پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(6)
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: تحریک جعفریہ پاکستان، جو شیعہ علماء کونسل یا پھر اسلامی تحریک کے نام سے فعالیت رکھتی ہے، اسکی قیادت مکمل طور پر محدود ہوچکی ہے، مگر انکی موجودہ کابینہ کے کچھ اراکین بالخصوص علامہ شبیر حسن میثمی اور محترم ناظر عباس تقوی کی شکل میں دورہ جات اور فعالیت رکھتے ہیں۔ انکی فعالیت بہرحال کسی بھی طرح قائد ملت جعفریہ کی فعالیت نہیں کہی جا سکتی۔ قائد کی موجودگی کا احساس و ادراک بہت زیادہ اعتماد و یقین اور حوصلوں کا باعث بنتا ہے، خداوند کریم و مہربان ہمارے قائدین سے عوام کی خدمت کی توفیقات سلب نہ کرے۔ 37 سالہ دور میں بہت سے ایشوز سے صرف نظر کیا ہے، اس لیے کہ طوالت سے گریز بھی ضرورت ہے، اگلے کالم میں کچھ اور جماعتوں اور ادارون کے حوالے سے کچھ مطالعات پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
مجموعی طور پر نوے کا عشرہ، فرقہ واریت، قتل و غارت، دہشت گردی، مجالس و مساجد پر حملے، اہم افراد کی ٹارگٹ کلنگ سے بھرپور تھا۔ یہ وہ عشرہ تھا، جب پاکستان بالخصوص پنجاب کے ہر ضلع کو مقتل گاہ بنا دیا گیا۔ اسی عشرہ میں کالعدم سپاہ صحابہ کے مقابلہ میں ایک شیعہ جماعت سپاہ محمد کے نام سے سامنے آئی، جس نے سپاہ صحابہ کا انداز اپنایا، شیعوں کے قاتلوں سے انتقام کے برملا نعرے لگائے۔ بعد ازاں یہ جماعت بھی کالعدم قرار دی گئی اور اس کی قیادت بھی منطقی انجام سے دوچار ہوئی۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نوے کے عشرے میں بہت زیادہ قیمتی افراد جان سے گئے۔ اس لیے کہ اس دور میں کشمیر کا محاذ کھولا گیا تھا، پاکستان بھر میں جہادی تربیت اور بھرتی دفاتر کام کر رہے تھے، افغانستان میں برسرپیکار گروہ اب کشمیر کا رخ کرچکے تھے، جبکہ 1995ء کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت لائی جا چکی تھی۔ لہذا فرقہ پرست دہشت گردوں کو کسی بھی طرح کوئی کمی، کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ دہشت گرد گروہ پاکستان بھر میں اپنا نیٹ ورک وسیع کرچکے تھے، جو پکڑا جاتا تھا، وہ برملا اعتراف کرتے ہوئے کہتا تھا ہاں۔۔۔ میں نے مارا ہے، پھر بھی ماروں گا۔
جب فضا اس قدر مکدر ہو تو پھر دور رس حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے کہ ایسی فضا سے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آپ کے قیمتی لوگ مارے جاتے ہیں، شہادتوں کی وجہ سے بہت سے خاندان متاثرین میں شامل ہوتے ہیں، جن کے اپنے مسائل و مشکلات ہوتی ہیں۔ شہداء کے خانوادوں کے مسائل کیساتھ ساتھ ان کے کیسز کی قانونی پوزیشنز کیلئے بھی بہت زیادہ تنظیمی و سماجی نیٹ ورکنگ نیز مالیات کی مضبوطی ہونی چاہیئے۔ اس عشرے میں چونکہ بہت زیادہ لوگ شہید ہوئے اور تحریک ان خانوادوں کو مستقل بنیادوں پر کفالت، بچوں کی تعلیم و تربیت جیسے اہم فریضہ سے عہدہ برآء ہونے سے قاصر تھی۔ ایک تو تحریک کے ساتھ جعفریہ ویلفیئر فنڈ کے نام سے ایک ادارہ جناب سید اعجاز علی شاہ کی بھرپور فعالیت اور دلچسپی سے قائم تھا، جس کے ہر ضلع میں قیادت کے نام پر اکائونٹس کھولے گئے تھے، تاکہ لوگ اس میں مال امام، عطیات جمع کروا سکیں۔ سید اعجاز علی شاہ بھی قومی تاریخ اور اجتماعی جدوجہد کا ایک لازوال کردار تھے، جن کا اوڑھنا بچھونا مالیات کا نظام یعنی نظام خمس و زکوٰۃ تھا۔
