افریقی ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے 500 ملین ڈالر کا نیا فنڈ
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مئی 2025ء) خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے چند مخیر انسانوں کے ایک گروپ نے، جس میں بل گیٹس کی قائم کردہ فاؤنڈیشن بھی شامل ہے، باہمی تعاون سے ایک ایسا نیا امدادی فنڈ قائم کیا ہے، جس کی مالیت تقریباﹰ 500 ملین ڈالر ہے۔ اس فنڈ کے قیام کا مقصد براعظم افریقہ میں زیریں صحارا کے علاقے میں زچگی سے گزرنے والی ماؤں اور ان کے نوزائیدہ بچوںکی زندگیاں بچانے میں مدد کرنا اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے۔
زیریں صحارا کا افریقی خطہ ''گلوبل ویلتھ فنڈنگ‘‘ سے بڑی حد تک محروم اور اس اعتبار سے تاریک نظر آنے والا خطہ ہے۔فنڈ کی لانچنگ
متحدہ عرب امارات کی ریاست ابوظہبی میں یہ فنڈ ابتدائی طور پر اپریل کے اواخر میں لانچ کیا گیا۔
(جاری ہے)
اس فنڈ کی حمایت کرنے والا ایک اہم ملک متحدہ عرب امارت بھی ہے، جہاں حال ہی میں 'محمد بن زید فاؤنڈیشن فار ہیومینٹی‘ قائم کی گئی۔
اس کی چیف ایگزیکٹیو ایلس کانگ ایتھے نے روئٹرز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''اس منصوبے پر کم از کم ایک سال سے کام جاری ہے۔ تاہم جب سے دنیا بھر کی حکومتوں کی طرف سے امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے انٹرنیشنل ایڈ یا بین الاقوامی امداد سے دستبرداری کا مظاہرہ کیا گیا ہے، تب سے اس فنڈ کا کردار اور بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔‘‘ایلس کانگ ایتھے نے ابھی کچھ عرصہ قبل ہی اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس فنڈ کا مقصد افریقیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے، کہا تھا کہ اس کی لانچنگ ''نہایت مناسب لمحات میں ہوئی ہے۔
‘‘'بگننگ فنڈ‘ روایتی ڈونر پروگرام سے مختلف
بگننگ فنڈ کی چیف ایگزیکٹیو ایلس کانگ ایتھے کا کہنا ہے کہ اس فنڈ کا بنیادی اصول افریقی حکومتوں، ماہرین اور تنظیموں کے تعاون اور اشتراک عمل سے کام کرنا ہے۔ اس فنڈ کا نقطہ نظر روایتی ڈونر پروگراموں سے مختلف ہے، جو اکثر ماہرین یا مختلف طرح کی ٹیکنالوجیز کو ایک ہی سرپرست فرد یا ادارے کے زیر اثر لانے کی کوششوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
تالہ الرمحی متحدہ عرب امارات میں قائم اور انسان دوستی اور فلاح کاری کے کاموں میں مصروف محمد بن زید فاؤنڈیشن فار ہیومینٹی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''متحدہ عرب امارات میں دو نسلیں پہلے، خواتین اپنے بچوں کی پیدائش کے دوران زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی تھیں اور نصف سے زائد نوزائیدہ بچے بھی انتقال کر جاتے تھے۔
ان واقعات سے سیکھے جانے والے اسباق حالات میں تبدیلی لانے میں کار فرما عوامل سے آگہی میں مدد دیں گے۔‘‘فنڈ کے اہداف
بگننگ فنڈ کا بنیادی مقصد 2030 ء تک تین لاکھ ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی زندگیاں بچانا اور 34 ملین تک ماؤں اوربچوں کے لیے بہبود اور دیکھ بھال کی سہولیات میں توسیع کرنا ہے۔ ماؤں اور بچوں کی صحت کے لیے اس فنڈ کے علاوہ شراکت داروں نے مزید 100 ملین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کا بھی وعدہ کیا ہے۔
