پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں شہریوں کو خوراک ذخیرہ کرنے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مئی 2025ء) پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام نے بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول کے قریب رہنے والے رہائشیوں کو خوراک ذخیرہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ ہدایت آج دو مئی بروز جمعہ کو جاری کی گئی۔ علاقائی حکومت کا یہ اقدام بظاہر گزشتہ ماہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے مابین پائی جانے والی کشیدگی کےبعد اٹھایا گیا ہے۔
بھارت نے 22 اپریل کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر مسلح افراد کے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا، اس حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسلام آباد اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔ بھارتی فوج کے مطابق دونوں فریق مسلسل آٹھ راتوں سے اپنے مابین ڈی فیکٹو بارڈر یا لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا تبادلہ کر تے آئے ہیں۔
(جاری ہے)
دونوں حریف ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف سخت جوابی سفارتی اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے جمعہ کو مقامی اسمبلی کو بتایا، ''لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ 13 حلقوں میں دو ماہ کے لیے کھانے پینے کی اشیاء کو ذخیرہ کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ علاقائی حکومت نے 13 حلقوں میں ''خوراک، ادویات اور دیگر تمام بنیادی ضروریات‘‘ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایک ارب روپے (3.
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حملے اور اس کے نتیجے میں کشیدگی، بشمول ایک دوسرے کے شہریوں کی بے دخلی اور سرحدی گزرگاہوں کی بندش نے دونوں ممالک کے مابین مسلح تصادم کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو ملکی مسلح افوج کو پہلگام حملے کا جواب دینے کے لیے ''مکمل آپریشنل آزادی‘‘ دینے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان نے کسی بھی قسم کے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے پاس ایسے ''معتبر شواہد‘‘ ہیں کہ بھارت ایک فوجی حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اسلام آباد حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کسی بھی بھارتی حملے کا بھر پور جواب دیا جائے گا۔ فوجی کشیدگی کے خوف سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکام نے جمعرات کو 1000 سے زائد دینی مدارس کو 10 دنوں کے لیے بند کر دیا۔
بھارت اور پاکستان، دونوں ہی کشمیرکی مکمل ملکیت کے دعویدار ہیں اور 1947ء میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد سےاس ہمالیائی علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے لڑتے آئے ہیں۔ نیلم ویلی میں سیاحتی سرگرمیاں ماندپاکستانی زیر انتظام کشمیر میں واقع وادی نیلم ہر موسم گرما میں تقریباً 300,000 سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، لیکن پاکستان اور بھارت کےمابین جنگ کے خطرے نے اس کے ہوٹلوں کو خالی کر دیا ہے۔
وادی نیلم لائن آف کنٹرول سے 3 کلومیٹر (1.8 میل) سے بھی کم فاصلے پر ہے، جہاں سے اس علاقے میں کسی بھی فوجی سرگرمی کا خطرہ ہے۔اس وادی میں واقع ایک ہوٹل کے مالک رفاقت حسین کا کہنا ہے کہ بحران نے سیاحت کی صنعت کو سخت نقصان پہنچایا ہے: ''زیادہ تر سیاح یہاں سےاپنے شہروں کو واپس چلے گئے کیونکہ یہاں جنگ کا خطرہ ہے۔‘‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے میں حکام نے پہلگام حملے کے بعد احتیاطی تدابیر کے تحت درجنوں سیاحتی مقامات کو عارضی طور پر بند کر دیا۔
