نوبل انعام یافتہ مزاحمتی ادیب ماریو ہارگاس یوسا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
دنیا کی قدیم ترین متنوع تہذیبی تاریخ کا حامل پیرو جو ہمیشہ سیاسی انتشار کا شکار رہا ہے ۔پیرو کی ثقافتیں جہتیں بھی ایک سے زیادہ ہیں ۔ہسپانیہ سے پہلے کا دور،جس کا مرکز ’’کوزکو‘‘ تھا اس کا تہذیبی دور پندھروی صدی میں عروج پر تھا۔جس میں زراعت ،فن تعمیر کو فروغ ملا اور ایک عمدہ سماجی نظام کے تناظر میں مذہبی روایات کو پنپنے کا موقع ملا ’’مچو پچو‘‘جیسے آثار اسی دور کی شاندار مثالیں گردانی جاتی ہیں ۔
’’نو آبادیاتی دور‘‘ ۔ فرانسسکو پزارو کی قیادت میں 1532میں جس کا تختہ الٹ دیا گیا یوں پیرو سپین کی نوآبادیات بنا ۔یہاں عیسائیت کے ساتھ ساتھ ہسپانوی زبان اور یورپی تسلط ایک ساتھ قائم ہوئے ۔ مقامی باشندے جن کی معیشت کا دارومدار کان کنی سے وابستہ تھا ان کی گردن میں زرعی غلامی کے طوق سجا دیئے گئے جس سے سماجی اور معاشی مساوات کا خاتمہ ہوا ۔
1821ء میں پیرو کے پائوں کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گتیں اور تین ہی سال بعد وہ مکمل آزادی سے ہمکنار ہوا۔تاہم یہ سیاسی عدم استحکام اور فوجی بغاوتوں کا دور کہلایا جو مسلسل خانہ جنگیوں اور خارجی جارحیتوں پر مشتمل تھا۔پھر ’’چلی‘‘کے ساتھ معرکہ آرائی میں پیرو کو فقط شکستہی نہیں ہوئی بلکہ اپنے ایک بڑے زمینی حصے سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ۔
بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے پیرو نے بہت سارے زخم سہے ۔اس دوران جنرل خوان ویلاسکواپنے سات سالہ دور اقتدار میں انقلابی اصلاحات نافذ کیں ،شومیء قسمت وہ پیرو کی سماجی اور معاشی حالت میں کسی قسم کی تبدیلی لانے میں بے نیل و مرام رہے Sendero Luminoso نامی مائونواز انقلابی تحریک نے ایک بار پھر ملک میں خانہ جنگی کا سماں باندھ دیا،قتل و غارت گری میں لاکھوں انسانی جانیں کام آئیں ،ہزاروں لوگ لاپتہ ٹھہرے اور چاروں اور خوف و حراص کی فضا پھیل گئی۔
1990ء میں البر ٹو فوجیمیری کا اقتدار قائم ہوا اس دہشت گردی کا ازالہ کرتے کرتے جمہوریت کی گاڑی کو بھی پٹڑی سے اتار دیا ،اس کا دور بدعنوانی اور انسانی حقوق کی پامالی کا دور تھا جو عشرہ بھر روا رہا اور آخر کا وہ ملک چھوڑ کر فرار ہو گیا۔
اکیسویں صدی کے پیرو میں جمہوریت کے پودے کو پنپنے کے مواقع تو میسر ہیں مگر سیاسی ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں کے سامنے مضبوط بند نہیں باندھا جا سکا۔گزشتہ دس برسوں میں متعدد حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنے کے ساتھ مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔
ماریو ہار گاس یوسا اسی پیرو کا نامور ادیب اور صحافی تھاجو 1936ء میں پیرو کے ایک شہر میں پیدا ہوا،جس نے اپنا پورا بچپن عسکری بغاوتوں اورسیاسی ریشہ دوانیوں کے بیچ گزارا۔جس کے گہرے نقوش اس کی ذات پر مرتسم ہوئے۔اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے سچائیوں کو دفن ہوتے دیکھا اور ظلم کے بازاروں کی شدت و حدت میں سیاسی شعور کی عمر کو پہنچا اور اسی نے اسے مزاحمتی ادیب کے طور پر شہرت کے آسمان کا چمکتا ہوا ستارہ بنا دیا۔زبان و اسلوب پر قدرت کے ساتھ فہم و فراست اور متجسس دماغ میں کہانیوں نے ڈیرے ڈال دیئے۔جو پورے لاطینی امریکہ کی روح کا عکس بنیں ۔ تاہم غربت ہو یا سنسر شپ جس نے پورے معاشرے پر اثرات مرتب کئے مگر یہ سب مسائل ماریو ہرگاس یوسا کو نہ توڑ سکے ۔