یہ فنڈ سب صحارا کے افریقی ممالک ایتھوپیا، گھانا، کینیا، ملاوی، لیسوتھو، نائجیریا، روانڈا، تنزانیہ، یوگنڈا اور زمبابوے میں مذکورہ اہداف کو پورا کرنے کے لیے بروئے کار لایا جائے گا۔ یہ زیادہ تر کم لاگت والے اور طبی کارکنوں پر زیادہ بوجھ والے ہسپتالوں کی مدد کرے گا۔ اس کا ایک بنیادی مقصد ان وجوہات کا تعین اور ان کے سدباب کے لیے مؤثر اقدامات کرنا بھی ہے، جن کے سبب ان ممالک میں زچگی کے عمل سے گزرنے والی ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی بڑی تعداد موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔
ان اہم ترین وجوہات میں مختلف طرح کی انفیکشنز، زچگی کے دوران ماؤں کے جسموں سے بہت زیادہ خون کا بہہ جانا اور نوزائیدہ بچوں کو عام طور پر لاحق ہونے والی سانس کی تکلیف بھی شامل ہیں۔
ادارت: مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور نوزائیدہ بچوں اس فنڈ کا ماؤں اور بچوں کی کے لیے اور ان
پڑھیں:
چند کروڑ بچانے کی خاطر 5 ادبی و علمی اداروں کے خاتمے کا منصوبہ
وفاقی حکومت اخراجات میں کمی اور انتظامی سادگی کے نام پر مختلف وفاقی اداروں کو ختم یا ضم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ رائٹ سائزنگ کے عنوان سے جاری اس مہم کا دائرہ اب ان اداروں تک جا پہنچا ہے جو علمی، ادبی اور فکری سرمائے کے امین ہیں۔
ذرائع کے مطابق، وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان، اردو سائنس بورڈ، اردو لغت بورڈ اور اقبال اکادمی کو ادارہ فروغ قومی زبان میں ضم کر دیا جائے اور ادارہ فروغ قومی زبان کو کسی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے ماتحت کر دیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو انہیں ختم کردیا جائے۔
یہ تجویز نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ پاکستان کی تہذیبی، ادبی اور فکری بنیادوں پر ایک کاری ضرب ہے۔ ان اداروں کو قائم ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں اور ہر ادارہ اپنے دائرۂ کار میں پاکستان کا واحد اور نمائندہ ادارہ ہے۔ ان کے انضمام یا خاتمے سے وہ تمام فکری، ادبی، اور ثقافتی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی جن پر پاکستان کی زبانوں، نظریات، اور علمی شناخت کی عمارت کھڑی ہے۔
ان اداروں میں ہر ایک اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے، جو دہائیوں سے پاکستانی زبانوں، ادب، تحقیق اور قومی تشخص کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے۔ ان کے وجود کا مطلب صرف چند عمارتیں یا سرکاری تنخواہوں کا بوجھ نہیں، بلکہ یہ پاکستان کی فکری شناخت کے ستون ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے، جو نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہیں، رواں ماہ 13 جون 2025 کو سینیٹ اجلاس میں ببانگ دہل ان تجاویز کی سخت مخالفت کی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم دنیا کو اپنا سافٹ امیج دکھانے کے بجائے بطور دہشتگرد متعارف کروانا چاہتے ہیں؟
ان کا یہ سوال دراصل حکومتی ترجیحات پر واضح سوالیہ نشان ہے۔ عرفان صدیقی خود چوں کہ شاعر ادیب ہیں اور ان اداروں کی نگران وزارت کے، مشیر رہ چکے ہیں اس لیے انہیں، ان اداروں کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے۔ یہاں ان کی تقریر کا وہ حصہ ہو بہو نقل کیا جا رہا ہے۔
