ماں کے دودھ کے متبادل کی مارکیٹنگ پر سخت ضوابط نافذ ہونے چاہئیں، آصفہ بھٹو زرداری
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
کراچی:
صدرمملکت آصف علی زرداری کی صاحبزادی اور خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ماں کے دودھ کے متبادل کی مارکیٹنگ پر سخت ضوابط نافذ ہونے چاہئیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رکن قومی اسمبلی اور خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری نے بچوں کو دودھ پلانے کے عالمی ہفتے کے موقع پر پیغام میں کہا کہ دودھ پلانا ہمارے بچوں کو تحفظ دینے کے چند فطری اور مؤثر ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے 6 ماہ صرف ماں کا دودھ اور بعد کے دو سال تک دودھ کے ساتھ ساتھ مناسب خوراک بچوں کی قوت مدافعت اور ذہنی نشوونما کو بہتر بناتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دودھ پلانے والی خواتین میں چھاتی اور بیضہ دانی کے کینسر کا خطرہ بھی نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے، ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر بچوں کو دودھ نہ پلانے والی ماؤں کو وہی عزت اور احترام دیا جانا چاہیے جو دودھ پلانے والی ماؤں کو دیا جاتا ہے۔
آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ ماں کے دودھ کے متبادل کی مارکیٹنگ پر سخت ضوابط نافذ ہونے چاہئیں تاکہ ماؤں کو غیرجانب دار اور سائنسی بنیاد پر معلومات فراہم کی جاسکیں۔
خاتون اول نے کہا کہ اداروں کو چاہیے کہ وہ ماؤں کو دودھ پلانے کے لیے مخصوص جگہ فراہم کریں تاکہ دودھ پلانے کی حوصلہ افزائی ہو اور متبادل دودھ کا دباؤ کم ہو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آصفہ بھٹو زرداری دودھ پلانے دودھ کے ماؤں کو کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
گھوٹکی میں سیلاب، 60 سالہ خاتون ہنر کی بدولت اپنے بچوں کا سہارا بن گئیں
گھوٹکی میں دریائے سندھ کے اونچے درجے کے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو نقل مکانی کے بعد شدید مشکلات کا سامنا ہے، جہاں ایک خاتون نے حالات سے ہار ماننے کے بجائے اپنے روایتی ہنر کو سہارا بنالیا ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریاں بہت سے گھروں کو اجاڑ گئیں، مگر حوصلے اور ہنر کے ساتھ جینے کی جستجو آج بھی زندہ ہے۔ سیلاب سے متاثر دریائے سندھ میں واقع ضلع گھوٹکی کے گاؤں ابرو لکھن کی 60 سالہ مائی ڈاتول نے اپنے ہاتھوں کی محنت سے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ اپنے پالتو جانوروں کا بھی سہارا بن کر سب کیلئے ایک مثال قائم کر دی ہے۔
جلال پور پیروالا سے پانی نہ نکالا جاسکا، ایم فائیو موٹروے پر شگاف ڈالنے کی تجویزمحکمہ انہار نے پر موٹروے پر شگاف ڈالنے کو انتہائی ضروری قرار دیا، چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور متعلقہ حکام پر مشتمل کمیٹی آج جائزہ لے گی۔
یہ بہادر خاتون مختلف رنگوں کے دھاگوں اور شیشہ کا استعمال کرکے سندھی ٹوپیاں بنا کر فروخت کرتی ہیں۔
خاتون کا کہنا ہے کہ سیلاب نے سب کچھ بہا دیا، مگر میرے ہاتھوں کا ہنر میرے ساتھ ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے بھوکے نہ سوئیں اور جانور بھی زندہ رہیں۔ مشکل حالات کے باوجود ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔
حالیہ سیلاب میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹی کے تمام گھر سیلابی پانی میں ڈوب گئے تھے، روڈا اور ایل ڈی اے سے دریائے راوی کی زمین پر غیر قانونی سوسائٹیوں کا ریکارڈ طلب کرلیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب میں گھر بہہ گیا، مجبوری ہے اب یہاں بیٹھے ہیں، بچیوں کیلئے ٹینٹ ملا ہے مگر کھانا خوراک کچھ نہیں دیا ابرو کے گاؤں سے آئے ہیں۔
خاتون نے مزید کہا کہ ٹوپیاں بناتی ہوں، اس میں ایک سے دو ہفتے لگ جاتے ہیں اور 500 سے ایک ہزار میں فروخت ہوتی ہے، سات بچے ہیں ان کا کھانا پورا کروں یا مال مویشی کا چارہ پورا کروں۔
مقامی لوگ بھی اس خاتون کے حوصلے کو سراہتے ہیں اور انہیں ایک جیتی جاگتی مثال قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور سماجی ادارے ایسے باہمت سیلاب متاثرین کی مدد کریں تو یہ نہ صرف اپنے گھر بلکہ اس عارضی خیمہ بستی میں مکین خاندانوں کیلئے روشنی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