فیصد بڑھ کر 114872.18 پر بند ہوا، جو گزشتہ روز 114063.90 پر بند ہوا تھا۔
اے کے ڈی سیکیورٹیز کے ڈائریکٹر آف ریسرچ اویس اشرف نے اس تیزی کی وجہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کا اعلان قرار دیا، جس میں ’ توسیع شدہ فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت پاکستان کے لیے 1.
اس سے قبل، آئی ایم ایف کی ویب سائٹ نے تصدیق کی تھی کہ فنڈ کا ایگزیکٹو بورڈ 9 مئی کو ملک کے عملے کی سطح کے معاہدے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ملاقات کرے گا، جس میں موسمیاتی لچک کے قرض پروگرام کے تحت ایک نیا 1.3 بلین ڈالر کا انتظام، اور پاکستان کے جاری 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کا پہلا جائزہ شامل ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق، یہ ’ توسیع شدہ فنڈ سہولت کے تحت توسیع شدہ انتظام کے تحت پہلا جائزہ’ ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ لچک اور پائیداری سہولت (آر ایس ایف ) کے تحت انتظام کی درخواست بھی ہوگی۔
اویس اشرف کا مزید کہنا تھا کہ اس سے ’ بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعہ سے توجہ ہٹ کر ملک کی میکرو اکنامک بہتری کی کوششوں پر مرکوز ہو گئی ہے۔’
گزشتہ روز، مثبت آغاز کے بعد، پاکستان کے معاشی نقطہ نظر اور بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے خدشات نے ایکویٹی سرمایہ کاروں کو سیشن کے اختتام کی طرف گھبراہٹ میں فروخت کرنے پر مجبور کیا۔
ایک تجزیہ کار نے کہا تھا کہ اسٹاک مارکیٹ میں ہمہ گیر گراوٹ دیکھی گئی کیونکہ بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی کشیدگی، سندھ طاس معاہدے کی معطلی، اور نئی دہلی کی طرف سے دوطرفہ تجارت کی معطلی نے سرمایہ کاروں کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔
گزشتہ ہفتے، پہلگام میں 22 اپریل کے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر سیاح تھے، جسے سال 2000 کے بعد سے متنازعہ ہمالیائی علاقے میں سب سے مہلک مسلح حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
اس واقعے کے بعد سے، جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف متعدد اقدامات کیے ہیں، جس میں بھارت نے یکطرفہ طور پر اہم سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا ہے اور پاکستان نے جوابی اقدامات کرتے ہوئے شملہ معاہدے کو معطل کرنے اور اپنی فضائی حدود کو بھارتی پروازوں کے لیے بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز لمیٹڈ کے مطابق پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں تیزی اور مندی کے رجحانات کے درمیان ایک کلاسیکی رسہ کشی دیکھنے میں آئی، انڈیکس نے مثبت طور پر آغاز کیا، ابتدائی گھنٹوں میں رفتار پکڑی اور 1189 پوائنٹس کا انٹرا ڈے اضافہ درج کیا۔
تاہم، یہ امید زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی، کیونکہ سیشن کے بعد میں فروخت کے دباؤ میں تیزی آنے کی وجہ سے انڈیکس میں تیزی سے تبدیلی آئی اور اس میں 1601 پوائنٹس کی کمی آئی۔
مارکیٹ بالآخر 114063.90 پوائنٹس پر بند ہوئی جو روزانہ کی بنیاد پر 1405.45 پوائنٹس یا 1.22 فیصد کم ہے۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے بعد
پڑھیں:
آبادی میں خوفناک اضافہ پاکستان کے سیاسی ایجنڈے سے غائب کیوں؟
جنوبی ایشیا میں بلند ترین شرح نموپاکستانی وزارتِ صحت کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں آبادی کی شرح نمو دو اعشاریہ چار فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں ہر ایک خاتون اوسطاً تین سے زائد بچوں کو جنم دے رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ صرف ایک چوتھائی خواتین ہی مانع حمل طریقوں سے فائدہ اٹھا پا رہی ہیں، جبکہ 17 فیصد خواتین ایسی بھی ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی کی خواہش کے باوجود اس سہولت سے محروم ہیں۔