’’میرے علم میں آیا ہے کہ ہمارے جو علمی ادبی ثقافتی ادارے ہیں جن سے ہمارا گہرا تعلق ہے، یہ بیشتر ادارے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور میں قائم ہوئے۔ جن میں اکادمی ادبیات پاکستان، ادارہ فروغ قومی زبان، اردو سائنس بورڈ، اقبال اکادمی اور اردو ڈکشنری بورڈ اور اس طرح کے دیگر ادارے ہیں، ان کو بند کیا جارہا ہے۔ ان کو مرج کرکے یونیورسٹیوں کے سپرد کر دیا جا رہا ہے وہ یونیورسٹیاں جو پہلے سے مفلوق الحالی کا شکار ہیں اور اپنے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دے سکتیں، ان اداروں کے ساتھ یہ کام نہ کریں۔ ان اداروں کی اصلاح کرنی ہے، ان کو نیا مینڈیٹ دینا ہے، ان کا دائرہ کار تبدیل کرنا ہے، اصلاحات کرنی ہے تو اس پر کمیٹی بنائیں اور اصلاحات ضرور کریں لیکن ان غریب اداروں کو معصوم اداروں کو جو ہماری پہچان ہیں، ادبی علمی ادارے ہیں ثقافتی ادارے ہیں اور ان کا بیرونی ممالک کے ساتھ بڑا گہرا رابطہ رہتا ہے۔ ہماری پہچان بنتی ہے کیا ہماری پہچان ٹیررزم رہنی چاہیے؟ کیا ہماری پہچان وہ غربت اور مہنگائی رہنی چاہیے۔ یہ علمی ادبی ادارے ہماری شناخت اور پہچان ہیں، ان کا تحفظ ہماری حکومت کو کرنا چاہیے۔ ان کے مینڈیٹ میں کوئی تبدیلی کرنی ہے توبے شک کریں لیکن یہ ادارے قائم رہنے چاہئیں‘‘۔
مجھے 2017 کا وہ دن یاد آرہا ہے جب میں اکادمی کے دعوت پر اسلام آباد میں منعقدہ بین الاقوامی ادبی کانفرنس میں شریک ہوا تھا۔ اس کانفرنس کا افتتاح اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کیا تھا۔انہوں نے ملک بھر سے آئے ہوئے اہل قلم سے کہا تھا۔’پاکستان کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کے لیے ضرب عضب کے ساتھ ساتھ ضرب قلم کی بھی ضرور ت ہے‘۔
انہوں نے شاعروں اور ادبیوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کئی بڑے اقدامات اٹھائے تھے، جن میں 50 کروڑ روپے کے انڈومنٹ فنڈ کا بھی اعلان کیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس وقت کی وزارت نے یہ کہہ کر فنڈ اپنے ماتحت کرلیا تھا کہ اس پر دوسرے اداروں کا بھی حق ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس فنڈ کا کیا بنا؟
ان میں سے بیشتر ادارے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن رسا کی پیداوار ہیں اور اکادمی ادبیات پاکستان کے صدر دفتر اسلام آباد میں انہی کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے لیکن حیرانی اس بات کی ہے کہ پیپلز پارٹی جو موجودہ حکومت کی سب سے اہم اتحادی ہے اور حکومت اسی کے سہارے کھڑی ہے، اس اقدام پر خاموش ہے۔ ابھی تک پیپلز پارٹی کے کسی بھی عہدیدار کی طرف سے اس تجویز کی مخالفت سامنے نہیں آئی۔
حکومت ایک طرف اخراجات میں کمی اور انتظامی سادگی کے بہانے ادبی و علمی اداروں کو ضم یا ختم کرنے پہ تلی ہے، دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500 فیصد سے زائد حیران کن اور ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے۔ امسال وفاقی وزرا اور اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بھی کئی گنا اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اس اضافے کا اطلاق ’کفایت شعاری‘ کے تناظر میں یکم جنوری 2025 سے ہوگا۔ ایسے تضادات دیکھ کر عام آدمی کی بے بسی اور مایوسی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ حکومتی ’سادگی‘ کی محض ایک مثال ہے۔ ’سادگی‘ کی ایسی ایسی داستانیں زبان زدعام ہیں کہ ’اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا؟‘۔
واضح رہے کہ ان میں سے ہر ادارے کا بجٹ چند کروڑ روپے ہے اور سارے اداروں کا بجٹ ساٹھ ستر کروڑ روپے بھی نہیں بنتا اور یہ ادارے اتنے کم بجٹ میں وہ کام کر رہے ہیں، جو اربوں کا سالانہ بجٹ لینے والے بھی نہیں کر پاتے۔ مثلاً اکادمی ادبیات پاکستان نے کئی عالمی اداروں کے ساتھ باہمی یادداشتوں پر دستخط کر رکھے ہیں اور ان ممالک کے ادبی اداروں سے اکادمی مسلسل رابطے میں ہے۔ جن میں رائٹرز ایسوسی ایشن آف چائنا، دی نیشنل ایڈمنسٹریشن آف پریس اینڈ پبلی کیشن آف دی پیپل ریپبلک آف چائنا، یونین آف بلغارین رائٹرز ایسوسی ایشن، بلغاریہ، نیشنل اکیڈمی آف سائنسز بیلاروس، نیپال اکیڈمی، اومان ایسوی ایشن آف رائٹرز اینڈ لٹریچر اور استنبول یونیورسٹی آف ایسٹرن لینگوئیجز اینڈ لٹریچر، ترکیہ جیسے ادارے شامل ہیں۔
