ایف بی آر رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
اسلام آباد:
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی ار) رواں مالی سال 2024-25 کے پہلے دس ماہ اور گذشتہ ماہ (اپریل 2025) کے ٹیکس وصولیوں کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔
رواں مالی سال 2024-25 کے پہلے دس ماہ میں ایف بی آر کا ریونیو شارٹ فال بڑھ کر 830 ارب روپے ہو گیا ہے جبکہ گذشتہ ماہ (اپریل 2025) کے دوران ایف بی آر کو 118 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلیے ایف بی آر نے ہفتے کی چھٹی ختم کردی
ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر انتظامیہ کی طرف سے ملازمین کو الاونسز ،مراعات اور ریوارڈز کی غیر منصفانہ پالیسیوں اور انکے خلاف جاری ملازمین کے احتجاج کے اثرات گہرے ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال 2024-25 کے پہلے دس ماہ میں ایف بی آر نے مجموعی طور پر 963 ارب روپے کی عبوری ٹیکس وصولیاں کی ہیں جو کہ رواں مالی سال کے دس ماہ کیلئے مقرر کردہ 10130 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کے ہدف کے مقابلے میں 830 ارب روپے کم ہیں۔
جبکہ گذشتہ ماہ (اپریل 2025) کے دوران ایف بی آر کو مجموعی طور پر 845 ارب روپے کی عبوری خالص ٹیکس وصولیاں ہوئی ہیں جو کہ اپریل 2025 کیلئے مقرر کردہ 963 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کے ہدف کے مقابلے میں 118 ارب روپے کم ہیں۔
مزید پڑھیں: رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ایف بی آر ریونیو شارٹ فال725 ارب روپے تک پہنچ گیا
واضع رہے کہ ایف بی آر ملازمین پرفامنس الاؤنس کے منجمد ہونے اور 140 فیصد الاؤنس صرف افسران کو دینے اور غیر منصفانہ ریوارڈز رولز کے خلاف سراہا احتجاج ہیں۔
لیکن ابھی ایف بی آر ملازمین ملک بھر میں ٹوکن احتجاج کر رہے ہیں مگر انکا کہنا ہے کہ اگر انکے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ قلم چھوڑ احتجاج پر مجبور ہونگے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رواں مالی سال ارب روپے کی ایف بی آر اپریل 2025 کے پہلے دس ماہ
پڑھیں:
جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپےٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس ہر چھوٹ ہوتی ہے۔
جسٹس جمال خان نے ایڈیشنل اٹارنی جزل سے مکالمہ کیا کہ یہ تو آپ محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں، عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکھٹا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکھٹا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں۔
عاصمہ حامد نے دلیل دی کہ جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے۔
عاصمہ حامد نے کہا کہ مالی سال کا پروفیٹ موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