Express News:
2025-05-03@10:45:35 GMT

سیاسی استحکام کیا اب ممکن نہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

وفاقی وزیر احسن اقبال نے ایک بار یہ بات پھر دہرائی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں بڑے بڑے منصوبے متاثر ہوئے ہیں، سیاسی استحکام نہایت ضروری ہے۔ حکومتی حلقے اور سیاسی حلقوں کی اکثریت کی طرف سے بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام کی باتیں کی جاتی ہیں اور ملک میں سیاسی استحکام کے لیے زور دیا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی گرینڈ اپوزیشن الائنس بنوا کر ملک کو مزید سیاسی عدم استحکام بڑھانے کے لیے کوشاں ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ اپوزیشن اس کے خلاف کوئی بڑا سیاسی اتحاد بنانے میں کامیاب نہ ہوجائے اور یہ دونوں اپنی اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

 اس وقت ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے ، حکومت اور ریاستی ادارے ملک کی معیشت کی بہتری پر توجہ مرکوزکیے ہوئے ہیں، ان کی توجہ ان دونوں اہم معاملات پر ہے جب کہ قید میں موجود بانی پی ٹی آئی کو ہر حال میں اپنی باعزت رہائی کی فکر ہے، جس کے لیے وہ مختلف بیانات دے رہے ہیں اور حکومتی سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ خود ہیں ان کا اپنی رہائی کے سوا کوئی ایجنڈا نہیں جس کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔

سابق (ن) لیگی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اپنی موجودہ پوزیشن میں حکومت کی مخالفت میں اپنے طور پر اپوزیشن کا حصہ بنے ہوئے ہیں مگر ان کی سیاسی پارٹی ابھی عوامی مقبولیت کے بلند درجے پر نہیں پہنچی اور وہ خود کسی اسمبلی کے رکن بھی نہیں اور ان کا کہنا بھی یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے بانی کی رہائی کی کوشش کر رہی ہے مگر پی ٹی آئی کے سوا اپوزیشن کی کسی اور پارٹی کا ایجنڈا یا کوشش بانی پی ٹی آئی کی رہائی نہیں ہے بلکہ پوری اپوزیشن موجودہ حکومت کے خلاف ہے اور فروری کے انتخابات کو مسترد کر رہی ہے۔

سینیٹر فیصل واؤڈا کا کہنا ہے کہ ریاستی ادارے ملک کے حالات کو معمول پر لے آئے ہیں اور ملک کے لیے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں اور مئی میں بہت اہم اور اچھی خبریں ملک کو ملیں گی۔

پی ٹی آئی اپنے طور پر ملک کے سیاسی استحکام کے علاوہ معاشی استحکام کو خراب کرنے میں مسلسل مصروف ہے، اسے ملک میں سیاسی استحکام یا معاشی بہتری کی خواہش ہی نہیں بلکہ اس نے پوری کوشش کی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام نہ آئے کیونکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو ملک کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوگی بلکہ اس کی کوشش رہی کہ ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے حکومت جو کوشش کر رہی ہے وہ کسی صورت کامیاب نہ ہو اور ملک کے سیاسی و معاشی حالات اس قدر ابتر ہو جائیں کہ حکومت بانی کو رہا کرنے پر مجبور ہو جائے۔

ملک کے معروف تجزیہ کاروں اور وی لاگرز کے مطابق انھیں ملک کی موجودہ صورتحال میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی اور پی ٹی آئی بانی کی رہائی کو ملکی معاملات پر ترجیح دے کر جو کوشش کر رہی ہے وہ کارگر ثابت نہیں ہو رہی بلکہ بانی کے معاملات مزید بگڑ رہے ہیں اور ملک میں بہتری کے جو آثار نظر آ رہے ہیں اور جنھیں پی ٹی آئی خود بگاڑ رہی تھی۔