پاکستان، چائنا سائوتھ ایشیا لٹریچر فورم کا بھی رکن ہے اور اکادمی ادبیات پاکستان اس کی نمائندگی کرتی ہے۔ اکادمی ان ممالک کا ادب اردو میں شائع کرتی ہے اور پاکستان کے ادب کو ان ممالک کی زبان میں ترجمہ کرواتی ہے۔ چین کے ساتھ تو اکادمی 100 کتابوں کے تراجم پر بھی معاہدہ کرچکی ہے۔ ان اداروں کے انضمام یا اختتام کی صورت میں ان معاہدوں کا کیا بنے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں تجویز کنندگان نے سوچا ہی نہیں یا شاید وہ ان چیزوں سے لاعلم ہیں۔
حکومت اخراجات میں کمی اور انتظامی سادگی کے نام پر جن اداروں کو ختم یا ضم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
اکادمی ادبیات پاکستاناکادمی ادبیات پاکستان کا قیام 1976میں عمل میں لایا گیا۔ اہلِ قلم کی فلاح و بہبود اور پاکستانی زبانوں کی ترویج و اشاعت کے لیے ایک فعال قومی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قائم ہوا۔ اس کے ذیلی دفاتر کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور ملتان میں قائم ہیں۔
اکادمی نے 600 سے زائد کتابیں شائع کی ہیں، جن میں اردو اور پاکستانی زبانوں کے ادب کے تراجم، تحقیقی مضامین، یادداشتیں، سوانح، اور تخلیقی ادب شامل ہیں۔ یہ ادارہ ہر سال 20 ادبی ایوارڈز اور ایک ’کمال فن ایوارڈ‘ دیتا ہے جو کسی ادیب کی عمر بھر کی خدمات کا اعتراف ہوتا ہے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ادبی جرائد، ادبیات، ادبیات اطفال اور پاکستانی لٹریچر(انگریزی) سب سے اہم ادبی جرائد سمجھے جاتے ہیں۔
اکادمی ہر ماہ ایک ہزار سے زائد مستحق اہل قلم کو وظیفے دیتی ہے اور دیگر ادبی اداروں کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے، اور ملک بھر میں ادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے آئے روز کانفرنسیں، مشاعرے، اور سیمینار منعقد کرتی ہے۔ اس ادارے نے پاکستان کے سوفٹ امیج کو دنیا بھر میں ابھارا۔
ادارۂ فروغِ قومی زباناردو کو بطور دفتری زبان رائج کرنے کے لیے 1979 میں قائم یہ ادارہ آئین کے آرٹیکل 251 کے مطابق اردو کے فروغ اور نفاذ کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔ ادارہ 700 سے زائد کتب شائع کرچکا ہے، جن میں دفتری اصطلاحات، سوانح عمریاں، تدریسی مواد اور تربیتی کتابیں شامل ہیں۔
ادارہ قومی انگریزی-اردو لغت کی ایپ بھی تیار کر چکا ہے، جس سے طلبہ، محققین اور عام افراد استفادہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو خطاطی، سرکاری نوٹنگ ڈرافٹنگ، اور قانونی اصطلاحات جیسے شعبوں میں بھی ادارہ نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کے تربیتی کورسز اور ورکشاپس سرکاری ملازمین کے لیے اردو زبان میں کام کی استعداد بڑھانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
اس ادارے نے پاکستان کو دفتری زبان بنانے کے لیے تمام کام بہت پہلے مکمل کر دیا تھا لیکن بعض مقتدر حلقوں کی مخالفت کی وجہ سے اردو دفتری زبان نہیں بن پائی۔ادارے کا دعویٰ ہے کہ اگر آج بھی حکومت سنجیدہ ہو تو چند ماہ میں اردو بطور دفتری زبان نافذ ہو سکتی ہے۔
اردو سائنس بورڈاردو سائنس بورڈ 1962 میں قائم ہوا۔ ادارے نے سائنسی علوم کو اردو میں منتقل کرکے ایک انقلابی قدم اٹھایا۔ سائنسی اور سماجی موضوعات پر 700 سے زائد کتب کی اشاعت، سہ ماہی اردو سائنس میگزین، اردو سائنس انسائیکلوپیڈیا، اور سائنسی اصطلاحات کی تیاری اس کی نمایاں خدمات میں شامل ہیں۔
