ایک طالب علم کی تعلیم،تربیت اور شخصیت سازی کا عمل کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوتا۔یہ عمل کسی ایک فرد واحد کی ذمے داری بھی نہیں ہے بلکہ اس عمل میں مختلف فریقین سمیت بنیادی ذمے داری کے زمرے میں والدین اور اساتذہ بھی شامل ہوتے ہیں۔بنیادی طور پراساتذہ اور والدین یا تعلیمی ادارے کا مقصد ایک ایسا سازگار ماحول پیدا کرنا ہوتا چاہیے جہاں طالب علم اپنی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کی مدد سے خود کو بہتر طالب علم اور شہری کے طور پر پیش کر سکیں۔
کیونکہ طالب علم نے جہاں خود کو بدلنا ہوتا ہے وہیں اپنی تعلیم اور تربیت کی بنیاد پر وہ سماج کو بدلنے میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔اگر سماج میں تبدیلی کا عمل پروان نہ چڑھ رہا ہو تو اس میں ایک بنیادی خامی ہمارے تعلیمی نظام میں بھی ہوتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج کی تعلیم و تربیت میں معاشرے کی بہتر تبدیلی کو فوقیت دی جاتی ہے۔
یقینی طور پر طالب علم کی ضرورت ڈگری کا حصول بھی ہوتا ہے ،مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت سازی اور سماجی ذمے داری کا احساس بھی اہم ہوتا ہے۔ ہم عمومی طور پر ایک اچھے طالب علم بننے کی ذمے داری محض طالب علم پر ڈال دیتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں بھی اس کا ملبہ طالب علم پر ہی ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ خود اپنی ناکامی کا ذمے دار ہے۔
حالانکہ طالب علم کی ناکامی میں کافی حد تک خود اساتذہ اور والدین کا اپنا بھی کردار ہوتا ہے۔ایک عمومی مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچے اور بچی کی ناکامی کی ذمے داری براہ راست اساتذہ پہ ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی طرح اساتذہ بھی بچے کی ناکامی کو قبول کرنے کے بجائے اس کا ملبہ بچے و والدین پر ڈال کر خود ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔حالانکہ اگر بچہ ناکامی کا شکار ہوتا ہے تو اس میں بچے سمیت والدین اور اساتذہ خود بھی براہ راست ذمے دار ہوتے ہیں۔
ہمارے یہاں اساتذہ روایتی انداز میں یا پرانے خیالات کی بنیاد پر تعلیم دینے کے عادی ہو چکے ہیں جب کہ بچے اور بچیاں جدیدیت کی بنیاد پر روایتی خیالات کے مقابلے میں ایک نئے انداز و فکر سے پڑھنا اور سیکھنا چاہتے ہیں۔یہ ہی بات ہمارے اساتذہ کو سمجھنی ہوگی کہ آج کا عملی طالب علم کیا چاہتا ہے اور اس کو کیسے تعلیم کے ساتھ رسمی یا غیر رسمی طور پر جوڑا جا سکتا ہے۔
دنیا میں تعلیم کے نئے نئے انداز متعارف یا سامنے آرہے ہیں تو ہمیں بھی اس تناظر میں بہت کچھ سیکھناہوگا۔دنیا میں جن ملکوں نے تعلیم کے میدان میں ترقی کی ہے انھوں نے جیسے جیسے تعلیم کے عمل میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس سے نہ صرف خود سیکھا ہے بلکہ اپنے طالب علم کو بھی سکھانے کی کوشش کی ہے۔اسی بنیاد پر تعلیم کے نصاب اور تربیت سمیت صلاحیتوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