اس میں وہ کسی طورکامیاب نہیں ہو پائی اور اس کی تمام کوششیں رائیگاں ہوگئیں۔ ملک کی معاشی ابتری کے لیے بانی پی ٹی آئی نے اوورسیز پاکستانیوں سے جو اپیل کی تھی، اس پر اوورسیز پاکستانیوں نے کوئی دھیان نہیں دیا بلکہ بانی کے برعکس زیادہ رقم پاکستان بھیجی جس سے حکومت کو سیاسی و مالی فائدہ پہنچا اور حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو اسلام آباد مدعو کرکے ان کی بھلائی کے لیے مراعاتی پیکیج کا اعلان کیا جس سے ان کے تحفظات دور اور شکایات کا ازالہ ہوا۔

اوورسیز پاکستانیوں نے بانی کی بات مسترد کر کے حکومت کی مالی پوزیشن بہتر بنا دی اور عالمی ادارے فنچ نے پاکستان کی معیشت مستحکم قرار دے کر پاکستان کی ریٹنگ میں اضافہ کردیا جس سے حکومت کی حوصلہ افزائی اور پی ٹی آئی کی کوششوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس پر حکومت کو اطمینان میسر آگیا ہے۔

موجودہ حکومت کے بعض اقدامات اور عوام میں اس کی بڑھتی نہ مقبولیت سے لگ رہا تھا کہ کمزور حکومت کا کسی وقت بھی خاتمہ ہو جائے گا مگر حکومت اور بالاتروں کی کوششوں سے ملک میں کچھ بہتری آئی اور حکومت نے آئی ایم ایف کی غلامی میں رہتے ہوئے اسے قائل کر لیا کہ وہ اپنے عوام کو کچھ ریلیف دے دے، جس کے نتیجے میں وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کی اجازت سے بجلی سات روپے سے زیادہ سستی کی اور مزید سستی کرنے کی بھی امید دلائی جس سے عوام کو پہلی بار ریلیف ملے گا۔ ملک کی معاشی حالت میں بہتری اور عالمی سطح پر حکومتی پذیرائی سے حکومت کو اب ملک کے عدم سیاسی استحکام کی بھی کوئی فکر نہیں ہے اور اس کی پوری توجہ معاشی صورت حال کی مزید بہتری پر ہے اور بالاتروں کی حمایت بھی اسے اس سلسلے میں حاصل ہے جب کہ بانی پی ٹی آئی جو متضاد بیانات دے رہے ہیں۔

 اس کے بعد ملک میں سیاسی استحکام ممکن ہی نہیں رہا۔ حکومت اندرونی طور پر کوشش میں ہے کہ اپوزیشن اس کے خلاف کوئی بڑا اتحاد نہ بنا سکے اور اس کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔ گرینڈ الائنس کے قیام میں صوبہ کے پی میں پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے سیاسی مفادات اصل رکاوٹ ہیں جس سے حکومت کا فائدہ ہے اور ان حالات میں ملک میں سیاسی استحکام اب خواب رہ گیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ملک میں سیاسی استحکام اوورسیز پاکستانیوں سیاسی عدم استحکام بانی پی ٹی آئی پی ٹی آئی کی اور حکومت کر رہی ہے ہوئے ہیں حکومت کی سے حکومت کی رہائی کہ بانی کی کوشش رہے ہیں ہیں اور اور ملک کے لیے ہے اور ملک کے ملک کی سے ملک

پڑھیں:

چارٹر آف ڈیموکریسیچارٹر آف ڈیموکریسی

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ بانی تحریک انصاف اپنا جارحانہ رویہ ترک کرکے ملک کے مفاد اور جمہوریت کے فروغ کے لیے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کریں اور پی ٹی آئی اپنے بانی کی رہائی کی کوئی شرط رکھنے کی بجائے عدالتوں سے رجوع کرے۔ بانی کی رہائی کا مطالبہ حکومت سے کیا جا رہا ہے جب کہ رہائی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں ہے، حکومت کا رہائی کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں، عدالتوں کا اختیار ہے وہی یہ مسئلہ دیکھ سکتی ہیں، اس لیے بانی پی ٹی آئی اپنا رویہ تبدیل کریں اور چارٹر آف ڈیموکریسی کریں تاکہ ملک میں جمہوریت مستحکم ہو سکے۔

