Express News:
2025-11-04@01:13:39 GMT

سیاسی استحکام کیا اب ممکن نہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

وفاقی وزیر احسن اقبال نے ایک بار یہ بات پھر دہرائی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں بڑے بڑے منصوبے متاثر ہوئے ہیں، سیاسی استحکام نہایت ضروری ہے۔ حکومتی حلقے اور سیاسی حلقوں کی اکثریت کی طرف سے بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام کی باتیں کی جاتی ہیں اور ملک میں سیاسی استحکام کے لیے زور دیا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی گرینڈ اپوزیشن الائنس بنوا کر ملک کو مزید سیاسی عدم استحکام بڑھانے کے لیے کوشاں ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ اپوزیشن اس کے خلاف کوئی بڑا سیاسی اتحاد بنانے میں کامیاب نہ ہوجائے اور یہ دونوں اپنی اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

 اس وقت ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے ، حکومت اور ریاستی ادارے ملک کی معیشت کی بہتری پر توجہ مرکوزکیے ہوئے ہیں، ان کی توجہ ان دونوں اہم معاملات پر ہے جب کہ قید میں موجود بانی پی ٹی آئی کو ہر حال میں اپنی باعزت رہائی کی فکر ہے، جس کے لیے وہ مختلف بیانات دے رہے ہیں اور حکومتی سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ خود ہیں ان کا اپنی رہائی کے سوا کوئی ایجنڈا نہیں جس کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔

سابق (ن) لیگی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اپنی موجودہ پوزیشن میں حکومت کی مخالفت میں اپنے طور پر اپوزیشن کا حصہ بنے ہوئے ہیں مگر ان کی سیاسی پارٹی ابھی عوامی مقبولیت کے بلند درجے پر نہیں پہنچی اور وہ خود کسی اسمبلی کے رکن بھی نہیں اور ان کا کہنا بھی یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے بانی کی رہائی کی کوشش کر رہی ہے مگر پی ٹی آئی کے سوا اپوزیشن کی کسی اور پارٹی کا ایجنڈا یا کوشش بانی پی ٹی آئی کی رہائی نہیں ہے بلکہ پوری اپوزیشن موجودہ حکومت کے خلاف ہے اور فروری کے انتخابات کو مسترد کر رہی ہے۔

سینیٹر فیصل واؤڈا کا کہنا ہے کہ ریاستی ادارے ملک کے حالات کو معمول پر لے آئے ہیں اور ملک کے لیے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں اور مئی میں بہت اہم اور اچھی خبریں ملک کو ملیں گی۔

پی ٹی آئی اپنے طور پر ملک کے سیاسی استحکام کے علاوہ معاشی استحکام کو خراب کرنے میں مسلسل مصروف ہے، اسے ملک میں سیاسی استحکام یا معاشی بہتری کی خواہش ہی نہیں بلکہ اس نے پوری کوشش کی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام نہ آئے کیونکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو ملک کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوگی بلکہ اس کی کوشش رہی کہ ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے حکومت جو کوشش کر رہی ہے وہ کسی صورت کامیاب نہ ہو اور ملک کے سیاسی و معاشی حالات اس قدر ابتر ہو جائیں کہ حکومت بانی کو رہا کرنے پر مجبور ہو جائے۔

ملک کے معروف تجزیہ کاروں اور وی لاگرز کے مطابق انھیں ملک کی موجودہ صورتحال میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی اور پی ٹی آئی بانی کی رہائی کو ملکی معاملات پر ترجیح دے کر جو کوشش کر رہی ہے وہ کارگر ثابت نہیں ہو رہی بلکہ بانی کے معاملات مزید بگڑ رہے ہیں اور ملک میں بہتری کے جو آثار نظر آ رہے ہیں اور جنھیں پی ٹی آئی خود بگاڑ رہی تھی۔

اس میں وہ کسی طورکامیاب نہیں ہو پائی اور اس کی تمام کوششیں رائیگاں ہوگئیں۔ ملک کی معاشی ابتری کے لیے بانی پی ٹی آئی نے اوورسیز پاکستانیوں سے جو اپیل کی تھی، اس پر اوورسیز پاکستانیوں نے کوئی دھیان نہیں دیا بلکہ بانی کے برعکس زیادہ رقم پاکستان بھیجی جس سے حکومت کو سیاسی و مالی فائدہ پہنچا اور حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو اسلام آباد مدعو کرکے ان کی بھلائی کے لیے مراعاتی پیکیج کا اعلان کیا جس سے ان کے تحفظات دور اور شکایات کا ازالہ ہوا۔