آمریتوں اور جمہوریتوں کے بیچ فٹبال بنا رہا مگر اس کی موثر آواز کو کبھی دبایا نہ جا سکا اس کے نظریاتی ارتقا کے سامنے کوئی دیوار کھڑی نہ کر سکا ۔یوسا ابتدائی زندگی میں بائیں بازو کے ہم خیال مانے جاتے رہے مگر بعد ازاں روشن خیال سیاسی جدو جہد کے داعی بن گئے۔سیاسی نظام میں تبدیلی کے لئے وہ ایک بار ملک کے صدارتی انتخاب کے میدان میں بھی اترے مگر وہ اس میدان کے شناور نہ تھے اس لئے ناکام ہوئے۔یوسا سیاسی نظام کا حصہ بننے کی خواہش اس لئے رکھتے تھے کہ ’’ آمریت نہ صرف اداروں کو تباہ کرتی ہے بلکہ انسانی ،روح ،خاندانی نظام اور یادداشت تک کس مسخ کر دیتی ہے‘‘ ۔نقادان ادب کے مطابق ’’یوسا نے ادب کو احتجاج اور تاریخ کو انسان کے اندرونی نفسیاتی زخم کے ساتھ جوڑا ہے،اس کے ہر کردار سے تجربات مشاہدات اور فکری ارتقا کی پرتیں جھلکتی ہیں‘‘۔ماہ رواں کے وسط میں دار فانی کو کوچ کر جانے والے ناول نگار،کہانی نویس، صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ماریوہار گاس یوسا کو 2010 ء میںادب کا نوبل انعام ملا۔ان کا شمار لاطینی امریکہ نمایاں ترین ادیبوں میں ہوتا تھا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ ضروری کیوں؟
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے پاس کہنے کو اور کچھ ہے نہیں، بس وہ سیاسی ڈائیلاگ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ۔ انھوں نیکراچی میں ساؤتھ ایشیا کے بدلتے حالات کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے پھر کہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ ضروری ہیں اور ہم نے مسلم لیگ (ن) اس لیے چھوڑی تھی کہ اس نے ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ بدل لیا تھا۔
شاہد خاقان اور ان کے والد خاقان عباسی شروع ہی سے مسلم لیگ (ن) میں رہے اور مری کے حلقے سے الیکشن بھی لڑتے رہے۔ ان کے والد مرحوم اپنے حلقے میں اپنا ووٹ بینک اس لیے بنانے میں کامیاب رہے تھے کہ وہ حلقے کی بہتری پر اپنا پیسہ خرچ کرتے تھے بلکہ جیب سے خرچہ کر کے مسئلہ حل کرا کر لوگوں کے پاس جاتے تھے ۔ شاہد خاقان کئی بار وفاقی وزیر بنے اور پھر وزیر اعظم بنے۔
ملک میں اس وقت صرف 5 وزرائے اعظم حیات ہیں۔ شاہد خاقان عباسی ان میں شامل ہیں، بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں اور مسلسل ان سے مذاکرات چاہتے ہیں کہ جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ووٹ کو عزت نہیں دیتے اور انھی کے ذریعے رہائی بھی چاہتے ہیں۔ دو سابق وزرائے اعظم کی اپنی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) سیاسی پارٹیاں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دو وزرائے اعظم میں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اپنی پارٹی سے وفاداری بھی نبھا رہے ہیں اور اقتدار میں بھی ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی واحد سابق وزیر اعظم ہیں جن کی اپنی نئی پارٹی بنانے کے باوجود کوئی سیاسی اہمیت نہیں اور پی ٹی آئی حکومت دور کے جھوٹے مقدمات بھی بھگت رہے ہیں۔
ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ کی بات بھی وہی کررہے ہے جب کہ انھیں معلوم ہے کہ کسی حکومت اور سزا یافتہ قیدی کے درمیان ڈائیلاگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ہوئے بھی تھے جو پی ٹی آئی نے اپنی شرائط پیش کرنے سے پہلے ہی ختم کر دیے تھے جب کہ حکومت نے ان کے مطالبے طلب بھی کیے تھے مگر بانی کسی صورت مذاکرات کی کامیابی چاہتے ہی نہیں تھے اور ان کا زور اب بھی بالاتروں سے سیاسی مذاکرات پر ہے مگر بالاتر غیر آئینی ڈائیلاگ کرنا ہی نہیں چاہتے۔