 یاد رہے بانی پی ٹی آئی نے اپنی پارٹی کے قیام کے بعد 15 سالوں تک ناکامی کا مسلسل سامنا کیا تھا جس کے بعد بعض قوتوں نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور لاہور میں پی ٹی آئی کا بڑا پاور شو کرا کر اہم سیاستدانوں کو بانی کے ساتھ ملوایا تھا جس کے بعد بانی اور پی ٹی آئی نے جمہوریت کی کوئی بات نہیں کی تھی بلکہ ان کا نعرہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت تھی جسے وہ چور، ڈاکو قرار دیتے تھے اور کرپشن ان کا نعرہ تھا۔

انھوں نے کرپشن ختم کرنے کو نہیں بلکہ انصاف کو اپنا منشور بنایا تھا اور دعوے کیے تھے کہ اقتدار کی باریاں لینے والے پی پی اور (ن) لیگ کے سابق وزرائے اعظم ملک لوٹ کر کھا گئے۔ انھوں نے کرپشن سے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں ملک کو مقروض اور مالی طور پر تباہ کیا اور اب تحریک انصاف ملک کا لوٹا گیا پیسہ ان سے واپس لے کر ملک میں واپس لائے گی۔ اس وقت بانی اور ان کے قریبی ساتھی مراد سعید سمیت پی ٹی آئی والوں کا نعرہ تھا کہ وہ ملک کے لوٹے گئے دو سو ارب ڈالر واپس لائی گی جس سے قرضہ بھی اتارے گی اور باقی ملک کے عوام پر لگائے گی کیونکہ وہ لوٹا ہوا پیسہ عوام کا ہے جو ملک سے لوٹ کر باہر منتقل کیا گیا تھا۔

بانی پی ٹی آئی تو جنرل پرویز حکومت میں لندن میں ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی کے بھی خلاف تھے جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ہوا تھا جس کو بانی ایک دوسرے کی کرپشن بچانے کا سی او ڈی قرار دیتے تھے۔

بانی کا سارا زور ماضی میں ہونے والی مبینہ کرپشن پر تھا انھوں نے کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر ملک میں جمہوریت کے استحکام تو کیا کبھی جمہوریت کا نام بھی نہیں لیا تھا ان کا زور صرف سابق حکمرانوں کے خلاف تھا۔ بانی کے حامی صحافی اور اینکر بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے اور ملک سے فرار ہو جانے والے ایک یوٹیوبر نے تحریک عدم اعتماد سے بانی کی برطرفی کے بعد برہم ہو کر کہا تھا کہ بانی نے بعض قوتوں کو سابق حکمرانوں کی مبینہ کرپشن کے بارے میں فائلیں تک دکھائی تھیں اور اسی لیے پی ٹی آئی نے سابق حکمرانوں کے خلاف بھرپور مہم چلائی تھی۔

بانی پی ٹی آئی نے وزیر اعظم بن کر سب سے پہلے سابق حکمرانوں اور ان کے وزیروں اور مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے رہنماؤں کو نیب سے ملی بھگت کرکے گرفتار کرایا تھا اور ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے تھے کہ انھوں نے سابق صدر، وزرائے اعظم سمیت دونوں پارٹیوں والوں کو جیلوں میں ڈلوایا ہے۔ نیب ہر وہ کام کرتا تھا جو حکومت کہا کرتی تھی۔

تمام مبینہ کرپٹ رہنماؤں کے خلاف عدالتوں میں کرپشن کے ثبوت پیش نہیں کیے جاتے تھے اور انھیں صرف جیلوں میں رکھ کر بانی خوش ہوا کرتے تھے۔ ان پر جیلوں میں سختی کراتے اور سہولتیں واپس لینے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ بانی ایسے وزیر اعظم تھے جو جمہوریت کی علم بردار قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں سے اکثر غیر حاضر رہتے تھے اور کہتے تھے کہ گرفتار رہنما NRO مانگتے ہیں۔

