Express News:
2025-08-02@16:29:34 GMT

سیاسی استحکام کیا اب ممکن نہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

وفاقی وزیر احسن اقبال نے ایک بار یہ بات پھر دہرائی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں بڑے بڑے منصوبے متاثر ہوئے ہیں، سیاسی استحکام نہایت ضروری ہے۔ حکومتی حلقے اور سیاسی حلقوں کی اکثریت کی طرف سے بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام کی باتیں کی جاتی ہیں اور ملک میں سیاسی استحکام کے لیے زور دیا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی گرینڈ اپوزیشن الائنس بنوا کر ملک کو مزید سیاسی عدم استحکام بڑھانے کے لیے کوشاں ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ اپوزیشن اس کے خلاف کوئی بڑا سیاسی اتحاد بنانے میں کامیاب نہ ہوجائے اور یہ دونوں اپنی اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

 اس وقت ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے ، حکومت اور ریاستی ادارے ملک کی معیشت کی بہتری پر توجہ مرکوزکیے ہوئے ہیں، ان کی توجہ ان دونوں اہم معاملات پر ہے جب کہ قید میں موجود بانی پی ٹی آئی کو ہر حال میں اپنی باعزت رہائی کی فکر ہے، جس کے لیے وہ مختلف بیانات دے رہے ہیں اور حکومتی سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ خود ہیں ان کا اپنی رہائی کے سوا کوئی ایجنڈا نہیں جس کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔

سابق (ن) لیگی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اپنی موجودہ پوزیشن میں حکومت کی مخالفت میں اپنے طور پر اپوزیشن کا حصہ بنے ہوئے ہیں مگر ان کی سیاسی پارٹی ابھی عوامی مقبولیت کے بلند درجے پر نہیں پہنچی اور وہ خود کسی اسمبلی کے رکن بھی نہیں اور ان کا کہنا بھی یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے بانی کی رہائی کی کوشش کر رہی ہے مگر پی ٹی آئی کے سوا اپوزیشن کی کسی اور پارٹی کا ایجنڈا یا کوشش بانی پی ٹی آئی کی رہائی نہیں ہے بلکہ پوری اپوزیشن موجودہ حکومت کے خلاف ہے اور فروری کے انتخابات کو مسترد کر رہی ہے۔

سینیٹر فیصل واؤڈا کا کہنا ہے کہ ریاستی ادارے ملک کے حالات کو معمول پر لے آئے ہیں اور ملک کے لیے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں اور مئی میں بہت اہم اور اچھی خبریں ملک کو ملیں گی۔

پی ٹی آئی اپنے طور پر ملک کے سیاسی استحکام کے علاوہ معاشی استحکام کو خراب کرنے میں مسلسل مصروف ہے، اسے ملک میں سیاسی استحکام یا معاشی بہتری کی خواہش ہی نہیں بلکہ اس نے پوری کوشش کی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام نہ آئے کیونکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو ملک کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوگی بلکہ اس کی کوشش رہی کہ ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے حکومت جو کوشش کر رہی ہے وہ کسی صورت کامیاب نہ ہو اور ملک کے سیاسی و معاشی حالات اس قدر ابتر ہو جائیں کہ حکومت بانی کو رہا کرنے پر مجبور ہو جائے۔

ملک کے معروف تجزیہ کاروں اور وی لاگرز کے مطابق انھیں ملک کی موجودہ صورتحال میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی اور پی ٹی آئی بانی کی رہائی کو ملکی معاملات پر ترجیح دے کر جو کوشش کر رہی ہے وہ کارگر ثابت نہیں ہو رہی بلکہ بانی کے معاملات مزید بگڑ رہے ہیں اور ملک میں بہتری کے جو آثار نظر آ رہے ہیں اور جنھیں پی ٹی آئی خود بگاڑ رہی تھی۔

اس میں وہ کسی طورکامیاب نہیں ہو پائی اور اس کی تمام کوششیں رائیگاں ہوگئیں۔ ملک کی معاشی ابتری کے لیے بانی پی ٹی آئی نے اوورسیز پاکستانیوں سے جو اپیل کی تھی، اس پر اوورسیز پاکستانیوں نے کوئی دھیان نہیں دیا بلکہ بانی کے برعکس زیادہ رقم پاکستان بھیجی جس سے حکومت کو سیاسی و مالی فائدہ پہنچا اور حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو اسلام آباد مدعو کرکے ان کی بھلائی کے لیے مراعاتی پیکیج کا اعلان کیا جس سے ان کے تحفظات دور اور شکایات کا ازالہ ہوا۔