پاکستانی حکام کی جانب سے ایسا کوئی حکم نہیں آیا۔ پاکستانی سرحدی شہر چکوٹھی میں بازار کاروبار کے لیے کھلے تھے، حالانکہ وہاں بھی لوگ پریشان ہیں۔ 'جنگ ہوئی تو بھاگیں گے نہیں‘ایک دکان کے مالک بشیر مغل نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ''سب سے پہلے ہماری دعا امن کے لیے ہے، کیونکہ جنگ ہمیشہ عام شہریوں کو متاثر کرتی ہے۔
‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ لڑائی کی صورت میں پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑیں گے۔ پاکستان سرحد پار سے شدید فائرنگ کے دوران رہائشیوں کو ان کے گھروں کے قریب بنکر بنانے میں مدد کرتا رہا ہے۔ لیکن آبادی میں اضافہ کی وجہ سےکچھ گھروں میں پناہ گاہوں کی کمی ہے۔بشیر مغل نے اس حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا، ''اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو مقامی ہلاکتیں تباہ کن ہوسکتی ہیں۔
چکوٹھی سے تعلق رکھنے والی خاتون صائقہ نصیر سرحد پار سے مسلسل فائرنگ کی بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کانپ اٹھتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''اب، ایک ماں کے طور پر، میں خود اسی خوف کا سامنا کر رہی ہوں۔‘‘ انہیں اب بھی یاد ہے کہ 2019ء میں، جب پاکستان اور بھارت جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے، تو ان کی دلکش وادی روزانہ بھارتی گولہ کا نشانہ بنا کرتی تھی۔ اب ان کے گھر میں بنکر ہے۔ صائقہ کا کہنا تھا، ''اگر جنگ ہوئی تو ہم یہیں رہیں گے۔ ہم بھاگیں گے نہیں۔‘‘شکور رحیم اے ایف پی اور اے پی کے ساتھ
ادارت: افسر اعوان
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے زیر انتظام کشمیر زیر انتظام کشمیر کے پاکستان کے بھارت کے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
مسئلہ کشمیر میں امریکی دلچسپی: چند تاریخی حقائق
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب ، عاصم افتخار احمد ، نے ایک انٹرویو میں کہا ہے :’’ مسئلہ کشمیر (تازہ پاک بھارت جنگ کے بعد) پھر (عالمی سطح پر) زندہ ہو گیا ہے‘‘۔ لاریب!حالیہ 6تا 10مئی2025 کی مختصر مگرنتیجہ خیز پانچ روزہ جنگ میں واضح طور پر پانسہ پاکستان کے حق میں پلٹا رہا ۔بھارت مگر ڈھٹائی سے مان نہیں رہا ۔
’’انڈیا ٹوڈے‘‘ سے وابستہ نامور بھارتی اخبار نویس ،سرڈیسائی راجدیپ، نے صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ تازہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے بھارت کے جنگی طیارے مار گرائے ، لیکن اِن کی تعداد کتنی تھی ، یہ نہیں معلوم ۔ بھارت نے اپنی جنگی شکست کو سفارتی فتح میں بدلنے کے لیے اپنے 7سفارتی وفود( جن میں51سیاستدان شامل تھے اور اِن کی قیادت کانگریس کے ششی تھرور کررہے تھے) دُنیا بھر میں بھجوائے، بات مگر پھر بھی نہیں بنی ۔
مودی حکومت اور کئی بھارتی سیاستدان اِس بات پر نالاں اور ناراض ہیں کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، یہ دعویٰ کیوں کرتے ہیں کہ حالیہ پاک بھارت جنگ امریکا نے رکوائی۔ اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کا دل رکھنے اور لبھانے کے لیے بھارتی نیتاؤں کا دعویٰ ہے (اور غلط دعویٰ ہے) کہ یہ پاکستانی DGMOتھے جنھوں نے بھارتی DGMOسے ، عین جنگ کے دوران، رابطہ کیا اور یوں دونوں ممالک میں ، افہام و تفہیم سے، سیز فائر ہو گیا ۔ حقائق مگر واضح ہیں کہ پاکستانی افواج کے ہاتھوں عبرتناک شکست دیکھ کر بھارت نے امریکا سے رابطہ کیا اور جنگ بندی کی درخواست کی ۔