کیونکہ جب طالب علم کو تعلیم دینا مقصود ہے تو ہمیں اس کی ضرورتوں کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔خاص طور پر آج کی دنیا ڈیجیٹلائزیشن کی دنیا ہے یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی بنیاد پر تعلیم کا عمل آگے بڑھ رہا ہے تو ایسے میں ہمارے اساتذہ کو بھی تعلیمی حکمت عملی پر نئے انداز و خیالات سے خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔
طالب علم کو محض ڈگری تک محدود کرنے کے بجائے اسے منطق اور دلیل کی بنیاد پر پڑھایا جائے اور اسے یہ باور کروانا ہوگا کہ اس نے اپنی دنیا سمیت اس میں نئے امکانات کو بھی خود ہی پیدا کرنا ہے۔بچے پر جبر یا دھونس یا مار پیٹ کی بنیاد پر تعلیم دینے کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔
آج کی جدیدیت میں جہاں بچہ اور بچی استاد سے سیکھ رہے ہوتے ہیں وہیں استاد بھی بچوں اور بچیوں سے بہت کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے۔اس لیے ایک طرف استاد یہاں تعلیم دے رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ بچوں سے تعلیم یامعلومات حاصل بھی کر رہا ہوتا ہے۔ استاد اس بنیاد پر مطمئن ہو جاتا ہے کہ بچے اور بچی نے اچھے نمبروں سے امتحان پاس یا بہتر پوزیشن حاصل کر لی ہے لیکن عملاً شخصیت سازی کے پہلو میں استاد عمومی طور پر وہ کردار ادا نہیں کر پا رہا جو اسے ادا کرنا چاہیے۔
بنیادی طور پر ہمارے ہاں استاد اور طالب علم کے درمیان ایک بڑی خلیج یا خلاموجود ہے۔استاد اور طالب علم کے درمیان مکالمہ ہی ایک بنیادی شرط ہے جس میں طالب علم کو سیکھنے کے بے شمار مواقع ملتے ہیں۔اس لیے ایک اچھے استاد کو ہمیشہ مکالمے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ آج کی دنیا سوالات کی دنیا ہے اور سوالات کرنا ہر بچے اور بچی کا حق ہے۔
تعلیمی عمل میں والدین، اساتذہ اور بچوں کے درمیان باہمی رابطہ سازی اور مکالمہ بہت ضروری عمل ہوتا ہے۔اکثر والدین اپنے بچوں اور بچیوں کے معاملات میں لاپرواہ ہوتے ہیں اور اساتذہ سے ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔اگر کوئی اچھا استاد بچوں کے والدین سے رابطہ بھی کرے اور انھیں ان کے بچوں کے بارے میں کچھ بتانا بھی چاہے تو والدین رابطوں سے دور رہتے ہیں۔
خاص طور پر اگر استاد بچوں کے تعلیم کے تناظر میں یا ان کی روزمرہ کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ منفی پہلو سامنے لانا چاہتے ہیں تو والدین اس کو قبول کرنے کے بجائے استاد ہی کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔یہ عمل بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسکولوں کالجوں اور جامعات کی سطح پر ہمیں اساتذہ اور والدین کی باقاعدہ اجلاس دیکھنے کو ملے۔
اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں خود والدین اور ان کے بچوں کے درمیان بھی مکالمہ سازی بہت کم ہوتی ہے۔اول تو مکالمہ ہوتا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو مکالمے کے نام پر بچوں پر بہت ساری چیزیں مسلط کی جاتی ہیں۔دوئم اگر بچہ متبادل بات کرنا چاہتا ہے تو والدین اس کو قبول ہی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے یااس پر غصہ کرتے ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ والدین کے تناظر میں یہ ہے کہ وہ بچوں کی خواہشات یا ضرورت کے مطابق ان کو تعلیم دینے کے بجائے ان پر اپنی خواہشات پر مبنی تعلیم کو مسلط کرتے ہیں۔والدین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وہ سب ہی کچھ بچے کے مفاد میں کر رہے ہیں لیکن عملی طور پر وہ بچے کے مفاد میں نہیں ہوتا۔
