پہلگام حملے کی تحقیقات میں پاکستان مکمل تعاون کے لیے تیار ہے لیکن بھارت تحقیقات نہیں چاہتا، ڈاکٹر محمد فیصل
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت کو پہلگام حملے کی مشترکا اور آزادانہ تحقیقات کی پیش کش کر چکا ہے، حملے کی تحقیقات میں پاکستان مکمل تعاون کےلیے تیار ہے لیکن بھارت تحقیقات نہیں چاہتا اور بنا کسی ثبوت کے پاکستان پر حملے کی باتیں کر رہا ہے۔
برطانوی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ بھارت کسی ثبوت کے بغیر پاکستان پر الزام تراشی کر رہا ہے اور کُھلی دھمکیاں دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت دعویٰ کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر جس میں بھارتی فوج کی بہت بڑی تعداد تعینات ہے وہاں تین یا چار افراد نے ایل او سی کراس کیا، ہتھیاروں کے ساتھ 230 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا، حملہ کیا اور واپس ایل او سی کراس کرلیا۔
ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ بھارت کے پاس حملہ آوروں کے نام ہیں تو دے پاکستان کے پاس تو ہر شہری کا مکمل کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا موجود ہے، بھارت اپنے سیاسی مقاصد کے لیے پاکستان پر الزام تراشی کے حربے استعمال کرتا آرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں عالمی برادری بھی اس معاملے کو دیکھے اور مسئلہ کشمیر حل کروائے جو بنیادی مسئلہ ہے، پاکستان امن چاہتا ہے اور حملے میں کبھی پہل نہیں کرے گا لیکن اگر ہم پر حملہ کیا گیا تو ہمیں دفاع کا حق حاصل ہے، تاہم ثالثی کےلیے ہم عالمی ثالث کاری کا خیرمقدم کریں گے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ حملے کی رہا ہے
پڑھیں:
پہلگام حملے کے بعد کشمیریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، آغا سید روح اللہ مہدی
رکن پارلیمنٹ نے دیگر ریاستوں میں کشمیری طلبہ اور یہاں کے تاجرین کو اترپردیش، پنجاب، دہلی اور ہماچل پردیش سمیت کئی ریاستوں میں ہراساں کئے جانے کی خبروں پر بھی تشویش ظاہر کی۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی پارلیمنٹ میں ایک اجلاس کے دوران سرینگر سے منتخب رکن پارلیمان آغا سید روح اللہ مہدی نے جموں و کشمیر میں شہریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر مودی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پہلگام حملے کے بعد کشمیری عوام کو غیر ضروری سکیورٹی جانچ، اندھا دھند گرفتاریوں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آغا سید روح اللہ مہدی کی یہ تقریر اُس وقت سامنے آئی جب ایوان میں "آپریشن سندور" پر بحث جاری تھی۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ریاستی اداروں کی کارروائیاں غیر متناسب اور ماضی کے پلوامہ اور اُوڑی حملوں کے بعد کے اقدامات کی یاد دلاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام نے پہلگام حملے کی واضح اور اجتماعی مذمت کی، بازار بند ہوئے، وادی سوگوار رہی اور ہر طبقے نے دہشت گردی کی مخالفت کی، تاہم اس کے باوجود مقامی لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
آغا سید روح اللہ مہدی کے مطابق حملے کے بعد تقریباً 2000 افراد کو حراست میں لیا گیا اور متعدد مکانات کو قانونی کارروائی کے بغیر منہدم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کی کارروائیاں انصاف کے تقاضوں اور جمہوری اصولوں کے منافی ہیں۔ علاوہ ازیں آغا سید روح اللہ مہدی نے دیگر ریاستوں میں کشمیری طلبہ اور یہاں کے تاجرین کو اترپردیش، پنجاب، دہلی اور ہماچل پردیش سمیت کئی ریاستوں میں ہراساں کئے جانے کی خبروں پر بھی تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں سوال کیا کہ کیا یہ کارروائیاں آئین کے تحت برابر کے شہری ہونے کے اصول پر پورا اترتی ہیں یا تعصب پر مبنی ہیں۔ ان کی تقریر کے دوران کئی ارکان نے بار بار مداخلت کی، تاہم انہوں نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے حکومت سے قانون کی بالادستی، شفافیت، اور کشمیری شہریوں کے بنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا۔