اوورسیز پاکستانیوں نے بانی کی بات مسترد کر کے حکومت کی مالی پوزیشن بہتر بنا دی اور عالمی ادارے فنچ نے پاکستان کی معیشت مستحکم قرار دے کر پاکستان کی ریٹنگ میں اضافہ کردیا جس سے حکومت کی حوصلہ افزائی اور پی ٹی آئی کی کوششوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس پر حکومت کو اطمینان میسر آگیا ہے۔

موجودہ حکومت کے بعض اقدامات اور عوام میں اس کی بڑھتی نہ مقبولیت سے لگ رہا تھا کہ کمزور حکومت کا کسی وقت بھی خاتمہ ہو جائے گا مگر حکومت اور بالاتروں کی کوششوں سے ملک میں کچھ بہتری آئی اور حکومت نے آئی ایم ایف کی غلامی میں رہتے ہوئے اسے قائل کر لیا کہ وہ اپنے عوام کو کچھ ریلیف دے دے، جس کے نتیجے میں وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کی اجازت سے بجلی سات روپے سے زیادہ سستی کی اور مزید سستی کرنے کی بھی امید دلائی جس سے عوام کو پہلی بار ریلیف ملے گا۔ ملک کی معاشی حالت میں بہتری اور عالمی سطح پر حکومتی پذیرائی سے حکومت کو اب ملک کے عدم سیاسی استحکام کی بھی کوئی فکر نہیں ہے اور اس کی پوری توجہ معاشی صورت حال کی مزید بہتری پر ہے اور بالاتروں کی حمایت بھی اسے اس سلسلے میں حاصل ہے جب کہ بانی پی ٹی آئی جو متضاد بیانات دے رہے ہیں۔

 اس کے بعد ملک میں سیاسی استحکام ممکن ہی نہیں رہا۔ حکومت اندرونی طور پر کوشش میں ہے کہ اپوزیشن اس کے خلاف کوئی بڑا اتحاد نہ بنا سکے اور اس کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔ گرینڈ الائنس کے قیام میں صوبہ کے پی میں پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے سیاسی مفادات اصل رکاوٹ ہیں جس سے حکومت کا فائدہ ہے اور ان حالات میں ملک میں سیاسی استحکام اب خواب رہ گیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ملک میں سیاسی استحکام اوورسیز پاکستانیوں سیاسی عدم استحکام بانی پی ٹی آئی پی ٹی آئی کی اور حکومت کر رہی ہے ہوئے ہیں حکومت کی سے حکومت کی رہائی کہ بانی کی کوشش رہے ہیں ہیں اور اور ملک کے لیے ہے اور ملک کے ملک کی سے ملک

پڑھیں:

گھڑ سوار اور عقوبت خانہ!

ملک میں جو غیر یقینی صورت حال برپا ہے۔ اس کے حتمی نتائج کیا ہونگے، اس پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ سنجیدگی اور وطن دوستی کا منصب یہ ہے کہ معاملات کو دلیل کی بنیاد پر پرکھا جائے۔ کوشش کی جائے کہ حقیقت کے قریب تر رہا جائے۔ پہلے تو یہ عرض ہے کہ ہیجان اور جذباتیت مکمل طور پر لا حاصل ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا انسان بغیر ذاتی جذبات‘ منفی یا مثبت‘ زندہ رہ سکتا ہے۔ جواب آپ کی عقل سلیم کے حوالے کرتا ہوں۔

سیاست کی دھند ملک کے ہر محلہ ‘گلی اور گھر کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ کچھ نظر آ رہا ہے مگر بہت کچھ ‘ آنکھوں سے اوجھل ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اب ہمارے خطہ کا ہر انسان کوئی نہ کوئی پختہ رائے رکھتا ہے۔ یہ بہت بڑا فکری انقلاب ہے۔ جو سیاسی پیچیدگیاں ‘ اس وقت دیو کی طرح‘ ہمیں چاٹ رہی ہیں ان کے متعلق ہر ذی شعور سوچتا ضرور ہے۔ یہ شعور کی وہ سطح ہے جو برصغیر کے بٹوارے کے وقت قطعاً موجود نہیں تھی۔

کھیل اب بھرپور طرز پر ‘ سامنے آ چکا ہے۔ گہرائی سے دیکھیں تو سیاسی میدان میں بڑے دو فریق ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ اور دوسرا سیاستدان ۔ پیہم زوال سے نکلنا تو دور کی بات‘ اسے روکنا تک محال نظر آتا ہے۔ ایک المیہ اور بھی ہے ۔ فیصلہ ساز قوتیں اردو اخبارات پر زیادہ توجہ نہیں دیتیں، انگریزی کالم بہرحال کچھ نہ کچھ پرتاثیر ہوتے ہیں۔

