PL-15 سے لیس Thunder کی پہلی جھلک
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی بھارت میں داخلی سطح پر سیاسی بحران شدت اختیار کرتا ہے یا حکومت پر عوامی دبائو بڑھتا ہے تو بھارتی حکومت کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ گھڑ کر پاکستان پر الزام لگا دیتی ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر جنگی جنون کی طرف مبذول کرائی جا سکے۔ یہی کھیل آج بھی دہرایا جا رہا ہے۔پہلگام حملے کے بعد جس تیزی سے پاکستان پر الزام عائد کیا گیا اس نے بھارتی حکومت کی بدنیتی کو عیاں کر دی ہے۔ اگر بھارت کے پاس واقعی کوئی ثبوت ہوتے تو وہ انہیں عالمی برادری کے سامنے پیش کرتا محض الزامات سے بات نہیں بنتی۔ پاکستان نے کھلے دل سے کسی بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات میں شامل ہونے کی پیشکش کی ہے تاکہ حقائق دنیا کے سامنے آ سکیں۔بھارت میں دہشت گرد حملوں کا جب بھی جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ زیادہ تر بڑے حملے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے ادوارِ حکومت میں ہی رونما ہوئے۔ ایک بھارتی خاتون نے حالیہ دنوں ایک ویڈیو بیان میں ان تمام حملوں کی تفصیل بیان کی جو بی جے پی کے دور حکومت میں ہوئے۔کارگل میں 1999ء میں خونریزی ہوئی۔ 2002ء اور 2017 ء میں امرناتھ یاتریوں پر حملے کیے گئے۔ 2016 ء میں پٹھان کوٹ اور اڑی پر حملے ہوئے۔ 2019 ء میں پلوامہ حملہ کیا گیا۔ 2025ء میں پہلگام حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔یہ سب حملے بی جے پی کی حکومت میں ہوئے اور ہر بار حملوں کو بنیاد بنا کر پاکستان پر الزامات لگائے گئے۔ بھارتی عوام اب ان چالوں کو سمجھنے لگی ہے۔ مودی حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں، معاشی بحران، مہنگائی، بیروزگاری اور اندرونی خلفشار نے بھارتی حکومت کو عوام کی نظروں میں بے نقاب کر دیا ہے۔ عوام اب سخت سوالات اٹھا رہی ہے اور مودی سرکار کی پالیسیوں کو چیلنج کر رہی ہے۔سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں ایک بھارتی خاتون نے اپنے بیان میں کہا کہ مودی سرکار انتخابات سے قبل ہمیشہ کسی نہ کسی حملے کا سہارا لیتی ہے تاکہ قوم پر جنگی جنون مسلط کر کے ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔ آج جب بہار کے انتخابات قریب ہیں تو پہلگام حملہ ’’عین موقع پر‘‘کروا دیا گیا تاکہ ایک بار پھر پاکستان کو دشمن بنا کر پیش کیا جا سکے۔ اسی طرح بھارت میں سیاسی ایکٹیوزم کے لئے مشہور پنڈت سوامی سرس وتی نے بھی پہلگام حملے پر اہم سوال اٹھا دیا ہے۔سوامی سرس وتی نے کہا کہ اگر گھر پر حملہ ہو تو سب سے پہلے پوچھا جاتا ہے کہ چوکیدار کہاں تھا؟ اور پہلگام حملے پر بھی یہی سوال بنتا ہے۔امریکا کی سابق نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیاء رابن رافیل نے بھی پاکستان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے کے محض پانچ منٹ بعد کسی پر الزام لگانا انتہائی غیر سنجیدہ اقدام ہے۔انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو فوری طور پر متحرک ہو کر اس کشیدہ صورت حال کو کنٹرول کرنا چاہیے کیونکہ کسی بھی جنگ کا نقصان صرف دونوں ممالک کو نہیں بلکہ پورے خطے اور دنیا کو ہو سکتا ہے۔پاکستان کا موقف واضح اور دوٹوک ہے، پاکستان امن کا خواہاں ہے، دہشت گردی کے خاتمے کا حامی ہے اور ہر غیرجانبدارانہ تحقیق میں تعاون کے لیے تیار ہے۔ خطے میں دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی عالمی برادری کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔ اگر بھارت اپنی داخلی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے سرحد پار کوئی مہم جوئی کرتا ہے تو اس کے اثرات نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، امریکا، چین، روس اور یورپی یونین سمیت تمام بڑے عالمی پلیئرز کو چاہیے کہ وہ بھارت پر دبائو ڈالیں کہ وہ اپنے الزامات کے حق میں ثبوت پیش کرے یا غیر جانبدارانہ تحقیقات میں شامل ہو۔یہ وقت حقیقت پسندانہ اور دانشمندانہ رویے کا متقاضی ہے۔ پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ امن کا داعی ہے لیکن اپنی خودمختاری اور سلامتی پر آنچ برداشت نہیں کرے گا۔بھارت کو چاہیے کہ وہ جنگی جنون اور فالس فلیگ آپریشنز کی سیاست سے باز آئے اور عوام کو درپیش اصل مسائل کے حل پر توجہ دے۔ ورنہ تاریخ ایک بار پھر مودی حکومت کو ایک فاشسٹ اور فریب کار حکومت کے طور پر یاد رکھے گی جس نے امن کے مواقع ضائع کئے اور اپنے عوام کو تباہی کی طرف دھکیلا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
پاکستان کےخلاف فوجی جارحیت، بھارت کو 103 بلین سے زائد ڈالرکا نقصان
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 جون2025ء) پاکستان کے ساتھ حالیہ فوجی کشیدگی کے نتیجے میں بھارت کو بڑے پیمانے پر معاشی اور سٹریٹجک دھچکا لگا ہے۔ بھارتی نقصان کا کل تخمینہ 103 بلین سے زائد امریکی ڈالر سے لگایا گیا ہے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق بھارت نے”آپریشن سندور “کے نام سے پاکستان کے خلاف ایک ننگی جارحیت کی جو اسے انتہائی مہنگی پڑی ، پاکستان کے ایک بھر پور جوابی وارنے بھارت کی ناقص جنگی صلاحیتوںکا پول کھول دیا۔بھارت کو اس دوران تقریباً 10 بلین امریکی ڈالر کی فوجی لاجسٹکس اور آپریشنل اخراجات برداشت کرنے پڑے۔ اسے 2.4 بلین امریکی ڈالر کی مالیت کے کئی جنگی جہازوں سے ہاتھ دھونا پڑے اور اسکی ائر فورس کی کمزوریاں بھی نمایاں ہو گئیں۔ پاکستان کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی بندش سے 2ہزار سے زائد بھارتی پروازیں متاثر ہوئیں جس کے نتیجے میں اس کے ہوا بازی کے شعبے کو اب تک تقریباً 600 ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔(جاری ہے)
اس کے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی شدید دھچکا لگا اور انہوں نے بھارتی منڈیوں سے اندازے کے مطابق 20 بلین امریکی ڈالر نکال لیے، جس سے ریزرو بینک آف انڈیا کو روپے اور بانڈ کی پیداوار کو مستحکم کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے پڑے۔ماہرین اقتصادیات نے اندازہ لگایا ہے کہ 30 دن کی جنگ بھارت کی جی ڈی پی سے 400 بلین امریکی ڈالر کا صفایا کر سکتی ہے۔