یاد رہے کہ جعفریہ ویلفیئر فنڈ اور جعفریہ ٹرسٹ الگ الگ ادارے تھے، جعفریہ ٹرسٹ دراصل تحریک کی ملکیت قومی امانتوں اور تحریک کے ملازمین اور ورکرز کیلئے کام کرتا تھا، پاکستان بھر میں جہاں بھی دفاتر، کوٹھیاں، زمین، مکانات، لگژری گاڑیاں، کھیت، پنڈی میں مرکزی دفاتر، صوبائی دفاتر اور مرکزی سیکریٹریٹ کے لئے خریدی گئی قیمتی اراضی بھی اسی جعفریہ ٹرسٹ کی ملکیت میں رکھے گئے تھے، یہ کروڑوں نہیں اربوں کی جائیدادیں تھیں، نہ جانے کس کا کیا حال ہے، اللہ ہی جانتا ہے یا جن کے ہاتھوں میں قومی امانتیں امانت دار سمجھ کے دی گئی تھیں، انہیں ہی حساب دینا ہے۔ اس لیے کہ آج یہ اربوں کی جائیدادیں ہونے کے باوجود اجتماعی پلیٹ فارم قومیات کا وہ حق ادا نہیں کر رہا، جس کیلئے یہ سب کچھ خریدا گیا تھا۔
ضمیر انساں کی نعش اٹھائے نگر نگر پھر رہا ہوں لیکن
نہ چشم پر نم، نہ شور ماتم، عجیب عالم ہے بے حسی کا
جب شہداء کے خانوادوں کے مسائل بہت زیاد ہ بڑھے اور ان کی شنوائی کوئی نہیں کر رہا تھا، تب کراچی کے کچھ جوانان نے ایک ادارہ شہید فائونڈیشن کے نام سے قائم کیا، جس نے ابتدائی طور پر کراچی اور پھر سندھ بھر اور اس کے بعد پنجاب کی طرف اپنے نیٹ ورک کو مضبوط کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں جب مایوسیاں عروج پر تھیں تو کراچی کے یہ ذمہ داران پنجاب تشریف لائے۔ مجھے ان کیساتھ لاہور، جھنگ، بھوانہ، شورکوٹ، چنیوٹ، فیصل آباد جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ دراصل ابتدائی طور پر ڈیٹا اکٹھا کرکے شہداء کے خانوادوں کے حالات سے آگاہی لی گئی، تاکہ جو زیادہ مستحق ہو، اسے پہلے امداد شروع کی جاسکے۔ میری اطلاعات کے مطابق یہ ایک مکمل آزاد ادارہ ہے، جن کی پہلی ترجیح شہید کی فیملی ہوتی ہے، یہ اس وقت سے اب تک بڑی تعداد میں شہداء کے خانوادوں کی باعزت طریقہ سے سرپرستی کرتے ہیں۔
کاش اس شہید فاءونڈیشن کی طرح ایک اسیر فاءونڈیشن بھی ہوتی، جو اسیران کی بہبود، ان کے کیسز، ان کے گھروں کے معاملات اور ان گنت ایشوز کو حل کرنے کیلئے ایسے ہی فعالیت دکھاتی، جیسے آج ایک مضبوط ادارہ کے طور پر شہید فاءونڈیشن موجود ہے۔ اس لیے کہ شہادتوں کیساتھ ساتھ آپ کی ملت اور قوم پر دشمن نے منظم انداز میں مقابلہ کیا ہے، ان کی طرف سے جھوٹے مقدمات، توہین کے الزامات، ان کے مارے جانے والے کارکنان و لیڈران میں گرفتار شیعہ نوجوانان، اداروں کی طرف سے بیلنس پالیسی کا شکار بے گناہ شیعہ نوجوانوں کے کیسز اور عدالتی معاملات کیلئے بہت بڑی تعداد میں وکلاء کا نیٹ ورک، پینلز اور کیسز کو بروقت چلانے کیلئے ایک ادارہ کی اشد ضرورت ہے، مگر بوجوہ ایسا نہیں ہوسکا۔ قیادت نے ڈنگ ٹپائو پالیسی اختیار کی، تب بھی اور آج بھی ایسا ہی ہے۔
کہنے کا مقصد ہے کہ قیادت کو حالات کے تحت دشمن کی چالوں، سازشوں اور تحریکی سفر کو آگے بڑھانے کیلئے حکمت عملی کے تحت اپنی قوم کی تعلیم، تربیت، جوانان پر توجہ، ان کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی، ادارہ جاتی کام، اداروں و شعبوں کی مضبوطی، سماجی روابط، فلاحی امور، قوم کی یکجہتی، اتحاد کی راہیں نکالنا اور باہمی اختلافات کا خاتمہ کرکے مشترکات پر جمع ہونا، آمدن کا مضبوط و مربوط نظام، جس سے اپنے پاوں پہ کھڑا ہوا جا سکے، تاکہ آپ کی آزادی سلب نہ ہو۔۔ مگر ہم نے دیکھا کہ جماعتی امور انتہائی محدود ہوگئے، قیادت جنازے پڑھانے تک محدود ہوگئی، قوم کا مورال بہت زیادہ گر گیا، عدم تحفظ کا شکار لوگ اپنے نام بدلنے لگے، چونکہ شیعہ ناموں کی شاپس، کاروباری اداروں کو دیکھ کر بھی قتل کے واقعات ہوئے، حتیٰ بعض مقامات پہ اہل سنت جو محبان اہلبیت تھے اور آئمہ طاہرین (ع) سے محبت میں ان کے نام رکھے ہوئے تھے، انہیں بھی شہید کیا گیا۔