بھارت،ایک وسیع ایجنڈے کے تحت، مگر یہ ماننے سے انکاری ہے کہ کسی تیسرے فریق نے ( موثر) بیچ بچاؤ کرتے ہُوئے پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی کروائی۔ بھارتی اپوزیشن پارٹی، کانگریس، بڑھ چڑھ کر مقتدر بی جے پی کے لتّے لے رہی ہے کہ جنگ بندی کے لیے تھرڈ پارٹی ( امریکا) کا دباؤ کیوں قبول کیا ؟ مثال کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس کے جنرل سیکریٹری اور رکن پارلیمنٹ، جئے رام رمیش، نے کہا :’’ بھارتی ارکانِ پارلیمنٹ کا فُل ہاؤس اجلاس ، وزیر اعظم نریندر مودی کے زیر صدارت، بلانا چاہیے اور پوچھا جانا چاہیے کہ پاک بھارت جنگ بندی اور امریکی صدر (ڈونلڈ ٹرمپ)کا یہ دعویٰ کہ مَیں کشمیر پر بھی پاکستان اور بھارت کو اکٹھا کروں گا، در حقیقت بھارت اور امریکا کے درمیان کیا کھچڑی پک رہی ہے؟ ‘‘ جئے رام رمیش نے مزید مطالبہ کیا:’’ ہمیں مودی حکومت اور مقتدر بی جے پی بتائے کہ آپریشن سندور کا نتیجہ کیا نکلا؟ پہلگام کے ذمے داران کی گرفتاریوں کا کیا بنا؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ آیا پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل رابطے بحال ہونے جا رہے ہیں؟ کیا ہم نے مسئلہ کشمیر پر تھرڈ پارٹی (امریکا) کی ثالثی قبول کر لی ہے؟‘‘۔
اصل یہ ہے کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نے حالیہ ایام میں مسئلہ کشمیر بارے جو موقف اختیار کیا ہے ، اِس کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کا محل لرز کررہ گیا ہے۔ پچھلے75برسوں سے بھارتی بنیا اپنے چانکیائی ہتھکنڈوں کے تحت ، مسئلہ کشمیر پر، دُنیا کو جس طرح گمراہ کرتا چلا آ رہا ہے اور مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو جس بہیمیت سے پسِ پشت ڈالتا رہا ہے ، اب اس کی بنیادیں ہل گئی ہیں ۔
90ء کے عشرے میں جب نائب امریکی وزیر خارجہ ( برائے جنوبی و وسطی ایشیا امور) رابن رافیل نے امریکی سوچ کی عکاسی کرتے ہُوئے مسئلہ کشمیر پر کھل کر بیان دیا تھا ، تب بھی نئی دہلی کو اِس سے بڑی تکلیف پہنچی تھی ۔ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پیدا ہوتے ہی امریکا نے، اپنے تئیں، اِسے سلجھانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں ، لیکن خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو سکا ۔ امریکا کی اِن کوششوں کا باقاعدہ آغاز 1950 سے ہوتا ہے ۔ اُن دنوں سرد جنگ ( سوویت رُوس اور امریکا کے درمیان) عروج پر تھی۔ امریکی سوچ تھی کہ اگر وہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کو راضی کر لیتا ہے تو اُسے (سوویت رُوس کے مقابل) جنوبی ایشیا میں اطمینان رہے گا ۔
اِس پس منظر میں اگر ہم نامور سابق امریکی سفارتکار ہوورڈ بی شیفر (Howard B Schaffer) کی معرکہ خیز کتاب The Limits of Influence: America,s Role in Kashmirکا مطالعہ کریں تو انکشاف ہوتا ہے کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی ہی کے زمانے سے امریکا ،اپنے مفادات کی خاطر، مسئلہ کشمیر حل کروانے کی کوششیں کرتا رہا ہے ۔