اردو کے بہترین قلمکار بھی اس قبیلے میں شامل نہیں ہوتے ۔ جو گھڑ سواروں کے گرگ جہاں دیدہ نظر میں رکھتے ہیں۔ یہ دشواری‘ سب کو معلوم ہے۔ پر اس کا مداوا کوئی نہیں ہے۔ منطقی انجام یہ ہے اردو میں لکھے جانے والے بہترین حل بھی محض‘ کاغذ کے ٹکڑے پر رہتا ہے۔ مقتدر طبقے کی میز اور ان کے شعوری فیصلہ سازی کا حصہ نہیں بن پاتا۔ اس نکتے پربحث کسی اور وقت پراٹھا کر رکھتے ہیں۔

سابقہ وزیراعظم‘اپنے زمانے کے گھڑ سواروں کی بھرپور مدد سے ہی تخت نشین ہوئے تھے۔ ملک میں ‘ دربار میں ایستادہ ہونے کا کوئی اور طریقہ ہے ہی نہیں۔ یہ ہماری اجتماعی سیاست کی جڑ ہے، پر اس کا حل اب کوئی نہیں ہے۔ اس میں بھی کوئی کلام نہیں‘ کہ کسی بھی وزیراعظم کو مضبوط نہیں ہونے دیا جاتا۔ جیسے ہی وہ حلف اٹھاتا ہے، اسی دم افواہوں ‘ بدگمانیوں اور سازشوں کا ایسا قہربرپا کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی قوت آندھی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

کیا یہ سچ بات نہیں ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر‘آج تک ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت ملازمت پوری نہ کر سکا۔ گھڑسوار سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کو منتخب شدہ بندوں سے بہتر چلا سکتے ہیں۔ اس سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ طالب علم، کیڈٹ کالج حسن ابدال سے فارغ التحصیل ہے۔ ان گنت دوست‘ گھڑسواروں کے سرخیل رہے ہیں۔ ان کی ذاتی سوچ بھی ذہن نشین ہے۔ ذمے داری سے عرض کروں گا کہ وہ ہر وزیراعظم کو سپورٹ کرتے ہیں۔

اس کی مدد کرنے میں مصروف کار ہوتے ہیں۔ پیچیدہ ترین معاملات میں اداروں کی بے لاگ رائے دینے سے گھبراتے نہیں ہیں۔ مگر ہمارے اکثر سیاسی لوگ‘ ایسے ایسے کارنامے انجام دینے شروع کر دیتے ہیں جس سے بدگمانی برہنہ ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ پھر ایک سرد جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ جس کے انجام کے بارے میں بات کرنا قدرے مشکل بن جاتا ہے۔ خفیہ فرمان جاری ہوتا ہے کہ ہوشیار باش ۔ پھر منظر نامہ بدل جاتا ہے۔ دو تین دہائیاں قبل‘ ایک دور پار کے عزیز جو خفیہ ادارے کے سربراہ تھے‘ ملنے گیا۔ گپ شپ کافی طویل ہو گئی۔

اس وقت موبائل فون نہیں تھے۔ پوچھا‘ کہ پوری دنیا میں‘ کوئی بھی اہم واقعہ ہو تو آپ تک معلومات پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ جواب کافی دلچسپ تھا۔ صرف اور صرف سات منٹ۔ یاد رہے کہ یہ تیس برس پہلے کی بات ہے۔ جب ابلاغ کے افق پر ‘ سوشل میڈیا اور سیل فون کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اب کیا صورت حال ہو گی، معلوم نہیں ۔ پھر یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اداروں میں اصل وفاداری ‘ اپنے لشکر کے سربراہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایک اور بات‘ بتانا ضروری ہے کہ مقتدر قوتوں کے تمام اہم فیصلے ‘ بھرپور مشاورت سے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی رائے سنی جاتی ہے، اس کا اثر بھی ہوتا ہے۔ مگر ایک دفعہ‘ سردار جو فیصلہ کر دے ، وہ حتمی بن جاتا ہے۔

گزشتہ پانچ ‘ چھ برس کے سیاسی معاملات بہت ہی نازک ہیں۔ اڈیالہ میں مقیم قیدی کو حسب دستور شاہی کرسی عنایت کی گئی۔ مقصد‘ حکمران خاندان کو آئینہ دکھانا تھا۔ وہی ہوا۔ نہ کوئی جلسہ‘ نہ چاہنے والوں کا کوئی ہجوم۔پھر مشکل سے لندن یاترہ ملی۔ کرکٹ کی دنیا کا بادشاہ‘ آنکھ کا تارہ بن گیا۔ مگر اس شخص میں مردم شناسی کا عنصر موجود نہیں تھا۔