اسی نوے کے عشرہ میں، سات مارچ 1995ء کو قوم کا پاسبان، مسیحائے ملت ڈاکٹر محمد علی نقوی کو ان کے ایک ساتھی سمیت دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا، ڈاکٹر محمد علی نقوی کی المناک شہادت نے قوم اور ملت تشیع پاکستان کے اجتماعی نظم پر گہرے اثرات مرتب کیے، اسی عرصہ میں کمشنر، ڈپٹی کمشنر، وکلاء، پروفیسرز، ڈاکٹرز، شاعر، ذاکرین، خطباء، مناظر، لکھاری چن چن کے مارے گئے۔ یہ ٹارگٹ کلنگ کا دور تھا، چن چن کر مارنے کا دور، مگر اس کے بعد اگلا عشرہ اس سے بھی شدید تھا کہ اس میں خودکش حملوں نے زور پکڑا، فدائی حملے ہونے لگے، مجالس پر خودکش حملے ہونے لگے۔ یوں ایک ہی واردات میں بیسیوں شہید ہوتے، جس سے حوصلے پست ہوتے، اس لیے کہ قوم کی تربیت نہیں کی گئی۔ شہادت کے نعرے لگانا اور ان مراحل سے گذر کر حوصلہ رکھنا الگ چیزیں ہیں۔
مجھے کوئٹہ، پاراچنار، ہنگو، کوہاٹ، پشاور، گلگت، بلتستان میں شہداء کے خانوادوں کو ملنے کا موقع ملا۔ یقین کریں کہ ایسی ایسی کہانیاں اور درد کہ انسان گریہ کرتا رہے، آنسو تھمنے کا نام نا لیں، مگر ہمارے قائدین، ذمہ داران، مسئولین وقت ٹپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ (ہم ان ادوار میں امامیہ اسٹودنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے کردار و کارکردگی سے صرف نظر کر رہے ہیں، اس لیے کہ اس کی خدمات، اثرات کا دائرہ بہت وسعت رکھتا ہے، اگر ان کالموں میں شامل کریں تو شاید طوالت ہو جائے گی، جو اس ویب پورٹل کیلئے مناسب نہیں ہوگا، ہم الگ سے اس کردار پہ سلسلہ شروع کریں گے)۔ علامہ ساجد علی نقوی کے انہیں ادوار میں دشمن نے اہل تشیع کے خلاف قانون سازی کی بہت کوششیں کیں، چونکہ جھنگ کی سیٹ سے مسلسل رکن قومی اسمبلی، صوبائی مشیر کے ذریعے ایوان اقتدار میں پہنچ جاتے تھے۔
اس دور میں شیعہ شخصیات بھی سینیٹ کی ممبر منتخب ہوئیں، جن میں پہلے علامہ جواد ہادی بعد ازاں علامہ عابد الحسینی، ان دونوں شخصیات کا تعلق پاراچنار سے ہے، جبکہ جھنگ کی قومی اسمبلی کی سیٹ پر امان اللہ سیال نے تکفیری امیدوار کو ہرایا۔ امان اللہ سیال کو پوری قوم سمیت تحریک جعفریہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ بہرحال سیاسی افق پر علامہ ساجد نقوی نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے بھی الیکشن اتحاد کیا، جبکہ متحدہ مجلس عمل سے بھی الیکشن اتحاد کیلئے بنایا گیا پلیٹ فارم تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک مقامات پر شیعہ امیدواران کی بھرپور حمایت سے انہیں جتایا گیا، جسے قیادت کی حکمت عملی کہا جا سکتا ہے۔
اسی قیادت کے عرصہ، جو ابھی تک جاری ہے، میں ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور، ہنگو، پاراچنار، کوئٹہ اور کراچی میں حالات انتہائی سنگین ہوئے، بعض ایریاز جیسے پاراچنار آج بھی ایسے ہی صورتحال سے دوچار ہے ، جیسا 2007ء سے 2011ء تک رہا تھا، اس وقت بھی گلے کاٹے گئے، راستے بند رہے۔