آج کل تعلیم کے میدان میں نمبرز کی گیم ہے تو والدین بھی بچوں کو تعلیمی کیڑا بنانا چاہتے ہیں۔بچوں کی غیر نصابی سرگرمیاں جو ان کی جسمانی ذہنی اور علمی و فکری صلاحیتوں کو کوعملا اجاگرکرتی ہیں ان کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بچے اور بچیاں خیر نصابی سرگرمیوں وبالخصوص کھیل سے بہت دور ہو گئے ہیں۔
اس بنیاد پر ممکن ہے کہ بچے بہتر طالب علم پیدا ہو رہے ہوں لیکن ان کے ذہنی اور جسمانی مسائل خود ان کے لیے یا ان کے والدین کے لیے بہت سے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔بچوں میں اعتدال پسندی،میانہ روی،برداشت، تحمل،عاجزی اور انکساری سمیت ایک دوسرے کے لیے مددگار کا جذبہ پیدا ہونا بھی ضروری امر ہوتا ہے ۔آج کل بچے اور بچیاں بہت زیادہ زہنی دباو کا شکار ہیں اور بہت چھوٹی سی عمروں میں گلوبلائزیشن یا گلیمررائزیشن نے ان کے زہنوں میں نئے خیالات کو جنم دیا ہے۔
وہ بہت جلد بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں جب کہ کچھ کرنے کے ایک لمبے سفر کے لیے تیار نہیں ہوتے۔اسی طرح آج کے بچوں اور بچیوں کی تعلیمی تربیت اس انداز سے ہونی چاہیے کہ وہ مختلف طرز کی مہارتوں کو سیکھنے کی کوشش کریں جو ان کو عملی زندگی میں آگے بڑھنے کے نئے امکانات کو پیدا کرسکیں۔ ہمیں روائتی طرز کی تعلیم اور پرانے خیالات سے باہر نکلنا ہے اور اس کے لیے پالیسی سازی سے جڑے تعلیمی ماہرین کو نئے انداز سے غوروفکر کرنا ہوگا کہ وہ ایسا تعلیم کے میدان میں کیا کچھ تبدیل کریں جو ہماری ریاستی،معاشرتی اور طالب علم کی ضرورت کو پورا کرنے میں مدد دے سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بنیاد پر تعلیم بچے اور بچی طالب علم کی کی بنیاد پر طالب علم کو اور والدین اساتذہ اور کے درمیان چاہتے ہیں تو والدین کے بجائے تعلیم کے کی تعلیم ہوتے ہیں بچوں کے کرنے کے کی دنیا ہوتا ہے ہیں اور میں بھی اور اس رہا ہو کے لیے ہیں اس خود کو کو بھی کا عمل
پڑھیں:
بڑے کاروباری شعبوں میں 750 ارب کی ٹیکس چوری کا انکشاف
اسلام آباد:
ملک کے بڑے کاروباری شعبوں میں 750 ارب روپے کی ٹیکس چوری کا انکشاف ہوا ہے۔
نجی تھنک ٹینک پرائم نے پاکستان میں غیرقانونی تجارت پر رپورٹ جاری کر دی جس کے مطابق غیر قانونی تجارت میں تمباکو، دوا سازی، ٹائر، آئل، پیٹرول، ڈیزل اور چائے شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق تمباکو سیکٹر میں غیر قانونی تجارت کا حصہ 65 فیصد ہے، جس سے قومی خزانے کو سالانہ 300 ارب روپے ریونیو کا نقصان ہو رہا ہے۔
ایران سے سالانہ دو ارب 80 کروڑ لیٹر پیٹرول و ڈیزل اسمگل کیا جاتا ہے، جس کے باعث 270 ارب کے ریونیو کا نقصان ہوتا ہے، فارماسیوٹیکل میں 40 فیصد دوائیں جعلی یا غیر معیاری ہوتی ہیں اور اس مد میں ملکی خزانے کو 60 سے 65 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
ملک میں 60 فیصد اسمگلڈ ٹائرز سے 106 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے جبکہ 30 فیصد اسمگلڈ چائے کی فروخت سے ملک کو سالانہ 10 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
Tagsپاکستان