بانی نے تو اپوزیشن لیڈر بھی اپنا لانا چاہا تھا مگر مجبوراً انھیں شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر بنانا پڑا تھا۔ انھوں نے اپنے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو منع کیا تھا کہ گرفتار ان کے مخالف پارلیمنٹ کے ارکان کو اجلاس میں لانے کا پروڈکشن آرڈر جاری نہ کریں تاکہ وہ جیلوں میں ہی رہیں۔

بانی کے مخالفین نے کبھی ان سے این آر او نہیں مانگا تھا بلکہ عدالتوں سے ضمانتیں اور رہائی حاصل کی تھی جس پر بانی عدالتوں پر بھی برہم ہوتے تھے کہ وہ سزائیں نہیں دے رہیں بلکہ رہا کر دیتی ہیں۔

بانی پی ٹی آئی جمہوری تھے نہ وہ جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے تھے۔ انھیں بعض قوتوں نے بڑی اچھی توقعات کے ساتھ دوسری پارٹیوں کی مدد سے سلیکٹ کرایا تھا اور اپوزیشن انھیں اسی لیے منتخب نہیں سلیکٹڈ وزیر اعظم کہتی تھی اور اس لفظ سے چڑ کر بانی وہاں اجلاسوں میں نہیں جاتے تھے جہاں بطور وزیر اعظم جانا ان کی ذمے داری تھی مگر وہاں اپوزیشن کی موجودگی کی بنا پر جاتے ہی نہیں تھے، نہ انھوں نے کبھی اہم ملکی معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا پسند کیا وہ کہتے تھے کہ میں اپوزیشن کے ساتھ کیوں ملوں جب کہ وزیر اعظم کا اپوزیشن سے ملنا جمہوری تقاضا ہوا کرتا ہے اور دونوں ہی جمہوریت کا ثبوت ہوتے ہیں۔

بانی کو اب بھی جمہوریت کی نہیں اپنی رہائی کی فکر ہے ان کے نزدیک چارٹر آف ڈیموکریسی کی کوئی بھی اہمیت نہیں بلکہ وہ تو ماضی میں کیے گئے سی او ڈی پر تنقید کیا کرتے تھے تو وہ اب ملک میں جمہوریت کے استحکام کو کیوں اہمیت دیں گے۔ بانی کو جمہوریت سے کوئی سروکار نہیں بلکہ مداخلت کے ذریعے اپنی فوری رہائی اور اقتدار میں آنا چاہتے ہیں مگر ان کی خواہش پوری نہیں ہو رہی اور منتخب حکومت کو وہ جعلی قرار دیتے ہیں تو چارٹر آف ڈیموکریسی وہ موجودہ حکمرانوں سے نہیں بلکہ چارٹر آف رہائی کہیں اور سے چاہتے ہیں جو موجودہ حالات میں ممکن نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جعلی حکومت عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کے جھوٹے مقدمات کو ختم کرے
  • امریکا کا بھارت کے ساتھ13کروڑ ڈالر کا دفاعی معاہدہ
  • حکومت معاشی استحکام کے ساتھ نجی شعبے کو ترقی کا اہم محرک بنانے کے لیے پُرعزم ہے، وفاقی وزیرخزانہ
  • چارٹر آف ڈیموکریسیچارٹر آف ڈیموکریسی
  • یہ ممکن نہیں کہ پاکستان امیر ہو اور بلوچستان غریب رہ جائے: شاہد خاقان عباسی
  • مزدور ریڑھ کی ہڈی ہیں، حکومت ہر ممکن اقدامات کرے گی: امیر مقام
  • پاکستان علما کونسل کا آئندہ جمعہ یوم استحکام پاکستان کے طورپر منانے کا اعلان
  • اسٹرکچرل ریفارمزپر عمل کیا جائے تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، وفاقی وزیر خزانہ
  • بانی نے کہا ہے پاکستان کیساتھ کھڑے ہیں، فرق نہیں پڑتا کون حکومت میں ہے: بیرسٹر علی ظفر