آج بھی وہی صورتحال ہے، جبکہ اس سے پہلے کے برسوں میں ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل تشیع کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی، لوگوں کی بہت بڑی تعداد بھکر، دریا خان، لیہ کی اطراف میں مہاجر ہو کر رہنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے۔ قوم و ملت کا اعتماد و یقین قیادت پر ہوتا ہے، قیادت اگر ان کے گھروں تک پہنچے، ان کی دلجوئی کرے، حوصلہ دے، سر پر دست شفقت رکھے تو لوگ اپنا درد بھول جاتے ہیں اور قیادت کا دست و بازو بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اتنے سنگین حالات کے باوجود قیادت ان متاثرہ ایریاز میں اپنی قوم کے پاس نہیں پہنچی۔ مجھے یاد ہے کہ علامہ ساجد نقوی صاحب نے 1996ء میں آخری بار پاراچنار کا دورہ کیا تھا، ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ، گلگت کے حوالے سے بھی ایسی ہی خبریں ہیں۔ یہی وہ حالات تھے کہ لوگ، یعنی عوام وخواص کی نظریں کسی دوسرے کی جانب ہونے لگیں، جو ان کے پاس پہنچ رہا تھا، جو ان کا درد محسوس کر رہا تھا، جو ان کی خبر گیری کر رہا تھا۔
تحریک جعفریہ پاکستان، جو شیعہ علماء کونسل یا پھر اسلامی تحریک کے نام سے فعالیت رکھتی ہے، اس کی قیادت مکمل طور پر محدود ہوچکی ہے، مگر ان کی موجودہ کابینہ کے کچھ اراکین بالخصوص علامہ شبیر حسن میثمی اور محترم ناظر عباس تقوی کی شکل میں دورہ جات اور فعالیت رکھتے ہیں۔ ان کی فعالیت بہرحال کسی بھی طرح قائد ملت جعفریہ کی فعالیت نہیں کہی جا سکتی۔ قائد کی موجودگی کا احساس اور ادراک بہت زیادہ اعتماد و یقین اور حوصلوں کا باعث بنتا ہے، خداوند کریم و مہربان ہمارے قائدین سے عوام کی خدمت کی توفیقات سلب نہ کرے۔ 37 سالہ دور میں بہت سے ایشوز سے صرف نظر کیا ہے، اس لیے کہ طوالت سے گریز بھی ضرورت ہے، اگلے کالم میں کچھ اور جماعتوں اور ادارون کے حوالے سے کچھ مطالعات پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: شہداء کے خانوادوں بہت زیادہ کی فعالیت اس لیے کہ کے نام سے تحریک کے کی کوشش رہا تھا کر رہا سے بھی
پڑھیں:
پی ٹی آ ئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کیلیے تیار،حکومتی وسیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-26
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز) پی ٹی آئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کے لیے تیار ہوگئی‘ حکومتی و سیاسی قیادت سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق پارٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی پرانی قیادت ’ ریلیز عمران خان‘ تحریک چلانے کے لیے تیار ہے، تحریک میں فواد چودھری، عمران اسماعیل، علی زیدی، محمود مولوی، سبطین خان اور دیگر رہنما موجود ہوں گے۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو میڈیکل چیک اپ کے لیے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی) اسپتال لاہور لایا گیا، جہاں پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں فواد چودھری، مولوی محمود اور عمران اسماعیل نے اُن سے ملاقات کی۔