سوچ میں کھلاڑیوں والی بے اعتدالی پیہم موجود تھی۔ نقصان یہ ہوا‘ کہ گھڑ سواروں کے سابقہ سرخ پوش نے معاملات کے بگاڑ کو بھانپ لیا ۔ فاش غلطیاں ہونے لگیں۔ ایک ایسی لامحدود جنگ شروع ہو گئی‘ جس نے پورے ملک کو ہر طور پر دلدل بنا کر رکھ ڈالا۔ معاشی عدم استحکام بڑھنے لگا‘ جو آج کوہ ہمالیہ کی چوٹی پر ہے۔ لندن کے مقیم نے اس کشمکش سے بہترین فائدہ اٹھایا اور اپنی دولت اور خاندان کو محفوظ کر لیا۔ تخت بھی واپس مل گیا ۔ نقصان یہ ہوا کہ سیاسی ساکھ مکمل طور پر دفن ہو گئی۔ اور اس پر فاتحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ بلکہ آج بھی سیاسی لاش ‘ بے کفن درگور ہے۔

کرکٹر کی بے اعتدالیاں اسے اڈیالہ تک لے آئیں۔ زندان کے دروازے کھلنے کا کوئی امکان نہیں۔ سابقہ وزیراعظم کے چند سنجیدہ رفقاء نے مشکل صورت حال میں بہت صائب کوشش کی کہ جیل کا کواڑ کھل جائے۔ معاملہ سلجھ جائے مگر ایسا نہ ہو پایا۔ حد درجہ ذمے داری سے عرض کر رہا ہوں کہ چار مرتبہ قیدی کو امن کا عندیہ دیا گیا۔ جو سیاسی قائدین ‘ درمیان میں رابطہ کار تھے، انھوںنے کرکٹر کو آمادہ بھی کر لیا۔ گرد کم ہونے کے امکانات واضح ہونے لگے۔ مگر سابقہ وزیراعظم کے اہل خانہ‘ جو کسی سیاسی سوچ سے مبرا ہیں، انھوں نے کرکٹر کا ذہن بدل ڈالا۔ بلکہ انھوںنے فاش غلطی یہ کی کہ جو معتبر سیاست دان‘ معاملہ کوسمیٹ رہے تھے، انھیں غدار بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ مغرب کی پرامن فضاؤں میں مقیم کاریگر وی لاگرز نے ‘ غیر سیاسی بیانیے کو معتبرکر دیا۔ ان کا مقصد پہلے بھی پیسہ کمانا تھا اور آج بھی محض دولت کا حصول ہے۔

اس تمام واقعہ میں اصل نقصان‘ سابقہ وزیراعظم کو ہوا۔ کسی کی نیت پر شک نہیں ہے۔ خان کے لیے ‘ ان کے غیر سیاسی رفقا نے اتنے کانٹے بو دیے ہیں کہ انھیں ہاتھوں کے بجائے‘ آنکھوں سے چننا پڑے گا۔ تقریباً تین چار ہفتے سے‘ بات چیت کا معاملہ مسلسل شروع ہے۔ مگر اب فریقین کے درمیان‘ بداعتمادی کی فضا‘ اتنی کثیف ہے کہ سانس بند ہونے لگا ہے۔ خان کے سنجیدہ دوست انھیں صورتحال سے آگاہ کر رہے تھے۔ مگر قومی بیانیہ کی سیڑھی پر ‘ اس شخص کو اتنا اوپر چڑھا دیاگیا ہے کہ نیچے دیکھنا محال ہے۔

حل کیا ہے۔ سوچنا اشد ضروری ہے۔ خفیہ عقاب اہل اقتدار کی معاشی کرپشن کوپردے کے پیچھے سے ‘ نانظرین کے سامنے پیش کرنے لگے ہیں۔ مقتدر حلقوں کے ذہن میں یہ سوال موجود ہے کہ اڈیالہ کے اسیر پر دوبارہ اعتماد کیا بھی جا سکتا ہے کہ نہیں؟

متعلقہ مضامین

  • یہ نہیں کہا کہ بچے احتجاج کیلئے آئیں، علیمہ سیاسی بات نہ کریں: بانیٔ پی ٹی آئی
  • حکومت سے معاہدہ، جماعت اسلامی کا بلوچستان لانگ مارچ، دھرنا ختم
  • گھڑ سوار اور عقوبت خانہ!
  • الیکشن کمیشن: استحکام پاکستان پارٹی کا انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم، سرٹیفکیٹ شائع
  • جرمنی میں شدت پسندی کے واقعات کا سدباب کیسے ممکن؟
  • غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی روک تھام کیلئے جو ممکن قانون سازی ہوگی وہ کی جائے گی: بلوچستان حکومت
  • حکمران بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں سے خوفزدہ ہیں: علیمہ خان
  • ذوالفقار جونیئر کا سیاسی مستقبل
  • 5 اگست کا احتجاج حکومت کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا، بیرسٹر سیف
  • غزہ میں نسل کشی کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں، ٹرمپ کی قریبی اتحادی بھی اسرائیل کیخلاف بول پڑی