اسٹیبلشمنٹ واضع کر چکی ہے کہ سیاستدانوں کو سیاسی حکومت سے سیاسی مذاکرات کرنے چاہئیں۔ صدر مملکت آصف زرداری اور موجودہ وزیر اعظم بھی سیاسی قوتوں کے مابین سیاسی مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی متعدد بار پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کر چکے ہیں مگر جیل میں بانی کی انا ختم ہونے میں نہیں آ رہی جس کی وجہ سے حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہے بلکہ بضد ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ چاہے تو مجھ سے مذاکرات کرلے میں صرف انھی سے بات کر سکتا ہوں جب کہ بالاتروں کی کوئی مجبوری ہے اور نہ ہی ضرورت کہ وہ سزا یافتہ سے ڈائیلاگ کریں۔
شاہد خاقان عباسی سب کچھ جانتے ہوئے بھی سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ کا مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں جس پر جیل والا فریق تیار ہی نہیں تو پھر بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ پر زور کیوں؟ جب کہ وہ خود اس پوزیشن میں نظر نہیں آتے کہ بانی کو ڈائیلاگ پر راضی کر سکیں ۔موجودہ حکومت جسے پی ٹی آئی جعلی اور بے اختیار قرار دیتی آ رہی ہے، اس نے سوا سال میں پی ٹی آئی سے متعدد بار ڈائیلاگ کی آفر دی اور اسپیکر قومی اسمبلی کی کوشش سے مذاکرات کا دور ہوا بھی جو ادھورا چھوڑ کر پی ٹی آئی اپنے بانی کے کہنے پر چھوڑ گئی تھی۔
اب پھر پی ٹی آئی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر شہباز شریف فیصلے کر سکتے ہیں تو ہم ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ماضی میں اسپیکر قومی اسمبلی نے جو مذاکرات کرائے تھے ،وہ ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کی رضامندی سے کرائے تھے مگر پی ٹی آئی نے وہاں حکومت کے طلب کرنے پر بھی شرائط پیش نہیں کی تھیں اور مذاکرات جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا تو اب یہ کہنا کہ ’’اگر شہباز شریف فیصلہ کر سکیں‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ وزیر اعظم ان کے سزا یافتہ بانی کو رہا کرا دیں تو ہی ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور ملکی معاملات پر ہم کسی سے بھی مذاکرات کرسکتے ہیں۔
وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اقتدار میں موجود جماعتوں کے ہاتھوں میں کچھ نہیں اور وزیر اعظم خود فیصلہ نہیں کر سکتے تو جس عدلیہ کے پاس فیصلے کا اختیار ہے تو اسی عدلیہ پر بانی کی رہائی کے لیے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔ وہ لوگ جو بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے ملک میں سیاسی استحکام کی امید رکھتے ہیں، یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایسے میں بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے ہی نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا معاملہ ہو یا دیگر اسیران کی رہائی، یہ کام عدلیہ ہی کر سکتی ہے ۔ بہتر ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے اور وہ فیصلہ بھی مانا جائے تو ممکن ہے کہ عدالتی فیصلہ سیاسی استحکام لے آئے ۔