اِن کوششوں کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ اگر امریکا مسئلہ کشمیر حل کروا دیتا ہے تو یہ کامیابی اُسے سوویت رُوس کے مقابل فتح سے ہمکنار کرے گی۔ اِسی مقصد کے لیے ، مذکورہ کتاب کے مصنف شیفر کے بقول، امریکی صدر ( کینیڈی) نے اپنا ایک خاص نمایندہ ( W Averell Harriman) پاکستان اور بھارت بھیجا۔ کینیڈی نے اپنے اس نمایندہ خصوصی ، ہیری مین، کو بھارتی وزیر اعظم ( جواہر لعل نہرو) اور صدرِ پاکستان ( جنرل ایوب خان) کے نام الگ الگ خطوط بھی ارسال کیے ۔ اِن خطوط میں مبینہ طور پر پاکستان اور بھارتی سربراہان کو زوردار الفاظ میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے، براہِ راست، مل بیٹھنے پر اصرار کیا گیا تھا ۔ شومئی قسمت سے یہ امریکی کوشش بھی ناکامی پر منتج ہُوئی ۔
امریکی مصنف (Howard B Schaffer) نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ساٹھ کے عشرے میں چین کے ہاتھوں بھارت کے شکست کھا جانے کے بعد ایک بار پھر امریکا نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کو بٹھانے کی کوشش کی۔ اِس مقصد کے لیے ، بقول مصنف، 1962-63، میں پاکستانی وزیر خارجہ ( ذوالفقار علی بھٹو) اور بھارتی وزیر خارجہ ( سردار سورن سنگھ) میں جو تفصیلی ملاقاتیں ہُوئی تھیں، وہ امریکا ہی کی بدولت تھیں۔
یہ کوششیں بھی مگر بے ثمر ثابت ہُوئیں ۔ اِس ناکامی کی وجہ بھی بھارت ہی تھا ۔ شیفر لکھتا ہے کہ بھارت ڈھٹائی سے مقبوضہ کشمیر سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے سے انکاری تھا اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں استصوابِ رائے ( Plebiscite)سے دستکش ہونے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اِن پے در پے ناکامیوں کے بعد مسئلہ کشمیر پر امریکی کوششیں ، رفتہ رفتہ، تقریباً ماند پڑتی چلی گئیں۔پاکستان اور بھارت میں مگر کشیدگی بھی بدستور جاری رہی ۔
لیکن ایک سُپرپاور ہونے کے ناتے امریکا جنوبی ایشیا کے دونوں ممالک کے آئے روز کے محاربے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا تھا ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان ’’کارگل‘‘ کا خونی معرکہ شروع ہُوا اور اِس سے قبل کہ یہ معرکہ باقاعدہ کسی بڑی جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ، امریکا نے آگے بڑھ کر اور بیچ بچاؤ کرواتے ہُوئے دونوں ممالک میں سیز فائر کروا دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اِس کے لیے اُس وقت کے وزیر اعظم ، جناب نواز شریف ، کو واشنگٹن جا کر ذاتی حیثیت میں بھی امریکی صدر (بل کلنٹن) سے خصوصی گزارشات کرنا پڑی تھیں ۔ اور جب پاکستان کے خلافOperation Parakramکے تحت بھارت اپنی فوجیں پاکستان کی سرحدوں پر لے آیا تھا ( پاکستان پر ایک سنگین الزام عائدکرتے ہُوئے ) تو اُس وقت بھی یہ امریکا ہی تھا جس نے اپنی وزیر خارجہ (کونڈو لیزا رائس) کے توسط سے پاکستان اور امریکا کے درمیان امن قائم کروایا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ بعد ازاں پاکستانی صدر ( جنرل پرویزشرف) اور بھارتی وزیر اعظم ( اٹل بہاری واجپائی ) کے درمیان (آگرہ میں) جو مذاکرات ہُوئے ، وہ بھی امریکی درمیان داری کا نتیجہ تھے ۔ مسئلہ کشمیر کے کسی حل کے لیے یہ مذاکرات بھی ناکام رہے ۔ یہ ناکامی بھی دراصل بھارتی ڈھٹائی کا نتیجہ تھی ۔
اور صدر پرویز مشرف سے پہلے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جب وزیر اعظم ، جناب نواز شریف، کے دَور میں لاہور آئے اور مینارِ پاکستان پر حاضری بھی دی ، تو خیال یہی تھا کہ اب پاک بھارت حالات دگرگوں نہیں رہیں گے ۔ لیکن یہ اُمید بَر نہیں آئی ۔ واجپائی اور نواز شریف ملاقات کسی تیسرے فریق کے بغیر تھی ۔ مگر اب ایک بار پھر ، تھرڈ پارٹی کی حیثیت میں ، امریکا کو پاک بھارت کشیدگی کم کروانے کے لیے قدم آگے بڑھانا پڑے ہیں ۔ اور بھارت منافقت کرتے ہُوئے اِس اقدام پر چیں بہ جبیں ہورہا ہے ۔