ذرائع نے بتایا کہ سابق قیادت نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے اہم فیصلے کیے، انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے بھی ملاقات کا فیصلہ کیا۔ اِسی طرح ملک میں سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کا فیصلہ کیا گیا، عمران خان سے ملاقات بھی کی جائے گی، پی ٹی آئی کی سابق قیادت شاہ محمود قریشی کی رہائی کے لیے بھی سرگرم ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سابقہ قیادت نے شاہ محمود قریشی کو بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے اور سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی، شاہ محمود قریشی کو تمام تر معاملات کو حل اور درست کرنے کے کردار ادا کرنے پر گفتگو ہوئی۔پارٹی ذرائع نے بتایا کہ سابق قیادت کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت عمران خان کو باہر نہیں نکال سکتی‘ سابق سینیٹر اعجاز چودھری، سابق صوبائی وزیر میاں محمود الرشید اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ سے بھی ملاقات کی گئی‘ ملاقات کے دوران موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ فواد چودھری کی سربراہی میں 3 رکنی وفد مولانا فضل الرحمن سے بھی ملاقات کرے گا۔ فواد چودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی سے شاہ محمود قریشی، اعجاز چودھری اور دیگر رہنماوں سے ملاقاتیں ہوئیں ہیں، پی ٹی آئی کی قیادت نے سیاسی قیدیوں کو باہر لانے کی کوشش کی تائید کی ہے۔ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں میں سابق پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ حکومت کو ایک قدم بڑھانا اور پی ٹی آئی نے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے تاکہ ان دونوں کو جگہ مل سکے، پاکستان نے جو موجودہ بین الاقوامی کامیابیاں حاصل کیں، سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔لہٰذا جب تک یہ درجہ حرارت کم نہیں ہوتا، اس وقت تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا‘ اس وقت ہماری کوشش ہے کہ ایک ایسا ماحول بنایا جاسکے، جس میں کم از کم بات چیت کا راستہ کھولا جا سکے، پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی، اعجاز چودھری اور باقی دوستوں کے سامنے دوران ملاقات اپنا یہی نقطہ نظر رکھا اور ہمیں خوشی ہے کہ وہ بھی اسی نقطہ نظرکے حامی ہیں۔ فواد چودھری نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے اس کے لیے اقدامات ہوں گے، سیاسی ماحول کیسے بہتر ہوگا، وہ ایسے ہی بہتر ہو سکتا ہے کہ سیاسی قیدیوں کو ریلیف ملے، شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں بغیر کسی وجہ کے نہیں ہو رہیں، اعجاز چودھری، یاسمین راشد، عمر چیمہ، محمود رشید، سیاسی ورکرز اور خواتین کا حق ہے کہ انہیں ضمانت ملے۔پی ٹی آئی کے سابق رہنما کا آخر میں کہنا تھا کہ (ن) لیگ کے اہم وزرا سے بات ہوئی ، وہ بھی مفاہمت کے حامی ہیں‘، ہم نے جو کوشش شروع کی ہے اگلے دو تین ہفتوں میں نتائج سامنے آنا شروع ہوں گے، یہ سارے معاملات ہوں گے تو سیاسی فضا بہتر ہوگی، عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رہائی ممکن بنانا ہمارا بنیادی کام ہے، فوری طور پر عمران اسمٰعیل، محمود مولوی اور میں باہر نکلے ہیں، آئندہ ملاقاتوں میں آپ کو پی ٹی آئی کی مزید سینئر لیڈر شپ نظر آئی گی اور یہ ماحول مزید بہتر ہو گا۔