یہ ادارہ نہ صرف سائنسی مواد کو اردو میں منتقل کرتا ہے بلکہ اسے عام فہم انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ عوام میں سائنسی شعور بیدار ہو۔ اسکولوں اور کالجوں میں اردو میڈیم سائنسی تعلیم کے لیے یہ ادارہ بنیادی ماخذ ہے۔ اس کے ادارہ جاتی تعاون نے قومی نصاب میں اردو سائنس کے مواد کو شامل کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔
اقبال اکادمی پاکستانڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے فکری ورثے کو محفوظ کرنے اور اس کی ترویج کے لیے صد سالہ تقریبات کے سال 1977 میں قائم اس ادارے نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی فکری سطح پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ اکادمی نے اقبال کی شاعری، خطبات، خطوط اور فلسفے پر مبنی درجنوں تحقیقی کتب شائع کی ہیں۔
ادارے نے عالمی سطح پر اقبال کانفرنسیں، سیمینارز اور ویب نارز منعقد کیے، مختلف یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں سے مفاہمتی یادداشتوں کے ذریعے تعاون حاصل کیا اور فکرِ اقبال کو نصاب کا حصہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ادارہ نئی نسل کو اقبال کے افکار سے روشناس کرانے کے لیے اسکول و کالج سطح کے لیکچرز اور پروگرامز بھی منعقد کرتا ہے۔
اردو لغت بورڈاردو لغت بورڈ کا قیام اردو زبان کی آکسفورڈ طرز پر لغت تیار کرنے کے لیے 1958 میں عمل میں آیا۔ اس ادارے نے 22 جلدوں پر مشتمل ’اردو لغت (تاریخی اصول پر)‘ شائع کی، جو قریباً 2 لاکھ 20 ہزار الفاظ پر مشتمل ہے۔ یہ اردو زبان کا سب سے وسیع لغوی خزانہ ہے۔
ادارے نے لغت کا ڈیجیٹل ورژن اور موبائل ایپ بھی متعارف کروائی ہے جس میں تلفظ کی سہولت بھی شامل ہے۔ یہ ایپ نہ صرف محققین بلکہ طلبہ، صحافیوں، ادیبوں، اور عام صارفین کے لیے ایک نعمت ہے۔
ان اداروں کا انتظامی انضمام نہ صرف عملی طور پر مشکل ہے بلکہ قانونی پیچیدگیوں کا بھی باعث بنے گا۔ کچھ ادارے خود مختار حیثیت رکھتے ہیں اور کچھ اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ ان کے ملازمین کا سروس اسٹرکچر، مراعات اور پینشن اسکیمز بھی مختلف ہیں۔ اگر انضمام ہوا تو ممکنہ طور پر عدالتوں میں چیلنج ہوگا، جیسا کہ اردو سائنس بورڈ اور اردو لغت بورڈ کا سابقہ انضمام آج تک عدالتی تنازع کا شکار ہے۔
اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں اکادمی ادبیات ہر حوالے سے ایک بڑا ادارہ ہے، جس کا سربراہ گریڈ 22 کا افسر ہوتا ہے یعنی وفاقی سیکرییڑی کے برابر۔ اس کو ایک ایسے ادارے میں جس کا سٹیٹس اس سے چھوٹا ہے، کس قانون کے تحت ضم کی جا سکتا ہے؟ واضح رہے کہ ادارہ فروغ قومی زبان کا پرانا نام مقتدرہ قومی زبان تھا اور یہ ایک بڑا ادارہ تھا لیکن اس کا اسٹیٹس کم کرکے اسے ایک اٹیچ ڈیپارنمنٹ میں پہلے ہی تبدیل کیا جا چکا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ’اصلی مقتدرہ‘ نے سوچا ہوگا کہ یہ کون ہے جو ہمارا نام استعمال کر رہا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ تمام ادارے جن حکومتوں کے وژن کا حصہ تھے، آج انہی کی اتحادی حکومت ان اداروں کے وجود کے درپے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر قوموں کا وقار ان کے ادبی، لسانی، سائنسی، اور فکری اداروں سے ہوتا ہے تو کیا ہم اپنے وقار کو خود ہی مٹا رہے ہیں؟ کیا ہم بجٹ کی سادگی کے نام پر اپنے قومی ورثے سے دستبردار ہو رہے ہیں؟ یہ وقت ہے سنجیدہ قومی مکالمے کا، بصورت دیگر ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں