سی ایم جی ورلڈ روبوٹ اسکلز کمپیٹیشن” میں سیاحوں کی بڑی دلچسپی سامنے آئی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
سی ایم جی ورلڈ روبوٹ اسکلز کمپیٹیشن” میں سیاحوں کی بڑی دلچسپی سامنے آئی WhatsAppFacebookTwitter 0 2 May, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چائنا میڈیا گروپ نے بیجنگ کے چونگ گوان چھون سائنس سٹی کے ساتھ بیجنگ ووکھہ سونگ وانڈا پلازہ میں “سی ایم جی ورلڈ روبوٹ اسکلز کمپیٹیشن” کی تخلیق کار کانفرنس کا انعقاد کیا، جس نے بہت سے سیاحوں کو راغب کیا۔ مقابلے کے اہم تخلیق کار، ایونٹ کے شریک منتظمین کے نمائندے، اور نیشنل اینڈ لوکل ہیومنائیڈ روبوٹ انوویشن سینٹر، چائنا اکیڈمی آف انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی، پیکنگ یونیورسٹی اور بیجنگ کی لیبارٹری آف آرٹیفیشل انٹیلی جنس سیکیورٹی اینڈ گورننس کے “وژنرز” اکٹھے ہوئے۔
لیبر ڈے کی تعطیلات کے دوران ، اس سرگرمی نے سائنس و ٹیکنالوجی اور ثقافت کے مزید انضمام کو فروغ دینے ، روبوٹ صنعت کی ترقی اور تعطیلات کی معیشت کو بڑھانے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔”سی ایم جی ورلڈ روبوٹ اسکلز کمپیٹیشن” کی مرکزی تخلیقی ٹیم نے تمام نمایاں روبوٹ کمپنیوں، جامعات کی ٹیموں اور ماہرین کو مدعو کیا، روبوٹ ٹیکنالوجی کو فروغ دینے اور انسان و روبوٹ کے ہم آہنگ روشن مستقبل کے لئے مشترکہ کوششوں کی اپیل کی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین،2025 انٹرنیشنل کنزیومر سیزن اور چھٹے شنگھائی “55 شاپنگ فیسٹیول” کا آغاز کر دیا گیا چین،2025 انٹرنیشنل کنزیومر سیزن اور چھٹے شنگھائی “55 شاپنگ فیسٹیول” کا آغاز کر دیا گیا چین، چھٹی کے پہلے روز ہی ریلوے سے 23.119 ملین ٹرپس ہوئے اگر امریکہ بات چیت کرنا چاہتا ہے تو اسے خلوص کا مظاہرہ کرنا چاہئے، چینی وزارت تجارت پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان؛ انڈیکس میں 2900 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ چین میں گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران 903 قومی ویٹ لینڈ پارکس قائم ایف بی آر کی کارروائیاں، مشہور فیشن برانڈ کی ٹیکس چوری پکڑ لی، 4آوٹ لیٹس سیل
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
چین کا نیا ترقیاتی ڈھانچہ – “100 ملین جوتوں” سے “ایک چپ” تک بڑی اسٹریٹجک منتقلی
بیجنگ ()
گزشتہ 40 سال سے چین نےبیرونی مارکیٹوں اور وسائل کےذریعے تیزرفتار ترقی حاصل کرتے ہوئے ملک کی جامع طاقت اور لوگوں کے ذریعہ معاش کو بہتر بنایا ہے، لیکن اسے دو بڑے چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ ایک تو بین الاقوامی مارکیٹ پر حد سے زیادہ انحصار کے باعث خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت ناکافی ہے جبکہ دوسرا یہ کہ کلیدی ٹیکنالوجی دوسروں کے کنٹرول میں ہے، جس کی وجہ سے چین کی صنعتی اپ گریڈنگ میں رکاوٹیں زیادہ ہیں. چین کے اعلیٰ ترین رہنما شی جن پھنگ کی جانب سے پیش کردہ نیا ترقیاتی ڈھانچہ چین کی مجموعی ترقی سے متعلق ایک ایسی اہم حکمت عملی ہے، جس کی خصوصیات یہ ہیں کہ ملک کی اندرونی گردش کو مرکزی اہمیت دیتے ہوئے اندرونی اور بین الاقوامی گردش کے باہمی تعاون کی کوشش کی جائے تاکہ دونوں سائیکل ایک دوسرے کے لئے تکمیلی ہوں ۔
چین کی “دوہری گردش” کی حکمت عملی اور “فیکٹریوں کی امریکہ میں واپسی” کی حکمت عملی میں کیا فرق ہے ؟ امریکا کی کوشش یہ ہےکہ کاروباری اداروں کو بھاری سبسڈی کے ذریعے نقل مکانی پر مجبور کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ چین کی تکنیکی اپ گریڈیشن کو روکنے کے لئے ٹیکنالوجی ناکہ بندی کا ایک اتحاد تشکیل دیا جائے۔اور دنیا پر بلا امتیاز محصولات کےبےجا استعمال نے نہ صرف بین الاقوامی اقتصادی نظام کو کمزور کیا ہے، بلکہ خود امریکا کی اپنی تنہائی کو بھی تیز کر دیا گیاہے۔ چین کا ماڈل یہ ہے کہ مارکیٹ کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جائے. مثال کے طور پر ، ٹیسلا نے شنگھائی میں ایک گیگا فیکٹری بنائی ، جہاں وہ اپنی عالمی فروخت کا 45فیصد پیدا کرتی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ جیت جیت تعاون حاصل کیا جائے۔ مثال کے طور پر ، سی اے ٹی ایل، جو ایک مشہور چینی نئی توانائی بیٹری کمپنی ہے، یورپی ٹیکنالوجی اور چینی تجربے دونوں کا استعمال کرتے ہوئے بیٹری فیکٹری بنانے کے لئے ہنگری گئی ، اور اس کی پیداواری صلاحیت یورپی مارکیٹ کے 20فیصد تک پہنچی ہے۔ اس سلسلے میں چین تکنیکی کھلے پن کی وکالت کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان بنیادی فرق کو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ امریکہ “زیرو سم کے کھیل” میں مصروف ہےجبکہ چین “جیت جیت تعاون” کی پیروی کرتا ہے.
نیا ترقیاتی ڈھانچہ بند کمروں میں تعمیر کرنا نہیں ہے، بلکہ اعلی معیار کے کھلے پن کے ذریعے تمام ممالک کو چینی مارکیٹ کی توانائی، جدت طرازی کی محرک قوت اور تعاون کے امکانات فراہم کرتا ہے. جیسا کہ ملائیشیا کے وزیر اعظم انور بن ابراہیم نے کہاکہ ” مشکل وقت میں دنیا استحکام، اعتماد اور سمت کا احساس چاہتی ہے۔ چین کے اقدامات میں، ہم نےیہ خصوصیات دیکھی ہیں۔چین نہ صرف استحکام لاتا ہے، بلکہ مستقبل کے لئے دیرپا امید بھی لاتا ہے. ”