آبادی کو کنٹرول کرنے کا نظام مکمل ناکامیہ تشویش ماضی کی طرح اب صرف ماہرین تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا اعتراف سرکاری طور پر بھی سامنے آ رہا ہے۔ وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے حال ہی میں کہا تھا کہ ملک میں بے قابو حد تک آبادی کا بڑھنا قومی ترقی اور استحکام کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے موجودہ فرسودہ نظام اور کمزور منصوبہ بندی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے میں ’’مکمل طور پر ناکام‘‘ ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے لیے بہت زیادہ آبادی کا بوجھ کس حد تک قابل برداشت؟
عالمی یوم آبادی: پاکستان میں شرح آبادی’بڑا خطرہ‘
پبلک پالیسی کے ماہر عامر جہانگیر کہتے ہیں کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ محض اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے ریاست کے تمام نظاموں پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں: ''اس کے منفی اثرات براہِ راست صحت، تعلیم، روزگار کی فراہمی اور خاص طور پر خواتین اور بچیوں کی زندگیوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔
‘‘ آبادی بے قابو، اہداف بے اثرڈاکٹر صوفیہ یونس، ڈائریکٹر جنرل پاپولیشن وِنگ، کے مطابق وزارتِ صحت کی جانب سے خاندانی منصوبہ بندی کے 2025ء کے اہداف پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ابھی تک قومی سطح کا کوئی سروے نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ سال 2030ء تک آبادی میں اضافے کی شرح کو 1.1 فیصد تک محدود کرنا ایک مشکل ہدف ہو سکتا ہے۔
اسی طرح عامر جہانگیر کا کہنا تھا کہ جب صحت کا نظام پہلے ہی دباؤ کا شکار ہو اور صنفی پالیسی سازی کے لیے ٹھوس اور تازہ اعداد و شمار موجود نہ ہوں، تو ان اہداف تک پہنچنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔
سیاسی ایجنڈے سے غائبسابق چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو نیلوفر بختیار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں تیزی سے اضافے کا مسئلہ کبھی بھی حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں اور نہ ہی اپنے منشور میں شامل کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، وسائل منتشر ہیں اور کوئی حکومت عملی اقدامات نہیں کر رہی۔ نیلوفر بختیار نے احتساب کے فقدان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برسوں سے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں، مگر کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی: ''خواتین اور بچوں کو روزانہ مشکلات اور اموات کا سامنا ہوتا ہے، لیکن نہ کوئی ادارہ اور نہ ہی کوئی فرد ذمہ داری قبول کرتا ہے، سب کچھ صرف نوٹس لینے تک محدود ہے جبکہ عملی اقدامات کا شدید فقدان ہے۔‘‘ صورتحال انتہائی تشویشناکپاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی صورتحال تشویشناک ہے، جہاں ہر سال لاکھوں خواتین مجبوری میں اسقاط حمل کراتی ہیں، جبکہ مانع حمل سہولیات کی بھی صرف 65 فیصد طلب ہی پوری ہو رہی ہے۔ ماہر امراض نسواں، ڈاکٹر امِ حبیبہ کے مطابق، خاندانی منصوبہ بندی کے ناقص انتظامات اور خواتین کا محدود سماجی کردار پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی بلند شرح کے اہم اسباب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سہولیات کی کمی، مذہبی پابندیاں، اور اسقاط حمل سے متعلق منفی معاشرتی رویے خواتین کو غیر محفوظ طریقے اپنانے پر مجبور کرتے ہیں، جو ان کی صحت اور زندگی دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف فنڈز تک محدودڈاکٹر رابعہ اسلم، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ جینڈر اسٹڈیز، قائداعظم یونیورسٹی کے مطابق، پاکستان میں پالیسی سازوں کے لیے آبادی کے مسئلے کی نشاندہی پہلے ہی کی جا چکی ہے، لیکن یہ معاملہ تاحال صرف علامتی بیانات تک محدود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ آگاہی کا نہیں بلکہ سیاسی عزم کی کمی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ زبانی دعووں سے ہٹ کر خواتین کی صحت، تعلیم اور انہیں بااختیار بنانے کو خاندانی منصوبہ بندی کا محور بنا کر مؤثر اصلاحات کی جائیں۔نیلوفر بختیار نے آبادی کے مسئلے پر ملکی اداروں کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بعض تنظیمیں اسے صرف عالمی فنڈز کے حصول کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاپولیشن کونسل کی مثال دی، جس کی برسوں سے موجودگی کے باوجود کوئی مؤثر کارکردگی سامنے نہیں آئی۔