پہلگام حملے کے بعد کشمیر کے سرحدی علاقوں میں خوف و ہراس کی لہر
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
مقامی لوگوں نے بتایا کہ پہلگام حملے کے بعد پیدا شدہ صورتحال کے بعد بچے لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں، بازار سنسان ہیں اور لوگ طلبہ کو اسکول بھیجنے میں بھی کترا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پہلگام میں ہوئے دہشتگردانہ حملے کے بعد جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں میں کافی تناؤ ہے۔ شمالی کشمیر کے سرحدی علاقہ ٹنگڈار میں بھی لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی سے لوگ کافی خوفزدہ ہیں۔ ٹنگڈار کے باشندوں کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے نزدیک ہونے کے سبب یہاں ہر وقت غیر یقینی صورتحال بنی رہتی ہے۔ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں اور گولی باری کے تازہ سلسلے نے علاقے کے باشندوں میں خوف و ہراس کی فضا کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ پہلگام حملے کے بعد پیدا شدہ صورتحال کے بعد بچے لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں، بازار سنسان ہیں اور لوگ طلبہ کو اسکول بھیجنے میں بھی کترا رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ محض کچھ فیصد آبادی کے پاس ہی زمین دوز بنکرز ہیں اور انہوں نے ان بنکرز کو فعال کرنا شروع کر دیا ہے تاہم بیشتر آبادی بنکرز کی سہولیت سے محروم ہیں۔
میڈیا نمائندوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے لوگوں نے کہا کہ ہم ہر وقت خوف میں رہتے ہیں، پتہ نہیں کب، کہاں گولیاں چلیں، کہاں بارود گرایا جائے، چاروں طرف دہشت کا ماحول ہے۔ ادھر انتظامیہ نے عوام سے وقتاً فوقتاً جاری کئے گئے احکامات پر عمل کرنے اور غیر ضروری نقل و حرکت سے گریز کرنے کی تلقین کی ہے تاکہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حملے کے بعد
پڑھیں:
غزہ: بھوکے اور پیاسے لوگوں کو اسرائیلی بمباری اور جبری انخلاء کا سامنا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے کہا ہے کہ غزہ شہر پر اسرائیل کی بمباری اور زمینی حملے تیز ہو گئے ہیں جہاں سے ہزاروں خاندانوں کو ان کے بھوکے بچوں سمیت جنوبی علاقوں کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جہاں ایک اور جہنم زار ان کا منتظر ہے۔
جنوبی غزہ میں موجود یونیسف کی ترجمان ٹیس انگرام نے کہا ہے کہ شمالی علاقوں سے بڑے پیمانے پر انخلا کے نتیجے میں انتہائی بدحال لوگوں کی زندگی کو مہلک خطرات لاحق ہیں۔
700 یوم تک متواتر جنگ کا سامنا کرنے والے پانچ لاکھ بچوں کو ایک سے دوسری تباہ حال جگہ پر جانے کے لیے کہنا غیرانسانی رویہ ہے۔ Tweet URLاسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ شہر کے 10 لاکھ لوگوں کو علاقے سے انخلا کے احکامات دیے جا چکے ہیں جس کے بعد علاقے سے ہزاروں افراد نقل مکانی کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
ڈیڑھ لاکھ افراد کی نقل مکانیامدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق گزشتہ چند روز میں 70 ہزار لوگوں نے جنوبی علاقوں کا رخ کیا ہے اور گزشتہ ایک ماہ کے عرصہ میں ایک لاکھ 50 ہزار لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہ تمام لوگ واحد دستیاب راستے شاہراہ الراشد کے ذریعے سفر کر رہے ہیں جس پر بہت زیادہ رش دیکھنے میں آ رہا ہے۔
یونیسف کی ترجمان نے بتایا کہ ان کی ملاقات ایک ایسی ماں سے ہوئی جو غزہ شہر سے اپنے پانچ بچوں کے ساتھ چھ گھنٹے کا پیدل سفر کر کے جنوبی علاقے میں آئی تھی۔ یہ تمام لوگ میلے کچیلے، پیاسے اور بھوکے تھے جبکہ دو بچوں کے پاؤں میں جوتا بھی نہیں تھا۔ انہیں ہزاروں لوگوں کے ساتھ المواصی اور گردونواح پر مشتمل نام نہاد محفوظ علاقے کی جانب نقل مکانی کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے جہاں حالات پہلے ہی خراب ہیں۔
المواصی میں مایوسی کا سمندرٹیس انگرام نے کہا ہے کہ غزہ شہر سے انخلا کرنے والے لوگ مایوس کن حالات میں جنوبی غزہ پہنچ رہے ہیں۔ یہ جگہ عارضی خیموں کے سمندر کے مترادف ہے جہاں بنیادی سہولیات کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ وہاں پہلے سے ہی لاکھوں افراد مقیم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بچوں میں غذائی قلت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
یونیسف کا اندازہ ہے کہ اس وقت تقریباً 26 ہزار بچوں کو شدید غذائی قلت کا علاج درکار ہے جن میں 10 ہزار کا تعلق غزہ شہر سے ہے جہاں گزشتہ ماہ کے آخر میں غذائی تحفظ کے ماہرین قحط کی تصدیق کر چکے ہیں۔غذائی قلت کے علاج سے محرومیٹیس انگرام نے بتایا کہ انخلا کے احکامات اور عسکری کارروائیوں کی وجہ سے رواں ہفتے غزہ شہر میں غذائیت کی فراہمی کے مراکز بند ہو گئے ہیں۔
اس طرح غذائی قلت کا شکار بچوں سے علاج کے مواقع چھن گئے ہیں۔ اگرچہ امدادی کارکن موقع پر موجود ہیں اور بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ہر بمباری اور ہر رکاوٹ کے ساتھ یہ کام مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق، گزشتہ اتوار کو امدادی ٹیموں نے اسرائیلی حکام کے ساتھ 17 کارروائیاں طے کی تھیں جن میں سے چار کے لیے ہی اجازت مل سکی جبکہ سات کو مسترد کر دیا گیا۔
دیگر امدادی مشن راستوں میں رکاوٹوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر منسوخ کر دیے گئے۔ترجمان نے بتایا ہے کہ غزہ میں لوگ کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ دو ہفتے قبل المواسی پر حملے میں آٹھ بچے اس وقت مارے گئے جب وہ پانی کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ ان میں سب سے چھوٹے بچے کی عمر صرف تین سال تھی۔