اوورسیز پاکستانیوں نے بانی کی بات مسترد کر کے حکومت کی مالی پوزیشن بہتر بنا دی اور عالمی ادارے فنچ نے پاکستان کی معیشت مستحکم قرار دے کر پاکستان کی ریٹنگ میں اضافہ کردیا جس سے حکومت کی حوصلہ افزائی اور پی ٹی آئی کی کوششوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس پر حکومت کو اطمینان میسر آگیا ہے۔

موجودہ حکومت کے بعض اقدامات اور عوام میں اس کی بڑھتی نہ مقبولیت سے لگ رہا تھا کہ کمزور حکومت کا کسی وقت بھی خاتمہ ہو جائے گا مگر حکومت اور بالاتروں کی کوششوں سے ملک میں کچھ بہتری آئی اور حکومت نے آئی ایم ایف کی غلامی میں رہتے ہوئے اسے قائل کر لیا کہ وہ اپنے عوام کو کچھ ریلیف دے دے، جس کے نتیجے میں وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کی اجازت سے بجلی سات روپے سے زیادہ سستی کی اور مزید سستی کرنے کی بھی امید دلائی جس سے عوام کو پہلی بار ریلیف ملے گا۔ ملک کی معاشی حالت میں بہتری اور عالمی سطح پر حکومتی پذیرائی سے حکومت کو اب ملک کے عدم سیاسی استحکام کی بھی کوئی فکر نہیں ہے اور اس کی پوری توجہ معاشی صورت حال کی مزید بہتری پر ہے اور بالاتروں کی حمایت بھی اسے اس سلسلے میں حاصل ہے جب کہ بانی پی ٹی آئی جو متضاد بیانات دے رہے ہیں۔

 اس کے بعد ملک میں سیاسی استحکام ممکن ہی نہیں رہا۔ حکومت اندرونی طور پر کوشش میں ہے کہ اپوزیشن اس کے خلاف کوئی بڑا اتحاد نہ بنا سکے اور اس کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔ گرینڈ الائنس کے قیام میں صوبہ کے پی میں پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے سیاسی مفادات اصل رکاوٹ ہیں جس سے حکومت کا فائدہ ہے اور ان حالات میں ملک میں سیاسی استحکام اب خواب رہ گیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ملک میں سیاسی استحکام اوورسیز پاکستانیوں سیاسی عدم استحکام بانی پی ٹی آئی پی ٹی آئی کی اور حکومت کر رہی ہے ہوئے ہیں حکومت کی سے حکومت کی رہائی کہ بانی کی کوشش رہے ہیں ہیں اور اور ملک کے لیے ہے اور ملک کے ملک کی سے ملک

پڑھیں:

خطے کے استحکام کا سوال

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طورخم سرحد کو صرف افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دوبارہ کھولا ہے، جب تک صورتحال میں بہتری نہیں آتی، سرحدی مقامات کارگو ٹرکوں اور عام مسافروں کے لیے بند رہیں گے۔

اس وقت سیکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے ہیں اور امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انھیں افغانستان جانے کی اجازت دے رہا ہے۔ دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔

 ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں۔ جنگ کے حالات اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان، پاکستان کی وزارت خارجہ نے 6 نومبرکو جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے اپنی توقعات کا اظہارکیا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان چند روز قبل ترکیہ میں امن مذاکرات ہوئے تھے، تاہم یہ مذاکرات طالبان کی ہٹ دھرمی کے باعث بری طرح ناکام رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں استنبول میں چار روزہ مذاکرات ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔

 بھارت کے بعد افغانستان نے جس طرح پاکستانی سرحدوں کو پامال کیا اور پاکستانی افواج نے جوابی حملہ کر کے طالبان اور فتنہ الخوارج اور ان کی سرحدی چوکیوں کو جس طرح تباہ کیا۔ اس سے انھیں حقیقت کا خاصا ادراک ہوگیا ہے لیکن بھارتی آشیر باد، فنڈنگ، سہولت کاری صورتحال کو نارمل ہونے میں حائل ہو رہی ہے۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ خطے میں امن کی بجائے بدامنی کا باعث بن رہا ہے، افغان ایک سیاہ تاریخ رقم کر رہے ہیں اور یہ تاریخ اوراقوام عالم میں احسان فراموش محسن کش کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

پاکستان نے 40 سالوں تک افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کاروبار تعلیم صحت کے مواقعے فراہم کر کے انھیں اپنے شہریوں کے برابر حقوق و سہولیات مہیا کیں اور وطن عزیز میں بطور مہمان رکھا مگر ہماری مہمان نوازی کے جواب میں یہ لوگ واپس جاتے جاتے، اپنے گھروں خیموں یہاں تک مساجد کو بھی شہید کرکے جا رہے ہیں جو کہ اسلام دشمنی اور احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے۔

افغانوں کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان کو اس بات پر بھی خاص نظر رکھنی ہوگی یہ لوگ دوبارہ پاکستان واپس نہ آجائیں تو اس کے لیے ان کا ڈیجٹیل ریکارڈ بھی رکھنا ضروری ہے۔ اب افغانستان کا چترال سے نکلنے والے دریائے کنہڑکے مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان کرنا، بھارت کا کابل میں سفارتخانہ کھولنا، ہندو بنیے سے پیسے لے کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا اور بھارت کے پیسوں سے پاکستان میں من پسند شریعت کے نفاذ کے دعوے، دین اسلام ،قرآن و سنت اور اللہ کے فرمان کے منافی سرگرمیاں ہیں۔

آج افغانوں کو اپنی منفی سرگرمیوں اور شرپسندی کے بھرپور جواب کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ گو نئی کشمکش میں پاکستان کو فوجی برتری حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں بڑی فوج ہے، جو جدید فضائیہ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے، وہ افغانستان کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ طالبان رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔

 سوویت افغان جنگ 1979سے لے کر 1989تک جاری رہی اور اس جنگ میں پاکستان نے افغان فوج کا مکمل ساتھ دیا اور تعاون جاری رکھا جب کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی پسپائی میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا مگر اس کے بعد پاکستان پر دہشت گردانہ حملے اور دراندازیوں کا آغاز ہو گیا جو آج تک جاری ہے جب کہ پاکستان نے سفارتی احتجاج کیے، دہشت گردی اور دراندازی کے ثبوت بھی فراہم کیے، وفود کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر افغانستان کی طرف سے ہمیشہ منفی رویہ اپنایا گیا۔

پاک افغان جنگ بندی اچھا عمل ہے مگر تاریخ کے مطابق افغان حکومت پر اعتبار کرنا کسی طور پر بھی خوشگوار نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اس کی وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت2.41 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اس وقت سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے کوشاں ہے جب کہ یہی سی پیک دنیا کو 85.9 فیصد تجارتی راستوں سے جوڑتا ہے جو براہ راست چین، وسطی ایشیاء، مشرقی وسطی اور افریقہ تک پھیل سکتا ہے، یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دنیا کے طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے، ایسے میں ہمیں دشمنوں کے بچھائے جال میں الجھنے اور پھنسنے کی بجائے اپنی اسٹرٹیجک صورتحال اور میلوں پر پھیلے قیمتی معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں نئے دروازے کھولنے چاہیں اور پیچھے مڑ کر ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، ماضی کے بوجھ تلے دبے رہ کر دونوں برادر ہمسایہ ممالک کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا دونوں کو بداعتمادی کی فضا ختم کرنا ہوگی۔ دانش مندانہ اور پائیدار حکمت عملی سے نئے، خود مختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

بھارت جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا وہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ماضی کی رنجشوں کو ابھارے گا، جب کہ وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ قونصل خانے بھی کھولنے جا رہا ہے، دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتی قربت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں، پاکستان کے افغانستان پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ،اس لیے اسے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذباتیت کی بجائے توازن کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ برادر ہمسایہ ملک جس کی غذائی ضروریات کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے، اسے دشمن کی صفوں میں شامل ہونے سے ممکنہ حد تک روکا جا سکے تاکہ ملک کو جس دہشت گردی اور بدامنی کی لہر کا سامنا ہے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے۔

 پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی اور انٹیلی جنس نمائندے ایک مشترکہ نظام کے تحت کارروائیوں کی نگرانی کریں تاکہ کسی حملے کی صورت میں فوری ردعمل ممکن ہو، مگر افغان فریق نے اسے ’’ غیر ملکی مداخلت‘‘ قرار دے کر رد کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر تصدیق کے نظام سے خوف کیوں؟ دراصل طالبان حکومت داخلی طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف وہ بین الاقوامی شناخت چاہتی ہے، دوسری طرف ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے روابط توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکیہ اور قطر نے ثالثی کے طور پر ایک سمجھوتے کی صورت تجویز کیا کہ پہلے تکنیکی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں، بعد میں سیاسی معاملات طے کیے جائیں۔ یہ ایک قابل عمل تجویز تھی مگر کابل کے رویے نے اس کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔

مذاکرات کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دونوں فریقوں نے ’’تکنیکی سطح‘‘ پر رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ یعنی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔ مگر اعتماد کا فقدان اتنا گہرا ہے کہ کوئی پیش رفت تبھی ممکن ہے جب کابل اپنے وعدوں کو تحریری شکل دے۔ زبانی یقین دہانیوں اور مذہبی حوالوں سے اب کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ خود مختاری صرف ایک ملک کا حق نہیں، ایک ذمے داری بھی ہے۔ جب اس کے علاقوں سے پاکستان پر حملے ہوں تو وہ خودمختاری نہیں، لاپرواہی کہلاتی ہے۔

پاکستان نے اپنے عوام، فوج اور سفارت کاروں کی قربانیوں سے جو امن حاصل کیا ہے، اسے کسی دوسرے ملک کی کمزوریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازع میں ترکیہ اور قطرکا کردار امید کی کرن ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی برادری میں معتبر حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے پاس ثالثی کا عملی تجربہ بھی ہے، اگر وہ ایک مشترکہ مانیٹرنگ کمیشن کے قیام میں کامیاب ہو گئے تو شاید مستقبل قریب میں کوئی پیش رفت ممکن ہو۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استنبول مذاکرات مشکلات کا شکار ضرور ہوئے مگر انھوں نے پاکستان کے اصولی اور حقیقت پسندانہ موقف کو بین الاقوامی سطح پر واضح کر دیا۔ اسلام آباد نے ثابت کیا کہ وہ جنگ نہیں، امن چاہتا ہے۔

مگر ایسا امن جو احترامِ خود مختاری، تصدیق شدہ عمل اور دہشت گردی سے پاک ہمسائیگی پر مبنی ہو۔ افغانستان کے حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے خول میں بند رہنا چاہتے ہیں یا ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔

پاکستان کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، مگر شرط وہی ہے ’’امن کے بدلے امن۔‘‘ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، پاک افغان جنگ بندی معاہدہ اچھی پیشرفت ہے، یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اگر اس معاہدے پر من و عن عملدرآمد ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے عوام کو دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور امن و امان کے عوض سکھ کا سانس نصیب ہوگا اور خطے میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آئے گا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا جب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا تو اس کے ساتھ تعاون ممکن نہیں؛سپریم لیڈر ایران
  • آئی ایم ایف بھی مان گیا کہ پاکستان میں معاشی استحکام آ گیا ہے، وزیرخزانہ
  • سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • آزاد کشمیر میں سیاسی عدم استحکام جاری، پی پی نے تحریک عدم اعتماد تاحال جمع نہ کروائی
  • بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار
  • سہیل آفریدی کے سیاسی قائدین سے رابطے‘ قیام امن کیلئے مل کر چلنے کی پیشکش 
  • پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری
  • محاذ آرائی ترک کیے بغیر پی ٹی آئی کے لیے موجودہ بحران سے نکلنا ممکن نہیں، فواد چوہدری
  • سابق رہنماؤں کا بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے سیاسی جماعتوں و دیگر سے رابطوں کا فیصلہ